سامراج کی بقا کے لیے جنگ ناگزیر ہے
مشرق وسطی سے افغانستان پاکستان تک یہی تینوں قوتیں بالادست ہیں۔
رابرٹ فسک وہ نامور برطانوی صحافی ہیں جنھیں جب بھی موقعہ ملا برطانوی امریکی سامراجی عزائم کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہ وہ لوگ ہیں جنھیں مغرب کا ضمیر کہا جاتاہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے تیسری دنیا کے خلاف ہر سازش اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ چاہے یہ افغانستان ہو یا عراق یا شام۔ ویت نام کی جنگ ہو یا اس کے بعد کی جنگیں یورپ امریکا کے عام آدمی نے ان جنگوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پرنکل کر تیسری دنیا کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہاں قدامت پرست الٹرا رائٹ قوتیں بھی بہت طاقتور ہیں، چاہے یہ پاکستان ہو یا دنیا کے وہ ممالک جنھوںنے سامراج سے آزادی حاصل کی ہے۔
ان کے مقابلے میں لبرل سیکولر قوتیں ہمیشہ ہی شکست کھا جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ قوتیں قدیم ہیں۔ مذہب حب الوطنی قدامت پرستی ان کا آزمودہ ہتھیار ہے۔ وہ ہتھیار جس سے انھوںنے تاریخ میں بار بار ترقی پسند روشن خیال قوتوں کو شکست دی ہے۔ انسان قدیم ہے اس لیے قدامت پرستی اس کے خون میں شامل ہے۔ قدامت پرستی کا توڑا ایک ہی ہے جدید سائنس' تعلیم' صنعتی ترقی' سرداری ا ور جاگیرداری نظام کا خاتمہ لیکن اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ دارانہ سامراجی نظام ہے۔
آج بھی دنیا میں جہاں جہاں سامراجی مفادات ہیں خاص طور پر مشرق وسطیٰ' افغانستان'پاکستان وہاں ان مفادات کی حفاظت کے لیے بادشاہت' جاگیرداری اور سرداری نظام کو برقرار رکھا گیا ہے۔ بادشاہت' جاگیرداری' سرداری جڑواں بہنیں ہیں۔ جن کی جڑیں قدامت پرستی میں پیوست ہیں۔ جو ایک دوسرے کی مددگار طاقت اور تقویت کا باعث ہیں۔ ان قدامت پسند قوتوں میں سے ایک کا بھی زوال دوسری قوتوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔
مشرق وسطی سے افغانستان پاکستان تک یہی تینوں قوتیں بالادست ہیں۔ پاکستان بننے کے 70 سال بعد بھی پاکستان میں جاگیرداری' سرداری نظام کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک امریکا کی اجازت شامل نہ ہو۔ جب کہ امریکی مفادات اسی خطے میں کم از کم اگلے پچاس سال تک برقرار ہیں۔ یعنی اتنی طویل مدت ہمیں مزید اسی تباہی بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ہم پچھلے چالیس سال سے گزر رہے ہیں۔
امریکا' برطانیہ میں موجود تھینک ٹینک نے اس کے لیے بڑا ہی آسان نسخہ دریافت کیا ہے کہ اسلامی تاریخ کی روشنی میں شیعہ سنی تضادات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کر کے مسلمانوں کے اس اتحاد کو جنم لینے سے روکا جائے جو خطے میں امریکا اسرائیلی مفادات کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو آپس میںلڑایا جائے اور اس کے لیے متشدد انتہا پسند مذہبی گروہوں کی سرپرستی کی جائے۔
اس طرح اسلام کے نام پر تشدد مذہبی نظریات کی ترویج سے ایسے جنگجو ملیں گے جو امریکی عزائم اور مفادات کی تکمیل بالواسطہ طور پر کر سکیں گے۔ وہ کام جو بذات خود امریکا اور اس کی فوج نہیں کر سکتی یہ مذہبی متشدد انتہا پسند گروہ بڑے سستے داموں کریں گے۔ صرف ان پر چند بلین ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے۔ یہ وہی مذہبی گروہ ہیں جنھیں آج مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک نان اسٹیٹ ایکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے یعنی غیر ریاستی عناصر۔
یہ عناصر کمال کا کام کر رہے ہیں کہ امریکا کو براہ راست نہ اس خطے میںاپنی فوج داخل کر کے بدنام ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جانی نقصان برداشت کرنے کی۔ بہت ہوا تو دور سے بیٹھ کر میزائل اور ڈرون چلا دیئے۔ جیسے حال ہی میں اس نے اپنی مکمل شکست کا بدلہ لینے کے لیے شام میںکیا ہے۔
ابھی میں یہ تحریر قلم بند کر ہی رہا تھا کہ ایک ترک خبر رساں ایجنسی کی خبر پر نظر پڑی جو واشنگٹن سے رپورٹ ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیم سمیت 60 سے 65 ہزار افراد پر مشتمل گروہ کو اسلحہ اور فوجی سازو سامان مہیا کیے ہیں۔
پاکستان کتنا آزاد ہے کتنا خود مختار اس کا انداز اس سے لگائیں کہ افغان مہاجرین پچھلے چالیس سال سے امریکی دباؤ پر پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم امریکا سے صرف التجا ہی کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ کے واسطے انھیں افغانستان واپس لے جائے کیونکہ اس سے زیادہ ہمارا زور امریکا پر نہیں چلتا۔ سرزمین ہماری لیکن ترلے منتیں امریکا کی۔ اب یہ افغان مہاجرین پاکستان کے شناختی کارڈ ' پاسپورٹ خرید کر پاکستان کے شہری بن چکے ہیں۔ زمین جائیداد کے مالک اور کاروبار کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر منشیات' اسلحہ اسمگلنگ اور دوسری عوام دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو کر مقامی پاکستانی اور ان کی نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
افغان مہاجرین کی بستیاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ فاٹا کے پختوانخوا میں انضمام کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ اس کے حل میں نادیدہ سامراجی رکاوٹیں حائل ہیں کیوں کہ یہی تو وہ علاقہ ہے جہاں سے پچھلے چالیس سال سے امریکا کو اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے جنگجو مہیا ہو رہے ہیں اور آیندہ بھی مہیا ہونے ہیں۔ جب کہ اس معاملے میں بھی آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ فاٹا کی پختوانخوا میں شمولیت ملکی دفاع اور سالمیت کے لیے بہت ضروری ہے۔
سامراجی دباؤ تیسری دنیا کے ہم جیسے ممالک پر ہی نہیں ہے۔ اس سے امریکا اور یورپ کے عوام بھی آزاد نہیں۔ ٹرمپ کے انتخاب کو ہی دیکھ لیں۔ امریکی جنگجو اسٹیبلشمنٹ نے نسلی اور تعصبات کو ابھار کر ٹرمپ کو جتوایا کیوں کہ طاقت کے نئے مراکز امریکا کی بالادستی کا خاتمہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس لیے تیسری عالمی جنگ ناگزیر ہو گئی جس کے لیے ٹرمپ کو لایا گیا۔ تاکہ امریکا دنیا کو اپنا غلام بنا سکے۔ اس عالمی جنگ کا مرکز شام ' ایران' افغانستان اور پاکستان کے علاقے ہوں گے۔
بات شروع ہوئی تھی عالمی شہرت کے حامل برطانوی صحافی' دانشور رابرٹ فسک سے شامی شہر دومہ کے دورے کے بعد رابرٹ فسک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مقامی لوگ ایسے مقامات پر پناہ کے لیے چھپے تھے جو گندگی سے بھرے تھے اور جہاں آکسیجن کی سطح بہت کم تھی جس کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہوئی۔ اپنے دورہ شام کے دوران فسک نے ایک 60 سالہ مقامی ڈاکٹر کا بھی انٹرویو کیا جنھوں نے کئی متاثرین کا علاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں پر جوویڈیو دکھائی جا رہی ہے وہ اصل میں کوئی کیمیائی حملہ نہیں تھا بلکہ لوگ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہے تھے۔ امریکی طریقہ واردات کے حوالے سے رابرٹ فسک نے دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ دومہ شہر کے جو لوگ ترکی کے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچے وہ لوگ گیس حملے کی بات کرتے ہیںلیکن جو لوگ د وما شہر میں رہتے ہیں اور وہاں موجود ہیں انھیں ایسے کسی گیس حملے کا علم نہیں۔
سیل فون:0346-4527997
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے تیسری دنیا کے خلاف ہر سازش اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ چاہے یہ افغانستان ہو یا عراق یا شام۔ ویت نام کی جنگ ہو یا اس کے بعد کی جنگیں یورپ امریکا کے عام آدمی نے ان جنگوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پرنکل کر تیسری دنیا کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہاں قدامت پرست الٹرا رائٹ قوتیں بھی بہت طاقتور ہیں، چاہے یہ پاکستان ہو یا دنیا کے وہ ممالک جنھوںنے سامراج سے آزادی حاصل کی ہے۔
ان کے مقابلے میں لبرل سیکولر قوتیں ہمیشہ ہی شکست کھا جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ قوتیں قدیم ہیں۔ مذہب حب الوطنی قدامت پرستی ان کا آزمودہ ہتھیار ہے۔ وہ ہتھیار جس سے انھوںنے تاریخ میں بار بار ترقی پسند روشن خیال قوتوں کو شکست دی ہے۔ انسان قدیم ہے اس لیے قدامت پرستی اس کے خون میں شامل ہے۔ قدامت پرستی کا توڑا ایک ہی ہے جدید سائنس' تعلیم' صنعتی ترقی' سرداری ا ور جاگیرداری نظام کا خاتمہ لیکن اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ دارانہ سامراجی نظام ہے۔
آج بھی دنیا میں جہاں جہاں سامراجی مفادات ہیں خاص طور پر مشرق وسطیٰ' افغانستان'پاکستان وہاں ان مفادات کی حفاظت کے لیے بادشاہت' جاگیرداری اور سرداری نظام کو برقرار رکھا گیا ہے۔ بادشاہت' جاگیرداری' سرداری جڑواں بہنیں ہیں۔ جن کی جڑیں قدامت پرستی میں پیوست ہیں۔ جو ایک دوسرے کی مددگار طاقت اور تقویت کا باعث ہیں۔ ان قدامت پسند قوتوں میں سے ایک کا بھی زوال دوسری قوتوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔
مشرق وسطی سے افغانستان پاکستان تک یہی تینوں قوتیں بالادست ہیں۔ پاکستان بننے کے 70 سال بعد بھی پاکستان میں جاگیرداری' سرداری نظام کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک امریکا کی اجازت شامل نہ ہو۔ جب کہ امریکی مفادات اسی خطے میں کم از کم اگلے پچاس سال تک برقرار ہیں۔ یعنی اتنی طویل مدت ہمیں مزید اسی تباہی بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ہم پچھلے چالیس سال سے گزر رہے ہیں۔
امریکا' برطانیہ میں موجود تھینک ٹینک نے اس کے لیے بڑا ہی آسان نسخہ دریافت کیا ہے کہ اسلامی تاریخ کی روشنی میں شیعہ سنی تضادات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کر کے مسلمانوں کے اس اتحاد کو جنم لینے سے روکا جائے جو خطے میں امریکا اسرائیلی مفادات کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو آپس میںلڑایا جائے اور اس کے لیے متشدد انتہا پسند مذہبی گروہوں کی سرپرستی کی جائے۔
اس طرح اسلام کے نام پر تشدد مذہبی نظریات کی ترویج سے ایسے جنگجو ملیں گے جو امریکی عزائم اور مفادات کی تکمیل بالواسطہ طور پر کر سکیں گے۔ وہ کام جو بذات خود امریکا اور اس کی فوج نہیں کر سکتی یہ مذہبی متشدد انتہا پسند گروہ بڑے سستے داموں کریں گے۔ صرف ان پر چند بلین ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے۔ یہ وہی مذہبی گروہ ہیں جنھیں آج مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک نان اسٹیٹ ایکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے یعنی غیر ریاستی عناصر۔
یہ عناصر کمال کا کام کر رہے ہیں کہ امریکا کو براہ راست نہ اس خطے میںاپنی فوج داخل کر کے بدنام ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جانی نقصان برداشت کرنے کی۔ بہت ہوا تو دور سے بیٹھ کر میزائل اور ڈرون چلا دیئے۔ جیسے حال ہی میں اس نے اپنی مکمل شکست کا بدلہ لینے کے لیے شام میںکیا ہے۔
ابھی میں یہ تحریر قلم بند کر ہی رہا تھا کہ ایک ترک خبر رساں ایجنسی کی خبر پر نظر پڑی جو واشنگٹن سے رپورٹ ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیم سمیت 60 سے 65 ہزار افراد پر مشتمل گروہ کو اسلحہ اور فوجی سازو سامان مہیا کیے ہیں۔
پاکستان کتنا آزاد ہے کتنا خود مختار اس کا انداز اس سے لگائیں کہ افغان مہاجرین پچھلے چالیس سال سے امریکی دباؤ پر پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم امریکا سے صرف التجا ہی کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ کے واسطے انھیں افغانستان واپس لے جائے کیونکہ اس سے زیادہ ہمارا زور امریکا پر نہیں چلتا۔ سرزمین ہماری لیکن ترلے منتیں امریکا کی۔ اب یہ افغان مہاجرین پاکستان کے شناختی کارڈ ' پاسپورٹ خرید کر پاکستان کے شہری بن چکے ہیں۔ زمین جائیداد کے مالک اور کاروبار کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر منشیات' اسلحہ اسمگلنگ اور دوسری عوام دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو کر مقامی پاکستانی اور ان کی نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
افغان مہاجرین کی بستیاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ فاٹا کے پختوانخوا میں انضمام کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ اس کے حل میں نادیدہ سامراجی رکاوٹیں حائل ہیں کیوں کہ یہی تو وہ علاقہ ہے جہاں سے پچھلے چالیس سال سے امریکا کو اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے جنگجو مہیا ہو رہے ہیں اور آیندہ بھی مہیا ہونے ہیں۔ جب کہ اس معاملے میں بھی آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ فاٹا کی پختوانخوا میں شمولیت ملکی دفاع اور سالمیت کے لیے بہت ضروری ہے۔
سامراجی دباؤ تیسری دنیا کے ہم جیسے ممالک پر ہی نہیں ہے۔ اس سے امریکا اور یورپ کے عوام بھی آزاد نہیں۔ ٹرمپ کے انتخاب کو ہی دیکھ لیں۔ امریکی جنگجو اسٹیبلشمنٹ نے نسلی اور تعصبات کو ابھار کر ٹرمپ کو جتوایا کیوں کہ طاقت کے نئے مراکز امریکا کی بالادستی کا خاتمہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس لیے تیسری عالمی جنگ ناگزیر ہو گئی جس کے لیے ٹرمپ کو لایا گیا۔ تاکہ امریکا دنیا کو اپنا غلام بنا سکے۔ اس عالمی جنگ کا مرکز شام ' ایران' افغانستان اور پاکستان کے علاقے ہوں گے۔
بات شروع ہوئی تھی عالمی شہرت کے حامل برطانوی صحافی' دانشور رابرٹ فسک سے شامی شہر دومہ کے دورے کے بعد رابرٹ فسک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مقامی لوگ ایسے مقامات پر پناہ کے لیے چھپے تھے جو گندگی سے بھرے تھے اور جہاں آکسیجن کی سطح بہت کم تھی جس کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہوئی۔ اپنے دورہ شام کے دوران فسک نے ایک 60 سالہ مقامی ڈاکٹر کا بھی انٹرویو کیا جنھوں نے کئی متاثرین کا علاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں پر جوویڈیو دکھائی جا رہی ہے وہ اصل میں کوئی کیمیائی حملہ نہیں تھا بلکہ لوگ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہے تھے۔ امریکی طریقہ واردات کے حوالے سے رابرٹ فسک نے دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ دومہ شہر کے جو لوگ ترکی کے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچے وہ لوگ گیس حملے کی بات کرتے ہیںلیکن جو لوگ د وما شہر میں رہتے ہیں اور وہاں موجود ہیں انھیں ایسے کسی گیس حملے کا علم نہیں۔
سیل فون:0346-4527997