فکرِ اقبالؒ سے سیّد علی گیلانی کا سچا عشق
اقبال نے اپنی مومنانہ فراست اور دانش سے لادینیت کے اس بُت کو پاش پاش کرنے کا درس دیا ہے۔
کل شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال کا 80واں یومِ وفات ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کے اِس ضعیف مجاہدوحریت پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی، جن کی ہمتیں ہمہ وقت جواں رہتی ہیں، نے 9نومبر2017ء کو بھی حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کے 107ویںیومِ پیدائش کے موقع پرسری نگر میں اپنے گھر پر ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا تھا۔
شاعرِ مشرق نے اپنے کلام میں متعدد بار جس محبت، دردمندی اور خلوص سے کشمیریوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اُن پر ڈھائے جانے والے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جس شدت سے احتجاج کیا ہے، اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی حضرت علامہ اقبال کو اپنی یادوں میں بسائے رکھیں۔
اس کا عملی مظاہرہ جناب سید علی گیلانی نے اقبال کے یومِ ولادت کے موقع پر اپنے گھر (حیدر پورہ) پر کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ علی گیلانی صاحب کی نجی گفتگوؤں، خطوط اور تقاریر میں جا بجا فکرِ اقبال کی چھاپ نظر آتی ہے۔ وہ کلامِ اقبال کو برمحل بروئے کار لاتے ہیں اور سُننے والوں کے دل گرما دیتے ہیں۔ تقریباً پانچ ماہ قبل حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کا یومِ پیدائش آیا تو گیلانی صاحب نے اپنے دولت خانے پر''اقبال...داعیِ حق، محب انسانیت'' کے موضوع پر ایک دلکشا مجلس کا اہتمام کیا تھا۔
اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس (گیلانی گروپ) کے بانی و مجاہد کا خطبہ یادگار بھی تھااور اقبال کی محبت سے سرشار بھی۔ علی گیلانی صاحب نے کہا تھا:''کشمیری نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن و سنّت کے اتباع کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو بھی خصوصیت کے ساتھ پڑھیں اور خود کو فکرِ اقبال کے ساتھ منسلک کیے رکھیں۔ لاریب شاعرِ مشرق ملّتِ اسلامیہ کے داعی اور عظیم محسن ہیں۔'' گیلانی صاحب نے مزید ارشاد فرمایا:''علامہ اقبال علیہ رحمہ کے افکار کا صرف ہم پر ہی نہیں بلکہ ساری ملّت پر احسانات ہیں۔
عظیم احسانات۔ آج کے دَور میں باطل نے بہت سے بُت تراشے ہیں۔ المیہ مگر یہ ہے کہ کافر بُت تراشتا ہے اور ہم میں سے کئی اس کی پرستش کرتے ہیں۔ موجودہ دَور میں لادینیت سب سے بڑا بُت ہے جسے ایک نظرئیے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
اقبال نے اپنی مومنانہ فراست اور دانش سے لادینیت کے اس بُت کو پاش پاش کرنے کا درس دیا ہے اور یہ بھی صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ لادینیت انسانوں کو کس کس صورت میں گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے۔'' اپنی گفتگو میں حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کے بارے میں شائستگی سے ایسی گفتگو وہی شخص کر سکتا ہے جس نے نبّاضِ فطرت، اقبالِ لاہوری کی شخصیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو اپنی رُوح کے اندر جذب کر رکھا ہو۔
حضرت علامہ محمد اقبال علیہ رحمہ سے ہماری محبت اور عقیدت قومی بھی ہے اور فطری بھی۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد کے خوبصورت چائنہ سینٹر میں کتاب میلہ برپا تھا۔ کہا گیا ہے کہ اِس میں سوا سو کے قریب بُک اسٹال لگے اور سوا کروڑ روپے کی کتابیں فروخت ہُوئیں۔ ہم بھی کشاں کشاں وہاں پہنچے۔ اِس نمائش میں بھی ہمیں وہی بُک اسٹال دلکش لگے جہاں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے متعلق کتابیں رکھی گئی تھیں۔ نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن، اقبال اکیڈمی، مجلسِ ترقی ادب کی طرف سے سجائی گئی کتابیں ہماری رُوحانی مسرت کا مُوجب بنیں۔
غنیمت ہے کہ یہ ادارے بانیانِ پاکستان کا نام بھی لیتے ہیں اور اُن کے پیغام اور افکار و فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں مقدور بھر حصہ بھی ڈال رہے ہیں۔ ہم نے وہاں سے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی ''فکرِ اقبال''،ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی ''اقبال اورقرآن'' اور خالد نظیر صوفی کی ''اقبال درونِ خانہ'' بڑی چاہت اور محبت سے خریدیں۔ ''اقبال درونِ خانہ'' (چوتھا ایڈیشن) مختصر سی کتاب ہے مگر اِس کے مندرجات نے مجھے ایک نئے علامہ اقبال سے رُوشناس کروایا ہے۔
حیرت انگیز اور منفرد اقبال۔خیال تھا کہ اِس کتاب کے خیال افروز کچھ واقعات اپنے محترم قارئین سے بھی شیئر کروں گا لیکن ہُوا یہ ہے کہ اِنہی ایام میں جناب سید علی گیلانی کی خود نوشت سوانح حیات (جو دو جِلدوں پر مشتمل ہے) میرے زیر مطالعہ ہے۔ گیلانی صاحب قبلہ نے اِس خود نوشت میں جس تواتر اور کثرت سے کلامِ اقبال اور فکرِ اقبال کو اپنی باتوں، خطوط اور گفتگوؤں میں سمویا ہے، اِس نے تو مجھے ششدر کررکھا ہے۔
مولانا عبدالستار خان نیازی علیہ رحمہ (جنہوں نے تحریکِ ختمِ نبوت اور پھر تحریکِ نظامِ مصطفیٰ میں شاندار اور تاریخی کردار ادا کیا تھا) اور سابق امیرِ جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد صاحب علیہ رحمہ (آہ، کیا شاندار اور پُر عظیمت تھا وہ ''آدمی'') جس آسانی اور تسلسل کے ساتھ اپنی تقریروں اور گفتگوؤں میں کلامِ اقبال کو بروئے کار لا کر مجالس گرما دیتے تھے، یہ لمحات میرے لیے بڑے ہی یادگار اور ایمان افروز ہیں۔
اب کون ہے ہماری مجالس میں ایسا صاحبِ مطالعہ شخص جو کلامِ اقبال کا حافظ بھی ہو اور عاشقِ صادق بھی اور جسے کلامِ اقبال پڑھنے کا سلیقہ بھی آتا ہو؟ ہم کسقدر تہی دست ہو گئے ہیں۔ ہماری مجالس سے اب پروفیسر مرزا منور ایسا شارحِ کلامِ اقبال بھی اُٹھ کر جا چکا ہے۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ حتیٰ کہ اقبال کے نام پر قائم ہونے والے ادارے بھی عشاقِ اقبال اورحفاظِ کلامِ اقبال سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ ادارے نہیںبلکہ اقبال کی زبان میں، بجھی آگ کا ڈھیر ہیں۔ ایسے میں جناب سید علی گیلانی صاحب دامت برکاتہ کیوں نہ یاد آئیں جو دریائے نیلم کے پار، عین خون کی بہتی ندیوں میں بیٹھ کر کلامِ اقبال پڑھ کر سر دُھن رہے ہیں اور کلامِ اقبال کشمیریوں کو سُنا کر جذبہ حریت کی آنچ تیز کررہے ہیں۔
دو جِلدوں اور تقریباًپانچ صد صفحات پر مشتمل ''رودادِ قفس'' سید علی گیلانی صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد نے اِس کے مقدمے میں بجا لکھا ہے:''علامہ محمد اقبال اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کی چھاپ اُن ( علی گیلانی) کے فکر پر صاف دکھائی دیتی ہے۔''
دونوں جِلدوں میں جس کثرت کے ساتھ گیلانی صاحب نے اشعارِ اقبال سے اپنی رُوداد اور افکار کو سجایا اور سنوارا ہے، صاف عیاں ہوتا ہے کہ کلامِ اقبال ہمہ وقت اُن کے نوکِ زباں رہتا ہے۔ تقریر کرتے ہُوئے اور نثر لکھتے ہُوئے انھیں کلیاتِ اقبال کی ورق گردانی نہیں کرنا پڑتی۔ رُودادِ قفس کی دونوں جِلدوں میں انھوں نے بِلا تکان جس شوق اور ذوق سے اشعارِ اقبال کو برمحل استعمال کیا ہے، اگر مَیں اِس کالم میں صفحات اور ابواب کے حوالوں کے ساتھ ان سب اشعار کو یہاں نقل کرنا چاہوں بھی تو نہیں کر سکتا۔
کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے لاتعداد و متنوع بھارتی مظالم اور بھارتی استبداد تلے پسِ دیوارِ زنداں اُن پر کیا گزری، اِن سب کا ذکر کرتے ہُوئے جناب سید علی گیلانی کو بے اختیار حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کے اشعار یاد آ جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ گیلانی صاحب نے اپنی اِس خود نوشت سوانح حیات کے ذریعے کشمیریوں میں فکرِ اقبال اور کلامِ اقبال کی نہائت احسن طریقے سے ترویج و تبلیغ کی ہے تو ایسا کہنا شائد مبالغہ نہیں ہوگا۔
یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کلامِ اقبال سے بے پناہ عشق نے علی گیلانی صاحب کو بھارتی قید خانے میں قوت وہمت بھی عطا کیے رکھی اور سہارا بھی۔بھارتی قید خانے میں جس صبر اور استقامت کی ضرورت تھی، گیلانی صاحب نے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے بھی صبر کا درس حاصل کیے رکھا اور صحابہ کرام کی مبارک زندگیاں بھی اُن کے لیے مشعلِ راہ بنی رہیں۔ طاغوتی قوتوں کے مظالم کے مقابلے میں مجاہد صفت مردِ مومن کی عزیمت کیا ہوتی ہے، اِس کی کئی مثالیں ہمیں گیلانی صاحب کی اِس خود نوشت میں ملتی ہیں ۔
علامہ اقبال کے ساتھ ساتھ علی گیلانی صاحب نے اپنی ''رودادِ قفس'' میں کئی جگہ فیض احمد فیضؔ کو بھی محبت سے یاد کیا ہے ، اُن کے لیے دعائیں بھی کی ہیں اورزندان میں اپنا حالِ دل بیان کرنے کے لیے اُن کے اشعار بھی لکھے ہیں ۔ مثا ل کے طور پر جِلد دوم (صفحہ130)پر یوں لکھا: ''جناب فیض احمد فیضؔ کی اللہ مغفرت فرمائے۔ اُن کی ذہنی اور فکری لغزشیں اپنی بے پایاں رحمت کے سہارے معاف فرما دے۔اعلیٰ مقصد کے حصول کی راہ میں، قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور اس دوران انسانی فطرت پر گزرنے والی کیفیات کو انھوں نے جس بے مثال ادبی پیرائے میں بیان کیا ہے، نظریاتی اختلاف کے باوجود اُن کے کمالِ فن اور قدرتِ کلام کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ایسے ہی کسی موقع پر انھوں نے فرمایا ہے:''جنہیں خبر تھی کہ شرطِ نواگری کیا ہے/وہ خوش نوا گلہ قیدو بند کیا کرتے۔''
شاعرِ مشرق نے اپنے کلام میں متعدد بار جس محبت، دردمندی اور خلوص سے کشمیریوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اُن پر ڈھائے جانے والے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جس شدت سے احتجاج کیا ہے، اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی حضرت علامہ اقبال کو اپنی یادوں میں بسائے رکھیں۔
اس کا عملی مظاہرہ جناب سید علی گیلانی نے اقبال کے یومِ ولادت کے موقع پر اپنے گھر (حیدر پورہ) پر کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ علی گیلانی صاحب کی نجی گفتگوؤں، خطوط اور تقاریر میں جا بجا فکرِ اقبال کی چھاپ نظر آتی ہے۔ وہ کلامِ اقبال کو برمحل بروئے کار لاتے ہیں اور سُننے والوں کے دل گرما دیتے ہیں۔ تقریباً پانچ ماہ قبل حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کا یومِ پیدائش آیا تو گیلانی صاحب نے اپنے دولت خانے پر''اقبال...داعیِ حق، محب انسانیت'' کے موضوع پر ایک دلکشا مجلس کا اہتمام کیا تھا۔
اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس (گیلانی گروپ) کے بانی و مجاہد کا خطبہ یادگار بھی تھااور اقبال کی محبت سے سرشار بھی۔ علی گیلانی صاحب نے کہا تھا:''کشمیری نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن و سنّت کے اتباع کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو بھی خصوصیت کے ساتھ پڑھیں اور خود کو فکرِ اقبال کے ساتھ منسلک کیے رکھیں۔ لاریب شاعرِ مشرق ملّتِ اسلامیہ کے داعی اور عظیم محسن ہیں۔'' گیلانی صاحب نے مزید ارشاد فرمایا:''علامہ اقبال علیہ رحمہ کے افکار کا صرف ہم پر ہی نہیں بلکہ ساری ملّت پر احسانات ہیں۔
عظیم احسانات۔ آج کے دَور میں باطل نے بہت سے بُت تراشے ہیں۔ المیہ مگر یہ ہے کہ کافر بُت تراشتا ہے اور ہم میں سے کئی اس کی پرستش کرتے ہیں۔ موجودہ دَور میں لادینیت سب سے بڑا بُت ہے جسے ایک نظرئیے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
اقبال نے اپنی مومنانہ فراست اور دانش سے لادینیت کے اس بُت کو پاش پاش کرنے کا درس دیا ہے اور یہ بھی صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ لادینیت انسانوں کو کس کس صورت میں گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے۔'' اپنی گفتگو میں حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کے بارے میں شائستگی سے ایسی گفتگو وہی شخص کر سکتا ہے جس نے نبّاضِ فطرت، اقبالِ لاہوری کی شخصیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو اپنی رُوح کے اندر جذب کر رکھا ہو۔
حضرت علامہ محمد اقبال علیہ رحمہ سے ہماری محبت اور عقیدت قومی بھی ہے اور فطری بھی۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد کے خوبصورت چائنہ سینٹر میں کتاب میلہ برپا تھا۔ کہا گیا ہے کہ اِس میں سوا سو کے قریب بُک اسٹال لگے اور سوا کروڑ روپے کی کتابیں فروخت ہُوئیں۔ ہم بھی کشاں کشاں وہاں پہنچے۔ اِس نمائش میں بھی ہمیں وہی بُک اسٹال دلکش لگے جہاں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے متعلق کتابیں رکھی گئی تھیں۔ نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن، اقبال اکیڈمی، مجلسِ ترقی ادب کی طرف سے سجائی گئی کتابیں ہماری رُوحانی مسرت کا مُوجب بنیں۔
غنیمت ہے کہ یہ ادارے بانیانِ پاکستان کا نام بھی لیتے ہیں اور اُن کے پیغام اور افکار و فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں مقدور بھر حصہ بھی ڈال رہے ہیں۔ ہم نے وہاں سے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی ''فکرِ اقبال''،ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی ''اقبال اورقرآن'' اور خالد نظیر صوفی کی ''اقبال درونِ خانہ'' بڑی چاہت اور محبت سے خریدیں۔ ''اقبال درونِ خانہ'' (چوتھا ایڈیشن) مختصر سی کتاب ہے مگر اِس کے مندرجات نے مجھے ایک نئے علامہ اقبال سے رُوشناس کروایا ہے۔
حیرت انگیز اور منفرد اقبال۔خیال تھا کہ اِس کتاب کے خیال افروز کچھ واقعات اپنے محترم قارئین سے بھی شیئر کروں گا لیکن ہُوا یہ ہے کہ اِنہی ایام میں جناب سید علی گیلانی کی خود نوشت سوانح حیات (جو دو جِلدوں پر مشتمل ہے) میرے زیر مطالعہ ہے۔ گیلانی صاحب قبلہ نے اِس خود نوشت میں جس تواتر اور کثرت سے کلامِ اقبال اور فکرِ اقبال کو اپنی باتوں، خطوط اور گفتگوؤں میں سمویا ہے، اِس نے تو مجھے ششدر کررکھا ہے۔
مولانا عبدالستار خان نیازی علیہ رحمہ (جنہوں نے تحریکِ ختمِ نبوت اور پھر تحریکِ نظامِ مصطفیٰ میں شاندار اور تاریخی کردار ادا کیا تھا) اور سابق امیرِ جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد صاحب علیہ رحمہ (آہ، کیا شاندار اور پُر عظیمت تھا وہ ''آدمی'') جس آسانی اور تسلسل کے ساتھ اپنی تقریروں اور گفتگوؤں میں کلامِ اقبال کو بروئے کار لا کر مجالس گرما دیتے تھے، یہ لمحات میرے لیے بڑے ہی یادگار اور ایمان افروز ہیں۔
اب کون ہے ہماری مجالس میں ایسا صاحبِ مطالعہ شخص جو کلامِ اقبال کا حافظ بھی ہو اور عاشقِ صادق بھی اور جسے کلامِ اقبال پڑھنے کا سلیقہ بھی آتا ہو؟ ہم کسقدر تہی دست ہو گئے ہیں۔ ہماری مجالس سے اب پروفیسر مرزا منور ایسا شارحِ کلامِ اقبال بھی اُٹھ کر جا چکا ہے۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ حتیٰ کہ اقبال کے نام پر قائم ہونے والے ادارے بھی عشاقِ اقبال اورحفاظِ کلامِ اقبال سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ ادارے نہیںبلکہ اقبال کی زبان میں، بجھی آگ کا ڈھیر ہیں۔ ایسے میں جناب سید علی گیلانی صاحب دامت برکاتہ کیوں نہ یاد آئیں جو دریائے نیلم کے پار، عین خون کی بہتی ندیوں میں بیٹھ کر کلامِ اقبال پڑھ کر سر دُھن رہے ہیں اور کلامِ اقبال کشمیریوں کو سُنا کر جذبہ حریت کی آنچ تیز کررہے ہیں۔
دو جِلدوں اور تقریباًپانچ صد صفحات پر مشتمل ''رودادِ قفس'' سید علی گیلانی صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد نے اِس کے مقدمے میں بجا لکھا ہے:''علامہ محمد اقبال اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کی چھاپ اُن ( علی گیلانی) کے فکر پر صاف دکھائی دیتی ہے۔''
دونوں جِلدوں میں جس کثرت کے ساتھ گیلانی صاحب نے اشعارِ اقبال سے اپنی رُوداد اور افکار کو سجایا اور سنوارا ہے، صاف عیاں ہوتا ہے کہ کلامِ اقبال ہمہ وقت اُن کے نوکِ زباں رہتا ہے۔ تقریر کرتے ہُوئے اور نثر لکھتے ہُوئے انھیں کلیاتِ اقبال کی ورق گردانی نہیں کرنا پڑتی۔ رُودادِ قفس کی دونوں جِلدوں میں انھوں نے بِلا تکان جس شوق اور ذوق سے اشعارِ اقبال کو برمحل استعمال کیا ہے، اگر مَیں اِس کالم میں صفحات اور ابواب کے حوالوں کے ساتھ ان سب اشعار کو یہاں نقل کرنا چاہوں بھی تو نہیں کر سکتا۔
کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے لاتعداد و متنوع بھارتی مظالم اور بھارتی استبداد تلے پسِ دیوارِ زنداں اُن پر کیا گزری، اِن سب کا ذکر کرتے ہُوئے جناب سید علی گیلانی کو بے اختیار حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کے اشعار یاد آ جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ گیلانی صاحب نے اپنی اِس خود نوشت سوانح حیات کے ذریعے کشمیریوں میں فکرِ اقبال اور کلامِ اقبال کی نہائت احسن طریقے سے ترویج و تبلیغ کی ہے تو ایسا کہنا شائد مبالغہ نہیں ہوگا۔
یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کلامِ اقبال سے بے پناہ عشق نے علی گیلانی صاحب کو بھارتی قید خانے میں قوت وہمت بھی عطا کیے رکھی اور سہارا بھی۔بھارتی قید خانے میں جس صبر اور استقامت کی ضرورت تھی، گیلانی صاحب نے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے بھی صبر کا درس حاصل کیے رکھا اور صحابہ کرام کی مبارک زندگیاں بھی اُن کے لیے مشعلِ راہ بنی رہیں۔ طاغوتی قوتوں کے مظالم کے مقابلے میں مجاہد صفت مردِ مومن کی عزیمت کیا ہوتی ہے، اِس کی کئی مثالیں ہمیں گیلانی صاحب کی اِس خود نوشت میں ملتی ہیں ۔
علامہ اقبال کے ساتھ ساتھ علی گیلانی صاحب نے اپنی ''رودادِ قفس'' میں کئی جگہ فیض احمد فیضؔ کو بھی محبت سے یاد کیا ہے ، اُن کے لیے دعائیں بھی کی ہیں اورزندان میں اپنا حالِ دل بیان کرنے کے لیے اُن کے اشعار بھی لکھے ہیں ۔ مثا ل کے طور پر جِلد دوم (صفحہ130)پر یوں لکھا: ''جناب فیض احمد فیضؔ کی اللہ مغفرت فرمائے۔ اُن کی ذہنی اور فکری لغزشیں اپنی بے پایاں رحمت کے سہارے معاف فرما دے۔اعلیٰ مقصد کے حصول کی راہ میں، قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور اس دوران انسانی فطرت پر گزرنے والی کیفیات کو انھوں نے جس بے مثال ادبی پیرائے میں بیان کیا ہے، نظریاتی اختلاف کے باوجود اُن کے کمالِ فن اور قدرتِ کلام کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ایسے ہی کسی موقع پر انھوں نے فرمایا ہے:''جنہیں خبر تھی کہ شرطِ نواگری کیا ہے/وہ خوش نوا گلہ قیدو بند کیا کرتے۔''