ماضی کو فراموش نہ کریں

اقتدار کی اَنا اس کو بدمست ہونے نہ دے اور جاہ و اقتدار کا نشہ اس کے دل و دماغ تک رسائی نہ پاسکے۔

اقتدار کی اَنا اس کو بدمست ہونے نہ دے اور جاہ و اقتدار کا نشہ اس کے دل و دماغ تک رسائی نہ پاسکے۔فوٹو : فائل

اگر دنیا کے انصاف پرور اور دانش مند ترین حکم رانوں کی فہرست بنائی جائے تو اس میں حضرت عمرؓ کا نام نمایاں ہوگا۔

حضرت عمرؓ کی شخصیت مختلف پہلوؤں سے نہایت مکمل اور جامع تھی۔ آپؓ کی شخصیت کا ایک اہم وصف یہ تھا کہ اقتدار نے کبھی آپؓ کو غیر متوازن نہ ہونے دیا۔ یہ آسان نہیں کہ آدمی کرسیِ اقتدار پر متمکن ہو، ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ اس کے قلم سے لکھا جاتا ہو، کو ئی زبان اس کو چیلنج کرنے والی نہ ہو، لیکن پھر بھی اقتدار کی اَنا اس کو بدمست ہونے نہ دے اور جاہ و اقتدار کا نشہ اس کے دل و دماغ تک رسائی نہ پاسکے، یہ اسی وقت ممکن ہے کہ انسان اپنے ماضی کو یاد رکھے اور اپنی پرانی سطح کو فراموش نہ کرے۔

حضرت عمرؓ میں پوری طرح یہ وصف موجود تھا، وہ خلیفہ ہونے کے بعد اُمت کے ایک عام فرد کی طرح رہتے تھے، لباس و پوشاک ہو، کھانا پینا ہو، لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور عمومی سلوک ہو، معیارِ زندگی کے اعتبار سے انہوں نے اپنے آپ کو عام لوگوں کی سطح پر رکھا تھا، اس کا اثر تھا کہ وہ غریبوں کا دُکھ جانتے تھے اور ان کے لیے غریبوں کے مسائل ''جگ بیتی '' نہیں بل کہ ''آپ بیتی'' تھے۔ اس لیے ہمیں ان کی زندگی میں عدل و انصاف، مساوات و برابری، غریب پروری اور کم زوروں اور زیر دستوں کی دست گیری کے جو نمونے ملتے ہیں، کہیں اور مشکل ہی سے ملیں گے۔

عتبہ بن فرقد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف سے آذر بائیجان کی مہم پر مامور تھے، فتح آذر بائیجان کے موقع پر انہوں نے کھجور اور گھی سے تیار کردہ ایک خوش ذائقہ کھانا تیار کیا، جسے ''خبیص'' کہا جاتا ہے اور اسے اپنے غلام سحیم کے ساتھ چمڑے اور کپڑے سے چھپا کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں بھیجا، سحیم آئے، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا لائے ہو، سونا یا چاندی؟ پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف سے غلاف ہٹایا گیا، آپ رضی اﷲ عنہ نے چکھا اور فرمایا کہ عمدہ اور خصوصی طور پر بنایا ہوا معلوم ہوتا ہے، پھر دریافت فرمایا کہ تمام ہی مہاجرین نے اس سے آسودہ ہو کر کھایا ہے؟ سحیم نے عرض کیا: نہیں، یہ تو عتبہ نے خاص طور پر آپ کے لیے بنوایا ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی، آپؓ نے فوراً عتبہ کو ایک غصے بھرا خط لکھا کہ یہ جو بیت المال کا مال ہے، یہ نہ تری محنت کا ہے اور نہ تری ماں اور ترے باپ کی محنت کا ہے، پھر تحریر فرمایا کہ میں وہی کھاؤں گا جس کو عام مسلمان آسودہ ہو کر کھائیں۔ (بہ حوالہ: فتوح البلدان)


آج ان لوگوں کا تو خیر کیا ذکر، جو صبح سے شام تک مادیت میں ڈوبے ہوئے ہیں، جو خواب بھی روپوں پیسوں کا دیکھتے ہیں اور جن کی بیداری کا ہر ایک نفس سیم و زر کی فکر میں گزرتا ہے، اہل دین بھی کیا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے عمل کو اسوہ بنانے کو تیار ہیں؟ دینی مجلسوں اور محفلوں میں بھی من و تو اور ما و شما کا امتیاز موجود ہے، بڑوں چھوٹوں کا فرق ہے، اکابر و اصاغر کی تفریق ہے اور تقویٰ کی بنیاد پر نہیں، بل کہ دولت و غربت اور شہرت و گم نامی کی نسبت سے دائرے قائم کردیے گئے ہیں، جب معمولی سا اقتدار آدمی کو توازن سے محروم کر دیتا ہے تو ان لوگوں سے کیا گلہ جو اقتدار کی اونچی چوٹیوں پر پہنچنے کے بعد نیچے رہنے والوں کو دیکھ نہیں پاتے یا ان کو اپنے مقابلے میں کم قامت خیال کرتے ہیں۔

انسان دوسرے انسان کو انسان سمجھنا چھوڑ دے اور کوئی ادنیٰ مخلوق تصور کرنے لگے یا خود اپنے آپ کو انسان سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق خیال کرنے لگے تو دوسرے انسانوں کے غم کی چوٹ اپنے کلیجے پر محسوس نہیں کرسکتا، یہی چیز انسان کے مزاج کو غیر متوازن اور طریقۂ فکر کو نامنصفانہ بنا دیتی ہے، پھر انسان اپنے ماضی کو بھولتا چلا جاتا ہے اور جوں جوں وہ اپنے ماضی سے دور ہوتا جاتا ہے، کبر و تعلی بڑھتی جاتی ہے، اس لیے جب انسان دولت و ثروت، حکومت و اقتدار اور شہرت و نام وری کے بام پر چڑھنے لگے تو ہر زینے پر قدم رکھتے ہوئے پچھلا زینہ اور اس زینہ کے نیچے بچھی ہوئی زمین کو دیکھتا جائے اور یاد رکھے کہ اس نے یہیں سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔

حضرت عمرؓ ہی کے ہم نام فرماں روا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہیں، ان کا نانہالی سلسلہ بھی حضرت عمرؓ ہی سے ملتا ہے۔ رجاء بن حیوہ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے قدر شناسوں میں تھے، انہیں کے مشورہ سے باگِ خلافت آپ کو سونپی گئی تھی، زمانۂ خلافت میں رجاء ایک شب آپ کے پاس مقیم ہوئے، ایک معمولی سا چراغ تھا جو روشن تھا، چراغ بجھنے لگا تو رجاء اُٹھے کہ چراغ درست کردیں، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے قسم دی کہ رجاء ہرگز نہ اُٹھیں، ناچار بیٹھ گئے۔ خلیفۃ المسلمین خود اُٹھے اور چراغ درست فرمایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا یہ عمل نہایت باعث حیرت تھا، رجاء نے عرض کیا: آپ امیر المومنین ہونے کے باوجود چراغ درست کرنے کا کام کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں جب اُٹھا تب بھی عمر بن عبد العزیز تھا اور جب واپس آیا تب بھی عمر بن عبد العزیز ہی تھا!!!

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے امیرالمومنین ہونے کے بعد بھی اس کو یاد رکھا کہ وہ امیر المومنین بعد میں ہیں، عمر بن عبد العزیز پہلے۔ اگر انہوں نے عمر بن عبد العزیز ہونے کی حیثیت کو بھلا دیا ہوتا تو ان کے لیے چراغ بجھانے کے لیے اُٹھنا اور خود اپنی ضرورت پوری کرنا دشوار ہوتا، لیکن ماضی کو یاد رکھنے نے ان کی زندگی کو ایک سادہ، بے تکلف اور تصنع سے خالی مومن کی زندگی بنا دیا تھا، یہ ایک ضروری وصف ہے جس کی قدم قدم پر ضرورت ہے، رشتے داروں سے رشتہ باقی رکھنے کے لیے، دوستوں سے محبت کی فضاء قائم رکھنے کے لیے، اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں اور ملازمین کا دل جیتنے کے لیے اور سب سے بڑھ کر اس لیے کہ خدا کے یہاں اس کا شمار کبر کرنے والوں میں نہ ہو!
Load Next Story