اندھیرے میں تیر اندازی
آج یا کل دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کرنے ہوں گے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کا زندگی بھر کے لیے نااہلی کا فیصلہ بہت سخت ہے جس پر اختلافی بحث کا ہونا فطری بات تھی جو شروع ہو چکی ہے۔بعض حلقوں کی رائے میں انھیں سزا دینے کا اختیار پارلیمنٹ یا سینیٹ کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی مسلم لیگ ن کے لیڈر اس فیصلے کے خلاف بول رہے ہیں۔ نواز شریف کوپاکستان کی سپریم کورٹ نے جولائی کے مہینے میں پاناما پیپرز کے مقدمے میں نااہل قرار دیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے حسین نواز کی کمپنی میں جو تنخواہ لی تھی اس کے بارے میںسچ بیانی نہیں کی تھی، جب کہ سابق وزیراعظم کا مؤقف تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے کوئی تنخواہ وصول ہی نہیں کی۔بہرحال یہ قانونی اور آئینی معاملہ ہے تاہم نواز شریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں کسی سازش کے تحت منصب سے ہٹایا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ہفتے ایک اور فیصلے میں قرار دیا کہ ملکی آئین کے تحت نااہل ہوجانے والا شخص دوبارہ کوئی عہدہ نہیں سنبھال سکتا۔ جن درخواستوں کے بارے میں یہ فیصلہ دیا گیا تھا ان کے بارے میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ نااہلی عارضی ہوتی ہے یا مستقل۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز) جو حکمران جماعت یہ استدلال پیش کر رہی ہے کہ یہ عدالت کا کام نہیں کہ وہ کسی سیاست دان کو دیانت دار یا بد دیانت قرار دے، یہ کام پارلیمنٹ یا الیکشن کمیشن کا ہے۔ بہرحال نااہلی کے فیصلے سے حکمران جماعت کو بہت دھچکا لگا ہے خاص طور پر اس موقع پر جب کہ عام انتخابات میں محض دو تین مہینے رہ گئے ہیں۔ چنانچہ نواز شریف نے عدالتی فیصلے کے بعد کہا ہے کہ وہ عوام کے پاس دوبارہ جائیں گے تا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکیں کہ آیا وہ سیاست جاری رکھیں گے یا نہیں۔
میں بھارت میں ماضی کے واقعہ بیان کرتا ہوں۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے نااہل قرار دیدیا جب کہ وہ ملک کی وزارت عظمیٰ پر فائز تھیں لیکن اندرا نے منصب چھوڑنے کے بجائے ملک پر ایمرجنسی نافذ کردی اور اس قانون کو ہی تبدیل کر دیا۔ یہ اس طرح ہوا کہ اپوزیشن کے تمام اراکین کو قید کر لیا گیا لہٰذا اندرا کے فیصلے کو کوئی بھی چیلنج نہ کر سکا سوائے سری نگر کے شمیم احمد شمیم کے جس نے ایوان پارلیمنٹ میں اندرا گاندھی کی مخالفت کی۔ شمیم احمد کو کوئی ہاتھ نہ لگا سکا کیونکہ اس کی پشت پر شیخ عبداللہ تھے جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے قریبی دوست تھے۔
پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے جمہوریت کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، انھوں نے الیکشن کمیشن کو حقیقی اختیارات دیے بغیر انتخابات کرا دیے۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن وزیراعظم حسینہ نے انھیں شامل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ ملک میں الیکشن کے موقع پر کوئی اپوزیشن موجود ہی نہیں تھی۔ جنرل ایچ۔ ایم ارشاد کی جاتیا پارٹی اپوزیشن میں تھی۔
شیخ حسینہ نے اس پارٹی کے اراکین کو کابینہ میں شامل کر کے مخالفت کا رہا سہا امکان بھی ختم کر دیا۔ اس الیکشن کے جائز ہونے کا سوال ابھی تک سپریم کورٹ کے سامنے ہے اور جج حضرات اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ان کو پتہ ہے کہ کسی مخالفانہ فیصلے کی صورت میں وہ ڈھاکے میں نہیں رہ سکیں گے۔
مثال کے طور پر آپ سابقہ وزیراعظم خالدہ ضیاء کو ملنے والی 5 سال کی قید کو دیکھیں جس کے نتیجے میں جج حضرات خوف کے مارے بھاگتے پھر رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم حسینہ مبینہ طور پر ججوں سے ناراض ہیں۔ ایک جج ملک چھوڑ کر جا چکا ہے جس کے واپس آنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ وزیراعظم حسینہ اس سے خاص طور پر ناراض ہیں۔ اس جج کو خطرہ ہے کہ جب بھی وہ واپس آئے گا حسینہ شیخ کی حکومت اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔ سب لوگ یہ جانتے ہیں کہ بیگم خالدہ کے خلاف عدالتی فیصلے میں شیخ حسینہ کا ہاتھ ہے۔ خصوصی عدالت کے جج محمد اختر الزمان نے سابقہ وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت کو ایک شارٹ لسٹ دی گئی تھی جس کے مطابق فیصلے کرنے تھے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ بیگم ضیاء دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ ان کے خلاف سرکاری فنڈ سے21 ملین ٹکہ (دو کروڑ دس لاکھ) کے سرکاری فنڈز کے غبن کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ رقم جنرل ضیا الرحمان کے قائم کردہ یتیم خانہ کو بیرونی ذرایع سے موصول ہوا۔ یہ ٹرسٹ بیگم ضیاء کی تحویل میں ہے۔ خالدہ ضیاء نے اپنے مقدمے کے بارے میں الزام عائد کیا ہے کہ شیخ حسینہ عدالت پر دباو ڈال کر اسے انتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہیں۔
بیگم خالدہ نے کہا کہ میں جیل جانے سے یا کسی سزا سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں وزیراعظم حسینہ کے سامنے سر نہیں جھکاؤں گی۔ لیکن قانونی ماہرین کو خدشہ ہے کہ بیگم خالدہ کو نااہل قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ادھر نئی دہلی نے ایک بار پھر اسلام آباد سے مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ آج یا کل دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کرنے ہوں گے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی ہے جوکہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے لیکن نواز شریف کی نااہلی نے سارا منظربدل دیا ہے۔ اب بھارت کو دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے کا انجام کیا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت کوئی قدم اٹھانا اندھیرے میں تیر اندازی کے مترادف ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)