اقبال۔۔۔ دیدۂ بینائے قوم

اس ’’دیدہ بینائے قوم‘‘ نے معارف و معانی کی کیا کیا پرتیں نہیں کھولیں۔


اقبال نے ’’ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر‘‘ کے بے مثل مصرعے میں ڈھالا ہے۔ فوٹو : فائل

مرد حق از آسماں افتد چو برق
ہیزم اور شہر و دشت غرب و شرق

ماہنوز اندر ظلام کائنات
او شریک اہتمام کائنات

''اسرار خودی'' ہی میں اقبال نے اپنی حد درجہ منفرد شعری و فکری عظمت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے عہد کو اسرار و معارف سے ناواقف قرار دیتے ہوئے اپنے مصدر معنوی کی طرف بھی اشارہ کیا تھا اور خود کو ''شاعر فردا'' بھی قرار دیا تھا :

نغمۂ من از جہان دیگر است
ایں جرس را کاروان دیگر است

اے بسا شاعر کے بعد از مرگ زاد
چشم خود بربست و چشم ما کشاد

رخت باز از نیستی بیروں کشید
چوں گل از خاک مزار خود دمید

یہی ''شاعر فردا'' جب ''بانگ درا'' کی ایک نظم میں ''دیدہ بینائے قوم'' کی ترکیب و علامت میں ڈھلتا ہے تو اس کی یہ سج دھج ہوتی ہے:

محفل نظم حکومت چہرۂ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

اس ''دیدہ بینائے قوم'' نے معارف و معانی کی کیا کیا پرتیں نہیں کھولیں اور اس چار کھونٹ کی دنیا میں نوع انسانی کو بالعموم اور ملت اسلامیہ کو بالخصوص متوازن اور بامراد زندگی گزارنے اور حقیقت مطلق سے وابستہ رہنے کی کیا کیا عمدہ حکیمانہ تدبیریں نہیں بتائیں۔ جہاں بینی، جہاں نمائی اور جہاں افروزی کی یہی وہ جہت ہے جس نے انہیں ملی ہی نہیں آفاقی شاعر کا درجہ دیا۔ اقبال کا یہ دعویٰ حدود صداقت سے سرمومتجاوز نہیں جب وہ ایک عالم سرمستی میں کہتے ہیں:

قلندریم و کرامات ماجہاں بینی است
زما نگاہ طلب کیمیا چہ می جوئی

سوفوکلیز نے لکھا تھا کہ اس کائنات میں بہت سی حیرتیں اقامت گزیں اور حرکت کناں ہیں مگر انسان سے بڑی حیرت کوئی نہیں اور شیکسپیئر کا معاصر مالو کہتا تھا کہ کائنات کا تعمیر شدہ مکان حیرت میں ضرور ڈالتا ہے مگر ہماری روحیں اس کے اسرار سے واقف ہو سکتی ہیں۔ اقبال نے انسان اور کائنات کی اس ثنویت کو تثلیت کی صورت میں دیکھا یعنی اس میں اسلامی تصور الٰہ کی شق کا اضافہ کیا اور یوں اس تثلیت یعنی خدا، انسان اور کائنات کے بھیدوں اور حیرتوں کو اپنی غیر معمولی بصیرت سے فاش کیا۔ یہ تثلیت اقبال کے نظام فکر میں ڈھل کر ایک حقیقت واحدہ کی صورت اختیار کرگئی ہے:

قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

ہیگل نے لکھا ہے کہ یونانیوں کو خبط ہوگیا تھا کہ کسی بھی اہم کام کے آغاز سے پہلے وہ غیب کی کسی ندا یا اشارے کے منتظر رہتے تھے حال آنکہ صحیح معنوں میں آزاد افراد اور قوموں کا یہ شیوہ ہرگز نہیں ہوتا ۔ اقبال کے یہ شعر دیکھیے جو ان کی حریت فکر اور اعتماد ذات کی روشن گواہی مہیا کرتے ہیں اور اسی مرد حر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا ذکر ہیگل نے کیا تھا:

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

شام و سحر عالم از گردش ما خیزد
دانی کہ نمی سازد ایں شام و سحر مارا

یہی وہ حقیقت ہے جسے اقبال نے ''ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر'' کے بے مثل مصرعے میں ڈھالا ہے۔ میرا ایقان ہے کہ ہمارے ہاتھوں کی لکیریں ہماری تقدیروں کا فیصلہ نہیں کرتیں، ہمارے فیصلوں سے ہمارے ہاتھوں کی لکیریں بنتی اور متغیر ہوتی ہیں۔ اقبال کا مندرجہ بالا فارسی شعر ہمیں جرمن فلسفی نیٹشے کی یاد دلاتا ہے جو کہتا تھا کہ یہ پوری کائنات ہمارے ذہن فعال کی زائیدہ و ساختہ ہے۔ خود اقبال نے اسی خیال کو فارسی شعر میں یوں ڈھالا تھا:

ایں جہاں چیست صنم خانۂ پندار من است
جلوۂ او گرو دیدۂ بیدار من است

اقبال نے اپنے ''شذرات'' ( 1910ء) میں ایک جگہ لکھا تھا:

''روح عالم اپنی داخلی زندگی کے بعض پہلو علامات میں چھپا دیتی ہے۔ کائنات ایک بڑی علامت کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن روح عالم ہمارے لیے کبھی ان علامات کی توضیح و تفسیر نہیں کرتی۔ یہ شاعر کا فرض ہے کہ ان علامات کی تفسیر کرے اور اس کے معانی عالم انسانیت پر منکشف کرے۔ چنانچہ لگتا ایسے ہے کہ شاعر اور روح عالم کے مابین بُعد ہے کیونکہ اول الذکر کشف حجاب کرتا ہے اور موخر الذکر چھپاتا ہے۔''

کشف حجابات کا یہ فرض جیسا گزشتہ صدی میں اقبال بجالائے ہیں، اس کی کوئی مثال کم از کم ان کی اور ہماری معاصر تاریخ میں دور دور تک نہیں ملتی۔ افراد کی تعمیر خودی، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب و علل، خدا اور انسان کے باہمی رشتے، انسان کے عمرانی، معاشی، سیاسی اور تہذیبی اوضاع اور کائنات کی روحانی تعبیرات اقبال کی شاعری اور فلسفے کا بنیادی موضوع رہی ہیں۔ دراصل اقبال کی فکریات کا خمیر دو عناصر کے اتصال سے عبارت ہے اول: دائمی اور ابدی عنصر، دوم: وقتی اور ہنگامی عنصر۔ دائمی اور ابدی عنصر نے انہیں خدا، انسان اور کائنات کے باہمی رشتوں پر غور کرنے کی تحریک دی اور وقتی اور ہنگامی عنصر یعنی Contingent نے انہیں اپنے گردوپیش کی معروضی صورت حالات سے پوری طرح وابستہ رکھا۔ اقبال ایسی فکر کو انسانیت کے لیے سم قاتل خیال کرتے تھے جو صاحب فکر کو تجریدو تفرید میں اس طرح گم کردے کہ عصری صورت حال سے اس کا رشتہ ہی منقطع ہو جائے۔ انہوں نے کتنی حکیمانہ بات کہی تھی؎

اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے
بری ہے مستی اندیشہ ہائے افلا کی

اقبال کی درد مندی، دلسوزی اور دل گرمی، ملت اسلامیہ سے ان کی گہری وابستگی اور نوح انسانی سے ان کی اٹوٹ محبت ان کے شعری اور نثری کارناموں میں جگہ جگہ جھلکتی نظر آتی ہے۔ اقبال جان کو جسم پر اور روح پاک کو خاک پر ترجیح دیتے ہیں۔ زندگی اور زمانے کے بارے میں حرکی تصور نے انہیں ''طلسم زیرو بالا درشکستن'' کا انقلاب انگیز نعرہ بلند کرنے پر اکسایا اور؎

گفتند جہان ما آیا بتو می سازو
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن

کی قبیل کے رجزیہ اظہارات پر مجبور کیا۔ ان کی دیدہ بیداری، خویشتن نگری اور خدا اندیشی نے ان کی شعری و نثر کائنات کو ایک منفرد لحن اور لہجہ عطا کیا ہے:

بہ نوریاں زمن پابگل پیامے دہ
حذر زمشت غبارے کہ خویشتن نگراست

زخود رمیدہ چہ داند نوائے من زکجاست
جہان اور دگراست و جہان من دگر است

اقبال نے اپنے ساتویں خطبے ''Is Religion Possible'' میں مجرد فلسفہ آرائی کی مخالفت کرتے ہوئے نئی دنیا کی تشکیل کی بات کی تھی۔ اس نئی دنیا کی تشکیل اور نئے انسان کے ظہور کی تمنا اقبال کی فکریات میں جگہ جگہ ظہور کرتی ہے۔

دل بدوش و دیدہ بر فرداستم
درمیان انجمن تنہا ستم

۔۔۔۔۔۔

پیکر فرسودہ ر ادیگر تراش
امتحان خویش کن، موجود باش

''اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر'' کے رجز یہ آہنگ کے حامل ابتدائی کلام ( 1908ء) سے لے کر اپنے آخری مجموعۂ کلام (ارمغان حجاز) تک مسلسل حرکت، جہاد، سخت کوشی، فرشتہ شکاری اور یزداں پیوستگی کے اظہارات اقبال کو ایک ایسے حال آگاہ، دیدہ ور، پیش قیاس اور مستقبل شناس شاعر کے طور پر جلوہ گر کرتے ہیں جس کی مثالیں عالمی ادب میں ناپید نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ اقبال کی بعد کی نہایت پختہ نثری و شعری فتوحات تو خیر ایک طرف، ان کی ابتدائی تحریروں میں بھی ان کی بلند نگہی اور توازن فکر کا قدم قدم پر احساس ہوتا ہے۔

''اسلام اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے"Islam as a Moral & Political ideal'' کے زیر عنوان لکھے جانے والے 1909ء کے ایک مقالے کی چند متفرق حکیمانہ سطریں ملاحظہ فرمائیں۔

1) A living nation is living because it never forgets its dead.

2) If we cannot get rid of our difficulties, the world will soon get rid of us.

3) A strong will in a strong body is the ethical ideal of Islam.

4) Figth not for the interpretations of truth when the truth itself is in danger.

اقبال نے 1910ء میں اپنی ڈائری میں ''Poets & Politicians'' کے زیر عنوان ایک نہایت حیران کن بات لکھی تھی۔ ان کے خیال میں:

''Nations are born in the hearts of poets. They prosper and die in the hands of politicians''

1910ء کے اس ارشاد کے ٹھیک بیس برس بعد اسی دیدہ ورکے دل میں پاکستان کے تصور نے کروٹ لی جس کا گواہ ان کا خطبہ الٰہ آباد ہے۔ اس کے سترہ برس بعد پاکستان وجود میں آیا اور پھر منجملہ دیگر وجوہ کے ایک سیاستدان کی بے تدبیری اور خود غرضی کے باعث 1971ء میں اس کا ایک حصہ ہم سے الگ ہو گیا۔ اقبال کی بصیرت کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ سچ ہے کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اتقوا فراسۃالمومن انہ ینظر بنوراللّٰہ۔

خاص برعظیم کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کو ایک الگ قومی تشخص عطا کرنے اور ان میں غیر معمولی خود اعتمادی، نصب العین اور جدوجہد کا صور پھونکنے کے ضمن میں اقبال کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس باب میں مخزن کے اکتوبر 1904ء میں اقبال کے شائع ہونے والے ایک طویل مضمون بعنوان ''قومی زندگی'' کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ کم و بیش ایک صدی پیشتر لکھے جانے والے اس مضمون کا مصنف اس وقت صرف ستائیس برس کا ایک نوخیز قلمکار تھا مگر حیرت ہے کہ اس مضمون میں ان کی بعد کی بے حد اہم علمی کاوشوں کا سارا اجمال نظر آتا ہے۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام سے عشق ابتداء ہی سے ان کے وجود کا حصہ تھا ۔ اس عہد میں دنیا کے مختلف خطوں میں جو تہذیبی، تمدنی، سیاسی اور سائنسی و تکنیکی تبدیلیاں واقع ہورہی تھیں، سب پر اقبال کی نظر تھی۔ خود انحصاری کا نعرہ جو کبھی کبھار ہمارے سیاستدان اور حاکم لگاتے رہتے ہیں، اس کا اولین شعور اقبال کی اسی ایک صدی پہلے کی تحریر میں نظر آتا ہے۔ وہ مسلم ملت کے زوال، اس کی معاشی بدحالی، اس کے فکری افلاس اورتنگ نظری، اس کے نام نہاد علماء کی فتویٰ فروشی، قشر پرستی، فضول خرچی، رسم پرستی غرض کئی معاشرتی مفاسد کا ذکر نہایت درد مندی سے کرتے ہیں۔ ''اجتہاد'' پر انہوں نے آئندہ چل کر جو کچھ بالتفصیل لکھا اس کے ابتدائی مگر اہم نقوش اسی مضمون میں نظر آتے ہیں۔ پھر اسی مضمون میں اقبال نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو بھی خوبی سے اجاگر کیا ہے۔

1904ء کے اس مضمون سے لے کر برعظیم میں بعد کے ہونے والے سارے قابل ذکر واقعات تک اقبال اپنا تحریری اور تخلیقی ردعمل ظاہر کرتے رہے اور یہ ردعمل صرف برعظیم کی مسلم ملت تک محدود نہیں رہا بلکہ اسلامیان عالم پر گزرنے والے حوادث پر بھی اقبال اپنی گہری بصیرت سے بھر پور بیانات اور تحریریں شائع کرتے رہے۔ چینی ترکستان میں بسنے والے 99% مسلمانوں کی حمایت، کشمیر میں ڈوگرہ مظالم پر احتجاج اور اہل کشمیر کو اتحاد کامل کی تلقین، فلسطین میں عربوں پر ہونے والے ظلم اور حبشہ پر مسولینی کی فوج کشی پر اپنے ردعمل کے اظہار تک اور پھر اس سے آگے دم واپسیں تک اپنے قلم کی لو اونچی رکھے رہنے کی کوشش اور تڑپ یہ سب اقبال کے غیر معمولی دانشور اور حکیم بے مثال ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ سب ان کے سرتا پا ایک زندہ، متحرک، اسلام دوست اور بے حد حساس انسان ہونے کی بڑی علامت ہے۔

اس رفیع اور روشن طرز عمل سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا علم عشق سے آتش اندوز اور فیض یافتہ تھا ۔ اقبال نے ''جاوید نامہ'' کے تمہیدی اشعار میں کس قدر صراحت سے لکھا تھا کہ علم جب تک عشق سے فیض اندوز نہیں ہوتا، اس کی حیثیت افکار کی تماشاہ گاہ سے زیادہ نہیں اور ایسا تماشا خانہ سحر سامری کی طرح باطل اور بے بنیاد ہوتا ہے۔ اگر علم روح القدس کی پاکیزگی سے ہمکنار نہیں یہ محض افسوں گری ہے۔ وہ اس شاعری اور ان فنون کو نوع بشر کے لیے ہلاکت خیز قرار دیتے تھے جو دلوں میں امید کے پھول کھلانے کے بجائے انہیں افسردہ و پامال کرنے کا باعث بنیں:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا؟

ضرب کلیم سے پہلے اپنے فارسی شاہکار ''جاوید نامہ'' میں بھی وہ عیار اور خواہشات نفس کے اسیر شعراء کو ہدف تنقید بناتے ہیں:؎

اے بسا شاعر کہ از سحر ہنر

رہزن قلب است و ابلیس نظر

نٹشے کا قول تھا کہ آزادی تخلیق ہی میں ممکن ہے۔ میرے خیال میں اگر اس جملے کی ترتیب کو بدل دیا جائے تب بھی اس کی معنویت برقرار رہتی ہے۔ یعنی تخلیق آزادی میں ممکن ہے۔ 1930ء کے معرکہ آرا خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے برعظیم کی غلامی اور اس کے منفی عواقب کا ذکر بایں الفاظ کیا تھا:

The political bondage of India has been and is a source of infinite misery to the whole of Asia. It has suppressed the spirit of the East and wholly deprived her of that joy of self expression which once made her the creator of great and glorious culture.

اور یہی بات اقبال نے اپنی لافانی نظم ''خضرراہ'' میں کہی تھی:

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب

اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی!!

اقبال اپنی وسعت نظر اور دقت مطالعہ کی بنا پر اس حقیقت کا دراک کرچکے تھے کہ ملت اسلامیہ اپنے عہد زریں میں متعدد قوموں کو تہذیب و شائستگی کے ثمرات سے فیض یاب کرچکی ہے اور آئندہ بھی ایک روشن مستقبل رکھتی ہے۔ اس باب میں انہیں اشپنگلر جیسے ماہرین عمرانیات سے شدید اختلاف تھا جن کے خیال میں ثقافتیں نامیابی اجسام ہونے کی حیثیت میں ایک دوسرے سے قطعی بیگانہ رہتی تھی۔ اس سے کسی قدر ملتا جلتا تصور ٹائن بی نے اپنی کتاب ''The World & the West'' میں پیش کیا ہے۔

اقبال نے اشپنگلر کے اس تصور کی ایک سے زیادہ مقامات پر نفی کی۔ اپنے پانچویں خطبے ''The Spirit of Muslim Culture'' میں اقبال نے واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ اشپنگلر نے ایک مذہبی تحریک کے طور پر اسلام کی نوعیت کو کلیۃً غلط سمجھا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط ہے کہ ثقافت ایک مخصوص نامیابی وحدت ہونے کے باعث تاریخی طور پر اپنے سے پہلے اور بعد میںظہور کرنے والی ثقافتوں سے کوئی نقطۂ اتصال نہیں رکھتی۔ اس موقف کی روشنی میں اس نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ مغربی تہذیب کی روح غیر کلاسیکی اور حرکی ہے اور اس ضمن میں اس نے مسلم ثقافت کے اثرات قطعاً قبول نہیں کیے۔

اقبال کا مؤقف یہ ہے کہ اپنی اسی غلط فکری کے باعث اشپنگلر اسلام کی ثقافتی روح اور اس کے فیضان کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ اقبال نے اپنے گہرے ایقان کوکام میں لاتے ہوئے 1912ء ہی میں مسلم ملت کی نشاۃ ثانیہ اور اس کے روشن امکانات کی پیش گوئی کردی تھی۔ جب انہوں نے ''فاطمہ بنت عبداللہ'' نامی نظم لکھی تھی۔ دل کی تہوں اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اس نظم میں ایک شعر یہ بھی ہے:

اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں

مسلم ملت کی جانب سے دنیا کو موعودہ فیض رسانی کا ذکر اقبال نے کہیں ''خدمت ساقی گری باما گزاشت'' کہہ کر کیا ہے اور کہیں

ہوچکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور

کہہ کر کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم نشاۃ ثانیہ کا تصور اقبال کے لیے ایک زندہ حقیقت اور ایک حاضر و موجود باطنی مشاہدے کی صورت میں ڈھل چکا تھا اور اس کے پس منظر میں یقینا قرآن میں مذکور حیات بعد الممات سے متعلق کئی آیات کا فیضان کار فرما رہا ہوگا ۔ یہیں آکر اقبال کا رستہ زمین پیوستہ اور ناک کی نوک سے آگے نہ دیکھنے والے سیکولر دانشوروں سے الگ ہوجاتا ہے۔

اقبال کی وسعت نظر اور آفاق گیر طرز احساس کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے برعظیم کی مسلم ملت اور اسلامیان عالم کے باب ہی میں اپنے مثبت اور نشاۃ ثانیہ کے حامل افکار کا تخلیقی اظہار نہیں کیا بلکہ پوری نوع انسانی کی فلاح و صلاح کو پیش نظر رکھا۔ وہ کائنات کی روحانی تعبیر کو وقت کا نہایت اہم تقاضا خیال کرتے تھے۔ اپنے چھٹے خطبے میں انہوں نے نوع انسانی کے لیے تین چیزیں ضروری قرار دیتے ہوئے کس قدر حکیمانہ انداز میں لکھا تھا:

"Humanity needs three thing today - a spiritual interpretation of the universe, spiritual emancipation of the individual, and basic principles of a universal import directing the evolution of human society on a spiritual basis. Modern Europe has, no doubt, built idealistic systems on these lines, but experience shows that truth revealed through pure reason is incapable of bringing that fire of living conviction which personal revelation can only bring. This is the reason why pure thought has so little influenced men, while religion has always elevated individuals and transformed whole societies."

یہی بات اقبال نے برنگ دگر اپنے آخری خطبے ''Is Religion Possible'' میں کہی ہے۔ ان کے خیال میں اس وقت دنیا کو حیاتیاتی اعتبار سے زندہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں مذہب ہی، جو اپنے برتر مظاہر میں نہ تو کٹر ڈوگما ہے نہ پروہت پن ہے نہ رسم و رواج کا مجموعہ ہے، انسان کو پھر سے اس اخلاقی ذمہ داری اٹھانے کے قابل بنا سکے گا جو علم جدیدہ کی نشوونما نے اس پر ڈال رکھی ہے۔ لہٰذا جب تک انسان کو اپنے آغاز و انجام یا بہ الفاظ دگر اپنی ابتداء اور انتہا کی کوئی نئی جھلک نظر نہیں آجاتی وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آسکتا جس میں مقابلے اور مسابقت نے ایک غیر انسانی صورت حال اختیار کررکھی ہے۔ نہ اس تہذیب و تمدن پر جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہوچکی ہے۔

اقبال کی غیر معمولی بصیرت اور ان کی کمال دردمندی کا موزوں ترین مظہر ان کا سال نو کا وہ پیغام بھی ہے جو انہوں نے اپنی وفات سے صرف ساڑھے تین ماہ قبل لاہور ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے نشر کیا۔ پیغام کے آخر میں اقبال نے ایک ابدی سچائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا:

''یاد رکھیں! انسان انسان کا باہمی احترام کرکے ہی اس دھرتی پر سلیقے سے زندگی بسر کرسکتا ہے۔ یہ دنیا اس وقت تک خوفناک درندوں کی آماجگاہ رہے گی جب تک پوری دنیا کی تعلیمی قوتیں انسان میں انسان کے احترام کی روح نہ پھونک دیں۔ صرف ایک وحدت ہی قابل اعتماد ہے اور وہ اخوت انسانی جو نسل، وطنیت، رنگ اور زبان سے ماورا ہے۔''

اقبال کے پیغام میں ان کی روح کی گرمی اور ایقان کی روشنی شامل تھی۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسی روشنی ہوگی وہ اقبال کے نور بصیرت سے آملے گی کیونکہ روشنی روشنی کی حریف نہیں ہوا کرتی۔ رومی نے فرمایا تھا کہ کار پاکاں روشنی و گرمی است۔ روشنی و گرمی کے اسی اتصال سے پستی بلندی سے، ظلمت نور سے اور شرخیر سے مبدل ہوتا رہا ہے اور مثبت تغیر کا یہ عمل انشاء اللہ جاری رہے گا۔ اقبال نے کہا تھا:

زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی

اقبال کے اس شعر کے عین مصداق مغرب کا ایک دانشور ولیم اوڈگلس اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ ذرا سنیے وہ مزار اقبال پر کھڑا عقیدت کے عالم میں کیا کہہ رہا ہے۔

''That simple tomb is a place of pilgrimage for me. For Iqbal was a man who belonged to all races, his concepts had universl appeal. He spoke to the consciences of men of good-will whatever their tongue, whatever their creed.

حق یہ ہے کہ شاعری کا یہ شاہ دریا آستیں آج بھی اپنا فیض عام کیے ہوئے ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں