پتنگ بازی فوجی مقاصد سے ہلاکت خیز مشغلے تک

پہلی پتنگ آج سے 2200 سال پہلے چین میں فوجی مقاصد کےلیے ایجاد کی گئی تھی


تمام قانونی پابندیوں کے باوجود پتنگوں کی کھلے عام فروخت اور پتنگ بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پتنگ بازی ایک ایسا جان لیوا کھیل، جس کے نتیجے میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ ہمارے ہاں پتنگ بازی کا تہوار کئی سال سے منایا جارہا ہے۔ خاص کر ہماری نوجوان نسل اس خونی تماشے میں اپنی قیمتی جانوں کی پروا کیے بغیر بڑی گہری دلچسپی لیتی ہے جبکہ ہر سال ہمارے کئی نوجوان اپنی جانیں تک پتنگ بازی کی نذر کردیتے ہیں۔

پتنگ اُڑانے کا رواج کیوں، کب اور کس نے ایجاد کیا؟ اس کے بارے میں شاید ہی چند لوگوں کو علم ہوگا۔ ہمارے ہاں یہ تو بس وہ رواج ہے جو نجانے کب پڑوسی ملک سے چلتا چلتا یہاں آن پہنچا، اور کب ایک ٹرینڈ کی صورت اختیار کرگیا۔

تاریخ عالم میں پتنگ اُڑانے کا پہلا تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین کے ایک سپہ سالار ''سینگ'' نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا تھا لیکن وہ براہ راست خطرہ مول لینے کے بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ مگر اسے اندازہ نہیں ہو پارہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی اور چوڑی کھودنا ہوگی۔ اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے، اور وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے پڑاؤ والے علاقے سے اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اُڑتے جارہے ہیں۔ بس یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ ہاتھ میں لیا اور اس میں ایک درخت کے چند تنکے باندھ دیئے تاکہ اسے ہوا کا دباؤ حاصل ہوسکے جو اس کے اُڑنے میں مدد گار ثابت ہو۔ پھر اس نے لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اُڑایا۔ جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے واپس کھینچ کر اس سے بندھا ہوا دھاگا ناپ لیا گیا، اور اس طرح فاصلہ معلوم کرلیا۔ یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کےلیے اُڑائی گئی۔

پھر قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استعمال کےلیے کی جانے لگی جس میں فوج کا جاسوسی کا کام بھی تھا، جو اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پیغام رسانی کےلیے استعمال کی گئی۔ اس کے بعد یہ پتنگ بازی کا فن کوریا پہنچا جہاں ایک جرنیل نے پتنگ کو اپنے جنگی فائدے کےلیے استعمال کیا اور اپنی فوج کا حوصلہ بلند کیا۔ چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جب پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ جاپان میں ایک سخت قانون نافذ ہو گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد یعنی صرف اعلی سول اور فوجی افسران ہی کو پتنگ اُڑانے کی اجازت دی گئی۔

یہ وہ جنگی مقاصد تھے جن کے تحت پتنگ بنائی گئی لیکن اب پتنگ اُڑانے کا مقصد صرف جنگی کاموں تک محدود نہیں رہا۔ ہمارے ملک میں بہت سے افراد اس بات پر خفا ہیں کہ کیوں ہماری حکومت نے اس خونی کھیل پر کچھ عرصے سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پچھلے سال فروری کے آغاز میں چنیوٹ شہر کے ایس ایچ او سٹی نے ایک نجی کالج کے طلباء سے پتنگ بازی کے نقصانات کے بارے میں بہترین خطاب کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پتنگ بازی ایک خونی اور جان لیوا کھیل ہے جس سے اب تک کئی لوگوں کے گلے کٹ چکے ہیں اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ پتنگ بازی کی روک تھام کےلیے طلبا کو پولیس کا ساتھ دینا چاہیے۔ طلباء کو خود بھی پتنگ بازی سے دور رہنا ہوگا اور اس سلسلے میں اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی آگاہ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے بھی سخت پابندی لگائی گئی اور خلاف ورزی پر قید اور جرمانے کی سزائیں بھی عائد ہوئیں۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ آئندہ برسوں میں پتنگ بازی کی روک تھام کےلیے ہر اسکول اور کالج میں لیکچرز دیئے جائیں گے، مساجد میں اعلانات کروائے جائیں گے، بینرز لگوائے جائیں گے، اور مساجد کے خطیبوں سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اس خونی سلسلے کی روک تھام کےلیے عوامی آگاہی پیدا کریں۔

دیکھا جائے تو ان تمام احکامات پر کچھ حد تک عمل درآمد ہو بھی رہا ہے لیکن لاہور اور گوجرانوالہ میں چند عناصر اب بھی موجود ہیں جو بدستور اس خونی کھیل کی خلاف ورزی پر ڈھٹائی سے قائم ہیں؛ جبکہ ایسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے سے خود انتہائی خوفناک واقعات گزر چکے ہوتے ہیں۔

بہرحال ہمارا میڈیا بھی اس خونی کھیل کی روک تھام کےلیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کررہا۔ ایک طرف نیوز چینلز پر بسنت کے خلاف آواز اُٹھائی جاتی ہے، اور دوسری طرف انٹرٹینمٹ چینلز جشن بہاراں کے نام سے منسوب پروگرام نشر کرکے پتنگ بازی کی ترغیب بھی دے رہے ہیں جن کی روک تھام شاید ہی ممکن نظر آتی ہے۔

قصور بیچاری عوام کا بھی نہیں، بس تھوڑی سی توجہ اور آگاہی کی ضرورت ہے کہ پتنگ کس جنگی مقصد کے تحت ایجاد ہوئی؛ اور یہ کوئی تفریحی فعل نہیں۔ یہ تو بس وہ خونی کھیل ہے جس کی رنگینیوں سے صرف قیمتی جانیں ضائع ہی ہوسکتی ہیں!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں