اصلاح فرد و معاشرہ
ہر مسلمان کے لیے قرآن کا یہ فرمان، خدا سے ڈرو اور یقین رکھو کہ ایک روز ضرور اس سے ملاقات ہوگی۔
عقیدہ آخرت، توحید اور رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا اساسی اور بنیادی اصول اور عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ دراصل عقیدہ توحید ہی کا تجربہ، مشاہدہ اور عملی مظاہرہ ہے۔ ایمان بالیوم الآخر کا مطلب ہے کہ ''اس حقیقت کی صداقت پر غیر مشکوک اور غیر متزلزل یقین محکم کہ موت کے بعد دوبارہ حیات بسلسلہ جزا اعمال انسان ضرور ملے گی۔''
یہ دنیا انسان کے لیے مرکز امتحان و آزمائش ہے۔ آخرت کے پیش سفر کے لیے زاد سفر پیدا کرنے، لباس تقویٰ تیار کرنے اور حسن عمل کا ذخیرہ کرنے کی جگہ ہے۔ عمر کی گھڑی کو بحکم الٰہی، موت کی گھڑی روک دیتی ہے جو قیامت کے روز پھر چل پڑے گی۔ جس طرح شکم مادر سے بچے کی ولادت ہوتی ہے اسی طرح آلہ موت کے ذریعے، فرشتہ اجل، عرصہ حیات کے دوران تعمیر شدہ شخصیت، تشکیل شدہ خودی کو جسم انسانی سے بے کم و کاست نکال کر اپنی قدرت اور حفاظت میں لے کر اللہ، خالق و مالک کے حضور پیش کردیتا ہے۔ اس طرح ''موت فنا کا نام نہیں بلکہ انا کا جسم سے علیحدگی اور خودی کا خدا کے سپردگی کا نام ہے۔''
موت کے ذریعے انسان عالم شہادۃ (امتحان گاہ) سے نکل کر عالم برزخ (انتظار گاہ) میں پہنچ جاتا ہے جسم سے روح کا تعلق منقطع ہوجانے کے باوجود، شعور کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ اجتماعی ہلاکت یعنی الساعت کے بعد قیامت کے دن عالم برزخ سے نکل کر عالم محشر (اعلان گاہ) میں آجاتا ہے جہاں وہ اللہ کی عدالت میں اپنے مقدمہ زندگی کا فیصلہ سنتا ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی ابدی قیام گاہ کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں بطور انعام حسن عمل جنت اس کا مقام ہوتا ہے۔ اور ناکامی کی صورت میں بطور سزا سو عمل دوزخ اس کا ٹھکانہ ہوتا ہے۔ اس طرح داستان حیات کی حقیقت اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔
دل بینا، عقل سلیم اور چشم بصیرت کے لیے قرآن حکیم نے عقیدہ آخرت کے بنیادی نکات بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیے ہیں تاکہ انسان کائنات میں اپنا مقام اور مقصد تخلیق کائنات و حیات کو بخوبی سمجھ سکے اور کسی قسم کی غلط فہمی، کج فہمی اور کم فہمی کا شکار نہ ہو۔ چند اہم بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) آخرت میں اس ذات کی عدالت میں انسان پیش ہوگا جس کا نام اللہ ہے۔ اور جس کا علم، اول تا آخر، ظاہر تا باطن ہر چیز پر محیط ہے۔ وہ بذات خود، براہ راست، انسان کے اقوال، افعال اور احوال غرض یہ کہ اس کی ایک ایک حرکت کا عینی شاہد ہے۔ وہ ذات پاک ایسی خبیر اور بصیر ہے کہ قول و عمل ہی نہیں بلکہ ان کے پس پردہ جو لطیف نیتیں، ارادے، خیالات اور اغراض و مقاصد کار فرما ہوتے ہیں اور جو دل کی تہ میں چھپے ہوتے ہیں ان سے بھی وہ کماحقہ واقف ہے۔
(2) انسان کو معلوم بھی نہیں ہوتا، محسوس بھی نہیں ہوتا لیکن یہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے کہ ہر وقت ہر لمحہ، ہر گھڑی ہر جگہ ہر حال میں ہر فرد کے ساتھ کراماً کاتبین یعنی مکرم، محترم، معزز، امین دو نگران فرشتے لگے ہوئے ہیں جنھیں عمل ہی نہیں نیت کا بھی علم ہوتا ہے۔ جو صرف یہی نہیں کہ انسان کی دوران حیات دنیوی کی آواز، حرکات و سکنات کو محفوظ کر رہے ہیں بلکہ موت کے بعد بھی اس کی آواز پر جتنے لوگوں نے، جتنے عرصے تک لبیک کہا اس کے نقش قدم پر چلے اس کے مقتدی بنے اس کے افکار و نظریات کو راہ عمل بنایا وہ سب آثار قَدَّمَتْ تا اَخَّرَتْ اسی کے نامہ اعمال میں لکھ رہے ہیں اور بحیثیت معلم، مبلغ، امام اور رہنما کے وہ اپنے نظریات کے منفی اور مثبت اثرات جو مخلوق خدا کی زندگی پر پڑے بذات خود خدا کے حضور ذمے دار، مسؤل اور جواب دہ ہے کیونکہ دل کی آواز، زبان کا اثر اور اس کے کلام ہی کی تاثیر تھی جس نے رنگ جمایا اور دکھایا۔
حاصل کلام یہ کہ مکرم اور امین کراماً کاتبین، عقل انسانی سے ماورا نامعلوم انداز میں انسان کی نییات، اقوال، اعمال اور آثار سب بے کم و کاست جوں کی توں محفوظ کر رہے ہیں۔ قرآن اور صاحب قرآن شاہد ہیں کہ انسانی زندگی کی پوری دستاویزی فلم زیر تکمیل ہے جو آخرت میں بطور شہادت اس کو دکھا دی جائے گی۔
(3) آخرت میں اس جسم جو خودی کا عارضی مسکن تھا اس کا ایک ایک عضو، زبان، ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، کان اور کھال اس کی تعمیری اور تخریبی سرگرمیوں کی جن میں کہ اس نے ان کو ملوث کیا، شہادت دیں گے اس کے کرتوتوں کو بیان کریں گے۔
(4) آخرت میں زمین انسان کے ان کاموں اور حرکتوں کی شہادت دے گی جو اس نے اہل زمین کے ساتھ کیے۔ پوری حکایت جرم و گناہ بتا دے گی کس کو قتل کیا کس کی عزت لوٹی اور کہاں لوٹی۔ جائے واردات چھپ نہ سکے گی۔ ناحق قتل خود بول اٹھے گا۔ ظلم کا پردہ بے نقاب ہو جائے گا۔
(5) آخرت میں انسان کے ظاہر کو نہیں باطن کو، کمیت کو نہیں کیفیت کو، صورت کو نہیں سیرت کو، عمل کو نہیں اس کی نیت، ارادہ، غرض اور مقصد کو دیکھا جائے گا۔ دلوں کے اسرار یعنی عمل کے باطنی محرکات کو جانچا جائے گا۔ اعمال کو صرف اور صرف رضائے الٰہی کی میزان میں تولا جائے گا۔ اس معیار، کسوٹی اور میزان پر جو پورے اتریں گے وہ نیک اور صحیح قرار پائیں گے اور جو پورے نہ اترے وہ بد اور غلط قرار دیے جائیں گے۔ رضائے الٰہی کی نیت سے خالی عمل بے بنیاد، کھوکھلا اور ناقابل قبول ہوگا۔
(6) آخرت، مکمل جزا اور سزا، قانون اخلاق کی حکمرانی کا دن ہوگا۔ اور قانون ناقابل شکست ہوگا۔ مسلمین و کافرین، صالحین و منافقین، متقین و مصلحین و مفسدین و فاجرین، موحدین و مشرکین، مومنین و ظالمین، ہرگز ایک ہی صف میں کھڑے نہ ہوں گے۔ جس طرح بینا و نابینا، نور و ظلمات، عالم و جاہل برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح ہر ایک کے درجات ان کے اعمال کے لحاظ سے ہوں گے۔ ظالم کا نہ کوئی حمیم ہوگا اور نہ کوئی شفیع۔ الا یہ کہ اللہ کسی کو اپنے سایہ رحمت و مغفرت میں لے لے۔
(7) آخرت میں ذمے داری کی جوابدہی انفرادی ہوگی۔ ہر شخص اپنے کیے کا خود بھرے گا۔ کوئی دوسرے کے اعمال کا بوجھ اور تکلیف کا وزن نہیں اٹھائے گا۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی جس کی خاطر کسی نے گناہ کیا گمراہ ہوا اس کو مدد کے لیے پکارے گا تو وہ اس کی مدد کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کرلے گا۔ طوطے کی طرح نظریں پھیر لے گا کوئی کسی کی تکلیف اور عذاب میں کام نہ آئے گا چاہے وہ جگری دوست اور قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ خونی رشتوں کی تاثیر محبت سلب کردی جائے گی۔ دھن، دھونس، دھاندلی، رشوت، سفارش سے کام نہ چلے گا۔ صرف اس کے نیک انفرادی اعمال اس کی نجات کا ذریعہ بنیں گے۔
المختصر یہ ہیں عقیدہ آخرت کے چند بنیادی نکات۔ لیکن کیا روئے زمین پر جہل خرد میں مبتلا ایسے انسان کا نام معلوم ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایسی بصیرت رکھنے والی عدالت کو بھی دھوکہ دے کر اپنے جرم و گناہ کے الزام اور سزا سے باعزت بری ہوجائے گا۔
میں کہتا ہوں ایسا انسان آج کی سائنس کی دنیا میں بھی موجود ہے جو اپنے جرائم کے انجام سے بے خبر تو نہیں بے فکر ضرور ہے، اس کا نام مسلمان ہے۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب کی مثل اس کے اخلاق، اعمال، باہمی عداوت، تنظیمی گراوٹ، انتشار ملت اس کی آخرت سے غفلت دلیل روشن ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بقول غالب:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہر مسلمان کے لیے قرآن کا یہ فرمان، خدا سے ڈرو اور یقین رکھو کہ ایک روز ضرور اس سے ملاقات ہوگی ایسا پیغام اور نور ہدایت ہے کہ جس کی روشنی میں ہم سب اپنا احتساب آپ اور محاسبہ بخوبی کرسکتے ہیں۔
یہ دنیا انسان کے لیے مرکز امتحان و آزمائش ہے۔ آخرت کے پیش سفر کے لیے زاد سفر پیدا کرنے، لباس تقویٰ تیار کرنے اور حسن عمل کا ذخیرہ کرنے کی جگہ ہے۔ عمر کی گھڑی کو بحکم الٰہی، موت کی گھڑی روک دیتی ہے جو قیامت کے روز پھر چل پڑے گی۔ جس طرح شکم مادر سے بچے کی ولادت ہوتی ہے اسی طرح آلہ موت کے ذریعے، فرشتہ اجل، عرصہ حیات کے دوران تعمیر شدہ شخصیت، تشکیل شدہ خودی کو جسم انسانی سے بے کم و کاست نکال کر اپنی قدرت اور حفاظت میں لے کر اللہ، خالق و مالک کے حضور پیش کردیتا ہے۔ اس طرح ''موت فنا کا نام نہیں بلکہ انا کا جسم سے علیحدگی اور خودی کا خدا کے سپردگی کا نام ہے۔''
موت کے ذریعے انسان عالم شہادۃ (امتحان گاہ) سے نکل کر عالم برزخ (انتظار گاہ) میں پہنچ جاتا ہے جسم سے روح کا تعلق منقطع ہوجانے کے باوجود، شعور کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ اجتماعی ہلاکت یعنی الساعت کے بعد قیامت کے دن عالم برزخ سے نکل کر عالم محشر (اعلان گاہ) میں آجاتا ہے جہاں وہ اللہ کی عدالت میں اپنے مقدمہ زندگی کا فیصلہ سنتا ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی ابدی قیام گاہ کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں بطور انعام حسن عمل جنت اس کا مقام ہوتا ہے۔ اور ناکامی کی صورت میں بطور سزا سو عمل دوزخ اس کا ٹھکانہ ہوتا ہے۔ اس طرح داستان حیات کی حقیقت اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔
دل بینا، عقل سلیم اور چشم بصیرت کے لیے قرآن حکیم نے عقیدہ آخرت کے بنیادی نکات بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیے ہیں تاکہ انسان کائنات میں اپنا مقام اور مقصد تخلیق کائنات و حیات کو بخوبی سمجھ سکے اور کسی قسم کی غلط فہمی، کج فہمی اور کم فہمی کا شکار نہ ہو۔ چند اہم بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) آخرت میں اس ذات کی عدالت میں انسان پیش ہوگا جس کا نام اللہ ہے۔ اور جس کا علم، اول تا آخر، ظاہر تا باطن ہر چیز پر محیط ہے۔ وہ بذات خود، براہ راست، انسان کے اقوال، افعال اور احوال غرض یہ کہ اس کی ایک ایک حرکت کا عینی شاہد ہے۔ وہ ذات پاک ایسی خبیر اور بصیر ہے کہ قول و عمل ہی نہیں بلکہ ان کے پس پردہ جو لطیف نیتیں، ارادے، خیالات اور اغراض و مقاصد کار فرما ہوتے ہیں اور جو دل کی تہ میں چھپے ہوتے ہیں ان سے بھی وہ کماحقہ واقف ہے۔
(2) انسان کو معلوم بھی نہیں ہوتا، محسوس بھی نہیں ہوتا لیکن یہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے کہ ہر وقت ہر لمحہ، ہر گھڑی ہر جگہ ہر حال میں ہر فرد کے ساتھ کراماً کاتبین یعنی مکرم، محترم، معزز، امین دو نگران فرشتے لگے ہوئے ہیں جنھیں عمل ہی نہیں نیت کا بھی علم ہوتا ہے۔ جو صرف یہی نہیں کہ انسان کی دوران حیات دنیوی کی آواز، حرکات و سکنات کو محفوظ کر رہے ہیں بلکہ موت کے بعد بھی اس کی آواز پر جتنے لوگوں نے، جتنے عرصے تک لبیک کہا اس کے نقش قدم پر چلے اس کے مقتدی بنے اس کے افکار و نظریات کو راہ عمل بنایا وہ سب آثار قَدَّمَتْ تا اَخَّرَتْ اسی کے نامہ اعمال میں لکھ رہے ہیں اور بحیثیت معلم، مبلغ، امام اور رہنما کے وہ اپنے نظریات کے منفی اور مثبت اثرات جو مخلوق خدا کی زندگی پر پڑے بذات خود خدا کے حضور ذمے دار، مسؤل اور جواب دہ ہے کیونکہ دل کی آواز، زبان کا اثر اور اس کے کلام ہی کی تاثیر تھی جس نے رنگ جمایا اور دکھایا۔
حاصل کلام یہ کہ مکرم اور امین کراماً کاتبین، عقل انسانی سے ماورا نامعلوم انداز میں انسان کی نییات، اقوال، اعمال اور آثار سب بے کم و کاست جوں کی توں محفوظ کر رہے ہیں۔ قرآن اور صاحب قرآن شاہد ہیں کہ انسانی زندگی کی پوری دستاویزی فلم زیر تکمیل ہے جو آخرت میں بطور شہادت اس کو دکھا دی جائے گی۔
(3) آخرت میں اس جسم جو خودی کا عارضی مسکن تھا اس کا ایک ایک عضو، زبان، ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، کان اور کھال اس کی تعمیری اور تخریبی سرگرمیوں کی جن میں کہ اس نے ان کو ملوث کیا، شہادت دیں گے اس کے کرتوتوں کو بیان کریں گے۔
(4) آخرت میں زمین انسان کے ان کاموں اور حرکتوں کی شہادت دے گی جو اس نے اہل زمین کے ساتھ کیے۔ پوری حکایت جرم و گناہ بتا دے گی کس کو قتل کیا کس کی عزت لوٹی اور کہاں لوٹی۔ جائے واردات چھپ نہ سکے گی۔ ناحق قتل خود بول اٹھے گا۔ ظلم کا پردہ بے نقاب ہو جائے گا۔
(5) آخرت میں انسان کے ظاہر کو نہیں باطن کو، کمیت کو نہیں کیفیت کو، صورت کو نہیں سیرت کو، عمل کو نہیں اس کی نیت، ارادہ، غرض اور مقصد کو دیکھا جائے گا۔ دلوں کے اسرار یعنی عمل کے باطنی محرکات کو جانچا جائے گا۔ اعمال کو صرف اور صرف رضائے الٰہی کی میزان میں تولا جائے گا۔ اس معیار، کسوٹی اور میزان پر جو پورے اتریں گے وہ نیک اور صحیح قرار پائیں گے اور جو پورے نہ اترے وہ بد اور غلط قرار دیے جائیں گے۔ رضائے الٰہی کی نیت سے خالی عمل بے بنیاد، کھوکھلا اور ناقابل قبول ہوگا۔
(6) آخرت، مکمل جزا اور سزا، قانون اخلاق کی حکمرانی کا دن ہوگا۔ اور قانون ناقابل شکست ہوگا۔ مسلمین و کافرین، صالحین و منافقین، متقین و مصلحین و مفسدین و فاجرین، موحدین و مشرکین، مومنین و ظالمین، ہرگز ایک ہی صف میں کھڑے نہ ہوں گے۔ جس طرح بینا و نابینا، نور و ظلمات، عالم و جاہل برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح ہر ایک کے درجات ان کے اعمال کے لحاظ سے ہوں گے۔ ظالم کا نہ کوئی حمیم ہوگا اور نہ کوئی شفیع۔ الا یہ کہ اللہ کسی کو اپنے سایہ رحمت و مغفرت میں لے لے۔
(7) آخرت میں ذمے داری کی جوابدہی انفرادی ہوگی۔ ہر شخص اپنے کیے کا خود بھرے گا۔ کوئی دوسرے کے اعمال کا بوجھ اور تکلیف کا وزن نہیں اٹھائے گا۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی جس کی خاطر کسی نے گناہ کیا گمراہ ہوا اس کو مدد کے لیے پکارے گا تو وہ اس کی مدد کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کرلے گا۔ طوطے کی طرح نظریں پھیر لے گا کوئی کسی کی تکلیف اور عذاب میں کام نہ آئے گا چاہے وہ جگری دوست اور قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ خونی رشتوں کی تاثیر محبت سلب کردی جائے گی۔ دھن، دھونس، دھاندلی، رشوت، سفارش سے کام نہ چلے گا۔ صرف اس کے نیک انفرادی اعمال اس کی نجات کا ذریعہ بنیں گے۔
المختصر یہ ہیں عقیدہ آخرت کے چند بنیادی نکات۔ لیکن کیا روئے زمین پر جہل خرد میں مبتلا ایسے انسان کا نام معلوم ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایسی بصیرت رکھنے والی عدالت کو بھی دھوکہ دے کر اپنے جرم و گناہ کے الزام اور سزا سے باعزت بری ہوجائے گا۔
میں کہتا ہوں ایسا انسان آج کی سائنس کی دنیا میں بھی موجود ہے جو اپنے جرائم کے انجام سے بے خبر تو نہیں بے فکر ضرور ہے، اس کا نام مسلمان ہے۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب کی مثل اس کے اخلاق، اعمال، باہمی عداوت، تنظیمی گراوٹ، انتشار ملت اس کی آخرت سے غفلت دلیل روشن ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بقول غالب:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہر مسلمان کے لیے قرآن کا یہ فرمان، خدا سے ڈرو اور یقین رکھو کہ ایک روز ضرور اس سے ملاقات ہوگی ایسا پیغام اور نور ہدایت ہے کہ جس کی روشنی میں ہم سب اپنا احتساب آپ اور محاسبہ بخوبی کرسکتے ہیں۔