اسلام امنِ عامہ اور احترامِ انسانیت
قتل و غارت، دہشت گردی اور فساد فی الارض کی اسلام سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو مجرم قرار دیتا ہے۔
اسلام ایک ہمہ گیر، فطرت سے ہم آہنگ، احترام و حقوق انسانیت کا علم بردار آفاقی مذہب ہے۔
اسلام میں ہر عام و خاص کو داخلے کی اجازت ہے۔ جس میں علاقے، قومیت اور رنگ و نسل کی کوئی تفریق نہیں۔ اس کی نرم اور لچک دار پالیسیوں کی وجہ سے بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے اس کا منشور دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو بہ بانگ دہل مجرم قرار دیتا ہے۔
اس کے ہر شعبے میں نرم خوئی، امن و سلامتی اور انسان دوستی کا ایک طویل ترین باب ملتا ہے۔ اسلام امن کا داعی اور ساری انسانیت کے لیے پیام رحمت ہے۔ حقوق العباد کے عنوان سے اسلام کا ایک شرعی کلیہ اور ضابطہ بھی موجود ہے جس کا توسیعی مظہر امن و سلامتی، رحمت اور احترام انسانیت سے ہی ماخوذ ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اسے دینِ رحمت کہا جاتا ہے۔
دین رحمت سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین سارے عالم کے لیے ایک پُرامن اور انسان دوست مذہب بن جائے جس میں انسانی نسل کے ہر دائرے کے لوگوں میں ہم آہنگی، توازن اور آپس میں معاونت کا نیک جذبہ پیدا ہوسکے۔ جہاں انسان امن و سکون اور طمانیت کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور اس طرح کے معاشرے کی بنیاد دین رحمت ہی رکھ سکتا ہے کیوں کہ اسلام ہی میں کلمۂ توحید زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی پاس داری کی ہدایات جاری ہوتی ہیں۔
احترام انسانیت کے لیے اخلاقیات کا بہت درس دیا جاتا ہے، اسلام میں ہر انسان کے تحفظ اور اس کے حقوق کی رعایت و حفاظت کے لیے واضح قوانین بنادیے گئے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے امیر کو قانون کے حصار میں بہت آسانی سے لایا جاسکتا ہے۔ اس نوعیت کے واقعات تاریخ اسلام میں بھرے پڑے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کے سامنے ان کے محبوب چچا حضرت حمزہ ؓ کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنے والا اسلام قبول کرنے کی غرض سے آیا تو آپؐ نے اس کے ساتھ کوئی بُرا سلوک نہیں کیا۔ خود رسول اﷲ ﷺ فرماتے تھے کہ '' اگر میں نے کسی پر ظلم کیا ہے تو وہ اس کا بدلہ لے لے۔'' حضرت عثمانؓ نے محصور ہونے اور جان کے خطرے کے باوجود اپنے دفاع کے لیے اہل مدینہ کو مقابلے کی اجازت نہیں دی۔
رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفت گو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔
آپؐ اس قدر دوسروں کا خیال رکھتے تھے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں لیٹی ہوئی تھی اچانک میری آنکھ کھلی، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بڑے آہستہ آہستہ بستر سے نیچے اترے اور دبے قدموں سے پاؤں رکھتے ہوئے چلنے لگتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ کیوں اس طرح کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: تم سوئی ہوئی تھی میں تہجد کے لیے اٹھ رہا تھا، میں نے چاہا میرے اٹھنے کی وجہ سے کہیں تمہاری نیند میں خلل نہ آجائے۔
مخلوق خدا پر رحم کرنے کی تعلیم اسلام ہی دے رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' رحم کرنے والوں پر اﷲ رحم فرماتے ہیں، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔'' ایک اور حدیث میں ہے کہ تم اس وقت مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم رحم کرنے والے نہ بن جاؤ۔ آپ ﷺ نے دفع شر اور نفع رسانی کی تعلیم دی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' تُو روک لے اپنے شر کو دوسرے انسانوں سے۔،، یعنی ہر بندے کے اندر خیر بھی ہے اور شر بھی، تو فرمایا کہ اپنا شر دوسرے انسانوں تک نہ پہنچاؤ اس کو اپنے تک ہی روک لو۔ مثلا کئی مرتبہ انسان چاہتا ہے کہ دوسرے بندے کا مذاق اڑائے، شریعت کہتی ہے کہ تمہارے اندر جو خواہش پیدا ہورہی ہے اسے روک لو، اگر تم کسی دوسرے کا مذاق اڑا کر اس کو ایذا پہنچاؤ گے تو یہ مناسب نہیں۔
احترام انسانیت کے لیے اسلام نے دو زریں اصول بیان کیے ہیں کہ جب کسی سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے۔ انسانوں سے اچھے انداز میں گفت گو کریں۔ اس سب کچھ کے باوجود اس مفروضے کا عام ہونا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سبق دینے والا اس کی پذیرائی کرنے والا، متشدد اور سخت گیر مذہب ہے، ا س میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں، کوئی قدر نہیں، کوئی مقام نہیں، تو یقینا یہ اسلامی تاریخ سے ناواقفیت ہے اور سورج کو جھٹلانا ہے۔ عربوں کی جہالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہاں تو جہالت ایسی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ ایک دوسرے کی کھوپڑیوں میں شراب پیتے تھے۔ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ احترام انسانیت کا نام و نشان بھی نہیں تھا تو اسی جہالت کے اندھیروں میں اسلام ہی نے ایسی تعلیمات دیں کہ صحرائے عرب کے وحشی احترام انسانیت کے علم بردا ر بن گئے۔ اور احد کے میدان میں ایک دوسرے کو پانی پینے کا کہہ رہے ہیں اور احترام انسانیت کی وجہ سے تینوں پانی سے انکار کرکے شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام دین فطرت ہے، امن و امان کی پاس داری اس کی اولین ترجیح ہے۔ جہاں انسانیت نوازی کا درس دیا جاتا ہے اور اخلاقیات کا سبق پڑھایا جاتاہے، جہاں انسانیت کے احترام میں ہدایات دی جاتی ہیں کہ تمام مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اسلام کا یہ منشور انسان دوستی کے موقف کی تائید کے لیے کافی ہے، لہذا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک غیر معقول بات، غیر منصفانہ عمل ہے اور ایک عالم گیر مذہب اور اس کے ماننے والوں کی صریح حق تلفی ہے۔
مفتی سراج الحسن
اسلام میں ہر عام و خاص کو داخلے کی اجازت ہے۔ جس میں علاقے، قومیت اور رنگ و نسل کی کوئی تفریق نہیں۔ اس کی نرم اور لچک دار پالیسیوں کی وجہ سے بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے اس کا منشور دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو بہ بانگ دہل مجرم قرار دیتا ہے۔
اس کے ہر شعبے میں نرم خوئی، امن و سلامتی اور انسان دوستی کا ایک طویل ترین باب ملتا ہے۔ اسلام امن کا داعی اور ساری انسانیت کے لیے پیام رحمت ہے۔ حقوق العباد کے عنوان سے اسلام کا ایک شرعی کلیہ اور ضابطہ بھی موجود ہے جس کا توسیعی مظہر امن و سلامتی، رحمت اور احترام انسانیت سے ہی ماخوذ ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اسے دینِ رحمت کہا جاتا ہے۔
دین رحمت سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین سارے عالم کے لیے ایک پُرامن اور انسان دوست مذہب بن جائے جس میں انسانی نسل کے ہر دائرے کے لوگوں میں ہم آہنگی، توازن اور آپس میں معاونت کا نیک جذبہ پیدا ہوسکے۔ جہاں انسان امن و سکون اور طمانیت کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور اس طرح کے معاشرے کی بنیاد دین رحمت ہی رکھ سکتا ہے کیوں کہ اسلام ہی میں کلمۂ توحید زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی پاس داری کی ہدایات جاری ہوتی ہیں۔
احترام انسانیت کے لیے اخلاقیات کا بہت درس دیا جاتا ہے، اسلام میں ہر انسان کے تحفظ اور اس کے حقوق کی رعایت و حفاظت کے لیے واضح قوانین بنادیے گئے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے امیر کو قانون کے حصار میں بہت آسانی سے لایا جاسکتا ہے۔ اس نوعیت کے واقعات تاریخ اسلام میں بھرے پڑے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کے سامنے ان کے محبوب چچا حضرت حمزہ ؓ کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنے والا اسلام قبول کرنے کی غرض سے آیا تو آپؐ نے اس کے ساتھ کوئی بُرا سلوک نہیں کیا۔ خود رسول اﷲ ﷺ فرماتے تھے کہ '' اگر میں نے کسی پر ظلم کیا ہے تو وہ اس کا بدلہ لے لے۔'' حضرت عثمانؓ نے محصور ہونے اور جان کے خطرے کے باوجود اپنے دفاع کے لیے اہل مدینہ کو مقابلے کی اجازت نہیں دی۔
رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفت گو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔
آپؐ اس قدر دوسروں کا خیال رکھتے تھے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں لیٹی ہوئی تھی اچانک میری آنکھ کھلی، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بڑے آہستہ آہستہ بستر سے نیچے اترے اور دبے قدموں سے پاؤں رکھتے ہوئے چلنے لگتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ کیوں اس طرح کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: تم سوئی ہوئی تھی میں تہجد کے لیے اٹھ رہا تھا، میں نے چاہا میرے اٹھنے کی وجہ سے کہیں تمہاری نیند میں خلل نہ آجائے۔
مخلوق خدا پر رحم کرنے کی تعلیم اسلام ہی دے رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' رحم کرنے والوں پر اﷲ رحم فرماتے ہیں، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔'' ایک اور حدیث میں ہے کہ تم اس وقت مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم رحم کرنے والے نہ بن جاؤ۔ آپ ﷺ نے دفع شر اور نفع رسانی کی تعلیم دی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' تُو روک لے اپنے شر کو دوسرے انسانوں سے۔،، یعنی ہر بندے کے اندر خیر بھی ہے اور شر بھی، تو فرمایا کہ اپنا شر دوسرے انسانوں تک نہ پہنچاؤ اس کو اپنے تک ہی روک لو۔ مثلا کئی مرتبہ انسان چاہتا ہے کہ دوسرے بندے کا مذاق اڑائے، شریعت کہتی ہے کہ تمہارے اندر جو خواہش پیدا ہورہی ہے اسے روک لو، اگر تم کسی دوسرے کا مذاق اڑا کر اس کو ایذا پہنچاؤ گے تو یہ مناسب نہیں۔
احترام انسانیت کے لیے اسلام نے دو زریں اصول بیان کیے ہیں کہ جب کسی سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے۔ انسانوں سے اچھے انداز میں گفت گو کریں۔ اس سب کچھ کے باوجود اس مفروضے کا عام ہونا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سبق دینے والا اس کی پذیرائی کرنے والا، متشدد اور سخت گیر مذہب ہے، ا س میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں، کوئی قدر نہیں، کوئی مقام نہیں، تو یقینا یہ اسلامی تاریخ سے ناواقفیت ہے اور سورج کو جھٹلانا ہے۔ عربوں کی جہالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہاں تو جہالت ایسی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ ایک دوسرے کی کھوپڑیوں میں شراب پیتے تھے۔ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ احترام انسانیت کا نام و نشان بھی نہیں تھا تو اسی جہالت کے اندھیروں میں اسلام ہی نے ایسی تعلیمات دیں کہ صحرائے عرب کے وحشی احترام انسانیت کے علم بردا ر بن گئے۔ اور احد کے میدان میں ایک دوسرے کو پانی پینے کا کہہ رہے ہیں اور احترام انسانیت کی وجہ سے تینوں پانی سے انکار کرکے شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام دین فطرت ہے، امن و امان کی پاس داری اس کی اولین ترجیح ہے۔ جہاں انسانیت نوازی کا درس دیا جاتا ہے اور اخلاقیات کا سبق پڑھایا جاتاہے، جہاں انسانیت کے احترام میں ہدایات دی جاتی ہیں کہ تمام مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اسلام کا یہ منشور انسان دوستی کے موقف کی تائید کے لیے کافی ہے، لہذا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک غیر معقول بات، غیر منصفانہ عمل ہے اور ایک عالم گیر مذہب اور اس کے ماننے والوں کی صریح حق تلفی ہے۔
مفتی سراج الحسن