بیچارا وسو شیدی
ناجائز تعمیرات مسمارکرکے یہ ادارہ قانون پسند شہریوں سے داد بھی پاتا ہے۔
ISLAMABAD:
بچپن میں ہم اْسے سحری کے وقت ڈھول یا مٹی کے تیل کا خالی کنستر بجا کر لوگوں کو روزہ رکھنے کے لیے جگاتے دیکھا کرتے تھے، رمضان شریف میں اس مصروفیت کے علاوہ وہ پانچوں وقت شہر کی مرکزی جامع مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے یا تلاوت قرآن میں محو پایا جاتا تھا۔
مزدور پیشہ غریب بال بچے دارآدمی تھا لیکن بڑے میرکے ڈیرے (حویلی) کی خاص باندی مائی محبوبہ کا رشتے دار ہونے کی وجہ سے فکر معاش سے آزاد تھا کہ وہاں سے تینوں وقت تیار کھانا اس قدر زیادہ مقدار میں آتا تھا کہ کمپاؤنڈ میں رہنے والے تمام لوگوں کے پیٹ بھر کے کھانے کے بعد بھی بچ جاتا تھا۔
ہمارے پرائمری اسکول کے ایک ٹیچر سائیں عرس شیدی بھی اسی کمپاؤنڈ میں رہتے تھے، وہ اسکول آتے ہوئے بازار سے کوئی چیز خرید کر لاتے تو وہ ان کے گھر دینے میں ہی جاتا تھا، چھٹی کے دن اسکول اور پِڑ وڈے (بڑی امام بارگاہ) کے درمیان واقع میدان میں گلی ڈنڈے کا میچ ہوتا تو بھی مجھے سائیں عرس کے بیٹوں خمیسو اور محرم کو بلانے کے لیے بھیجا جاتا تھا، جو اس کے مانے ہوئے کھلاڑی تھے۔
وسو راج مستری کا چھوٹا موٹا کام بھی کر لیا کرتا تھا، ایک دفعہ کسی نے اس سے گھر کی بیرونی دیوار بنوائی، ایک غیر ہنر مند مزدور بھی اس کے ہمراہ تھا، وہ دونوں کام مکمل کرکے اور اپنی اجرت لے کر ابھی بمشکل چند قدم آگے گئے تھے کہ دیوار گرگئی، ضرور اس کی کوئی اور وجہ رہی ہوگی یا یہ محض ایک اتفاق تھا لیکن اس واقعے کے بعد بیچارے وسوکو نہ صرف اس طرح کے کام ملنے بند ہوگئے بلکہ کچھ شریر لڑکوں نے دیوار کے گرنے کو اس کی چڑ بنا لیا اور اس کا وہ ریکارڈ لگایا کہ غریب منہ چھپاتا پھرتا تھا۔
وہ وسو کو آتا ہوا دیکھتے تو ایک لڑکا دوسرے کو مخاطب کرکے کہتا دیوار بن گئی ہے لیکن جب تک میں اجرت کے پیسے نہ لے آؤں تْو اسے سہارا دیے رہنا کہ کہیں گر نہ پڑے،گویا وسوکی چنی ہوئی دیوارکے کھڑے رہنے کی ضمانت اجرت ملنے تک کی ہوتی تھی، اس کے بعد کی نہیں۔ مجھے اپنے آبائی شہرکا یہ جیتا جاگتا کردار لوگوں کو لوٹنے اور ان کی جیبیں کاٹنے کے ایک نئے کاروبار کے بارے میں جان کر یاد آیا جو آج کل کراچی میں زوروں پر ہے۔
دروغ برگردن راوی، یہ لٹیرے بعض شہری اداروں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے وارداتیں کرتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی خالی پلاٹ پڑا دیکھ کر اس پر قبضہ کرلیں گے، اکثر پلاٹ کے مالک کو بہت دیر سے پتہ چلتا ہے، تب تک یہ اپنا کام کرچکے ہوتے ہیں۔ فرض کریں کسی کو جلد پتہ چل جائے تو اسے بڑی شرافت، خوش اخلاقی اور نرمی سے سمجھایا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ پلاٹ تمام قانونی تقاضے پورے کرکے کسی سے خریدا ہے، اگر اس کا ہے تو جاکر عدالت میں اپنا دعویٰ ثابت کرے۔
متاثرہ شخص اگر پولیس کی مدد حاصل کرتا ہے تو یہ فراڈیے اپنے کسی کالے کوٹ والے بندے کو آگے کر دیتے ہیں جو انگریزی کے دوچار جملے بول کر ایس ایچ او کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ یہ کیس قابل دست اندازی پولیس نہیں بلکہ دیوانی (سول) معاملہ ہے اور شکایت کنندہ کو ریمیڈی صرف عدالت سے مل سکتی ہے۔ پولیس کو یہ بات اگر بتانے سے سمجھ میں نہیں بھی آتی تو مٹھی گرم ہونے کے بعد ضرور سمجھ میں آجاتی ہے اور وہ اپنی سمجھی ہوئی بات شکایت کنندہ کو بھی سمجھا دیتی ہے۔
اگر وہ سمجھدار آدمی ہے اور اس کے پاس ناجائزطریقے سے کمایا ہوا مال نہیں ہے تو پلاٹ کو بھول کرگھر بیٹھ جاتا ہے ورنہ ایک سے دوسر ی جگہ دھکے ہی کھاتا رہتا ہے۔ اتنے میں قبضہ مافیا والے اس پلاٹ پر چھ سے آٹھ فلیٹوں پر مشتمل دو یا تین منزلہ رہائشی عمارت کھڑی کرکے اور ہاتھ کے ہاتھ بیچ کر رفو چکر ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اگر پلاٹ کے اصل مالک کی داد رسی ہو بھی جائے تو فراڈیوں کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑتا، برق گرتی ہے تو بیچارے فلیٹ خریدنے والوں پر جو قبضہ کرنے میں مدد کرنے والے شہری ادارے ہی کے ہاتھوں بعد میں عمارت گرائے جانے کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔
مجھے وسو شیدی فارمولا پر ہونے والے اس کاروبارکا علم کل اس وقت ہوا جب میں کسی کام سے باہر نکلا تو پروجیکٹ کے مین گیٹ پر جمع ہجوم دیکھ کرسمجھا کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے یا پھر جھگڑا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ لوگ بین کرتی ہوئی ایک بیوہ عورت کی ہمدردی میں جمع ہوئے تھے، جو ہمارے محلے کی جامع مسجد سے متصل 400 گزکے پلاٹ پر نو تعمیر شدہ فلیٹوں کی طرف اشارہ کرکے بتا رہی تھی کہ یہ پلاٹ اس کا ہے اور کسی نے اس پر قبضہ کرکے نہ صرف یہ رہائشی عمارت تعمیرکرلی ہے بلکہ سارے فلیٹ بیچ بھی چکا ہے۔ اس بیوہ خاتون کے لیے ہمدردی کا جذبہ تو میرے دل میں بھی جاگا تھا مگر میں جو سوائے کالم لکھنے کے اور کچھ کر نہیں سکتا تھا، بیچاری کو روتا چھوڑکر آگے بڑھ گیا۔ پہلے بتاچکا ہوں کہ یہ پلاٹ مسجد سے متصل ہے،گویا اللہ میاں کے پڑوسیوں کے پلاٹ بھی قبضہ مافیا کی دسترس سے محفوظ نہیں اور ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
جب یہ عمارت زیر تعمیر تھی تو نمازکے لیے مسجد آتے جاتے میں بھی شیشوں سمیت سیاہ رنگ کی ایک ڈبل کیبن ویگن کو، جس میں آگے کلف لگے سفید لٹھے کے کپڑے پہنے ایک موٹا سا آدمی بیٹھا مونچھوں کو تاؤ دے رہا ہوتا تھا اور پیچھے ایک دو نہیں پورے چارکلاشنکوف بردار اس کے محافظ سوار ہوتے تھے، کھڑا دیکھا کرتا تھا۔ عمارت بن جانے اور اس کے سارے فلیٹ بک جانے کے بعد وہ پھر کبھی دکھائی نہیں دی۔
مزید تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ پلاٹ پر یہ پانچویں مرتبہ قبضہ ہوا ہے، پہلے بھی چار بار یہاں متعلقہ شہری ادارہ غیر قانونی تعمیرات مسمارکرنے کا کارنامہ سر انجام دے چکا ہے، بس وہ جاگتا ذرا دیر سے اس وقت ہے جب اس کا پہلا کلائنٹ اپنا کام پورا کرکے اور مال بٹور کے جا چکا ہوتا ہے، بمبئی کے اس خانصاحب کی طرح جو نسوارکی چٹکی منہ میں رکھ کر ایسا سوتے تھے کہ پھر اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے تا آنکہ ان کی جیب سے ڈبیہ نکال کر ان پر تھوڑی سی نسوار نہ چھڑکی جائے۔ اس شہری ادارے کو سارے غیر قانونی تعمیراتی کام اسی وقت نظر آتے ہیں جب ان کے کرنے والے اپنا الو سیدھا کرکے رفو چکر ہو چکے ہوتے ہیں۔
مزے کی بات کہ بعد میں ناجائز تعمیرات مسمارکرکے یہ ادارہ قانون پسند شہریوں سے داد بھی پاتا ہے۔ آپ کو شہر میں جابجا ایسی عمارتیں بھی نظر آئیں گی جن کا تعمیراتی کام سالوں سے رکا ہوا ہے، معلوم کریں گے تو پتہ چلے گا یہ بھی متعلقہ شہری ادارے کے اہلکاروں کا ایجاد کردہ کمائی کا دھندا ہے۔ چار پانچ منزلیں تعمیر ہو جانے تک آنکھیں بند رکھیں گے، پھر آکر بات کریں گے، ڈیمانڈ پوری ہوئی تو ٹھیک ورنہ کوئی نہ کوئی نقص نکال کر کام رکوا دیں گے۔
نہ صرف بلڈر بلکہ پروجیکٹ میں دکانیں اور فلیٹس بک کرانے والوں کے کروڑوں روپے بلاک ہوجاتے ہیں، قانونی جنگ جیتنے کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے، تب تک لاگت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر سرمایہ کاری کرنے والے تباہ ہوجاتے ہیں، سب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور سب کچھ جانتے ہوئے خاموش رہتے ہیں، نہ جانے اس میں کیا مصلحت ہے ۔ بیچارہ وسو شیدی مفت میں بد نام تھا، اسے تو لوگوں نے مسجد میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا، کوئی ان دیوار تھامے رکھنے والوں کا کچھ بگاڑ کے دکھائے تو مانیں۔