لاشوں پر بھنگڑا

تجربہ شاہد ہے کہ اچھائی آہستہ آہستہ پھیلتی ہے جب کہ برائی جنگل کی آگ کی مانند پھیلتی رہتی ہے۔

moosaafendi@gmail.com

رینالہ خورد۔ اوکاڑہ میں دیرینہ دشمنی پر مدعی، بھائی اور بہن سمیت قتل کردیئے گئے۔ یہ قتل اخباری خبر کے مطابق پُرانی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ قتل کی یہ واردات مقدمۂ قتل کے ایک مدعی کو اس کے سگے بھائی اور بہن کے ہمراہ مخالفین نے کلہاڑیوں کے پے در پے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ملزمان تینوں بہن بھائیوں کے قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں پر بھنگڑے ڈالتے رہے۔ خبر اس کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ جب قتل کرنے والے اپنے اس کارنامے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے بھنگڑا ڈال رہے تھے تو دیکھنے والے انھیں صرف دیکھ رہے تھے یا کسی قسم کا اظہار بھی کر رہے تھے۔

وہاں موجود رہے یا وہاں سے چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ لاشوں کو کب اور کیسے اور کن لوگوں نے اٹھایا۔ بھنگڑے کی خبر پر قریبی محلوں اور علاقوں میں لوگوں کا کیا ردعمل ہوا ان سب باتوں کا اخبار کی اس مختصر خبر میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ایک اور بات جس کا پتہ نہیں چل سکا یہ ہے کہ کسی اور اخبار میں، میں نے یہ خبر اس قدر اختصار کے ساتھ بھی نہیں پڑھی۔ کسی ٹی وی چینل پر جو عام حالات میں نزلہ زکام پر بھی بریکنگ نیوز نشر کرکے داد وتحسین کے مستحق ہونے پر مُصر رہتے ہیں ایسے کسی ٹی وی چینل نے خبر کو نشر نہیں کیا۔ اس اخباری خبر میں تو یہ تک بھی نہیں لکھا کہ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے یا نہیں۔

جس طرح بلندیوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اسی طرح پستیوں کی بھی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ ایک مرتبہ جب معاشرتی زوال شروع ہوجائے تو ایسا معاشرہ پستیوں کی عمیق گہرائیوں میں دھنستا چلا جاتا ہے ایک معاشرہ جس کا یہ اعتقاد ہو کہ ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتاہے جو دشمن کے ساتھ بھی زیادتی اور ظلم کی اجازت نہیں دیتا اس معاشرے کے لوگ جب قتل کرنے کو ایک مشغلہ بنا لیں تو پھر قتل کے بعد بھنگڑا ڈالنا خوشیوں کو دوبالاکرنے کے واسطے لازم وملزوم ہوجاتا ہے۔

لگتا یوں ہے کہ بھنگڑے ڈالنے کا رواج متعارف شروع ہوچکا ہے جس کی ابتداء رینالہ خورد اوکاڑہ سے شروع کردی گئی ہے۔ ہم نئی نئی روایات ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور چونکہ ایسی روایات کو روکنے کی ہم میں سے کسی نے کوئی کوشش نہیں کی لہذا اگر اس قسم کی روایات پروان چڑھ گئیں تو ایک مرتبہ پھر شہروں کے عین چوراہوں پر نہ صرف قربان گاہیں کھڑی کی جائیں گی بلکہ لاشوں کے اردگرد بھنگڑے ڈالنے کے لیے باقاعدہ انتظامات بھی کیے جائیں گے۔


تجربہ شاہد ہے کہ اچھائی آہستہ آہستہ پھیلتی ہے جب کہ برائی جنگل کی آگ کی مانند پھیلتی رہتی ہے۔ جس قدر تیزی کے ساتھ برائی پھیلتی ہے اور جیسے جیسے وسعت اختیار کرتی ہے اس پر قابو پانا اسی قدر مشکل ہوتا چلا جاتا ہے اگر معمولی سی چنگاری کو فوراً بجھا دیا جائے تو وہ پھیلنے سے رک سکتی ہے لیکن جب آگ پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو اس کا روکنا بس سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی آگ میں سوکھی لکڑیوں کے ساتھ گیلی لکڑیاں بھی جل جاتی ہیں۔ اس بات کا اصل مطلب یہ ہے کہ آگ جب ایک مرتبہ پھیل جائے تو پھر اس کی شدت سے گیلی لکڑیاں بھی محفوظ نہیں رہ سکتیں حالانکہ گیلی لکڑیوں میں یہ صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے کہ وہ پھیلتی ہوئی آگ کو جلدی پھیلنے سے کسی حد تک روک لیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اندر گیلی لکڑیاں ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور جس تیزی کے ساتھ ناپید ہورہی ہیں اس سے آگ بالکل بے قابو ہوجائے گی۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ گیلی لکڑیاں بالکل ناپید ہوجائیں کیونکہ پھر اس کے بعد کچھ نہیں بچے گا۔ سب کچھ تہس نہس ہوجائے گا۔ اس مکمل تباہی سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ گیلی لکڑیوں کی قدر کی جائے۔ ان کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ انھیں ناپید ہونے سے بچایا جائے۔ اس وقت سب سے زیادہ اسی عمل کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت صرف شہروں اور قصبوں کی نہیں۔ صرف گلیوں اور محلوں کی نہیں بلکہ گھر گھر کی ضرورت ہے ۔ ہر گھر میں ایک گیلی لکڑی ضرور ہونی چاہیے جو آگ کو بھڑکنے سے روک دے اس گیلی لکڑی کو دشمن کے خلاف گھر کے اندر ایک موثر ہتھیار کی حیثیت ہونی چاہیے ۔ یہی گیلی لکڑی پورے گھر کی ڈھال بن کر حفاظت کرسکتی ہے۔ اس ڈھال کو مضبوط سے مضبوط تر ہوناچاہیے۔

کہتے ہیں نا کہ کچھ نیک اور اﷲ والے لوگوں کی وجہ سے پورے کا پورا شہر تباہی سے بچا رہتا ہے۔ چند بزرگوں اور ولیوں کے باعث ہی ہم لوگ بھی بچے ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی نیک اور بزرگ ہستیاں ہی ہوتی ہیں جن کے بستی سے چلے جانے کے بعد پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی عظیم ہستیاں ہوتی ہیں جن کے کشتی میں بیٹھ جانے کے بعد بارشوں کا طوفان شروع ہوجاتا ہے یہی وہ خدائے واحدہ لاشریک کے پسندیدہ اور چُنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جن کے دریا پار کرنے کے بعد موجیں اپنی جگہ پر لوٹ آتی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بستی سے نکل جائیں تو جان لیوا چنگھاڑ شروع ہوجاتی ہے ان لوگوں کی مثال خشک لکڑیوں کے انبار میں گیلی لکڑیوں کی طرح ہوتی ہے جنکی قدر کرنا لازم ہے۔ ان کی قدر کرنا اس لیے لازم ہے کہ ہرطرح سے پُرآشوب دور میں بقا کی ضمانت انھی کا وجود ہے۔

خدا ہم سب لوگوں کو گیلی لکڑیوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story