جمہوریت کا مطلب کیا

اسلام میں حکومتی نظام چلانے والی اشرافیہ کے لیے مجلس شوریٰ کی ترکیب وضع کی گئی ہے۔۔۔


Amjad Islam Amjad April 14, 2013
[email protected]

جمہوریت کی تعریف یعنی Definition کے حوالے سے دیکھا جائے تو کچھ کچھ ''جتنے منہ اتنی باتیں'' قسم کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ پولیٹیکل سائنس کی کتابوں میں ابراہم لنکن کے الفاظ میں اسے کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ Democracy is a government, of the people, by the people, for the people جب کہ کارل مارکس کے نزدیک یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک عالم گیر سازش ہے جس کے ذریعے عوام کو تبدیلی کے نام پر صرف ''استحصال کرنے والوں کے درمیان'' انتخاب کا حق دیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے زمانے میں اس نظام کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ:

جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

جمہوریت کے حق میں عام طور پر یہ نعرہ بھی لگایا جاتا ہے کہ آج تک غور و فکر کے ذریعے انسان نے حکومت چلانے کے لیے جتنے نظام وضع کیے ہیں جمہوریت ان سب میں سے بہتر ہے۔

ایک سوال جو مختلف حلقوں کی طرف سے بار بار کیا جاتا ہے کچھ یوں ہے کہ اگر واقعی جمہوریت اب تک کے (انسانی) وضع کردہ تمام نظاموں سے بہتر ہے تو ہمارے ملک میں (اور تیسری دنیا کے بہت سے اور ملکوں میں بھی) یہ نظام وہ نتائج کیوں نہیں سامنے لاتا جس سے دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک بہرہ ور ہو رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ نہ صرف وہ جمہوریت کے مطلب اور معانی کے بارے میں واضح نہیں ہیں بلکہ اس کی عملی شکل اور کارکردگی کے ضمن میں بھی ان کے کچھ تحفظات ہیں۔

میرے نزدیک یہ دونوں باتیں اپنی جگہ پر صحیح بھی ہیں اور قابل غور بھی لیکن اس کا تسلی بخش جواب جاننے سے پہلے ہمیں اس حقیقت کا جائزہ لینا ہو گا کہ کامیاب اور ناکام ہونے والے جمہوری تجربات میں وہاں پر قائم جمہوری نظاموں کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؟ جس طرح ''سفر'' اور ''فاصلہ'' طے کرنے میں ایک بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ سفر ایک طے شدہ منزل کی طرف کیا جاتا ہے اور فاصلہ بے سمتی اور بے جہتی کے عالم میں بھی طے کیا جا سکتا ہے اسی طرح جمہوریت کی کامیابی یا ناکامی کے تجزیے کے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ اس کے حصول کے لیے کسی معاشرے نے اس کی کن کن بنیادی شرائط کو کہاں تک پورا کیا ہے یعنی کسی معاشرے کی اجتماعی In put بھی اس کی Out put کے معیار اور مقدار کو متعین کرتی ہے۔

مثال کے طور پر کسی جوس نکالنے والی مشین میں اگر مالٹے ڈالیں جائیں گے تو اس کے نتیجے میں مالٹے کا جوس ہی تشکیل پائے گا، پائن ایپل یا مکسڈ فروٹ یا کسی اور پھل کا جوس نہیں بن پائے گا۔ اس وقت ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جمہوریت کے ایک دوسرے سے مختلف پیکر دیکھے جا سکتے ہیں مگر چند بنیادی شرائط یا عناصر ایسے ہیں جن کی سب پابندی کرتے ہیں، مثال کے طور پر

(1 ہر ووٹر کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔

(2 ووٹر کو معاشی طور پر خود کفیل ہونا چاہیے۔

(3 ووٹر کو اپنی آزادانہ مرضی سے کسی روک ٹوک اور دباؤ کے بغیر اپنے پسندیدہ نمائندے کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

(4 انتخابات کے عمل کو ہر اعتبار سے قابل اعتبار' صاف اور شفاف ہونا چاہیے۔

فی الوقت ہم اپنی بات کو کچھ جزوی تقاضوں سے الگ کر کے صرف انھی چار نکات تک محدود رکھتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں ''موجود'' صورتحال کیا ہے۔

-1 اگر خواندگی کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار کو ہی تسلیم کر لیا جائے اور صرف اپنا نام لکھنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو بھی تعلیم یافتہ تصور کر لیا جائے تب بھی ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتی۔

-2 ہمارے یہاں سوشل سکیورٹی یعنی تعلیم، صحت، چھت اور روزگار کے تحفظ اور ان کی تسلی بخش ضمانت اور سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ووٹر ہمہ وقت ایک عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے اور یوں غربت اور جہالت کے ساتھ ساتھ مختلف نوع کے معاشی اور معاشرتی دباؤ بھی اسے اپنے حق کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے مطلوبہ گنجائش نہیں دیتے۔

-3 برادری سسٹم' مذہبی عقائد' پیر پرستی اور فیوڈلز کے غلبے کی وجہ سے ہماری دیہی آبادی جو تقریباً کل آبادی کا 60 فیصد ہے، مجموعی طور پر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر پاتی۔

-4 صاف اور شفاف انتخابات، حکومتی اداروں کی نا اہلی اور جانبداری کی وجہ سے ممکن نہیں ہو پاتے اور زورآور اور خاندانی سیٹوں والے حلقوں میں من پسند سرکاری افسران کی تعیناتی کے باعث ایسا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے کہ محض لیاقت اور دیانت کے نام پر کسی امیدوار کو آگے بڑھنے کا راستہ ہی نہ مل سکے، سو دیہی علاقوں سے (بالخصوص) ہر بار ایسے لوگ ہی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جاتے ہیں جن میں سے بیشتر اپنے پورے Tenure کے دوران (سوائے اپنے ذاتی مفادات کی نگہبانی اور سفارشوں کے) نہ تو منہ سے کوئی لفظ پھوٹتے ہیں اور نہ ہی کسی حکومتی کاروائی میں (کبھی کبھار، میزیں بجانے کے سوا) کوئی حصہ نہیں لیتے ہیں۔

اسلام میں حکومتی نظام چلانے والی اشرافیہ کے لیے مجلس شوریٰ کی ترکیب وضع کی گئی ہے لیکن یہ اشرافیہ اپنی نوعیت میں برطانوی پارلیمنٹ کے House of Lords سے مختلف ہے کہ اسلامی نظام میں اشرافیہ سے مراد خاندان، قبیلے اور معاشی طور پر طاقتور افراد نہیں ہیں بلکہ دیانت، امانت، تعلیم، سوجھ بوجھ اور ذاتی کردار کی عظمت کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ یہ نظام اپنی روح کے مطابق کیوں نہیں چل سکا اس بحث میں پڑے بغیر ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر وطن عزیز میں (فوجی حکمرانوں کے ادوار سے قطع نظر) اس نظام نے وہ مطلوبہ نتائج کیوں نہیں دیئے جن کی اس سے توقع کی جاتی ہے اور جو کئی دوسرے ممالک میں عملی طور پر فعال نظر آتے ہیں۔

میرے نزدیک اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بھی محاورے والی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، جب کوئی نظام وہ بنیادی شرائط ہی پوری نہ کرتا ہو جس پر اس پرفارمنس اور ترقی کا انحصار ہو تو اس سے نتائج کس طرح برآمد ہو سکتے ہیں جو ہمیں مطلوب ہیں، یہ تو خواہش کے گھوڑوں پر سواری کرنے والی بات ہوئی یعنی ہم مشین میں اورنج ڈال کر دوسری طرف سے مسکڈ فروٹ جوس نکلنے کی توقع کیے بیٹھے ہیں۔ مستقبل قریب میں ہونے والے (انشاء اللہ) انتخابات سے مثبت تبدیلی کی توقعات سرآنکھوں پر لیکن جب تک ہم جمہوریت کے اصل مطلب کو سمجھ کر (مرحلہ وار ہی سہی) اپنے ووٹر کو فکری، معاشی اور عملی سطح پر مضبوط، مستحکم اور آزاد نہیں کرتے، صورت حال میں جزوی طور پر بامعنی اور مستحکم ترقی آتی تو رہے گی مگر اس کی رفتار بہت سست ہو گی اور زمانے کی رفتار آپ کے سامنے ہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں