عراق میں عدم استحکام

اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ اگرکسی ایک خطے میں عدم استحکام ہے تو اس کے ہمسائے بھی متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتے

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر کسی ایک خطے میں عدم استحکام ہے تو اس کے ہمسائے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ فوٹو: فائل

عراق پر امریکا کے حملے اور اس کے بعد وہاں عراقیوں کی حکومت قائم ہونے کے باوجود امن قائم نہیں ہوسکا اور نہ اس ملک کی معیشت استحکام حاصل کرسکی ہے۔بم دھماکے اور خود کش حملے تواتر سے ہورہے ہیں۔جمعہ کے روز بھی عراقی شہر بعقوبہ میں مسجد کے باہر بم دھماکے کے نتیجے میں بارہ افراد جاں بحق جب کہ اڑتیس زخمی ہو گئے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب لوگ جمعہ کی نماز ادا کرکے مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔

اس دھماکے کی ذمے داری فوری طور پر کسی تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی مگر قرائین سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان قوتوں کا کام ہے جو اس بدقسمت ملک میں فرقہ واریت کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اس ملک کے حصے بخرے کیے جا سکیں جو سامراجی طاقتوں کا عمومی ہدف رہا ہے۔ امریکا کے سابق صدر جارج بش جونیئر نے جب عراق پر حملے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ اس حملے کے نتائج تباہ کن ہوں گے اور عراق میں امن کا قیام تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ اس کے باوجود اس وقت کی امریکی انتظامیہ نے عراق پر حملے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں صدام حسین حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔

اس وقت سے عراق میں حالات اس طرح خراب ہوئے کہ خودکش حملے اور بم دھماکے روزانہ کا معمول بن گئے۔ آج دس سال گزرنے کے بعد بھی امریکی حملے کے مخالفین کے خدشات درست دکھائی دے رہے ہیں کہ امریکا کا یہ حملہ عراق کی مکمل تباہی پر منتج ہو گا۔ عراق میں صورت حال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ امریکی پالیسی کے نتیجے میں عراق میں استحکام پیدا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس وقت عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا المناک پہلو یہ ہے کہ عراقیوں کا ہی نقصان ہو رہا ہے۔ کچھ قوتیں عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نسلی تفریق کو بھی ہوا دی جاتی ہے۔


صدام حکومت کی پالیسیوں کی ناکامی ایک الگ موضوع ہے لیکن اب اصل سوال یہ ہے کہ عراق میں امن واستحکام کیسے قائم کیا جائے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر کسی ایک خطے میں عدم استحکام ہے تو اس کے ہمسائے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ عراق میں عدم استحکام کے اثرات ایک جانب عرب ممالک پر پڑ رہے ہیں تو دوسری جانب ایران سے ہوتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا تک جاتے ہیں۔ عراق کا مسئلہ اب محض امریکا یا یورپ کا ہی نہیں رہا بلکہ یہ مسلم ممالک کا بھی مسئلہ ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی کو اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔ عرب لیگ اور او آئی سی کوششیں کریں تو عراق میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ کو بھی یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انھوں نے جو سخت گیر پالیسی اختیار کی ہے وہ کامیاب نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے نتیجے میں دہشت گردی مزید پھیلی ہے۔ امریکا اور یورپ کو دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ گولہ بارود کے استعمال سے معاملات حل ہونے کے بجائے خراب ہو رہے ہیں۔ عراق ہی نہیں بلکہ لیبیا' شام اور افغانستان کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ سارے خطے عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں اور یہاں آئے روز قتل وغارت ہوتی رہتی ہے۔ ان خطوں میں عدم استحکام کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ امریکا اور یورپ کو چاہیے کہ وہ سخت گیر پالیسی کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔

جو ملک عدم استحکام کا شکار ہیں، انھیں مستحکم کرنے کے لیے مقامی سٹیک ہولڈروں کے ساتھ بات چیت کر کے کوئی راستہ متعین کیا جائے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی اپنی پالیسی میں نرمی پیدا کریں اور مسلم ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں تو جنگ زدہ ملکوں میں قیام امن کی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ اس معاملے میں عراق کو ٹیسٹ کیس بنایا جانا چاہیے۔ اس ملک میں اب حکومت بھی قائم ہو چکی ہے، یہ حکومت اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اسے سب کا تعاون حاصل ہو۔ اس کے بعد لیبیا' شام' یمن اور افغانستان میں اسی نہج پر کام کیا جانا چاہیے تاکہ دنیا دہشت گردی کے ناسور سے جان چھڑا سکے۔
Load Next Story