راولپنڈی NA55 مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جانے والا حلقہ

اگر یہ کہا جائے کہ اس حلقہ پر پورے پاکستان کی نظر ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔


Qaiser Sherazi April 13, 2013
اگر یہ کہا جائے کہ اس حلقہ پر پورے پاکستان کی نظر ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ فوٹو : فائل

11مئی کو پاکستان بھر میں ہونے والے قومی انتخابات کا راولپنڈی میں بھی بگل بج چکا ہے،شہر کے اہم ترین حلقہ این اے55اس کی صوبائی سیٹوں پی پی11اور12میں بھی انتخابی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔

تمام جماعتوں کے امیدوار لنگوٹ کس کے انتخابی اکھاڑے میں اتر آئے ہیں،پورے شہر میں تمام جماعتوں کے امیدواروں کے بینرز پوسٹرز ہورڈنگ بورڈز 'ویزاں ہونے لگے ہیں گاڑیوں پر سٹرکرز بھی چسپاں ہوچکے ہیں،امیدواروں نے اپنے انتخابی دفاتر بھی کھولنے شروع کر دیئے ہیں جہاں ان کے حامی ووٹرز رات گئے تک جوڑ توڑ رابطوں میں مصروف رہنے لگے ہیں،تمام جماعتوں کے امیدواروں نے انتخابی مہم کے جلوسوں کا شیڈول بھی تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ اس حلقہ پر پورے پاکستان کی نظر ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا اس حلقہ سے اس بار پھر سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد میدان میں اتر چکے ہیں۔تمام امیدوارجوڑ توڑ میں بھی مصروف ہیں،اس سے قبل یہ حلقہ این اے38 کہلاتا تھا،اس حلقہ کے اہم علاقوں میں راجہ بازار،موتی بازار،اقبال روڈ،کالج روڈ،سید پور روڈ،جامع مسجد روڈ،کلاں بازار،گنج منڈی،سٹی صدر روڈ،محلہ شاہ چن چراغ،بنی محلہ،اکال گڑھ،ڈنگی کھوئی،غزنی روڈ،پیرودہائی،خیابان سر سید،ڈہوک دلال، بھابھڑا بازار،بوہڑ بازار،صرافہ بازار،پنڈوڑہ،سیٹلائٹ ٹاؤن،کشمیری بازار،صدر بازار کے چند حصے شامل ہیں راول ٹاؤن کی سٹی یونین کونسلیں کنٹونمنٹ بورڈ کی3وارڈیں بھی اس کا حصہ ہیں، اس حلقہ میں آباد دیرینہ اور بڑی برادریوں میں شیخ، ملک، ہزارہ، کشمیری، عباسی، راجگان، چھاچھی، چودھری، خان برادریاں شامل ہیں سادات برادری بھی آباد ہے مگر اس کے ووٹ بہت زیادہ نہیں ہیں۔

85ء سے2002ء کے انتخابات تک شیخ رشید کا اس حلقہ پر طوطی بولتا رہا،اس دوران انہوں نے 1985ء، 88ء، 90ء، 93ء، 97ء اور 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے مد مقابل آنے والے امیدواروں بری فوج کے سابق سربراہ جنرل ٹکا خان مرحوم،ناہید خان،آغا ریاض الاسلام،چودہری مشتاق حسین، جنرل ضیاء الحق کے چہیتے سابق مئیر شیخ غلام حسین،انہی کے ایک اور چہیتے سابق وفاقی مشیر شیخ عشرت علی، اللہ دتہ سیٹھی،حبیب وہاب الخیری،میر بادشاہ خان آفریدی،سابق ڈپٹی مئیر محمد طارق کو شکست فاش دی اور کامیابیوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔



دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی امیدوار ناہید خان نے ان کے مقابلہ میں سب سے کم ووٹ حاصل کئے جبکہ پیپلز پارٹی کے دیگر تمام امیدوار ہارنے کے باوجود ریکارڈ ووٹ حاصل کرتے رہے۔ این اے55میں کل ووٹ3لاکھ18ہزار663ہیں جن میں مرد ووٹوں کی تعداد1لاکھ75ہزار44اور خواتین کل ووٹرز1لاکھ43 ہزار619ہیں جبکہ اس کے صوبائی حلقہ پی پی11کے کل ووٹ 1لاکھ 75 ہزار 392 ہیں جن میں خواتین ووٹرز 78 ہزار 345اور مرد ووٹرز97ہزار47شامل ہیں جبکہ حلقہ پی پی12 میں کل ووٹوں کی تعداد1لاکھ 43 ہزار 271 ہے جن میں 77 ہزار 997مرد اور 65 ہزار 274خواتین ووٹرز شامل ہیں۔

تاریخی لیاقت باغ بھی اسی حلقہ میں واقعہ ہے،سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی جائے شہادت بھی اسی حلقہ میں ہے انہیں27دسمبر2007 ء کو خود کش حملہ میں شہید کیا گیا،بینظیر بھٹو کی جائے شہادت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی گزشتہ انتخابات میں یہاں کا قومی و صوبائی دونوں حلقے بری طرح ہار گئی تھی،اسی لیاقت باغ میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی16اکتوبر1951کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا،عوامی نیشنل پارٹی کے لیاقت باغ میں70کی دہائی میں ہونے والے جلسہ میں فائرنگ کی گئی اس کا مقدمہ لیاقت باغ فائرنگ کیس کے نام سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفی کھر،عبدالقیوم بٹ،افتخار طاری،احمد سعید اعوان پر درج کیا گیا مگر90ء کی دیہائی میں یہ تمام ملزمان اس کیس سے بری کر دیئے گئے۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسی لیاقت باغ سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر نواب محمد احمد خان قتل کیس میں پھانسی پر لٹکایا گیا،اس لحاظ سے یہ حلقہ بہت مشہور ہے،سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کو اس حلقہ میں پہلی شکست 2008ء کے انتخابات میں ہوئی جبکہ اس سے قبل 2002ء میں شہر کے دونوں حلقوں این اے 55 اور 56 پر جیتنے کے بعد ضمنی انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار محمد حنیف عباسی سے ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق نے شکست کھائی تھی، مخدوم جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ ن نے2008 ء کے انتخابات میں میدان میں اتارا انہوں نے شیخ رشید احمد کو50ہزار ریکارڈ ووٹوں سے شکست دی،شیخ رشید احمد اس کے ساتھ این اے 56 میں بھی حنیف عباسی سے ہار گئے۔دونوں سیٹوں پر ان کی ضمانتیں ہی ضبط ہوگئیں ۔



اس کے بعد ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے شکیل اعوان نے انہیں پھر ہرا دیا اس طرح وہ اس حلقہ سے کامیابیوں کی ڈبل ہیٹ ٹرک مکمل کرنے کے ساتھ ناکامیوں کی سنگل ہیٹ ٹرک بھی مکمل کر چکے ہیں اور اب پھر ایک نئے جذبہ کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اترے ہیں،ان کے مقابلے میں25امیدوار میدان میں ہیں جن میں پیپلزپارٹی کے چودہری افتخار احمد،عمار مہدی، مسلم لیگ ن کے شیخ ارسلان،حاجی پرویز خان،ملک شکیل اعوان، صدیق الفاروق، جے یو آئی ف کے علامہ عبدالمجید ہزاروی،جے یو آئی (س) کے حافظ چودہری وسیم،تحریک انصاف کی حنا منظور،اعجاز خان جازی،آزاد امیدوار سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد، جماعت اسلامی کے چودہری محمد حنیف،اے این پی کے حبیب اللہ خان،شہید بھٹو گروپ کے اسد بھٹی،وحدت المسلمین کے سعید الحسن رضوی،پاکستان جنت پارٹی کے ڈاکٹر بابر رضا،امن پارٹی کے حاجی گلزار اعوان اور آزاد امیدواران مخدوم نیاز انقلابی،ڈاکٹر طاہر،محمد عارف شاہ،باسط علی شامل ہیں،تمام امیدوار جیتنے کی امید کے ساتھ میدان میں نکلے ہیں۔

گزشتہ انتخابات کا تقابلی جائز ہ لیاجائے تو2008ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے مخدوم جاوید ہاشمی 76980 ووٹ لے کر اسے نشست سے کامیاب ہوئے،پیپلزپارٹی کے ملک عامر فدا پراچہ37397 ووٹ لے کردوسرے نمبرپررہے جبکہ شیخ رشید احمد15780 ووٹ حاصل کرسکے۔جاویدہاشمی نے یہ سیٹ خالی کی توضمنی انتخابات میں بھی شیخ رشید احمد مسلم لیگ ن کے ملک شکیل اعوان سے 20ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے۔2002ء کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے55 میں تبدیل ہوگیا،ان انتخابات میںشیخ رشید احمد آزادامیدوارکے طورپر 40649ووٹ لے کرکامیاب ہوئے۔

پیپلزپارٹی کے آغا ریاض الاسلام 28885 ووٹ ،مسلم لیگ ن کے سردار طارق 14405 ووٹ لے تیسرے نمبرپررہے۔1997ء کے الیکشن میں شیخ رشید احمد مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 72183ووٹ لے کرکامیاب ہوئے،پیپلزپارٹی کی ناہید خان24714 ووٹلے کردوسرے جبکہ آزادامیدوار بادشاہ میر خان آفریدی6228 ووٹ لیکرتیسرے نمبرپررہے۔1993ء کے انتخابات میںشیخ رشید احمد مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر80798 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے،پیپلزپارٹی کے آغا ریاض الاسلام53841 ووٹ لیکردوسرے اوراسلامک فرنٹ کے اکمل مرزا 7688 ووٹ لیکرتیسرے نمبر پر رہے۔



1990ء کے الیکشن میں شیخ رشید احمد 78107 ووٹ لے کرآئی جے آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے،پیپلزڈیموکریٹک آلائنس کے چودہری مشتاق حسین54701 ووٹ لے کر دوسرے نمبرپررہے جبکہ عوامی تحریک کے شیخ طارق7711ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ 1988ء کے الیکشن میں شیخ رشید احمد 73052ووٹ لے کرآئی جے آئی کے ٹکٹ پرکامیاب ہوئے، پیپلزپارٹی کے جنرل(ر) ٹکا خاں 57665ووٹ لیکردوسرے نمبرپرتھے،تحریک استقلال کے محمد رفیع بٹ نے2410 ووٹ لے کرتیسری پوزیشن حاصل کی ۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں اس حلقہ سے شیخ رشید احمد 40421ووٹ لیکرکامیاب ہوئے ان کے مقابلے میں شیخ غلام حسین 20233ووٹ لے کردوسرے اللہ دتہ سیٹھی 13633ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبرپررہے۔

اس حلقہ کے اہم مسائل میں سر فہرست ہر3سال بعد نالہ لئی میں تباہ کن سیلاب سے نصف سے زائد علاقہ میں آنے والی تباہی ہے اس آفت کو آج تک کوئی جماعت ختم نہیں کر سکی۔ طلبہ کا کالجز میں داخلہ،مری روڈ پر ٹریفک کا سنگین ترین مسئلہ، سیوریج کو انتہائی فرسودہ نظام،پانی کی لائنوں کی لیکج و گٹر ملا پانی کی شہر بھر میں سپلائی، ہسپتالوں میں سہولتوں کا شدید فقدان سر فہرست ہیں۔ یہ مسائل بھی ابھی تک حل طلب ہیں،شیخ رشید احمد اس بار تحریک انصاف کے تعاون سے جیتنے کے لئے پرامید ہیں،انہوں نے گلی گلی گھر گھر گھوم کر ناراض گھرانوں سیاسی خاندانوں کو بھی منایا ہے، ڈور ٹو ڈور مہم چلا رہے ہیں۔

انہیں پیپلز پارٹی اور دینی حلقوں کی طرف سے بھی خاموش حمایت کا یقین ہے۔ مسلم لیگ ن چاندنی چوک فلائی اوور،سکستھ روڈ فلائی اوور،مریڑ چوک انڈر ٹنل پراجیکٹ،کارڈیالوجی سینٹر،یورولوجی سینٹر،ڈہوک الہیٰ بخش میں نیا زچہ بچہ سینٹر،ہزاروں طلبہ طالبات میں لیپ ٹاپ،سولر لیمپ ،ٹیکسی گاڑیوں کی تقسیم کے پراجیکٹ سے انتخابی میدان میں اتری ہے اگر گزشتہ6 انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ راولپنڈی مسلم لیگ ن کو چاہنے والوں کا شہر ہے اس ناطے مسلم لیگ ن اپنی کامیابی کی دعوے دار ہے۔

اس دعویٰ کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک نہیں ، پیپلز پارٹی کا اچھا خاصا ووٹ بنک موجود ہے مگر پیپلز پارٹی اسے کبھی بھی کیش نہیں کرا سکی۔ پارٹی میں دھڑے بندی کے سبب اس بار بھی سٹی تنظیم کے صدر عامرفدا پراچہ پانچ سال صدر رہنے کے باوجود انتخابی اکھاڑے سے بھاگ گئے ہیں اور پارٹی کو راولپنڈی کے نواحی علاقہ سے راجہ عمار مہدی کو میدان میں لانا پڑاہے۔پیپلز پارٹی گزشتہ پانچ سال میں راولپنڈی میں ایک پائی کا ترقیاتی کام نہیں کرا سکی نہ کسی کو ملازمت دی گئی ہے ۔اس کے امیدوارکس منہ سے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں۔

جبکہ انتخابی میدان میں اترنے والے پارٹی امیدواروں راجہ عمار مہدی، چودھری افتخار،خالد نواز بوبی،اسرار عباسی کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی نے ملکی سطح کے عظیم کام کئے ہیں جن میں ایران سے سوئی گیس معاہدہ،گوادر پورٹ،آئین کی مکمل بحالی،صوبوں کو اختیارات دینا،پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا،لاکھوں کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنا،تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ کرنا شامل ہیں،پیپلز پارٹی نے ملک کو جمہوریت اور ترقی کی پٹڑی پر ڈال دیا ہے آئندہ بھی عوام انہیں ووٹ دیں گے۔

تحریک انصاف کے امیدواروں اکمل مرزا،حنا منظور،اعجاز خان جازی کا کہنا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں انہوں نے سیاسی لڑائی،لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں کیا دونوں باریوں پر لگی ہوئی ہیں اس بار تبدیلی پاکستان کی دہلیز پر پہنچ گئی ہے،نئی نسل نئے نوجوان ووٹرز کی مدد سے تحریک انصاف کلین سویپ کرے گی تحریک انصاف کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوامی مسلم لیگ سے کوئی اتحاد نہیں ہوا،دینی جماعتوں جماعت اسلامی کے چودہری محمد حنیف،دبیر خان،جے یو آئی کے مولانا عبدالمجید ہزاروی کا موقف ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں ناکام ہوچکی ہیں ملکی مسائل کا واحد حل اسلامی نظام کے مکمل نفاذ میں ہے اس بار قوم صرف اسلام پسندوں کو ووٹ دے گی۔

ایم کیو ایم کے راجہ اعجاز احمد کا موقف ہے کہ غریب ہی تبدیلی لا سکتے ہیں اس لئے ایم کیو ایم اس بار پنجاب میں بھی میدان میں آگئی ہے،سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کا موقف ہے کہ وہ آزاد حثیت سے میدان میں آئے ہیں اور مہم پر ایک پائی بھی نہیں لگائیں گے گھر گھر مہم چلا کر کامیابی کی نئی مثال قائم کریں گے،پاکستان جنت پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر بابر رضا کا موقف ہے کہ وہ تبدیلی کے لئے میدان میں نکلے ہیں اب تبدیلی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔

اس حلقہ کی صوبائی نشستیں پی پی 11 اور 12کہلاتی ہیں قبل ازیں یہ نشستیں پی پی1اور2ہوا کرتی تھیں ان سیٹوں پر بھی77ء تک پیپلز پارٹی چھائی ہوئی تھی پیپلز پارٹی کی علی اصغر کیانی،نذر حسین کیانی،آغا ریاض الاسلام،چودہری مشتاق حسین رکن اسمبلی رہے ہیں مسلم لیگ ن کے اختر محمود ایڈووکیٹ بھی یہاں سے ایم پی اے رہے ہیں،آئی جی آئی کے اتحاد پر جماعت اسلامی کے چودہری حنیف بھی ایم پی اے رہے ہیں۔

2002ء میں جب ملک بھر میں نئی حلقہ بندیاں کی گئیں تو قومی اسمبلی کے اس حلقہ این اے38کو2حلقوں این اے55اور56میں تقسیم کر دیا گیا پی پی1اور2پی پی 11اور12میں تبدیل ہوگئیں دوسرے حلقہ این اے 56کی صوبائی سیٹیں پی پی 13 اور 14کہلائیں،پی پی 11 سے 2002کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے راجہ راشد حفیظ ایم پی اے منتخب ہوئے،2008ء میں یہ سیٹ مسلم لیگ ن کے ضیاسء اللّہ شاہ کے حصہ میں آئی جبکہ2002ء میں پی پی12 پرپیپلز پارٹی کے ملک عامر فدا پراچہ نے میدان مارا اور 2008ء میں یہ سیٹ مسلم لیگ ن کے شہریار ریاض نے جیت لی،اس وقت پی پی11سے مسلم لیگ ن کے شیخ ارسلان،مرزا منصور بیگ،انور عباسی،شیخ ناصر، چودہری عمران میدان میں ہیں۔

انہوں نے ضیاء اللہ شاہ کے خلاف سیاسی محاذ بھی بنا لیا ہے جس کے باعث ضیاء اللہ کا ٹکٹ خطرہ میں پڑ گیا ہے پیپلز پارٹی کی طرف سے ملک خالد نواز بوبی، چودہری افتخار احمد،جماعت اسلامی کلیم گیلانی،جے یو آئی کے مولانا عبدالمجید ہزاروی، تحریک انصاف کے راجہ راشد حفیظ،حلقہ پی پی 12سے مسلم لیگ ن کے شہریار ریاض،حافظ عبداللہ بٹ، شکیل اعوان پیپلز پارٹی کے بابر سلطان جدون، ذوالفقار احسن،رانا رفاقت ،ناصر میر،عدنان خواجہ، جماعت اسلامی کے حنیف چودہری،تحریک انصاف کے اکمل مرزا،رانا شوکت حیات میدان میں آچکے ہیں آزاد امیدواروں کی بھی بڑی تعداد خم ٹھوک کر انتخابی اکھاڑے میں اتر آئی ہے،اس بار کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے کامیابی حاصل کرنا آسان یا حلوہ نہیں ہے۔

سیاسی دریا کے پل سے بہت سا پانی گزر چکا ہے،نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کا پرچم تھامے کھڑی ہوچکی ہے،اس بار جیت کا فرق بھی کم ہوگا،پیپلز پارٹی کے حلقے ہر حلقہ میں 4 سے 6 مختلف جماعتوں کے امیدواروں کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہر صوبائی حلقہ میں پیپلز پارٹی کے ہارنے والے امیدوار7 ہزار سے 12 ہزار ووٹ کے فرق سے شکست کھاتے ہیں آیندہ انتخابات میں ووٹوں کی تقسیم کا تمام تر فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچے گا،تحریک انصاف ،جماعت اسلامی،متحدہ دینی محاذکے امیدواروں کی ہر حلقہ میں موجودگی پیپلز پارٹی کے لئے نیک شگون ثابت ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں