خودشناسی اور عمومی مراقبہ
ہدایت (علم) ایسی چیز ہے جو مانگنے سے نہیں ملتی، وہ اﷲ کی اپنی مرضی کی دَین ہے۔
آج کے کالم میں ہم دو خطوط شامل کریں گے لیکن اس سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان کالموں کا مقصد محض نفسیات ومابعد نفسیات اور تعمیر شخصیت کے حوالے سے مشقوں کا تذکرہ ہے۔ اس لیے ان میں مخصوص نظریات کا پرچار کسی طور بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ کچھ تحریریں اتنی دلکش ہوتی ہیں کہ انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پہلا خط جو ہم یہاں شامل کررہے ہیں یہ رحیم یار خان سے ڈاکٹر شمیم اعجاز نے روانہ کیا ہے۔ متن ملاحظہ کیجیے۔ ''انسان عبادت تک خودمختار ہے، جو جی چاہے وہ کرے، بعد میں اس کی خودمختاری ختم ہوجاتی ہے تو آئندہ کے لیے وہ اﷲ سے (مدد) مانگتا ہے کہ وہ اسے سیدھی راہ کی ہدایت نصیب فرمائے۔
ہدایت (علم) ایسی چیز ہے جو مانگنے سے نہیں ملتی، وہ اﷲ کی اپنی مرضی کی دَین ہے۔ آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا کہ آیا قرآنی علم اور علم الدنی ایک ہی ہیں۔ وجہ اس کی 1856 کے بعد کوئی ولی غوث، قطب ابدالی نہیں ہوا، پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں ہزاروں پیر فقیر موجود ہیں، کئی پروفیسر صاحبان نے کتابچے چھپوائے، کسی نے ایک کتاب کسی نے کئی کتابیں لیکن 'ھدی لالمتقین' کسی کے پاس نہیں ہے۔ طریقہ پہچان یہ ہے جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ 'نفس امارہ' کسے کہتے ہیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
اس علم کے پڑھنے، سیکھنے اور عمل کرنے کے لیے کسی بھی مشق کی ضرورت نہیں، چہلا (چلا) نہیں کرنا ہوتا، تسبیح نہیں کرنا ہوتی، کوئی ذکر اذکار نہیں ہوتا، تزکیہ نفس نہیں کرنا ہوتا اس کے باوجود انسانی جسم کا ہر ایک حصہ روحانی طور پر بیدار ہوجاتا ہے، ایک ایک سانس ذکر الٰہی کرنے لگتا ہے، پورا جسم سراپا عبادت بن جاتا ہے۔ سفلی اور منفی خیالات ختم ہوجاتے ہیں، روحانی مثبت خیالات قائم ہوتے ہی، انسان مثبت طرز عمل اختیار کرلیتا ہے، فرقہ بازی ختم، نفرت محبت میں تبدیل۔
جو عامل اپنے معمول سے طرح طرح کی مشقیں کراتے ہیں کہ تمہاری تیسری آنکھ (صنوبری آنکھ) کھل جائے گی، عرصہ دراز تک مشقیں کرنے کے باوجود آنکھ نہیں کھلتی۔ ارشاد ربی ہوتا ہے جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ یعنی ازروئے قرآن حکیم اﷲ کی پہچان بندے کے نفس کی پہچان سے مشروط ہے۔ اسلام میں ہدایت تو کُل اقوام کے لیے ہے لیکن ہم مسلمانوں نے صرف اسے اپنے لیے رائج کر رکھا ہے، اسی طرح قرآن حکیم میں بھی سیکھنے اور سکھانے کا حکم ہے جبکہ ہم نے پڑھنے پڑھانے پر لگادیا ہے۔''
دوسرا خط کراچی سے ایم اشرف نے روانہ کیا ہے، جس میں انھوں نے ذاتی تجزیے سے متعلق ایک مشق لکھی ہے، اشرف کئی سال سے یوگا کے طالب علم ہیں اور مختلف آسن پر دسترس رکھتے ہیں۔ بقول ایم اشرف یہ تحریر انھوں نے تقریباً دس سال پہلے لکھی تھی۔ ملاحظہ کیجیے۔
''دنیا میں سچ بولنا مشکل یا شاید بہت ہی مشکل کام ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ سچ اپنے آپ سے بولیں تو شاید ہم یہ کام بہت ہی مشکل سے کرپائیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں مضبوط شخصیت کے مالک صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ اپنے آپ سے سچ بولتے ہیں اور وہی لوگ دنیا میں کامیابی کی منازل طے کرتے ہیں۔ یہ سچ کیا چیز ہے؟ سچ فطرت کی وہ کنجی ہے، وہ سوئچ ہے جسے 'آن' کردینے سے آپ کا رابطہ فطرت سے جڑ جاتا ہے اور اس کے ثمرات آپ پر ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کو ہم دوسرے الفاظ میں اپنے ضمیر کی آواز بھی کہتے ہیں جس کو ہم حالات، واقعات اور مصلحتوں کی بھینٹ چڑھاتے رہتے ہیں، اور بالآخر ہمارا ضمیر یا تو نہایت ہی کمزور ہوجاتا ہے یا مرجاتا ہے۔
اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جوکہ اپنی خامیوں اور خوبیوں سے بخوبی واقف ہیں اور ہمیشہ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر اکثر لوگ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو ماننے سے انکاری رہتے ہیں اور اس طرح نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی شخصیت کمزور اور منفی رخ اختیار کرجاتی ہے۔
ہم میں سے کون نہیں چاہتا کہ وہ ایک خوبصورت اور مضبوط شخصیت کا مالک بنے، جس کے لیے پرسنالٹی ڈیولپمنٹ Personality Development نام کے مختلف کورسز بھی منعقد کیے جاتے ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی اس سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔ اسی سلسلے میں ہم آپ کو اپنی شخصیت بہتر اور خوبصورت بنانے کے لیے ایک نہایت ہی آسان اور آزمودہ طریقہ بتارہے ہیں، جس کے ذریعے آپ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو نہایت ہی موثرانداز سے دور کرسکیں گے۔ مگر شرط وہی ہے کہ آپ نے اپنے آپ سے مکمل اور بالکل سچ بولنا ہے۔
پہلا مرحلہ: (1) ایک سادہ A4 سائز کا پیپر لیں۔ (2) اس کاغذ پر درمیان میں ایک انسانی اسکیچ/ آؤٹ لائن بنائیں۔ (3) اب اس تصویر کو درمیان سے دو حصوں میں تقسیم کردیں۔ یہ تصویر دراصل آپ کی شخصیت کا اسکیچ ہے۔
دوسرا مرحلہ: تصویر کو دو حصوں میں تقسیم اس لیے کیا گیا ہے کہ آپ تصویر کی دائیں جانب اپنی تمام خوبیاں اور اچھائیاں (دنیاوی اور دینی اعتبار سے) ترتیب وار یعنی کہ آپ اپنے اندر جس اچھائی یا خوبی کا اثر بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں اور اس کو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات اس اچھائی یا خوبی کی وجہ سے نقصان بھی اٹھاتے ہیں اس کو درج کریں اور اسی طرح اللترتیب۔ اب آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ تصویر کی بائیں جانب کیا لکھنا ہے اور کس طرح سے لکھنا ہے، بائیں جانب آپ اپنی خامیاں تحریر کریں گے۔
اس کام میں جلدبازی ہرگز نہ کریں بلکہ نہایت ہی آرام اور سکون سے اچھی طرح سوچ کر لکھیں اور اگر کوئی وصف بعد میں یاد آئے اور آپ چاہتے ہیں کہ اس کو اول درجے میں لکھیں تو یہ ترتیب تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ جب آپ اس کام کو مکمل کرلیں تو اس کو اچھی طرح سے پڑھیں، آپ کو اپنا آپ، آپ کے سامنے بالکل واضح نظر آئے گا۔ آپ یہ جان جائیں گے کہ آپ کی شخصیت کس طرح کی اور کن کن خوبیوں اور خامیوں سے پُر ہے، آپ کے کمزور پہلو اور طاقتور پہلو کون کون سے ہیں۔
تیسرا مرحلہ: جب آپ اپنی شخصیت کا بھرپور جائزہ لے چکے ہوں گے اور یہ جان لیں گے کہ آپ کی شخصیت کے کون سے پہلو آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور کون سے نقصان، تو اب اس کا علاج بھی ہونا چاہیے۔ اس کا علاج بھی آپ ہی کریں گے۔ اس کے لیے آپ ایک چھوٹی پرچی لے لیں اور اپنی وہ خوبی جس کی زیادتی آپ کی شخصیت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہے اور وہ کمزوری جس سے آپ فوراً پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں، درج کریں اور اپنے آپ کو ایک ہفتے کا وقت دیں کہ میں اس ایک ہفتے میں اس پر کنٹرول کروں گا، اگر ایک ہفتے میں اس پر پچاس فیصد بھی قابو نہیں پاسکے تو اس وقت کو اگلے ہفتے تک بڑھادیں۔ اور اس طرح اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کا علاج کرتے چلے جائیں۔ ''
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)