مشتاق علی شان غنی خان

ہم چار پانچ افراد کمرے میں بیٹھے تھے، ہم بول رہے تھے اور سمندر کے ظرف والا مشتاق علی شان خاموش تھا۔

KARACHI:
کل بھی بہت گرمی تھی، مگر مجھے سخت دوپہر ہی باہر نکلنا تھا۔ بچے سب اپنی اپنی کھیل داری میں مصروف تھے، لہٰذا میں چپکے سے باہر نکل گیا، رکشہ پکڑا اور مقصود منزل پر پہنچ گیا۔ رکشے سے اتر کر پتا چلا کہ دو فرلانگ پر اصل منزل ہے، یوں سخت دوپہر سر پر لیے دو فرلانگ پیدل چلا۔ دروازے پر گھنٹی کا بٹن دبایا۔ اندر سے گھنٹی بجنے کی آواز نہیں آئی۔ اندر جنریٹر چل رہا تھا۔

گھنٹی کی آواز کہاں سے آتی۔ آہنی گیٹ زور زور سے بجالا ڈالا۔ خیر دروازہ کھل گیا ایک گورا چٹا دراز قد نوجوان میرے سامنے کھڑا مسکرارہا تھا۔ اس نے مجھے اندر آنے کو کہا آیئے تشریف لایئے، میں اندر داخل اور وہ نوجوان اپنی رہنمائی میں مجھے مکان کی پہلی منزل پر لے گیا۔ ناصر منصور میرے سامنے بیٹھے تھے، انھی سے ملنے کے لیے میں آیا تھا۔

ناصر منصور بڑے تپاک سے ملے۔ پھر ناصر نے اس نوجوان سے تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ مشتاق علی شان ہیں۔ تحقیق ان کا خاص میدان ہے۔ شاعر ہیں اور انھوں نے پشتو زبان کے عظیم شاعر غنی خان کی شاعری کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔

غنی خان کی پشتو شاعری کا اردو ترجمہ؟ میں ساتھ بیٹھے نوجوان کو دیکھ رہا تھا، ''یہ سن اور اتنا بڑا کام'' میں خود کلامی کررہا تھا۔ مشتاق علی شان قابل رشک نوجوان، محبتوں کا یہ قافلہ چلتا رہے گا۔ صبح ہوکر رہے گی۔ شب کی تقدیر میں لکھا ہے گزر ہی جانا، راہ سورج کی کہاں روک سکے گا اہل ستم، میں خود کلامی ہی میں مبتلا تھا۔ اور یہ خود کلامی بس چند لمحوں ہی کی تھی۔ مشتاق علی شان کو دیکھ کر، اسے مل کر کس قدر زندگی کو سہارا ملا، ایک تابندہ کل کا اشارہ ملا، مجھے لگا جیسے وارث سامنے بیٹھا ہے، سچ لکھنے والوں کا وارث، ظہیر کاشمیری بڑا یاد آرہا تھا۔

ہمیں یقین ہے، ہم نہیں چراغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

غنی خان ایک بڑا نام، ادب میں بڑے مقام پر فائز غنی خان کا معتبر ترین حوالہ خان عبدالغفار خان (باچا خان) کا بیٹا ڈاکٹر عبدالجبار خان (ڈاکٹر خان) کا بھتیجا، خان عبدالولی خان کا بڑا بھائی، جامعہ ملیہ دہلی، لندن اور امریکا کی درسگاہوں میں پڑھا، کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی، والد باچا خان کے کہنے پر موتی لعل نہرو کے گھر الہ آباد میں قیام کیا، پنڈت جواہر لعل نہرو کو پولیس پکڑنے آئی تو گاندھی جی کے مشورے پر پنڈت نہرونے غنی خان اور اپنی بیٹی اندرا کو رابندر ناتھ ٹیگور کے شہرۂ آفاق ادارے شانتی نکیتن بھیج دیا۔

شاعر، ادیب، فلسفی، موسیقار، مجسمہ ساز، مصور، غنی خان پر قلم ا ٹھانے کا حوصلہ کرنے والا مشتاق علی شان کی ہمت اور حوصلے پر مجھے بس رشک آرہا تھا۔ ہم چار پانچ افراد کمرے میں بیٹھے تھے، ہم بول رہے تھے اور سمندر کے ظرف والا مشتاق علی شان خاموش تھا۔ میں نے اسے کہا مجھے غنی خان پر آپ کی کتاب چاہیے، وہ فوراً دوسرے کمرے میں گیا اور کتاب لے آیا۔ اس نے میرے لیے کتاب کے پہلے سادہ صفحے پر لکھا ''میرا نام اور نیچے لکھا ''مع احترامات'' یہ مع احترامات انوکھا انداز تھا، اس کے نیچے اس نے اپنا نام لکھا اور دستخط بھی کیے، تاریخ لکھی 20 اپریل 2018 اور سب سے نیچے لکھا کراچی سندھ، کراچی سندھ لکھنا بہت اچھا لگا، کراچی سندھ تاابد رہنے کے لیے ہے۔

مشتاق علی شان بہت خوش خط اور اس کی خاموش طبعی کا مطلب میری سمجھ میں تب آیا جب گھر آکر میںنے کتاب کھولی۔ کتاب میں لکھا تھا مشتاق علی شان کی مطبوعہ وغیرہ مطبوعہ کتابوں کی تعداد ایک درجن ہے۔(1) شعلہ جاوید (شعری مجموعہ)، (2) گوریلا جنگ (چی گویرا کی کتاب کا ترجمہ)، (3) نوجوانوں کی سمت (پیٹر کروپاتکن، محمد ابراہیم جوہو اور ایولین ریڈ کے تراجم)، (4) بالشویک نقطہ نظر (سندھ کے نوجوان مارکسی مفکر عاصم اخوند کی تحریروں کا ترجمہ)، (5) امیلکار کیبرال، جد وجہد اور افکار، (6) کلام غنی خان (اردو منظوم ترجمہ)، بقیہ چھ کتب زیر طبع ہیں۔

1979 میں کراچی میں پیدا ہونے والا مشتاق علی شان پرولتاریہ مزدور کسان انقلاب کے لیے اپنے قلم کا علم اٹھائے جدوجہد میں شامل ہے۔ اب ذرا غنی خان کی شاعری کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں، جو مشتاق علی شان نے کیا ہے۔

سرخ کلیوں کی مسکراہٹ میں

سسکیاں ہیں خزاؤں کی پنہاں

''بابڑہ'' قتل عام پر جہاں قیوم خان نے بے دریغ فائرنگ کرواکر سیکڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

آج ہی کا دن ہے وہ

پختون نے سماٹ کو

دی شکست فاش یاں

اور حیات جیت لی

عاشق جواں تھا جب

پسِ گل غدار کے

سر بکف کھڑا ہوا

مت سنا اے مولوی

قصہ اسمٰعیل کا


یاں تو گام گام پر

قرباں ہوئے نوجواں

موت صد شوق سے چلی آئے

اس کے جب بس میں ہو چلی آئے

گل بدست ہی اسے ملوں گا میں

یا فرس پر سوار ہوںگا میں

جتنا بلند پہاڑ ہو

اس کی چوٹی پر عیاں

راستہ ضرور ہے

خوف ایک بھوت ہے

اور امید ہے ضیا

یہ جنوں آمادگی ہے خود سے بیزاری مری

شیخ جی نے چھیڑ رکھے ہیں عذابی مسئلے

وصیت کے عنوان سے کتاب کی آخری نظم ہے ذرا دیکھیے، منظوم ترجمہ:

وصیت

ایستادہ سبز کتبے ہوں، گور پہ ہی لیکن

گر حالت غلامی میں موت نے ہو مارا

سب تھوکنے کو آنا، سب تھوکنے کو آنا

گر اپنے ہی لہو میں اجلا نہیں نہا کر

میرے نجس بدن سے مسجد کے حاشیوں کو

تم مت پلید کرنا، تم مت پلید کرنا

غنی خان ایک جنگجو شاعر ہے۔ اسے وہ دور ملا جب اس کے وطن پر انگریز قابض تھے۔ غنی خان ایک انقلابی گھرانے میں پیدا ہوا۔ جہاں صبح و شام وطن آزاد کرانے کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی، عمل کے لیے تیاری کی جاتی، اسی لیے اس کی شاعری میں آزادی کے لیے لڑنے والے سپاہیوں کا ہی ذکر ہے۔ حوصلے بلند رکھنے کا درس ہے اور ایسی شاعری کا ترجمہ کرنے والا غنی خان کا کوئی اپنا ہی ساتھی ہونا چاہیے تھا، جو مشتاق علی شان ہے۔
Load Next Story