ووٹ کی عزت یہ ہے کہ عوام کو آئین کے تفویض کردہ حقوق دیئے جائیں چیف جسٹس

کس نے لگانا ہے مارشل لاء اور کس نے لگانے دینا ہے؟ جس دن شب خون مارا گیا اس دن میں اور میرے ججز نہیں رہیں گے، چیف جسٹس


ویب ڈیسک April 21, 2018
عوام کے حقوق کے لیے لڑیں گے جس دن قوم ساتھ نہیں رہی پیچھے ہٹ جائیں گے، چیف جسٹس فوٹو:فائل

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ووٹ کی قدر اور عزت یہ ہے کہ وہ بنیادی حق عوام کو دیں جو آئین نے دیئے ہیں۔

لاہور میں ایوان اقبال میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہے، کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے، اینکرز کہتے ہیں مار شل لا، مارشل لا، کس نے لگانا ہے مارشل لاء اور کس نے لگانے دینا ہے، قائد اعظم کے ملک میں صرف جمہوریت رہے گی، جس دن مارشل لاء لگا اور ہم پر شب خون مارا گیا اس دن میں اور سپریم کورٹ کے میرے 17 ججز نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ذہن سے نکال دیں کہ سپریم کورٹ جوڈیشل مارشل لاء لگارہی ہے، جوڈیشل مارشل لاء کا آئین میں کوئی وجود نہیں، یہ کسی کے دل کی خواہش یا اختراع ہوسکتی ہے، ہمارے ذہن میں نہیں، ماورائے آئین کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں، عوام کے حقوق کے لیے لڑیں گے، جس دن لگا قوم ساتھ نہیں رہی، ہم پیچھے ہٹ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل مارشل لاء کا آئین میں کوئی تصور نہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ کون لگائے گا مارشل لاء کس میں ہمت ہے؟، کوئی بھی فیصلہ کریں تو جوڈیشل مارشل لاء کا شور اٹھتا ہے، جوڈیشل مارشل لاء کی باتیں کرنیوالے اپنا ذہن صاف رکھیں، سپریم کورٹ کے17 ججز جوڈیشل مارشل لاء نہیں لگنے دیں گے، میری نظر میں سب سے اہم چیز تعلیم ہے، آج پنجاب یونیورسٹی کی 80 کنال زمین حکومت کو دینے کا نوٹس لیا ہے، اراضی گرڈ اسٹیشن کیلیے دی گئی ہے، لیکن تعلیمی ادارے کی زمین حکومت کو کیوں دی گئی؟، تعلیم سے متعلق کسی چیز پر سمجھوتا نہیں کروں گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی کی ذمہ داری ریاست کی ہے، میں نے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلیے کام کیا تو کیا غلط کیا، جس ووٹ کی عزت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کی قدر اور عظمت لوگوں کی خدمت میں ہے، ووٹ کی قدر اور عزت یہ ہے کہ وہ بنیادی حق عوام کو دیں جو آئین نے دیے ہیں، قوم کی خدمت کریں، ہم عام کیسز کو سن رہے ہیں مگر الزام ہے کہ ہم عام کیسز ڈیل نہیں کررہے،اگر اپنی اپنی جگہ کام ٹھیک ہوتو عدالتوں پر بوجھ نہیں آئے گا، چار دفعہ دوستوں سے کہا تنخواہ چھوڑنے کو تیار ہوں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پنجاب اور خیبرپختون خوا کی حالت بھی بہتر نہیں ہوئی، آرٹیکل 25 اے کے تحت بچوں کو تعلیم کی مفت فراہمی بنیادی حقوق میں شامل ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن جب ریاست ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو کسی کو خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھتا پڑتا ہے، میں کسی ذاتی ایجنڈے پر کام نہیں کررہا، لعنت ہے پوپلسٹ جج پر، کچھ کہوں تو بھونچال آجاتا ہے، میرے پاس اپنے ججز کی تعداد بڑھانے کا اختیار نہیں، مجھے وسائل دے دیں، میں عوامی چیف جسٹس نہیں ہوں بلکہ قوم کا چیف جسٹس ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں