کیا ہونے جارہا ہے ہمارے ساتھ
ہمارے سب دفاترکی کھڑکیاں ایک گولائی نما احاطے میں ہیں اوران سے ہم ایک دوسرے کے دفاتر کو فاصلے سے دیکھ پاتے تھے۔
لاہور:
گرمیوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کی آمد آمد ہے اور ہم بے یقینی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں... بجلی کی حد سے بڑھی ہوئی لوڈ شیڈنگ نے سانس لینا بھی محال کر رکھا ہے۔ سیاست دان اپنے اپنے نشان لے کر میدان میں اتر آئے ہیں اورعوام کو ووٹروں کے روپ میں ان وعدوں سے خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کبھی وفا نہیں ہوتے۔ بجلی کی اس بڑھی ہوئی لوڈ شیڈنگ نے ہر کسی کو ایسے مسائل سے دوچار کر رکھا ہے جس کا حل کسی بھی حکومت کے پاس نہیں رہا، نگران حکومت تو یوں بھی مہمانوں کی طرح ہے، اپنی کم مدت میں بھی انھیں بہت سے ایسے کام کرنا ہیں جن کاخمیازہ ہم اگلے کئی برس تک بھگتیں گے۔
اپنی ایک کولیگ کے ساتھ بحث ہو رہی تھی کہ کسے ووٹ دیا جائے اور میں اسے پورے یقین سے کہہ رہی تھی کہ چاہے تم یا میں بھی حکومت میں آ جائیں... (کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی خود کو perfect سمجھتا ہے) تو بھی اس ملک کا نصیب وہی ہے، ہونا وہی ہے جو بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں، ہمارے اہم فیصلے ان کے ایوانوں میں ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم سب غلط فہمی میں مبتلا ہیں، بیرونی طاقتوں کی نیت اتنی بری نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں، وہ ہمارے ملک میں فلاح کے کتنے ہی کام کرتے ہیں۔ تعلیم، صحت، منصوبہ بندی اور طبی امداد کے درجنوں منصوبے ہیں جن میں ہمیں ان سے امداد ملتی ہے اور دیکھا جائے تو در حقیقت ہر اچھا منصوبہ ان ہی کا مرہون منت ہے۔
''درست کہا تم نے...'' میں نے اس کی تائید کی، ''مگر میری ایک بات کا جواب دو!''
اس نے میری طرف سوالیہ نظر اٹھائی۔
''ملکوں کو انسان ہی تو چلاتے ہیں!'' میں نے اس سے کہا، ''سو اصولا کسی کے ساتھ اس طرح کا بھلا کرنے کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد تو ہوتا ہی ہے نا؟ ہم کسی کو زکوۃ اور خیرات بھی دیتے ہیں تو اس سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے زر خرید غلاموں کی طرح ہماری اطاعت کرے... کسی کو تنخواہ پر ملازم رکھتے ہیں تو اس سے توقعات اس سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ کوئی علاج کے لیے رقم مانگے تو ہم ہر طرح سے تفتیش کرتے ہیں، بھیک دیتے وقت بھی خصوصی طور پر دیکھتے ہیں کہ بھکاری واقعی مستحق بھی ہے کہ نہیں۔ اب ہم سب خود ایسے بھکاری بن گئے ہیں جنھیں حکمرانوں نے ذلالت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، جن کے پاس انا اور ضمیر بھی ہے وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے شاندار ماضی کو خواب و خیال میں بھی یاد نہیں کرتے کہ ہمیں اپنی عظمت رفتہ پر یقین بھی نہیں رہا!''
''ہاں یہ تو ہے... مگر یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس ملک میں جو اچھا ہو رہا ہے وہ انھی کا دیا ہوا ہے...''
''اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس ملک میں جو برا ہو رہا ہے وہ بھی انھی کا عطا کردہ ہے!'' میں نے فوراً کہا، ''اس پر مجھے ان پرندوں کی یاد آ رہی ہے...''
''کون سے پرندے؟'' اس نے حیرت سے پوچھا۔
''ارے بھول گئیں ... وہ جو اوپر لیبارٹری کے باہر والی کھڑکی میں آتے تھے...''
''ہاں جن کو لیبارٹری انچارج ہر روز تنور سے تازہ روٹی منگوا کر ڈالتے تھے؟''
''ہاں... ہم سب انھی پرندوں جیسے نہیں ہو گئے؟'' اس کے چہرے کا رنگ بدلا، اور اسے چپ سی لگ گئی، ''بتاؤ مجھے؟''
''ایسا ہی ہے اور یہ تو بہت خطرناک رجحان ہے...'' اس نے سکتے کی سی کیفیت میں کہا۔ جب تک آپ کو ان پرندوں کی کہانی کا علم نہ ہو گا، آپ کس طرح جان پائیں گے کہ یہ خطر ناکیت کیا ہے۔
ہمارے سب دفاتر کی کھڑکیاں ایک گولائی نما احاطے میں ہیں اور ان سے ہم ایک دوسرے کے دفاتر کو فاصلے سے دیکھ پاتے تھے۔ خصوصاً جب لنچ کا وقفہ ہوتا تو ہم اپنی اپنی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر اپنی چائے کے ساتھ ساتھ فاصلوں سے ایک دوسرے کو ہاتھ ہلا کر wish کر تے اور اشاروں اشاروں میں ایک دوسرے کی خیریت بھی پوچھ لیتے تھے۔ سفیر صاحب ہمارے لیبارٹری انچارج، تنور سے ہر روز ایک تازہ روٹی منگواتے اور جب ہم سب لوگ اپنی اپنی پیٹ پوجا میں مصروف ہوتے تھے، وہ اپنی کھڑکی کھول کر اس میں اس روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھ کر پرندوں کی دعوت کرتے۔ اس منظر کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور ہم دل ہی دل میں سفیر صاحب کی اس سخاوت کی داد دیتے ۔
آہستہ آہستہ ایسا ہونے لگا کہ کھانے کا وقفہ بعد میں ہوتا اور سفیر صاحب کی کھڑکی کے باہر ان کے ''مہمانوں'' کی آمد پہلے شروع ہو جاتی تھی۔ اگر کبھی اس وقت کوئی لیبارٹری میں موجود ہوتا تو وہ اس نظارے پر خوش ہوتا اور ہم سب کو بتاتا کہ کس طرح وہ پرندے ذرا سی دیر ہو جانے پر سفیر صاحب کی کھڑکی کو اپنی چونچوں سے کھٹکھٹاتے تھے اور جونہی کھڑکی کا پٹ کھلتا وہ خوش ہو جاتے تھے۔''آپ نے ان پرندوں کی عادت خراب کر دی ہے سر...'' میں نے ایک دفعہ ان سے کہا، ''اللہ تعالی نے ہر کسی کا رزق لکھ دیا ہے اور اس کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے رزق کے حصول کے لیے محنت کرتا ہے اور اسے حاصل کرتا ہے...'' میں نے ایک بار ان کی کھڑکی کی طرف دیکھا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ پرندے عام پرندوں کی نسبت فربہ اور ڈھیلے ڈھیلے سے تھے اور ان کی پرواز میں بھی کوتاہی کا رنگ نمایاں تھا، وہی کوتاہی جس کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا...
اے طائر لا ہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
''آپ کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اس پرندوں کے رزق کا وسیلہ اللہ نے ہی مجھے بنایا ہے... پرندوں کو دانہ دنکا ڈالنے کا بہت ثواب ہے!'' اس بات پر مزید بحث کرنا بیکار تھا اور اسی طرح ان کا معمول جاری رہا۔
اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں مہینے میں کئی کئی دن شہر کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں لوگوں کا پہنچنا نا ممکن ہو جاتا ہے ایسے ہی چند دنوں کے لیے اپنے اپنے اداروں میں نہ جا سکے اور ایک ہفتے کے بعد جب ہم پہنچے تو ایک انوکھا منظر ہم سب کی توجہ لے گیا... وہ منظر تھا سفیر صاحب کے کمرے کی کھڑکی کا، جہاں چند ادھ موئے پرندے ان کی کھڑکی کے شیڈ پر موجود تھے، جانے انھوں نے کتنا کھڑکی کو کھٹکھٹایا ہو گا... کتنی دفعہ جھانک جھانک کر اپنے ''رزق کے وسیلے'' کو ڈھونڈا ہو گا، اور اسے نہ پا کر ان کی حالت یوں ہو گئی تھی۔ انھوں نے اپنی ساری عمر میں اڑان بھر کر رزق تلاش کرنا سیکھا ہی نہ تھا کہ ان کی کتنی ہی نسلیں اس کھڑکی پر پلی تھیں... جانے ان میں سے کتنے پرندے بچ سکے اور کتنے موت کے منہ میں جا پہنچے مگر ہم سب نے دیکھا کہ اس کے بعد سفیر صاحب نے خود کو ان کا رزق کا وسیلہ سمجھنا چھوڑ دیا، جو بات ان کو زبانی سمجھ میں نہ آئی تھی وہ انھیں حقیقت حال نے بتا دی تھی۔
امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس وقت ہم وہی پرندے بنے ہوئے ہیں، اپنی چونچوں سے کھڑکیاں کھٹکھٹا کر مانگنے والے، محنت سے کترانے والے اور سفیر صاحب جیسے لوگوں کو اپنا خدا بنائے ہوئے... ہم ہر وقت مختلف خداؤں کو سجدے کرتے رہتے ہیں اور ہر خیرات دینے والے کو رازق سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ ہمارے ساتھ ''سب اچھا'' کرنے والوں کے کیا مفادات ہمارے ساتھ وابستہ ہیں اور ہم نے ان کی خیرات لینے کے لیے کیا کیا گروی رکھ دیا ہے؟ اپنے جسم، دل، دماغ، کردار، ضمیر، انا... اور جانے کیا کیا!!
خود کوان پرندوں کی طرح سمجھ کر دیکھیں، آپ پر بھی چند لمحوں کے لیے سکتے کی کیفیت طاری ہو جائے گی اور آپ کو اس معاملے کی خطرناکیت کا احساس ہو جائے گا۔ اس سارے قصے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل تہہ دل سے ان مغربی طاقتوں کی ممنون ہے جو ہمارے ملک میں ''سب اچھا'' کرنے کی ذمے دار ہے!!!
گرمیوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کی آمد آمد ہے اور ہم بے یقینی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں... بجلی کی حد سے بڑھی ہوئی لوڈ شیڈنگ نے سانس لینا بھی محال کر رکھا ہے۔ سیاست دان اپنے اپنے نشان لے کر میدان میں اتر آئے ہیں اورعوام کو ووٹروں کے روپ میں ان وعدوں سے خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کبھی وفا نہیں ہوتے۔ بجلی کی اس بڑھی ہوئی لوڈ شیڈنگ نے ہر کسی کو ایسے مسائل سے دوچار کر رکھا ہے جس کا حل کسی بھی حکومت کے پاس نہیں رہا، نگران حکومت تو یوں بھی مہمانوں کی طرح ہے، اپنی کم مدت میں بھی انھیں بہت سے ایسے کام کرنا ہیں جن کاخمیازہ ہم اگلے کئی برس تک بھگتیں گے۔
اپنی ایک کولیگ کے ساتھ بحث ہو رہی تھی کہ کسے ووٹ دیا جائے اور میں اسے پورے یقین سے کہہ رہی تھی کہ چاہے تم یا میں بھی حکومت میں آ جائیں... (کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی خود کو perfect سمجھتا ہے) تو بھی اس ملک کا نصیب وہی ہے، ہونا وہی ہے جو بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں، ہمارے اہم فیصلے ان کے ایوانوں میں ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم سب غلط فہمی میں مبتلا ہیں، بیرونی طاقتوں کی نیت اتنی بری نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں، وہ ہمارے ملک میں فلاح کے کتنے ہی کام کرتے ہیں۔ تعلیم، صحت، منصوبہ بندی اور طبی امداد کے درجنوں منصوبے ہیں جن میں ہمیں ان سے امداد ملتی ہے اور دیکھا جائے تو در حقیقت ہر اچھا منصوبہ ان ہی کا مرہون منت ہے۔
''درست کہا تم نے...'' میں نے اس کی تائید کی، ''مگر میری ایک بات کا جواب دو!''
اس نے میری طرف سوالیہ نظر اٹھائی۔
''ملکوں کو انسان ہی تو چلاتے ہیں!'' میں نے اس سے کہا، ''سو اصولا کسی کے ساتھ اس طرح کا بھلا کرنے کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد تو ہوتا ہی ہے نا؟ ہم کسی کو زکوۃ اور خیرات بھی دیتے ہیں تو اس سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے زر خرید غلاموں کی طرح ہماری اطاعت کرے... کسی کو تنخواہ پر ملازم رکھتے ہیں تو اس سے توقعات اس سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ کوئی علاج کے لیے رقم مانگے تو ہم ہر طرح سے تفتیش کرتے ہیں، بھیک دیتے وقت بھی خصوصی طور پر دیکھتے ہیں کہ بھکاری واقعی مستحق بھی ہے کہ نہیں۔ اب ہم سب خود ایسے بھکاری بن گئے ہیں جنھیں حکمرانوں نے ذلالت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، جن کے پاس انا اور ضمیر بھی ہے وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے شاندار ماضی کو خواب و خیال میں بھی یاد نہیں کرتے کہ ہمیں اپنی عظمت رفتہ پر یقین بھی نہیں رہا!''
''ہاں یہ تو ہے... مگر یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس ملک میں جو اچھا ہو رہا ہے وہ انھی کا دیا ہوا ہے...''
''اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس ملک میں جو برا ہو رہا ہے وہ بھی انھی کا عطا کردہ ہے!'' میں نے فوراً کہا، ''اس پر مجھے ان پرندوں کی یاد آ رہی ہے...''
''کون سے پرندے؟'' اس نے حیرت سے پوچھا۔
''ارے بھول گئیں ... وہ جو اوپر لیبارٹری کے باہر والی کھڑکی میں آتے تھے...''
''ہاں جن کو لیبارٹری انچارج ہر روز تنور سے تازہ روٹی منگوا کر ڈالتے تھے؟''
''ہاں... ہم سب انھی پرندوں جیسے نہیں ہو گئے؟'' اس کے چہرے کا رنگ بدلا، اور اسے چپ سی لگ گئی، ''بتاؤ مجھے؟''
''ایسا ہی ہے اور یہ تو بہت خطرناک رجحان ہے...'' اس نے سکتے کی سی کیفیت میں کہا۔ جب تک آپ کو ان پرندوں کی کہانی کا علم نہ ہو گا، آپ کس طرح جان پائیں گے کہ یہ خطر ناکیت کیا ہے۔
ہمارے سب دفاتر کی کھڑکیاں ایک گولائی نما احاطے میں ہیں اور ان سے ہم ایک دوسرے کے دفاتر کو فاصلے سے دیکھ پاتے تھے۔ خصوصاً جب لنچ کا وقفہ ہوتا تو ہم اپنی اپنی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر اپنی چائے کے ساتھ ساتھ فاصلوں سے ایک دوسرے کو ہاتھ ہلا کر wish کر تے اور اشاروں اشاروں میں ایک دوسرے کی خیریت بھی پوچھ لیتے تھے۔ سفیر صاحب ہمارے لیبارٹری انچارج، تنور سے ہر روز ایک تازہ روٹی منگواتے اور جب ہم سب لوگ اپنی اپنی پیٹ پوجا میں مصروف ہوتے تھے، وہ اپنی کھڑکی کھول کر اس میں اس روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھ کر پرندوں کی دعوت کرتے۔ اس منظر کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور ہم دل ہی دل میں سفیر صاحب کی اس سخاوت کی داد دیتے ۔
آہستہ آہستہ ایسا ہونے لگا کہ کھانے کا وقفہ بعد میں ہوتا اور سفیر صاحب کی کھڑکی کے باہر ان کے ''مہمانوں'' کی آمد پہلے شروع ہو جاتی تھی۔ اگر کبھی اس وقت کوئی لیبارٹری میں موجود ہوتا تو وہ اس نظارے پر خوش ہوتا اور ہم سب کو بتاتا کہ کس طرح وہ پرندے ذرا سی دیر ہو جانے پر سفیر صاحب کی کھڑکی کو اپنی چونچوں سے کھٹکھٹاتے تھے اور جونہی کھڑکی کا پٹ کھلتا وہ خوش ہو جاتے تھے۔''آپ نے ان پرندوں کی عادت خراب کر دی ہے سر...'' میں نے ایک دفعہ ان سے کہا، ''اللہ تعالی نے ہر کسی کا رزق لکھ دیا ہے اور اس کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے رزق کے حصول کے لیے محنت کرتا ہے اور اسے حاصل کرتا ہے...'' میں نے ایک بار ان کی کھڑکی کی طرف دیکھا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ پرندے عام پرندوں کی نسبت فربہ اور ڈھیلے ڈھیلے سے تھے اور ان کی پرواز میں بھی کوتاہی کا رنگ نمایاں تھا، وہی کوتاہی جس کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا...
اے طائر لا ہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
''آپ کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اس پرندوں کے رزق کا وسیلہ اللہ نے ہی مجھے بنایا ہے... پرندوں کو دانہ دنکا ڈالنے کا بہت ثواب ہے!'' اس بات پر مزید بحث کرنا بیکار تھا اور اسی طرح ان کا معمول جاری رہا۔
اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں مہینے میں کئی کئی دن شہر کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں لوگوں کا پہنچنا نا ممکن ہو جاتا ہے ایسے ہی چند دنوں کے لیے اپنے اپنے اداروں میں نہ جا سکے اور ایک ہفتے کے بعد جب ہم پہنچے تو ایک انوکھا منظر ہم سب کی توجہ لے گیا... وہ منظر تھا سفیر صاحب کے کمرے کی کھڑکی کا، جہاں چند ادھ موئے پرندے ان کی کھڑکی کے شیڈ پر موجود تھے، جانے انھوں نے کتنا کھڑکی کو کھٹکھٹایا ہو گا... کتنی دفعہ جھانک جھانک کر اپنے ''رزق کے وسیلے'' کو ڈھونڈا ہو گا، اور اسے نہ پا کر ان کی حالت یوں ہو گئی تھی۔ انھوں نے اپنی ساری عمر میں اڑان بھر کر رزق تلاش کرنا سیکھا ہی نہ تھا کہ ان کی کتنی ہی نسلیں اس کھڑکی پر پلی تھیں... جانے ان میں سے کتنے پرندے بچ سکے اور کتنے موت کے منہ میں جا پہنچے مگر ہم سب نے دیکھا کہ اس کے بعد سفیر صاحب نے خود کو ان کا رزق کا وسیلہ سمجھنا چھوڑ دیا، جو بات ان کو زبانی سمجھ میں نہ آئی تھی وہ انھیں حقیقت حال نے بتا دی تھی۔
امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس وقت ہم وہی پرندے بنے ہوئے ہیں، اپنی چونچوں سے کھڑکیاں کھٹکھٹا کر مانگنے والے، محنت سے کترانے والے اور سفیر صاحب جیسے لوگوں کو اپنا خدا بنائے ہوئے... ہم ہر وقت مختلف خداؤں کو سجدے کرتے رہتے ہیں اور ہر خیرات دینے والے کو رازق سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ ہمارے ساتھ ''سب اچھا'' کرنے والوں کے کیا مفادات ہمارے ساتھ وابستہ ہیں اور ہم نے ان کی خیرات لینے کے لیے کیا کیا گروی رکھ دیا ہے؟ اپنے جسم، دل، دماغ، کردار، ضمیر، انا... اور جانے کیا کیا!!
خود کوان پرندوں کی طرح سمجھ کر دیکھیں، آپ پر بھی چند لمحوں کے لیے سکتے کی کیفیت طاری ہو جائے گی اور آپ کو اس معاملے کی خطرناکیت کا احساس ہو جائے گا۔ اس سارے قصے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل تہہ دل سے ان مغربی طاقتوں کی ممنون ہے جو ہمارے ملک میں ''سب اچھا'' کرنے کی ذمے دار ہے!!!