انتخابات اور جماعتوں کے منشور
منشور کی دیگر اہم باتوں میں بڑے بڑے نادہندگان سے وصولیاں اور ایسے تمام افراد جو پورے ملک میں کہیں بھی زمین کے۔۔۔
لاہور:
انتخابات میں ووٹ کس کو اور کیوں دیا جائے؟ ووٹر کے اس سوال کو حل کرنے میں سیاسی جماعتوں کے منشور اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس انتخابات میں بھی سیاسی جماعتوں نے بالآخر اپنے مستقبل کے منصوبوں سے متعلق منشور جاری کردیے ہیں، تازہ ترین منشور عمران خان کی جماعت کی جانب سے آگیا ہے، بحیثیت ووٹر تمام جماعتوں کے منشور کو پڑھنا بے حد ضروری ہے، اسی سلسلے میں راقم نے آج کے کالم میں عمران خان کی جماعت کا منشور اور جماعت اسلامی کا منشور تجزیے کے لیے منتخب کیا ہے۔
کالم کی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں مختصراً ہی اظہار خیال کیا جائے گا اور دیگر اہم جماعتوں کے منشور پر بات آئندہ کالم میں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔عمران خان نے اپنی جماعت کے منشور کو یوں تو 12 الفاظ پر پیش کیا ہے تاہم راقم کی نظر میں اس کے چند ایک نکات کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے۔ عمران خان نے وزارتوں کو کم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے 65 وزارتوں کو 17 میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے اور حکومت میں آکر سادگی اپنانے کا اعلان کیا ہے۔
اس کے علاوہ گورنر، وزیراعظم ہاؤس کو بند کرکے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا بھی عندیہ ظاہر کیا ہے، راقم کے خیال میں وزارتیں کم کرنے اور سادگی اپنانے کا اعلان یقیناً ایک اچھا عمل ہے تاہم اس کے لیے پارلیمنٹ سے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے جو جماعتیں اس ملک اور عوام کا درد رکھتی ہیں انھیں اسراف، فضول خرچی سمیت اراکین پارلیمنٹ کی ضرورت سے کہیں زیادہ مراعاتوں پر بھی بات کرنی چاہیے اور اس پر عملدرآمد کے لیے پارلیمنٹ سے باقاعدہ قانون سازی کرنے کا بھی عہد کرنا چاہیے، ورنہ ایک جماعت اقتدار میں آکر سادگی سے متعلق جو فیصلے کرے گی وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکیںگے۔
جماعت اسلامی کے منشور میں جو چند ایک اہم ترین نکات ہیں ان میں عوامی نوعیت کے نکات کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لیے بات کی گئی ہے، مثلاً ایک جانب چھ اشیائے صرف آٹا، گھی، چاول، دالیں اور چینی و چائے کی قیمتوں میں کم از کم 20 فیصد کمی کرنا اور دوسری طرف ٹیکس نظام میں انقلابی تبدیلی لاکر غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ کم سے کم کرنا ہے، نیز جی ایس ٹی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے، راقم نے اس سلسلے میں ماضی میں کئی کالموں میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جی ایس ٹی ٹیکس ایک دھوکا ٹیکس ہے یعنی بظاہر اس کا نام تو جی ایس ٹی ہے جو اشیاء تیار کرنے والوں کے لیے معلوم ہوتا ہے لیکن مال تیار کرنے والے اسے اشیاء کی قیمت میں شامل کرکے صارفین سے وصول کررہے ہیں۔
یوں صارفین جب یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا 15 یا 16فیصد حصہ ٹیکس کی مد میں مزید ادا کررہے ہیں، گرچہ عوام پہلے ہی مختلف مد میں ٹیکس ادا کررہے ہیں لیکن اس ٹیکس کا مطلب ان کی ماہانہ آمدنی میں براہ راست 15 فیصد کمی واقع ہونا ہے، کیونکہ ایک عام کلرک یا سبزی فروش یا خیرات مانگنے والا بھی جب دکاندار سے کوئی شے خریدے گا تو اسے بشمول 15 فیصد ٹیکس قیمت ادا کرنا ہی ہوگا کیونکہ وہ اس کی قیمت میں شامل ہے۔ راقم کے خیال میں جنرل سیلز ٹیکس کا خاتمہ اور ان چھ اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کرنے کا عہد خوش آئندہ ہے جس پر اگر عمل ہوجاتا ہے تو عوام کو مہنگائی کے طوفان سے فوری اور حقیقی ریلیف بہت حد تک مل سکتا ہے، اس اہم نکتے کو دیگر جماعتوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔
منشور کی دیگر اہم باتوں میں بڑے بڑے نادہندگان سے وصولیاں اور ایسے تمام افراد جو پورے ملک میں کہیں بھی زمین کے مالک نہیں ہیں انھیں مفت زمین فراہم کرنا ہے۔ زمین کی فراہمی بھی ایک اہم عوامی مسئلہ ہے۔ زمینوں اور جائیدادوں کا کاروبار کرنے والوں نے اس ملک میں غریب کیا متوسط طبقے کے افراد کے لیے بھی پلاٹ مکان خریدنا ایک خواب بنادیا ہے اور کاروبار یا منافع دار کاروبار کے طور پر جائیدادوں کی خرید و فروخت کا عمل ایک عرصے سے جاری ہے جس کے باعث ملک میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ ایک متوسط طبقے کا فرد ہی کیا، ایماندار اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ادارے کا ملازم بھی اپنی جائیداد کا صرف خواب ہی دیکھتا ہے۔
کیا یہ کھلا ظلم نہیں ہے کہ ایک جانب جائز و ناجائز دولت رکھنے والے کئی کئی پلاٹ و مکانات رکھتے ہوں اور کرائے پر اٹھا کر منافع بھی کما رہے ہوں مگر بے گھر افراد اپنے گھر کا محض خواب ہی دیکھتے رہیں؟ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی 70 کی دہائی میں جو نعرہ لگایا تھا اس میں مکان بھی شامل تھا مگر افسوس آج بھی عوام کا ایک اہم مسئلہ اپنا ذاتی گھر حاصل کرنا ہے۔
جماعت اسلامی نے اپنے منشور میں قابل کاشت زمینوں کے حوالے سے بات کی ہے اور لکھا ہے کہ غیر آباد سرکاری زمینوں کو پانی کی سہولت اور آبادکاری کی شرط کے ساتھ غیر مالک غریب کاشت کاروں میں گزارہ یونٹ کے مطابق آسان شرائط پر تقسیم کیاجائے گا، دیہی عوام جو زمینوں پر کاشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کے لیے بھی یہ نکتہ بڑا اہم ہے اور ملکی خوشحالی کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ پیداوار بڑھنے سے غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کمی بھی واقع ہوگی اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔
قیمتوں میں اضافہ اور ناجائز منافع بھی ملک کے اہم مسائل میں شامل ہے، اس سلسلے میں جماعت اسلامی نے اپنے منشور میں بیان کیا ہے کہ قیمتوں کے تعین اور نگرانی کے لیے اراکین پارلیمنٹ، عدلیہ و انتظامیہ کے نیک نام سابق افسران، علما، وکلا، صحافیوں اور صارفین کے نمائندوں پر مشتمل ہر سطح پر پرائس لسٹ کنٹرول کونسلیں قائم کیں جائیںگی، منشور کا یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ اس ملک میں ناجائز منافع کا رجحان اس قدر شدت اختیار کرگیا ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومتی سطح پر قیمتوں کا تعین کیا گیا اس کی کھل کر خلاف ورزی کی گئی، عام دنوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ہی محلے میں کہیں دودھ 75 روپے کلو فروخت ہورہا ہے تو کہیں 50 روپے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرکے فروخت کیا جارہا ہے۔
صارفین کے حقوق کی بات کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ہے ایسے حالات میں مندرجہ بالا نمائندوں پر مشتمل کونسلیں قائم کرنے کی بات نہایت بہتر ہے اور اس سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں بہت حد تک مدد مل سکتی ہے۔اس طرح ایک اور اہم مسئلہ بھی جماعت کے منشور میں نظر آیا، جس کے تحت تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی مفت فراہم کرنے کا عہد کیا گیا ہے، غربت کے مارے خاندان کا کوئی فرد اگر حادثے کا شکار ہوجائے تو وہ بھلا فوری طور پر رقم کا بندوبست کیسے کرے گا جبکہ اس کی گزر اوقات بھی بمشکل ہورہی ہو؟
جب اچانک کوئی فرد حادثے وغیرہ کی صورت میں اسپتال پہنچ جائے تو فوری طور پر رقم جمع کرانا انتہائی ذہنی کوفت کا باعث ہوتا ہے، منشور سے متعلق اور بھی اہم باتیں ہیں تاہم یہاں صرف اہم ترین اور عوامی مسائل سے قریب نکات پر بات کی گئی ہے، منشور کسی کی جاگیر نہیں، اچھے نکات کو ہر جماعت اپنے پروگرام کا حصہ بناکر ملک وقوم کی بہتر خدمت کرسکتی ہے۔