مــوچــی دروازہ

کسی زمانے میں لیڈر کی مقبولیت کا اندازہ موچی دروازہ کے عوامی اجتماع کو دیکھ کر لگایاجاتا تھا.

کسی زمانے میں لیڈر کی مقبولیت کا اندازہ موچی دروازہ کے عوامی اجتماع کو دیکھ کر لگایاجاتا تھا۔ فوٹو: فائل

موچی دروازے کا نام سنتے ہی سیاسی جلسے اور جلوسوں کا تصور ذہن میں در آتا ہے کیونکہ موچی دروازے کی وجہ شہرت ہی یہی ہے۔

یوں تو اندرون لاہور (walled city) کے تیرہ دروازے ہیں اور ہر دروازے کی تاریخی اہمیت مسلم ہے مگر جو شہرت موچی دروازے کے حصے میں آئی ہے اور جس طرح سے اس کا نا م پورے برصغیر میں گونجا اس نے اسے دوسرے تاریخی دروازوں سے ممتاز اور جدا حیثیت عطا کی ہے۔

موچی دروازہ اندرون لاہور کے جنوب میں سرکلر روڈ پر اکبری اور شاہ عالمی دروازے کے درمیان واقع ہے، درمیان کہنے سے آپ یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ یہ تینوں دروازے ساتھ ساتھ ہیں بلکہ ان میں کئی سو گز کا فاصلہ ہے۔ اس دروازے کے نام کی وجۂ تسمیہ کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے ، کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اس کا نام پہلے موتی دروازہ تھا جس کہ وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ دروازہ شہنشاہ اکبر کے دور میں تعمیر کیا گیا اور اکبر کا خاص ملازم موتی رام جمعدار اس دروازے کی حفاظت پر مامور تھا ۔ جب بھی حملہ آوروں نے اس دروازے سے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو موتی رام نے اپنی ذہانت اور حکمت عملی سے انھیں ناکام بنا دیا۔

اس کی ملنساری اور عوام دوستی کی وجہ سے شہری بھی اسے پسند کرتے تھے ، موتی رام کی وجہ سے اس دروازے کا نام موتی دروازہ مشہور ہو گیا۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ موتی سے اس کا نام موچی دروازہ کیسے پڑ گیا تو مورخین اس بارے میں کہتے ہیں کہ مغلوں کے عہد کا جب خاتمہ ہوا اور سکھوں نے راج قائم کر لیا تو انھوں نے اس دروازے میں مورچیاں قائم کیں، یوں اس کا نام مورچی دروازہ پڑ گیا جو آہستہ آہستہ مورچی سے موچی ہو گیا۔

حالانکہ موچی دروازے کے نام سے یوں لگتا ہے کہ یہاں کسی زمانے میں کوئی معروف موچی رہا ہوگا یا یہاں کوئی موچی بازار ہوگا تو ایسی کوئی بات نہیں ، گزرتا وقت جیسے بہت سی چیزیں بدل دیتا ہے تو ایسے ہی اس کا نام بھی مورچی سے موچی دروازہ پڑگیا۔ موچی دروازے کے اردگرد مختلف محلے اور گلیاں ہیں جن میں محلہ تیرہ گراں ، محلہ کماں گراں، محلہ لٹھ ماراں، محلہ چابک سواراں، محلہ بندوق سازاں اور حماماں والی گلی قابل ذکر ہیں۔ یہ محلے اور گلیاں بھی مغلیہ عہد کی یا د دلاتے ہیں کیونکہ انھوں نے یہاں پر اپنی ضرورت کے مطابق افراد کو آباد کیا تھاجو سلطنت کے دست وبازو بننے اور اسے کمک پہنچانے میں مدد دیتے تھے۔



فوٹو: فائل

موچی دروازہ تو اب اپنی جگہ موجود نہیں کیونکہ انگریزوں کے دورحکومت میں اس دروازے کی مرمت نہ کی گئی بلکہ جب اندرون شہر کی پرانی بلند فصیل کوگرا کر چھوٹی چار دیواری تعمیر کی گئی تو اس وقت اس دروازے کے دونوں برج گرا دئیے گئے اور وہاں سے حاصل ہونے والی اینٹوں کو مختلف کاموں میں استعمال کر لیا گیا ، اس وقت تو یہی خیا ل تھا کہ بعد میں دروازے کی ازسر نو تعمیر ہو گی مگر ایسانہ ہو سکا ، یوں موچی دروازہ اپنا وجود کھو بیٹھا مگر اس علاقے کی وجہ شہر ت موچی دروازہ ہی ہے، اب اس مقام پر جہاں کبھی موچی دروازہ تھا پولیس اسٹیشن کی عمارت موجود ہے۔

موچی دروازے کے ساتھ ہی چند ایکڑ رقبے پر محیط موچی باغ ہے جو اس علاقے کی اصل وجہ شہرت ہے ۔ اس باغ کے دو حصے ہیں ایک میں تو پارک بنا دیا گیا ہے جبکہ دوسرا حصہ اسٹیڈیم کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جو سڑک سے پانچ ، چھ فٹ گہرا ہے۔باغ کے نشیب میں ہونے کی وجہ سڑک کا باربارتعمیر کیاجانا ہے، یوں وہ موچی باغ سے بلند ہوتی چلی گئی ، اس باغ کے بالکل سامنے سرکلر روڈ کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ٹھنڈی کھوئی والی مسجد ہے ، وہاں سے شاہ عالمی کی طرف بڑھیں تو تھوڑا آگے باغ والی مسجد ہے وہ بھی سرکلر روڈ کو دوحصوں میں تقسیم کر رہی ہے ، اس سے صرف چند گز کے فاصلے پر مشہور تاریخی مسجد شب بھر ہے، گویا صرف 200 گز کے اندر تین مسجدیں موجود ہیں ۔

اب بھی اگر کوئی شخص موچی باغ کے تاریخی میدان میں قدم دھرے تو چشم تصور اسے تحریک آزادی کے اس دور میں کھینچ کر لے جاتی ہے جب علامہ اقبال جیسے عظیم مفکرین نے اپنے افکار سے عوام کے دلوں کو گرمایا تھا ،عظیم رہنما قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار کیا تھا، ان کے قدموں کی دھمک آج بھی وہاں سنائی دیتی ہے۔ اپنے قائدین کے افکارسننے کے لئے چند ایکڑ جگہ میں ہزاروں افراد یوں سماجاتے تھے جیسے کسی برتن میں گندم کے دانے اکٹھے کئے گئے ہوں ، تب موچی باغ کے ارد گرد کی سڑکیں اور گلیاں بھی انسانوں سے بھری نظر آتی تھیں، جوش وجذبے سے بھرے لوگوں کے نعروں سے زمین و آسمان دہل جاتے تھے۔




ان کا یہ جوش و جذبہ برصغیر پر قابض انگریزوں کے اقتدار کو ہلانے کے لئے کافی تھا۔ اس کے علاوہ جواہر لال نہرو،خان عبدالغفار خان ، حسین شہید سہروردی، لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان، غلام مصطفی کھر، نواز شریف، شہباز شریف، قاضی حسین احمد اور دیگر اہم مشاہیر اور سیاستدانوں نے موچی باغ میں عوام سے خطاب کیا۔ موچی باغ میں منعقد ہونے والے جلسوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ 90ء تک وہاں ہونے والے جلسوں میں عوام کی شرکت سے لیڈر کی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا تا تھا اور وہاں سے اٹھنے والی آواز پورے ملک میں سنی جاتی تھی ۔

حالانکہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں وہاں جلسوں پر پابندی لگا دی تھی اور سیاستدانوں کو جائے امان ملنا مشکل ہو گئی تھی ، مگر ''چلو چلو موچی دروازہ چلو ''کے نعرے سیاسی کارکنوں کو ہر حال میں اپنی پارٹیوں کے جلسوں میں شرکت کے لئے متحرک رکھتے، ایسا بھی ہوا کہ موچی باغ میں پانی چھوڑ دیا گیا تاکہ وہاں ہونے والے جلسے کو ناکام بنایا جا سکے مگر ایسے میں سیاسی رہنما سرکلر روڈ پر ہی اسٹیج سجا لیتے اور کئی میلوں تک جلسہ گاہ بن جاتی تھی، ذرا اندازہ کریں کہ مینار پاکستان تک ٹریفک بند کر دی جاتی تھی تاکہ جلسے میں شرکت کرنے والے گاڑیاں لے کر موچی دروازے تک نہ آ سکیں۔



فوٹو: فائل

مگر تب سیاسی کارکن مینار پاکستان سے پیدل ہی موچی دروازے تک آ جاتے تھے، گویا ان کا جوش و جذبہ انھیں ہر حال میں آگے کی جانب گامزن رکھتا تھا ۔ پولیس سیاسی کارکنوں کو منتشر کرنے اور پکڑنے کے لئے طاقت کا استعمال کرتی ایسے میں سیاسی کارکن ان کے ہاتھ نہ آتے اور موچی دروازے کے ارد گرد محلوں کی گلیوں میں غائب ہو جاتے اور تھوڑی دیر بعد پھر سامنے آ جاتے۔ اس طرح جلسہ تو نہ ہوتا مگر سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کی داستانیں پورے ملک میں پھیل جاتیں اور عوام کا جوش مزید بڑھ جاتا تھا ۔

موچی دروازے کے جلسوں نے برصغیر کے عوام کو نا صرف تحریک آزادی کے لے متحرک کیا بلکہ عوام میں سیاسی شعور پیداکرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کے اتنے اہم اور تاریخی مقام کو آج یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے، موچی باغ پر نظر دوڑائیں تو بڑا افسوس ہوتا ہے کیونکہ تاریخی اہمیت کے حامل اس سیاسی میدان کے ارد گرد پارکنگ قائم کر دی گئی ہے، یوں سڑک سے گزرتے ہوئے اس میدان پر نظر کم ہی پڑتی ہے، اگر لائن میں کھڑے ان ٹرکوں کو پار کر کے گیٹ سے اندر داخل ہوں تو یوں لگے گا جیسے آپ بلندی سے سیڑھیاں اتر رہے ہوں، اسٹیڈیم کی طرز پر بنی ہوئی اس گرائونڈ میں چند بچے کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں جبکہ پارک میں چند لوگ بیٹھے نظر آئیں گے۔

سب سے خستہ حالت گرائونڈ کے کنارے بنے اس اسٹیج کی ہے جس پر کھڑے ہو کر کبھی بڑے نامور سیاستدانوں نے فن خطابت کے جوہر دکھائے ہوں گے، اس اسٹیج کو غلام مصطفٰی کھر نے اپنی وزارت اعلٰی کے دوران تعمیر کرایا تھا ۔ اسٹیج کی خوبصورتی کے لئے لگا یا گیا سرخ رنگ کا پتھر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہے جبکہ اسٹیج کی دیوار پر نصب کی گئی تعارفی پلیٹ بھی زمانے کی دست و برد سے بچ نہیں سکی اور اس کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہے ۔ اسٹیج کے بائیں طرف پانی کھڑا ہے جو ساتھ ہی موجود واٹر پمپ سے بہہ کر آ تا ہے ، میدان کی ایک دیوار کے ساتھ قدیم گندا نالہ ہے جہاںکسی زمانے میں نہر بہا کرتی تھی ، اس دیوار پر غالباً دھوبیوں کا مستقل قبضہ رہتا ہے کیونکہ وہاں انھوں نے کپڑے خشک ہونے کے لئے ڈالے ہوتے ہیں ، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ موچی باغ میں دھوبی گھاٹ کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

موچی باغ کے گیٹ کے ساتھ دری بچھائے بیٹھے حجام خادم حسین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا '' میں یہاں دوتین سال سے بیٹھ رہا ہوں ، ویسے میں یہیں کا رہنے والا ہوں ، کسی زمانے میں یہاں جلسے ہوتے تھے اب تو کوئی حال نہیں، موچی دروازے کی اب وہ رونقیں نہیں رہیں ، بس بچوں کے کھیلنے کے لئے ایک گرائونڈ کا کام دے رہا ہے۔''پلاسٹک کے ڈرم فروخت کرنے والے بزرگ سید محمد انور نے کہا '' موچی دروازے کے جلسوں کی تو کیا بات تھی پورے ملک میں یہاں کی آواز سنی جاتی تھی ، خود میں نے بہت سے جلسوں میں شرکت کی ہے۔ بڑے بڑے سیاستدان یہاں تقریریں کیا کرتے تھے، واہ کیا عالم ہوتا تھا ، یوں لگتا تھا جیسے سب کے دل ایک ساتھ دھڑک رہے ہوں ،مگر اب تو عرصہ ہو گیا یہاں کوئی جلسہ نہیں ہوا ، اصل میں آبادی بہت بڑھ گئی ہے اس لئے جلسوں کے لئے زیادہ جگہ چاہیے، مینار پاکستان بھی جلسے، جلوسوں کے لئے اچھی جگہ ہے، مگر حکومت کو اس جگہ کو نظراندازنہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس جگہ کی بھی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے۔''

دنیابھر میں تاریخی ورثے کی ہر طرح سے حفاظت کی جاتی ہے کیونکہ وہ عظیم لوگوں کا ورثہ ہوتا ہے جو نئی نسل کو منتقل کیا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے ۔ موچی دروازے کے تاریخی پہلو کے پیش نظر اسے برطانیہ کے ہائیڈ پارک جتنی اہمیت دی جانی چاہیے، ایک دور میں ایسا کہا بھی گیا تھا مگر بعد میں اس پر خاطر خواہ کام نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے موچی دروازے کا کوئی پرسان حال نہیں، شہری انتظامیہ کو اس طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story