جھوٹی قسم کی مذمت و عذاب

جو شخص کسی بات کو اللہ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہے وہ گویا اپنے بیان کی سچائی پر اللہ کی ذات کو گواہ بناتا ہے۔

جو شخص کسی بات کو اللہ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہے وہ گویا اپنے بیان کی سچائی پر اللہ کی ذات کو گواہ بناتا ہے۔فوٹو : فائل

اسلام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو مقام عطا فرمایا ہے اُس کی سچائی اور حقانیت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو بات اپنی زبان سے نکالے اُسے حق اور سچ مان لیا جائے، نہ کہ اُسے اپنی بات منوانے اور اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے مختلف قسمیں کھانا پڑیں اور لوگوں کو اپنے اعتماد میں لینا پڑے۔

لیکن چوں کہ ہمارے معاشرے میں دین سے دُوری کی وجہ سے خیانت و بددیانتی، دغابازی، دھوکا اور غبن وغیرہ کا خوب کثرت سے چلن ہے، اِس لیے ہر دوسرے سے تیسرا شخص باہمی معاملات و تعلقات میں اپنی بات منوانے، اپنے آپ کو سچا بتلانے، اور اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے معمولی باتوں میں بھی قسمیں کھاتا ہے۔ گو کہ بعض اہم شرعی اور بڑے معاملات میں اپنے اوپر سے کوئی جھوٹا الزام دھونے کی غرض سے بعض مواقع پر شریعت نے قسم کھانے کا حکم بھی دیا ہے، لیکن معمولی بات میں قسم کھانا، یا دوسرے سے قسم کھلوانا نہ صرف یہ کہ شریعت میں مذموم ہے بل کہ اسلام اِس کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے۔

قسم کھانا حقیقت میں گواہی دینا ہوتا ہے۔ جو شخص کسی بات کو اللہ کی قسم کھا کر بیان کرتا ہے وہ گویا اپنے بیان کی سچائی پر اللہ کی ذات کو گواہ بناتا ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں خیال کرنا چاہیے کہ اِس معاملے کی اہمیت کتنی بڑی ہے اور قسم کھانا کتنی غیر معمولی بات ہے ؟ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ جھوٹ کے عادی اور سچائی سے دُور ہوتے ہیں وہ بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں، کیوں کہ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اُن کے بیان کو سچا نہیں سمجھتے، اِس لیے وہ لوگوں کو دغا اور فریب دینے کی غرض سے بات بات میں جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔

لیکن اوّل تو بلا ضرورت قسم کھانا ہی بہت بُرا ہے، پھر جھوٹی قسم کھانا تو اور بھی زیادہ بُرا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کی جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی بڑی مذمت بیان فرمائی ہے، کیوں کہ یہ جھوٹ کی ایک بدترین شکل ہے، جس میں جھوٹی قسم کھانے والا اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھی جھوٹی گواہی میں شریک کرلیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹی قسمیں کھانے والے شخص پر اعتبار نہ کرنے کا حکم دیا ہے اور اِس کو انسان کا بڑا عیب بتایا ہے۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے : ''اور کسی بھی ایسے شخص کی باتوں میں نہ آنا جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت شخص ہے۔''

چوں کہ اِس طرح کی قسمیں کھانے والے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں، اِس لیے یہ نفاق کی بڑی علامت ہے، اور قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے بارے میں فرمایا ہے مفہوم: '' پھر اُس وقت ان کا کیا حال بنتا ہے جب خود اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے ؟ اُس وقت یہ آپ کے پاس اللہ کی (جھوٹی) قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھلائی کرنے اور ملاپ کرا دینے کے سوا کچھ نہ تھا، یہ وہی ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی ساری باتیں خوب جانتا ہے۔''

یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے اور ان کی زبانوں پر کیا ہے؟ ایسے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ قسمیں کھاکر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر متعلقہ اشخاص کو خوش کردیں، لیکن اللہ تعالیٰ اِس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر ان میں ایمان ہو تو انہیں چاہیے کہ سچائی اختیار کرکے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کو خوش کریں۔ فرمان الہی کا مفہوم ہے: '' ( مسلمانو!) یہ لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں اِس لیے کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں، حالاں کہ اگر یہ واقعی مومن ہوں تو اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) اِس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ یہ اُن کو راضی کریں۔''

ایسے منافقوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب کوئی بُری بات منہ سے نکالتے ہیں اور اس پر پوچھ گچھ ہونے لگتی ہے تو فوراً مکر جاتے ہیں۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں، مفہوم : '' یہ لوگ اللہ کی (جھوٹی) قسمیں کھا جاتے ہیں کہ اُنہوں نے فلاں بات نہیں کہی، حالاں کہ اُنہوں نے کفر کی بات کہی ہوتی ہے۔''


یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اِس کی علت بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم : '' یہ تمہارے سامنے اِس لیے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم اِن سے راضی ہوجاؤ ، حالاں کہ اگر تم اِن سے راضی بھی ہوگئے تو اللہ تو ایسے نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔''

اسی طرح قسم کھاکر کسی دوسرے کے مال پر دعویٰ کرنا اللہ تعالیٰ کے نام پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ اور یہ ایک کے بہ جائے دو گناہوں کا مجموعہ ہے۔ ایک غصب اور دوسرا جھوٹ۔ اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے پاک اور مقدس نام پر۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم : '' جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی (جھوٹی) قسموں کا سودا کرکے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں، اُن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اُنہیں (رعایت کی نظر سے ) دیکھے گا، نہ اُنہیں پاک کرے گا اور اُن کا حصہ تو بس عذاب ہوگا انتہائی دردناک۔''

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ''جو کوئی جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال لینا چاہے گا تو جب وہ اللہ کے پاس جائے تو اللہ اس پر غضب ناک ہوں گے۔''

آنحضرت ﷺ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا، مفہوم : ''تین آدمی ہیں جن کی طرف اللہ قیامت کے دن (رعایت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ایک وہ شخص جو اپنا لباس گھٹنوں کے نیچے تک لٹکاتا ہے اور دوسرا وہ شخص جو احسان جتلاتا ہے اور تیسرا وہ شخص جھوٹی قسمیں کھاکر اپنا سامان بیچتا ہے۔''

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ''جو کسی مسلمان کے حق کو جھوٹی قسم لے کر کھانا چاہے گا تو اللہ اُس پر جہنم کی آگ کو واجب کردے گا۔'' صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا اگرچہ کوئی معمولی سی چیز ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ''اگرچہ درخت کی ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔''

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم :'' بڑے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ کسی کو بے گناہ قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔''

رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' جھوٹی قسم مال بکوا دیتی ہے، لیکن نفع (کی برکت) کو گھٹا دیتی ہے۔''

حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : '' تجارت میں بہت قسمیں کھانے سے پرہیز کرو! کیوں کہ اِس طرح پہلے کام یابی ہوتی ہے پھر بے برکتی ہوجاتی ہے۔''

باہمی معاملات و تعلقات اور جھوٹی قسمیں کھانے اور لوگوں کو غلط طور پر اپنے اعتماد میں لے کر اُن کا مال کھانے، ناجائز طریقے سے اُن کا حق چھیننے اور اُن کے سامنے کذب بیانی اور دغا بازی سے کام لینے کو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے نفاق کی علامت قراردیا ہے، اور ایسے لوگوں کے لیے دُنیا میں ذلت و خواری، خجالت و شرمندگی اور آخرت میں درد ناک سزا اور عذابِ جہنم کی وعید سنائی ہے۔
Load Next Story