طلبا ہمارا مستقبل

جس طرح سیاستدان جعلی ڈگریاں لیے گھوم رہے ہیں اور ان کا دفاع بھی کررہے ہیں اسی طرح نوجوانوں میں بھی یہی رجحانات فروغ۔۔۔

advo786@yahoo.com

لاہور:
دو سال قبل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کی جانب سے تمام بڑے قومی اخبارات میں ایک اشتہار بعنوان ''آیئے اپنا مستقبل سنواریں'' شائع ہوا تھا۔ اس اشتہار میں، جو تعلیمی بورڈ کے چیئرمین، سیکریٹری اور ناظم امتحانات کی جانب سے شائع ہوا تھا، کہا گیا تھا کہ ہمارے بچے، ہمارے طلبا و طالبات ہمارا مستقبل ہیں، بورڈ معیار تعلیم کے فروغ، تعلیمی ماحول کی بہتری اور محنتی و باصلاحیت اور لائق طلبا و طالبات کو تعلیمی میدان میں اپنی لیاقت اور سبقت ثابت کرنے کے یکساں مواقع فراہم کرنے کا خواہاں ہے، محنت اور اہلیت کے بغیر امتحانات میں کامیابی یا اچھے نمبروں کے حصول کی کوشش انتہائی ناپسندیدہ اور منفی فعل ہے۔

اہلیت کے برعکس من پسند نتائج لینے اور ایسا کرنے میں مدد کرنیوالے نہ صرف حقدار کی حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ معاشرے، ملک اور قوم کے مستقبل کو کھوکھلا کرنے کا باعث ہیں۔ اس اشتہار کے ذریعے دعوت عام دی گئی تھی کہ آیئے اپنی ذمے داریاں پوری کریں، والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کریں اور ان میں محنت کا جذبہ اور خود اعتمادی بڑھائیں، طلبا و طالبات تمام تر توجہ دل لگا کر پڑھنے اور اپنی قابلیت بڑھانے پر مرکوز رکھیں، اسکولوں کے منتظمین عمدہ تدریس اور صحیح امتحانات کے انعقاد کو یقینی بنائیں، طالب علموں کے مستقبل کی دھمکی دے کر ناجائز مراعات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔

ایجنٹ حضرات اور ایسے افراد جو امتحانی نتائج میں مبینہ تغیر و تبدل سے وابستہ ہیں، سے گزارش ہے کہ ناپسندیدہ معاش کے بجائے صحیح رزق تلاش کریں، اﷲ رازق اور مسبب الاسباب ہے، ضرور مدد کرے گا، صحت مند مسابقت اور با شعور معاشرے کی تخلیق وتعمیر میں ہماری مدد کیجیے''۔مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر کے مصداق بورڈ کا اخلاقیات پر مبنی یہ معصومانہ قسم کا اشتہار مجھ سمیت اور بہت سوں کو حیرت میں مبتلا کر گیا ہوگا جس کی کاپی اس وقت میرے ہاتھ میں ہے، اس اشتہار سے کئی باتیں عیاں ہوجاتی ہیں۔

مثلاً (1) محنت و لیاقت کے بغیر بھی امتحانات میں کامیابی اور اچھے نمبر حاصل کر کے حق داروں کی حق تلفی سے ملک وقوم کا مستقبل کھوکھلا کیا جارہا ہے۔ (2) اساتذہ اور والدین اپنا کردار ادا کرنے میں غفل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ (3) طلبا و طالبات کی توجہ اور دل جمعی اپنی پڑھائی اور قابلیت بڑھانے پر مرکوز نہیں ہے۔ (4) اسکولوں کے منتظمین تدریس اور امتحانات کے انعقاد کو صحیح طورپر سرانجام دینے سے قاصر ہیں بلکہ طلبا کے مستقبل کے لیے ناجائز طور پر مفادات اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (5) بورڈ اور اسکولوں میں ایسی مافیا موجود ہے جو امتحانی نتائج پر اثر انداز ہوکر اس میں تغیر و تبدل کرنے پر قادر ہے، جس نے اسے روزگار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے جس کو اس مذموم حرکت سے باز رکھنے کے لیے اﷲ تعالیٰ کی رزاقیت یاد دلائی گئی تھی، لیکن اس اشتہار میں اصلاح احوال اور ان خرابیوں کی بیخ کنی کے لیے کسی قسم کے عملی اقدامات یا عزم کا ذکر موجود نہیں تھا۔

میٹرک کے حالیہ منعقدہ امتحانات میں گزشتہ تین دنوں میں محکمہ تعلیم کی عدم دلچسپی اور تعلیمی بورڈ کی غیر فعالیت کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوٹا جب سارے شہر کے علاوہ صوبے بھر میں نقل، لاقانونیت، تشدد، فائرنگ اور مسلح گروہوں کی جانب سے امتحانی مراکز کو یرغمال بنانے کے واقعات سامنے آئے جن میں امتحانی پرچہ دینے کے لیے آنیوالا ایک طالب بھی گولی کا نشانہ بنا، امتحانی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں، غیر قانونی امتحانی مرکز پکڑے گئے، پرچے ملتوی کرانے کے لیے بم رکھنے کی افواہ پھیلائی گئی، اسلحہ بردار نقل کرنیوالوں کے خوف سے تین تین مرتبہ امتحانی مراکز تبدیل کے گئے، انسپکشن ویجیلنس ٹیمیں پولیس، رینجرز، امتحانی مراکز سے غائب رہی، اسکولوں نے عدم تحفظ اور عدم تعاون پر امتحانات لینے سے انکار کردیا، ستم ظریفی یہ کہ محکمہ تعلیم نے ناپسندیدہ سماج دشمن عناصر کے خلاف موثر کارروائی کرنے کے بجائے الٹا امتحانی پرچہ لینے سے معذرت کرنیوالے اسکولوں کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔


تشدد، دباؤ اور لاقانونیت کا یہ حال ہے کہ بعض اسکول، اساتذہ اور خود طالب علموں کے سرپرست بھی نقل کرانے کی کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں۔ اخبارات میں اس قسم کی خبریں اور تصاویر چھپ رہی ہیں جن میں طالب علموں، ان کے سرپرست اور حمایتی بڑی عمر کے افراد کو سڑکوں پر ہیروئنچیوں کی طرح مجمع لگا کر نقل کرتے دکھایا گیا، اس صورتحال میں قابلیت اور مساوات تو دور کی بات ہے والدین اپنے بچوں کو امتحانی مراکز بھیجتے ہوئے بھی پریشانی اور خوف کا شکار ہورہے ہیں، جو ان کے مستقبل کے ساتھ ساتھ ان کی جان کے لیے بھی خطرے کا باعث بنی ہوئی ہے۔

جس طرح سیاستدان جعلی ڈگریاں لیے گھوم رہے ہیں اور ان کا دفاع بھی کررہے ہیں اسی طرح نوجوانوں میں بھی یہی رجحانات فروغ پارہے ہیں کہ کسی طرح امتحان پاس کرکے ڈگری یا سرٹیفکیٹ کی صورت میں کاغذات کا ایک ٹکڑا حاصل کرے، ملازمت کے لیے کسی پرچی، سفارش یا رشوت کا سہارا لیا جائے، امتحانات میں 'بوٹی' اور ملازمتوں میں 'پرچی' جہاں باصلاحیت نوجوانوں سے آگے بڑھنے کا حق چھین رہی ہے وہیں ملک و قوم کو بھی کھوکھلا کررہی ہے۔ محکمہ تعلیم، محکمہ صحت اور محکمہ پولیس ملک و قوم کی خدمت کے وہ کلیدی اور اہم ترین محکمے ہیں جہاں صرف میرٹ اور ہائی میرٹ کا معیار ہونا چاہیے لیکن سب سے زیادہ میرٹ کی پامالی اورکرپشن ان ہی محکموں میں دیکھنے میں آتی ہے۔

جو تعلیم حاصل نہیں کرسکتا یا نہیں کرنا چاہتا وہ نقل یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے سرٹیفکیٹ حاصل کرکے پولیس یا تعلیم کے محکمے میں ملازمت حاصل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان محکموں میں بھرتی کے باقاعدہ نرخ مقرر ہیں، تنخواہ کا معمولی سا حصہ دے کر ڈیوٹی اور حاضری سے استثنیٰ بھی مل جاتا ہے، محکمہ تعلیم سندھ میں پچھلے چند سال سے اساتذہ کی بھرتیوں کے سلسلے میں غیر انسانی، غیر قانونی، بد عنوانی، نااہلیت اور کرپشن کا سلسلہ چلا رکھا ہے اس پر ورلڈ بینک اور یورپی یونین عدم اعتماد کا اظہار کرکے فنڈ بھی روک چکی ہیں اور انھوں نے ان بھرتیوں پر محکمہ تعلیم کی غیر شفافیت اور گھپلے بازیوں پر کئی مرتبہ وارننگ بھی دی ہیں، جب اساتذہ کی عزت نفس سے کھیل کر، ان سے رشوتیں لے کر یا سفارشوں کی بنیاد پر بھرتی کیا جائے گا تو وہ تعلیم کی کیا خدمت کریں گے؟

اور اساتذہ اور طالب علموں میں احترام و عقیدت کا رشتہ کیسے استوار رہے گا؟ جب طلبا کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی نہیں ہوگی وہ تعلیم کے لیے اسکول کالجز کے بجائے ٹیوشن سینٹر اور لیب کی تیاری کے لیے انھی اساتذہ کے سینٹروں کا رخ کریںگے، چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوگا، انتظامیہ بے بس ہوگی، طلبا میں تشدد اور بے راہ روی کا رجحان بڑھتا جائے گا، اساتذہ سے بدتمیزی ان پر تشدد، ان کا قتل، حتیٰ کہ عصمت دری تک کے واقعات رونما ہورہے ہیں، ان کی شرح مزید بڑھے گی، ہاسٹلز منفی سرگرمیوں، مجرموں اور ناپسندیدہ عناصر کی آماجگاہ بنتے رہیں گے۔

تعلیم و تربیت کی تباہی کا یہ طویل سلسلہ بھٹو حکومت میں تعلیمی ادارے قومیائے جانے اور ضیاء دور میں طلبا یونینز پر پابندی لگائے جانے سے شروع ہوا، یہ دونوں اقدام ہر آنیوالی حکومت کے لیے پسندیدہ اور مرغوب تر رہے ہیں جن کی لمبی تفصیل ہے، اس لیے کسی بھی حکومت نے کوئی اصلاحی کوشش نہیں کی اور اپنے طبقاتی مفادات کے لیے آبادی کے 60 فیصد سے بھی زیادہ نوجوانوں پر میرٹ کے راستے بند کرکے انھیں بند گلی میں پہنچا دیا ہے، جو ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔
Load Next Story