ایک سال بیت گیا دربار پر 20 افراد کے قتل کا مقدمہ تاحال فیصلے کا منتظر
لواحقین کا مظاہرہ، روڈ بلاک، چیف جسٹس سے نوٹس لینے کا مطالبہ
سرگودھا کے نواحی چک 95 شمالی میں ایک سال قبل دربار پر 20 افراد کے قتل کے سانحہ کو ایک سال بیت چکا ہے، لیکن ملزموں کو سزا نہیں مل سکی، جس پر مرنے والوں کے لواحقین نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ڈی پی او چوک پر ٹائرجلا کر روڈ بلاک کر دیا۔
مظاہرین نے ضلع کونسل دفتر سے ڈی پی او چوک تک ریلی بھی نکالی۔ اس موقع پر مظاہرین نے پیر عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مشال قتل کا فیصلہ ہو گیا، زینب کے مقدمہ کا بھی فیصلہ سنا دیا گیا لیکن بیس افراد کے قتل کے مقدمہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار اس کیس کا بھی سو موٹو ایکشن لیں اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔ یہ سانحہ ایک سال قبل یعنی یکم اپریل2017 ء کو اس وقت پیش آیا تھا جب چک نمبر 95شمالی میں دربار محمد علی گجرکے متولی عبدالوحید نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر سولہ مردوں اور چار خواتین کو نشہ آور چیز کھلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
جاں بحق ہونے والوں میں اسلام آباد کے جمیل اور زاہد، 95شمالی کے خالد، اشفاق، نصرت بی بی ، محمد آصف، محمد گلزار، چک 90 شمالی کے محمد ندیم، شازیہ، ساجد اور رخسانہ، پیر محل کا بابر، لیہ کا جاوید اور محمد شاہد، میانوالی کا محمد حسین سیف الرحمان اور سرگودھا کا محمد عمران شامل تھا جبکہ ایک خاتون سمیت تین افراد کی شناخت نہ ہو سکی۔
ملزم عبدالوحید سابقہ الیکشن کمیشن کا ملازم ہے اور دو سال سے دربار محمد علی گجر کا متولی تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق عبدالوحید لوگوں کوگناہوں کی معافی کے لیے کپڑے اتروا کر برہنہ حالت میں دھمال ڈلواتا، جس کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ سانحہ کے روز طیش میں آ کر اس نے اپنے مریدیں کو نشہ آور چیز پلا دی اور اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ تشدد شروع کر دیا جس سے بیس افراد کی موت واقع ہو گئی جبکہ دو خواتین کشور بی بی اور مریم جبکہ توقیر اقبال اور اکبر زخمی حالت میں موقع سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس ضمن میں توقیر نے بتایا کہ عبدالوحید اچانک جلال میں آئے اور مریدین کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اپنے جرم کا اقر ار کر تے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں مریدین کو نہ مارتا تو یہ مجھے مار دیتے کیوں کہ یہ لوگ مجھے دربار محمد علی گجرکی گدی نشینی سے ہٹا کر مارناچاہتے تھے، جیسے ہی مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
بعد ازاں ملزمان عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں محمد آصف، ظفر علی، کاشف کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پر ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دوران سانحہ کے مرکزی ملزم کے اعترافی بیان کی ویڈیو ''ایکسپریس'' کو بھی ملی، جس میں ملزم نے واضح طور پر 20 افراد کے قتل کرنے کا اعتراف کیا۔
اُس وقت کے آر پی او ذوالفقار حمید کی سربراہی میں جے آئی ٹی قائم کی گئی جس میں سی ٹی ڈی' ایڈیشنل سیکرٹری' ہوم ڈیپارٹمنٹ' فرانزک لیبارٹری کے افسران شامل تھے۔ قتل کے واقعہ کے فوری بعد کوئی شخص بھی مدعی بننے کو تیار نہ تھا جس پر پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کروا دیا۔ لیکن بعد ازاں مقتولین کے لواحقین محمد مصطفی، اکرم، سید منور علی، یونس، عباس علی، افضل، سید، نثار، رفاقت شاہ، حنیف، فیصل، حمزہ، عامر، عباس شاہ، رانا شفیق، شمشاد جٹ، ناصر ڈوگر وغیرہ نے ڈی ایس پی صدر سے ملاقات کر کے مدعی بننے کی درخواست کی تھی لیکن ڈی ایس پی نے انہیں کہا کہ آپ کو ضمنیوں میں شامل کر لیا جائے گا، نئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ اب اس سانحہ کو ایک سال گزرچکا ہے لیکن تاحال کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔شہریوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ از خود نوٹس لے کر اس کیس کو انجام تک پہچائیں۔
مظاہرین نے ضلع کونسل دفتر سے ڈی پی او چوک تک ریلی بھی نکالی۔ اس موقع پر مظاہرین نے پیر عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مشال قتل کا فیصلہ ہو گیا، زینب کے مقدمہ کا بھی فیصلہ سنا دیا گیا لیکن بیس افراد کے قتل کے مقدمہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار اس کیس کا بھی سو موٹو ایکشن لیں اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔ یہ سانحہ ایک سال قبل یعنی یکم اپریل2017 ء کو اس وقت پیش آیا تھا جب چک نمبر 95شمالی میں دربار محمد علی گجرکے متولی عبدالوحید نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر سولہ مردوں اور چار خواتین کو نشہ آور چیز کھلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
جاں بحق ہونے والوں میں اسلام آباد کے جمیل اور زاہد، 95شمالی کے خالد، اشفاق، نصرت بی بی ، محمد آصف، محمد گلزار، چک 90 شمالی کے محمد ندیم، شازیہ، ساجد اور رخسانہ، پیر محل کا بابر، لیہ کا جاوید اور محمد شاہد، میانوالی کا محمد حسین سیف الرحمان اور سرگودھا کا محمد عمران شامل تھا جبکہ ایک خاتون سمیت تین افراد کی شناخت نہ ہو سکی۔
ملزم عبدالوحید سابقہ الیکشن کمیشن کا ملازم ہے اور دو سال سے دربار محمد علی گجر کا متولی تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق عبدالوحید لوگوں کوگناہوں کی معافی کے لیے کپڑے اتروا کر برہنہ حالت میں دھمال ڈلواتا، جس کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ سانحہ کے روز طیش میں آ کر اس نے اپنے مریدیں کو نشہ آور چیز پلا دی اور اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ تشدد شروع کر دیا جس سے بیس افراد کی موت واقع ہو گئی جبکہ دو خواتین کشور بی بی اور مریم جبکہ توقیر اقبال اور اکبر زخمی حالت میں موقع سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس ضمن میں توقیر نے بتایا کہ عبدالوحید اچانک جلال میں آئے اور مریدین کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اپنے جرم کا اقر ار کر تے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں مریدین کو نہ مارتا تو یہ مجھے مار دیتے کیوں کہ یہ لوگ مجھے دربار محمد علی گجرکی گدی نشینی سے ہٹا کر مارناچاہتے تھے، جیسے ہی مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
بعد ازاں ملزمان عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں محمد آصف، ظفر علی، کاشف کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پر ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دوران سانحہ کے مرکزی ملزم کے اعترافی بیان کی ویڈیو ''ایکسپریس'' کو بھی ملی، جس میں ملزم نے واضح طور پر 20 افراد کے قتل کرنے کا اعتراف کیا۔
اُس وقت کے آر پی او ذوالفقار حمید کی سربراہی میں جے آئی ٹی قائم کی گئی جس میں سی ٹی ڈی' ایڈیشنل سیکرٹری' ہوم ڈیپارٹمنٹ' فرانزک لیبارٹری کے افسران شامل تھے۔ قتل کے واقعہ کے فوری بعد کوئی شخص بھی مدعی بننے کو تیار نہ تھا جس پر پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کروا دیا۔ لیکن بعد ازاں مقتولین کے لواحقین محمد مصطفی، اکرم، سید منور علی، یونس، عباس علی، افضل، سید، نثار، رفاقت شاہ، حنیف، فیصل، حمزہ، عامر، عباس شاہ، رانا شفیق، شمشاد جٹ، ناصر ڈوگر وغیرہ نے ڈی ایس پی صدر سے ملاقات کر کے مدعی بننے کی درخواست کی تھی لیکن ڈی ایس پی نے انہیں کہا کہ آپ کو ضمنیوں میں شامل کر لیا جائے گا، نئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ اب اس سانحہ کو ایک سال گزرچکا ہے لیکن تاحال کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔شہریوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ از خود نوٹس لے کر اس کیس کو انجام تک پہچائیں۔