کون کرتا ہے دکھ کا مداوا
سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی ایسی کارکردگی دکھائی گئی ہے، مگر ہمارے معزز سیاسی رہنما شاید لفظ مکافات عمل سے واقف نہیں۔
آج کل پوری قوم خصوصاً سیاسی جماعتیں، صوبائی اور مرکزی حکومت شدید انتخابی بخار میں مبتلا ہیں، سارا زور کرسی اقتدار تک پہنچنے پر صرف کیا جا رہا ہے، اور حصول ووٹ کے لیے دعوے ایسے ایسے کہ جنھیں عقل تسلیم کرے نہ دل قبول کرے، جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے، اپنا اتحاد پارہ پارہ ہورہا ہے مگر فرمایا جا رہا ہے کہ اس بار سندھ کا وزیراعلیٰ اور گورنر دونوں ہمارے ہوں گے، چہ خوب۔
پہلے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو تو دوسری جماعتوں میں جانے سے روک لیجیے، اپنے حیران و پریشان ووٹر کی تسکین قلب تو فرما لیجیے، جن کو ہمیشہ سیاست کرنی ہے وہ تو جس پارٹی کو اقتدار سے قریب دیکھ رہے ہیں اس کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں ڈیڑھ ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا اور آپ ہیں کہ اختلاف کے بہت جلد خاتمے کے نعرے لگا کر اپنے ووٹر اور ہمدردوں کو مخمصے میں ڈالے ہوئے ہیں اور اختلاف ہے کہ روز اول کی طرح جوں کا توں ہے، ایک گروپ کے سربراہ فرما رہے ہیں کہ پی ایس پی کے سربراہ اور صدر بھی ایک دن واپس آئیں گے، تو دوسرا گروپ فرما رہا ہے کہ فلاں وقت تک جو آئے اس کو واپس لیا جائے گا بعد میں آنے والوں کو ان کی پچھلی حیثیت میں قبول نہیں کیا جائے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ''آ کون رہا ہے'' لوگ تو جا زیادہ رہے ہیں۔ مگر واہ رے خوش فہمی۔
دوسری جانب اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر آنے والوں کے باعث پی پی کے شریک چیئرمین (حالانکہ اصل چیئرمین وہ خود ہیں، صاحبزادے شاید شریک ہوں) فرما رہے ہیں کہ ''قومی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر میں خود بیٹھوں گا'' ان کے اس بیان سے تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے۔ خدا اس گاڑی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، اگر موصوف اللہ نہ کرے ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگئے تو گاڑی (ہمارے قلم پر خاک) کسی کھائی میں ہی گرے گی، مگر یہ نہ سمجھیے کہ وہ کھائی کوئی عام کھائی ہوگی۔
دراصل وہ بڑی اہم کھائی ہے جس میں ملک کی تمام دولت اور وسائل پہلے ہی جمع کردیے گئے ہیں، قوم تو گئی کھائی میں (خدا نہ کرے) اور موصوف اس گاڑی میں سب جمع شدہ بھر کے کسی خفیہ راستے سے سلامت نکل جائیں گے، دنیا حیران رہ جائے گی، کیونکہ بقول ان کے چمچوں کے قوم کو ان کی اصل صلاحیتوں کا علم ہی نہیں ہے اور وہ خود بھی ببانگ دہل فرماتے ہیں سیاست مجھ سے سیکھو۔ مخالفین کو ضرور سیکھنی چاہیے اگر واقعی یہی سیاست ہے تو۔
نئی حلقہ بندیوں پر شور تو سب مچا رہے ہیں بطور خاص سندھ میں ان شور مچانے والوں میں خود حکومت سندھ بھی شامل ہے۔ مگر جو کام کوٹہ سسٹم کے ذریعے کیا گیا تھا تقریباً چالیس سال قبل وہی کام نئی حلقہ بندیوں میں بھی پیش رکھا گیا ہے، جوکہ قبل از انتخابات دھاندلی کی واضح کوشش ہے، سقوط ڈھاکہ کے تجربے کے بعد بھی حکمران ابھی تک ہوش میں نہیں آئے کہ کسی کی اکثریت کو مصنوعی طور پر اقلیت بنانے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں، کسی کے حق کو تسلیم نہ کرنے کا اثر کیا ہوسکتا ہے۔
شہری سندھ میں خاص افراد کو دیوار سے لگانے کے لیے دیہی علاقوں کو شہری حلقوں میں شامل کرکے یہ کوشش کی گئی ہے نتائج کی پرواہ کیے بغیر جوکہ حکومت سندھ کی بدنیتی کا واضح ثبوت ہے۔ صرف ایک حلقے کی مثال پیش کرکے آگے بڑھ جاؤں گی۔ سکھر کا حلقہ پی ایس ون(سابقہ) اور موجودہ پی ایس 24 کے لیے شہر کے درمیانی یوسیز کو اس میں سے کاٹ کر دیہی علاقوں کو شامل کرکے قبل از انتخابات نتائج پر اثرانداز ہونے کی مکروہ سازش کی گئی ہے۔
ایسی ہی صورت کراچی کے کئی حلقوں میں بھی پیدا کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی ایسی کارکردگی دکھائی گئی ہے، مگر ہمارے معزز سیاسی رہنما شاید لفظ مکافات عمل سے واقف نہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ باری باری کا جو کھیل شروع کیا گیا تھا اس میں اب باری آگئی ہے تو سارا گراؤنڈ تیار کرلیا جائے گا اور ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے گا جس میں پارٹی مفاد پر نظر ہے ملکی مفاد سے کسی ایک بھی جماعت کو دلچسپی نہیں۔ جنھوں نے اس بار اپنی ''باری'' لینی ہے وہ اس دفعہ بھی پہلے کی طرح وقت سے پہلے ہی ہٹائے گئے۔
چلیے ہٹائے گئے مگر ملک کا جو حال انھوں نے کیا اس کو کون درست کرے گا؟ اپنی باری لینے کے متمنی جو شد و مد سے ہر صورت، ہر حال میں اقتدار کے لیے بے چین ہو رہے ہیں کیا وہ پہلے برسر اقتدار نہیں رہ چکے، کیا کیا تھا ملک کے لیے؟
سندھ میں تو زیادہ تر وہی حکومت میں رہے سارے اداروں سے لوٹ کھسوٹ کر لانچز بھر بھر کے غریبوں کے خون پسینے کی کمائی باہر بھیجی گئی۔ کچھ لانچز تو سمندر برد بھی ہوئیں، کاش وہ دولت غریبوں میں تقسیم کردی جاتی تو وہ ہاتھ اٹھا کر دامن پھیلاکر آپ کے برسر اقتدار آنے کی دعائیں کرتے مگر اب تو سب دم بخود ہیں کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کو لوگ دل سے اقتدار میں آتا ہوا قبول کرلیں۔ ووٹ کی حد تک عوام اور سیاسی رہنماؤں کا تعلق رہتا ہے بعد میں کون عوام کے دکھ کا مداوا کرتا ہے۔ اور اس کی ضرورت بھی کیا، اقتدار مل گیا، سنہرے خواب عوام کا مقدر ہیں اور رہیں گے۔
پہلے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو تو دوسری جماعتوں میں جانے سے روک لیجیے، اپنے حیران و پریشان ووٹر کی تسکین قلب تو فرما لیجیے، جن کو ہمیشہ سیاست کرنی ہے وہ تو جس پارٹی کو اقتدار سے قریب دیکھ رہے ہیں اس کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں ڈیڑھ ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا اور آپ ہیں کہ اختلاف کے بہت جلد خاتمے کے نعرے لگا کر اپنے ووٹر اور ہمدردوں کو مخمصے میں ڈالے ہوئے ہیں اور اختلاف ہے کہ روز اول کی طرح جوں کا توں ہے، ایک گروپ کے سربراہ فرما رہے ہیں کہ پی ایس پی کے سربراہ اور صدر بھی ایک دن واپس آئیں گے، تو دوسرا گروپ فرما رہا ہے کہ فلاں وقت تک جو آئے اس کو واپس لیا جائے گا بعد میں آنے والوں کو ان کی پچھلی حیثیت میں قبول نہیں کیا جائے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ''آ کون رہا ہے'' لوگ تو جا زیادہ رہے ہیں۔ مگر واہ رے خوش فہمی۔
دوسری جانب اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر آنے والوں کے باعث پی پی کے شریک چیئرمین (حالانکہ اصل چیئرمین وہ خود ہیں، صاحبزادے شاید شریک ہوں) فرما رہے ہیں کہ ''قومی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر میں خود بیٹھوں گا'' ان کے اس بیان سے تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے۔ خدا اس گاڑی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، اگر موصوف اللہ نہ کرے ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگئے تو گاڑی (ہمارے قلم پر خاک) کسی کھائی میں ہی گرے گی، مگر یہ نہ سمجھیے کہ وہ کھائی کوئی عام کھائی ہوگی۔
دراصل وہ بڑی اہم کھائی ہے جس میں ملک کی تمام دولت اور وسائل پہلے ہی جمع کردیے گئے ہیں، قوم تو گئی کھائی میں (خدا نہ کرے) اور موصوف اس گاڑی میں سب جمع شدہ بھر کے کسی خفیہ راستے سے سلامت نکل جائیں گے، دنیا حیران رہ جائے گی، کیونکہ بقول ان کے چمچوں کے قوم کو ان کی اصل صلاحیتوں کا علم ہی نہیں ہے اور وہ خود بھی ببانگ دہل فرماتے ہیں سیاست مجھ سے سیکھو۔ مخالفین کو ضرور سیکھنی چاہیے اگر واقعی یہی سیاست ہے تو۔
نئی حلقہ بندیوں پر شور تو سب مچا رہے ہیں بطور خاص سندھ میں ان شور مچانے والوں میں خود حکومت سندھ بھی شامل ہے۔ مگر جو کام کوٹہ سسٹم کے ذریعے کیا گیا تھا تقریباً چالیس سال قبل وہی کام نئی حلقہ بندیوں میں بھی پیش رکھا گیا ہے، جوکہ قبل از انتخابات دھاندلی کی واضح کوشش ہے، سقوط ڈھاکہ کے تجربے کے بعد بھی حکمران ابھی تک ہوش میں نہیں آئے کہ کسی کی اکثریت کو مصنوعی طور پر اقلیت بنانے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں، کسی کے حق کو تسلیم نہ کرنے کا اثر کیا ہوسکتا ہے۔
شہری سندھ میں خاص افراد کو دیوار سے لگانے کے لیے دیہی علاقوں کو شہری حلقوں میں شامل کرکے یہ کوشش کی گئی ہے نتائج کی پرواہ کیے بغیر جوکہ حکومت سندھ کی بدنیتی کا واضح ثبوت ہے۔ صرف ایک حلقے کی مثال پیش کرکے آگے بڑھ جاؤں گی۔ سکھر کا حلقہ پی ایس ون(سابقہ) اور موجودہ پی ایس 24 کے لیے شہر کے درمیانی یوسیز کو اس میں سے کاٹ کر دیہی علاقوں کو شامل کرکے قبل از انتخابات نتائج پر اثرانداز ہونے کی مکروہ سازش کی گئی ہے۔
ایسی ہی صورت کراچی کے کئی حلقوں میں بھی پیدا کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی ایسی کارکردگی دکھائی گئی ہے، مگر ہمارے معزز سیاسی رہنما شاید لفظ مکافات عمل سے واقف نہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ باری باری کا جو کھیل شروع کیا گیا تھا اس میں اب باری آگئی ہے تو سارا گراؤنڈ تیار کرلیا جائے گا اور ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے گا جس میں پارٹی مفاد پر نظر ہے ملکی مفاد سے کسی ایک بھی جماعت کو دلچسپی نہیں۔ جنھوں نے اس بار اپنی ''باری'' لینی ہے وہ اس دفعہ بھی پہلے کی طرح وقت سے پہلے ہی ہٹائے گئے۔
چلیے ہٹائے گئے مگر ملک کا جو حال انھوں نے کیا اس کو کون درست کرے گا؟ اپنی باری لینے کے متمنی جو شد و مد سے ہر صورت، ہر حال میں اقتدار کے لیے بے چین ہو رہے ہیں کیا وہ پہلے برسر اقتدار نہیں رہ چکے، کیا کیا تھا ملک کے لیے؟
سندھ میں تو زیادہ تر وہی حکومت میں رہے سارے اداروں سے لوٹ کھسوٹ کر لانچز بھر بھر کے غریبوں کے خون پسینے کی کمائی باہر بھیجی گئی۔ کچھ لانچز تو سمندر برد بھی ہوئیں، کاش وہ دولت غریبوں میں تقسیم کردی جاتی تو وہ ہاتھ اٹھا کر دامن پھیلاکر آپ کے برسر اقتدار آنے کی دعائیں کرتے مگر اب تو سب دم بخود ہیں کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کو لوگ دل سے اقتدار میں آتا ہوا قبول کرلیں۔ ووٹ کی حد تک عوام اور سیاسی رہنماؤں کا تعلق رہتا ہے بعد میں کون عوام کے دکھ کا مداوا کرتا ہے۔ اور اس کی ضرورت بھی کیا، اقتدار مل گیا، سنہرے خواب عوام کا مقدر ہیں اور رہیں گے۔