بچے جھونکنے کے لیے نہیں پالنے کے لیے ہیں
جو دوسروں کے بچوں کواپنی جنگوں میں جھونک رہے ہیں کیا وہ اپنے نورالعینوں کے لیے بھی فلاح کا یہی راستہ پسند فرمارہے ہیں؟
ہر نئے بچے کی آمد اس کا ثبوت ہے کہ خدا دنیا سے ہنوز مایوس نہیں ہوا ، یا یہ کہ بچے کلیوں کی طرح نازک ہوتے ہیں ان کی دیکھ بھال پھولوں کی طرح کرنی چاہیے ، یا کہ بچے ہمارے ہاتھوں میں آنے والے زمانوں کی امانت ہے ، یا یہ کہ ہم اپنے والدین کے احسانات کا تھوڑا بہت قرض صرف اور صرف اگلی نسل کی بہترین پرورش کرکے ہی چکا سکتے ہیں۔ بچپن سے ہم اور آپ یہ باتیں سنتے چلے آرہے ہیں اور اگلی نسلوں کو بھی یہی باتیں منتقل کرتے کرتے کوچ کر جائیں گے۔باتیں، باتیں، باتیں، باتیں...
میرے کانوں میں آج بھی اس پاکستانی فلم بول کا ڈائیلاگ گونج رہا ہے '' پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو''۔
اس خوبصورت باتونی دنیا میں جو بھی قدرتی یا انسانی آفت آتی ہے سب سے پہلے عورتوں اور ان کے بچوں پر ٹوٹتی ہے۔ذرا اٹلس اٹھا کے دیکھئے اور مجھے بھی بتائیے گا کہ کس دور میں کون سا خطہ بچوں کے لیے جنت تھا۔ بچوں کے استحصال کی بدترین شکل انھیں بڑوں کی غلطیوں، غفلتوں اور ہوس کے نتیجے میں چھڑنے والی جنگوں کا ایندھن بنا دیا جانا ہے۔
جب سے نام نہاد انسانی تہذیب وجود میں آئی ہے تب سے بچوں کو مسلح بحرانوں میں جھونکا جا رہا ہے۔ ہر نسل ، علاقے اور تہذیب کے بچوں کو ہر زمانے میں کھلونوں کی جگہ اسلحہ تھمانے سے کبھی دریغ نہ کیا گیا۔اگر میں مثالیں دینا شروع کروں تو بات بہت پھیل جائے گی لہذا خود کو مہذب ترین بیسویں اور اکیسویں صدی تک محدود کرتا ہوں۔
پہلی عالمی جنگ کو وار آف سوی لائی زیشن کا خوبصورت نام دیا گیا لیکن تہذیب کو بچانے کے نام پر لڑی جانے والی اس جنگ میں باقاعدہ فوجیوں کے طور پر بچوں کو بھی باقاعدہ فوجیوں کی طرح جس کا جہاں بس چلا اس نے لڑوایا۔ سب سے کم عمر فوجی سربیائی آرمی کے چھٹے آرٹلری ڈویژن میں ممچیلو گاروچ نامی بچہ بھی تھا۔عمر آٹھ سال۔دوسری عالمی جنگ میں بھی حالات مختلف نہیں تھے بلکہ نازیوں کے گیس چیمبرز کا مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
چلیے مان لیا کہ اس زمانے تک بچوں کے تحفظ کے عالمی قوانین نہیں بنے تھے۔لیکن جب اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر بچوں سے جبری فوجی مشقت لینے کی ممانعت کردی اور جب انٹرنیشنل کرائم کورٹ نے پندرہ برس کی عمر تک کے بچوں کو مسلح تصادم میں جھونکنے کے عمل کو بھی جنگی جرائم کی فہرست میں شامل کردیا تب کے بعد سے کیا حالات بدل گئے ؟
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق اس وقت ساڑھے بیس کروڑ کے لگ بھگ بچے ایسے ممالک اور علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو مسلح تصادم کی زد میں ہیں۔ آٹھ سال تا پندرہ سال کے پانچ لاکھ سے زائد بچے کم ازکم سولہ ممالک میں کسی نہ کسی مسلح ملیشیا ، سرکاری فوج یا باغیوں کے سپاہی ہیں۔آدھے طفل سپاہی افریقہ میں برسرِ پیکار ہیں۔انھیں یا تو اغوا کرکے لڑنے پر مجبور کیا گیا ، یا مالی و تعلیمی لالچ دیا گیا ، یا نظریاتی برین واشنگ کی گئی ، یا ان کے والدین نے غربت کے ہاتھوں کسی مسلح گروہ کو فروخت کردیا ، یا پھر انھیں اپنے عزیزوں پر ہونے والی زیادتیوں کا انتقام لینے کا موقع دینے کے بہانے بھرتی کیا گیا ہے۔
ان میں سے کوئی بچہ ایسا نہیں جس کے بارے میں مصدقہ طور پر کہا جاسکے کہ اس نے اپنی خوشی یا ضد سے یہ راستہ چنا۔ان بچوں کو اگلے مورچوں پر لڑوایا جاتا ہے ، مخالفین کو ذبح کروایا جاتا ہے ، خود کش جیکٹیں پہنائی جاتی ہیں، بارودی سرنگیں صاف کروائی جاتی ہیں، دوسرے بچوں کو بندوق پکڑانے کے ترغیبی چارے کے طور پے استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے ذریعے اسلحہ و بارود اور دیگر خطرناک مواد ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتا ہے۔انھیں دشمنوں کے درمیان چھوڑ کر جاسوسی پر مامور کیا جاتا ہے۔انھیں خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ دیگر بچوں کو فرار ہونے سے روکنے کے لیے ان میں سے کچھ کو سب کے سامنے عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ان (بالخصوص بچیاں ) سے جنسی غلامی کروائی جاتی ہے۔
مگر جو لوگ ان معصوم روحوں کو جہاد ، قوم پرستی ، نسلی بقا ، قبائلی غیرت وغیرہ کے نام پر اپنی جنگوں کا ایندھن بناتے ہیں ان کے پاس ان بچوں کو جھونکنے کے اپنے دلائل ہیں۔مثلاً یہی کہ جب کسی ملک ، قوم ، نسلی و مذہبی گروہ پر آڑا وقت آتا ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس کی عمر کیا ہے، سب کو لڑنا پڑتا ہے۔ہم کسی کو جبراً بھرتی نہیں کرتے۔بچے اپنی مرضی سے ہمارے ساتھ شامل ہونے کا باہوش و حواس فیصلہ کرتے ہیں۔ہم انھیں تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں بھی دیتے ہیں۔حق اور باطل کی پہچان بھی کرواتے ہیں اور اپنے دفاع کے لیے ہتھیاروں کی بھی۔ اب یہ ان پر منحصر کہ وہ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے اپنے لیے کون سی جنگی خدمت چنتے ہیں۔
دلائل جتنے بھی خوش نما ہوں مگر اس کا جواب کون دے گا کہ ایک کمسن بچہ جو ابھی کونپل سے پودا بھی نہیں بن پایا، اس کے نام پر اس کی جان ان خطرات میں جھونکنے کا حق کس نے دیا جن خطرات کا نہ تو اسے پوری طرح ادراک ہے اور نہ ہی یہ شعور کہ اسے کون ، کیوں کس مقصد کے لیے جھونک رہا ہے۔اگر تو بچہ خدا کی سونپی گئی امانت ہے تو پھر اس میں خیانت کے لیے کون سی اخلاقی دلیل شافی ہے۔کیا یہ دنیا اٹھارہ برس سے اوپر کے لوگوں سے خالی ہوچکی ؟ آٹھ تا پندرہ برس کے کتنے طفل سپاہی ہیں جنھیں انھیں جنم دینے والوں کی اجازت سے بھرتی کیا گیا۔کیا والدین کو کوئی جہادی ، کوئی صلیبی ، کوئی ترشولی بتاتا ہے کہ یہ بچہ کن حالات میں زندہ رہے گا اور مرے گا تو ذمے دار کون ہوگا۔اور پھر ماں باپ بھی کون ہوتے ہیں اپنے بچوں کو جانی خطرات کی جانب دھکیلنے والے۔کیا خدا نے والدین کو اس قسم کا کوئی اختیار دیا ہے ؟
بچے بھرتی کرنے والا کوئی شخص ، انھیں ایندھن بنانے والی کوئی تنظیم اور ان کے مصائب پر اٹھنے والی ہر عمارت کا کوئی بھی معمار بھلے سچائی اور راستی کی اصطلاحات میں لپٹا کوئی بھی بھاشن دے لیکن کوئی سچائی کسی ایسے انسان کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں جو تاریکی میں مارا جائے چہ جائیکہ کوئی معصوم بچہ۔
اچھا یہ تو کوئی بتائے کہ جو دوسروں کے بچوں کو اپنی جنگوں میں جھونک رہے ہیں کیا وہ اپنے نور العینوں کے لیے بھی فلاح کا یہی راستہ پسند فرما رہے ہیں ؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو میں اب تک لکھے گئے سب الفاظ واپس لیتا ہوں۔مجھے معاف کردیجیے گا۔اگر جواب نہ میں ہو تو پھر اپنے گریبان میں ضرور منہ دے لیجیے گا۔اپنے لیے نہ سہی اپنے کھردرے ہاتھوں میں یرغمال معصومیت کے لیے ہی سہی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
میرے کانوں میں آج بھی اس پاکستانی فلم بول کا ڈائیلاگ گونج رہا ہے '' پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو''۔
اس خوبصورت باتونی دنیا میں جو بھی قدرتی یا انسانی آفت آتی ہے سب سے پہلے عورتوں اور ان کے بچوں پر ٹوٹتی ہے۔ذرا اٹلس اٹھا کے دیکھئے اور مجھے بھی بتائیے گا کہ کس دور میں کون سا خطہ بچوں کے لیے جنت تھا۔ بچوں کے استحصال کی بدترین شکل انھیں بڑوں کی غلطیوں، غفلتوں اور ہوس کے نتیجے میں چھڑنے والی جنگوں کا ایندھن بنا دیا جانا ہے۔
جب سے نام نہاد انسانی تہذیب وجود میں آئی ہے تب سے بچوں کو مسلح بحرانوں میں جھونکا جا رہا ہے۔ ہر نسل ، علاقے اور تہذیب کے بچوں کو ہر زمانے میں کھلونوں کی جگہ اسلحہ تھمانے سے کبھی دریغ نہ کیا گیا۔اگر میں مثالیں دینا شروع کروں تو بات بہت پھیل جائے گی لہذا خود کو مہذب ترین بیسویں اور اکیسویں صدی تک محدود کرتا ہوں۔
پہلی عالمی جنگ کو وار آف سوی لائی زیشن کا خوبصورت نام دیا گیا لیکن تہذیب کو بچانے کے نام پر لڑی جانے والی اس جنگ میں باقاعدہ فوجیوں کے طور پر بچوں کو بھی باقاعدہ فوجیوں کی طرح جس کا جہاں بس چلا اس نے لڑوایا۔ سب سے کم عمر فوجی سربیائی آرمی کے چھٹے آرٹلری ڈویژن میں ممچیلو گاروچ نامی بچہ بھی تھا۔عمر آٹھ سال۔دوسری عالمی جنگ میں بھی حالات مختلف نہیں تھے بلکہ نازیوں کے گیس چیمبرز کا مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
چلیے مان لیا کہ اس زمانے تک بچوں کے تحفظ کے عالمی قوانین نہیں بنے تھے۔لیکن جب اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر بچوں سے جبری فوجی مشقت لینے کی ممانعت کردی اور جب انٹرنیشنل کرائم کورٹ نے پندرہ برس کی عمر تک کے بچوں کو مسلح تصادم میں جھونکنے کے عمل کو بھی جنگی جرائم کی فہرست میں شامل کردیا تب کے بعد سے کیا حالات بدل گئے ؟
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق اس وقت ساڑھے بیس کروڑ کے لگ بھگ بچے ایسے ممالک اور علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو مسلح تصادم کی زد میں ہیں۔ آٹھ سال تا پندرہ سال کے پانچ لاکھ سے زائد بچے کم ازکم سولہ ممالک میں کسی نہ کسی مسلح ملیشیا ، سرکاری فوج یا باغیوں کے سپاہی ہیں۔آدھے طفل سپاہی افریقہ میں برسرِ پیکار ہیں۔انھیں یا تو اغوا کرکے لڑنے پر مجبور کیا گیا ، یا مالی و تعلیمی لالچ دیا گیا ، یا نظریاتی برین واشنگ کی گئی ، یا ان کے والدین نے غربت کے ہاتھوں کسی مسلح گروہ کو فروخت کردیا ، یا پھر انھیں اپنے عزیزوں پر ہونے والی زیادتیوں کا انتقام لینے کا موقع دینے کے بہانے بھرتی کیا گیا ہے۔
ان میں سے کوئی بچہ ایسا نہیں جس کے بارے میں مصدقہ طور پر کہا جاسکے کہ اس نے اپنی خوشی یا ضد سے یہ راستہ چنا۔ان بچوں کو اگلے مورچوں پر لڑوایا جاتا ہے ، مخالفین کو ذبح کروایا جاتا ہے ، خود کش جیکٹیں پہنائی جاتی ہیں، بارودی سرنگیں صاف کروائی جاتی ہیں، دوسرے بچوں کو بندوق پکڑانے کے ترغیبی چارے کے طور پے استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے ذریعے اسلحہ و بارود اور دیگر خطرناک مواد ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتا ہے۔انھیں دشمنوں کے درمیان چھوڑ کر جاسوسی پر مامور کیا جاتا ہے۔انھیں خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ دیگر بچوں کو فرار ہونے سے روکنے کے لیے ان میں سے کچھ کو سب کے سامنے عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ان (بالخصوص بچیاں ) سے جنسی غلامی کروائی جاتی ہے۔
مگر جو لوگ ان معصوم روحوں کو جہاد ، قوم پرستی ، نسلی بقا ، قبائلی غیرت وغیرہ کے نام پر اپنی جنگوں کا ایندھن بناتے ہیں ان کے پاس ان بچوں کو جھونکنے کے اپنے دلائل ہیں۔مثلاً یہی کہ جب کسی ملک ، قوم ، نسلی و مذہبی گروہ پر آڑا وقت آتا ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس کی عمر کیا ہے، سب کو لڑنا پڑتا ہے۔ہم کسی کو جبراً بھرتی نہیں کرتے۔بچے اپنی مرضی سے ہمارے ساتھ شامل ہونے کا باہوش و حواس فیصلہ کرتے ہیں۔ہم انھیں تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں بھی دیتے ہیں۔حق اور باطل کی پہچان بھی کرواتے ہیں اور اپنے دفاع کے لیے ہتھیاروں کی بھی۔ اب یہ ان پر منحصر کہ وہ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے اپنے لیے کون سی جنگی خدمت چنتے ہیں۔
دلائل جتنے بھی خوش نما ہوں مگر اس کا جواب کون دے گا کہ ایک کمسن بچہ جو ابھی کونپل سے پودا بھی نہیں بن پایا، اس کے نام پر اس کی جان ان خطرات میں جھونکنے کا حق کس نے دیا جن خطرات کا نہ تو اسے پوری طرح ادراک ہے اور نہ ہی یہ شعور کہ اسے کون ، کیوں کس مقصد کے لیے جھونک رہا ہے۔اگر تو بچہ خدا کی سونپی گئی امانت ہے تو پھر اس میں خیانت کے لیے کون سی اخلاقی دلیل شافی ہے۔کیا یہ دنیا اٹھارہ برس سے اوپر کے لوگوں سے خالی ہوچکی ؟ آٹھ تا پندرہ برس کے کتنے طفل سپاہی ہیں جنھیں انھیں جنم دینے والوں کی اجازت سے بھرتی کیا گیا۔کیا والدین کو کوئی جہادی ، کوئی صلیبی ، کوئی ترشولی بتاتا ہے کہ یہ بچہ کن حالات میں زندہ رہے گا اور مرے گا تو ذمے دار کون ہوگا۔اور پھر ماں باپ بھی کون ہوتے ہیں اپنے بچوں کو جانی خطرات کی جانب دھکیلنے والے۔کیا خدا نے والدین کو اس قسم کا کوئی اختیار دیا ہے ؟
بچے بھرتی کرنے والا کوئی شخص ، انھیں ایندھن بنانے والی کوئی تنظیم اور ان کے مصائب پر اٹھنے والی ہر عمارت کا کوئی بھی معمار بھلے سچائی اور راستی کی اصطلاحات میں لپٹا کوئی بھی بھاشن دے لیکن کوئی سچائی کسی ایسے انسان کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں جو تاریکی میں مارا جائے چہ جائیکہ کوئی معصوم بچہ۔
اچھا یہ تو کوئی بتائے کہ جو دوسروں کے بچوں کو اپنی جنگوں میں جھونک رہے ہیں کیا وہ اپنے نور العینوں کے لیے بھی فلاح کا یہی راستہ پسند فرما رہے ہیں ؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو میں اب تک لکھے گئے سب الفاظ واپس لیتا ہوں۔مجھے معاف کردیجیے گا۔اگر جواب نہ میں ہو تو پھر اپنے گریبان میں ضرور منہ دے لیجیے گا۔اپنے لیے نہ سہی اپنے کھردرے ہاتھوں میں یرغمال معصومیت کے لیے ہی سہی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)