سماعت سے محروم افراد کے علاج کی اُمید

کان کے انتہائی اندرونی حصے کے خلیات کی مرمت کا طریقہ دریافت۔


کان کے انتہائی اندرونی حصے کے خلیات کی مرمت کا طریقہ دریافت۔ فوٹو: سوشل میڈیا

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا کی پانچ فی صد آبادی یعنی سینتالیس کروڑ افراد ثقل سماعت کا شکار ہیں۔ ان میں سُننے کی صلاحیت سے یکسر محروم اور سماعت کی کمزوری کا شکار، دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں۔ اس تعداد میں ساڑھے تین کروڑ بچے بھی شامل ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2050ء تک ثقل سماعت کے شکار انسانوں کی تعداد نوّے کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

حس سماعت سے محروم یا سمعی کمزوری میں مبتلا افراد کے لیے اُمید افزا خبر یہ ہے کہ سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ وضع کرلیا ہے جس کے ذریعے کان کے انتہائی اندرونی حصے کی مرمت ممکن ہوسکتی ہے۔ اس طریقے کے ذریعے کان کے اندرونی حصے میں دوا پہنچا کر تباہ شدہ خلیات کو ٹھیک کیا جاسکے گا، چناں چہ متأثرہ فرد کی سماعت بحال ہونے کے قوی امکانات ہوں گے۔

سماعت کی بحالی کا یہ طریقہ امریکا کی سدرن کیلے فورنیا یونی ورسٹی کے ماہرین نے وضع کیا ہے۔ تحقیقی ٹیم کے رکن پروفیسر چارلس ای میک کین کہتے ہیں کہ ثقل سماعت سے سے جُڑے امراض میں سب سے اہم مسئلہ دوا کا کان کے انتہائی اندرونی حصے میں پہنچانا اور اسے مطلوبہ مقام پر ٹھہرائے رکھنا ہے تاکہ یہ اپنا کام کرسکے۔ پروفیسر چارلس کے مطابق کان کے اندرونی حصے میں مایع کا بہائو مستقل جاری رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب دوا جذب ہونے کے بعد اس مائع میں شامل ہوتی ہے تو یہ اسے بہا لے جاتا ہے۔ نئے طریقے میں اس کا تدارک کیا گیا ہے۔

امریکی یونی ورسٹی کے محققین کی ٹیم نے ابتدائی طور پر اس کے تجربات تجربہ گاہ میں حیوانی نسیجوں پر کیے ہیں۔ فی الحال اسے زندہ جانوروں یا انسانوں پر نہیں آزمایا گیا۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ حیوانی نسیجوں کے خلیات اور ان کے اندرکارفرما مختلف نظام انسانی خلیوں اور ان کے نظاموں سے مشابہت رکھتے ہیں چناں چہ یہ تیکنیک انسانوں اور حیوانوں میں کام یاب ہوسکتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اگلے مرحلے میں اس تیکنیک کو سماعت سے محرومی کا شکار جانوروں اور انسانوں پر آزمایا جائے گا۔

کان کے انتہائی اندرونی حصے میں دوا پہنچانے کے نئے طریقے کے ذریعے دوا کان کے پیچ در پیچ جوف میں پہنچائے گی جسے cochlea یا کن گھونگا کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس کی ساخت گھونگے جیسی ہوتی ہے۔ اس حصے میں انتہائی حساس خلیات ہوتے ہیں جو صورتی ارتعاشات دماغ کو منتقل کرتے ہیں۔

انسان کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ روئیں نما یہ حسی خلیات اور ان کے ارتعاشات کو منتقل کرنے والے نیورون کا باہمی ربط کمزور پڑتا چلاجاتا ہے اور بالآخر ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان سماعت سے محروم ہوجاتا ہے۔سائنس دانوں نے پروٹین سے مشابہ مالیکیول کے ساتھ بایوفاسفونیٹ نامی دوا نیورون تک پہنچائی۔ اس دوا کے ردعمل میں نیورون اور حسی خلیات کا درمیانی ربط بحال ہوگیا۔ پروفیسر چارلس ای میک کین کے مطابق اس کام یابی سے سماعت سے محروم افراد کے علاج کی امید پیدا ہوگئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔