شیر خوار بچوں کا احتجاج
بھوک کا مسئلہ کسی خاص ملک یا علاقے تک محدود نہیں ہے یہ وبا ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔
لاہور:
کہا جاتا ہے کہ جب تک بچہ روتا نہیں ماں دودھ نہیں پلاتی، بچے کا رونا دراصل بھوک کے خلاف معصومانہ احتجاج ہوتا ہے، بچہ نہ دودھ سے واقف ہوتا ہے نہ دودھ کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے، وہ صرف بھوک سے واقف ہوتا ہے، جب اسے بھوک کا احساس ہوتا ہے تو وہ رونے لگتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں ہر سال لاکھوں بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں جن کے اعداد و شمار مغربی دنیا کی متعلقہ سروے ٹیمیں بڑی محنت سے جمع کرتی ہیں اور میڈیا کے حوالے کرتی ہیں۔
میڈیا میں شایع ہونے والی یہ خبریں حکمران طبقات تک بھی یقیناً پہنچتی ہوں گی لیکن نہ بچوں کی بھوک کا سدباب کیا جاتا ہے نہ معصوم بچوں کو زبردستی کی موت مرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ماں کی چھاتی نیم فاقہ کشی کی وجہ سے خشک ہوجاتی ہیں اور خشک دودھ غریب عوام کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے، حالانکہ خشک دودھ سے مارکیٹیں بھری رہتی ہیں۔
ہم نے بھوکے بچوں کے رونے کو بھوک کے خلاف ان کا احتجاج بتایا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عقل شعور سے ناواقف شیر خوار بچے بھوک کے خلاف رو کر احتجاج کرتے ہیں تو عقل و شعور سے جانکاری رکھنے والے عاقل و بالغ انسان بھوک کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر کیوں برداشت کر لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی طرح لاکھوں بڑے بھی ہر سال بھوک سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ دنیا کی منڈیاں، اشیا فروخت سے بھری رہتی ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں دودھ ہو یا روٹی ان کو خریدنا پڑتا ہے اور غریب بنیادی ضرورت کی ان اشیا کو خریدنے سے بھی معذور ہوتا ہے۔
بھوک کا مسئلہ کسی خاص ملک یا علاقے تک محدود نہیں ہے یہ وبا ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے خاص طور پر پسماندہ ملکوں کے عوام بھوک، بے کاری، بیماری جیسی لعنتوں میں صدیوں سے مبتلا ہیں، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دن رات محنت کرنے والے عوام بھوک، افلاس، بیماری، بے روزگاری جیسی لعنتوں میں مبتلا ہیں اور دو فیصد طبقہ زندگی کی ہر ضرورت سے فیضیاب ہورہا ہے۔ ہم نے بھوک کے خلاف رو کر احتجاج کرنے والے شیر خوار بچوں کا ذکر کیا ہے تو لازماً ہمارے ذہن میں یہ سوال آنا فطری ہے کہ بھوک کے مارے جوان اور بالغ انسان بھوک افلاس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے؟
بلاشبہ بھوکے عوام میں احتجاج کا شعور بھی ہوتا ہے اور وہ بھوک سمیت ہر ظلم کے خلاف احتجاج کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن وہ اس لیے احتجاج نہیں کرتے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کو بھی یہ احساس تھا کہ بھوک سے تنگ آئے ہوئے عوام سڑکوں پر آسکتے ہیں، سو انھوں نے غریب اور بے بس عوام کے سامنے قانون انصاف اور ریاستی مشینری کی شکل میں وہ دیوار کھڑی کردی جسے کراس کرنے کا مطلب جان سے کھیلنا ہوتا ہے۔
یہ خوف غریب عوام کے سروں پر اس طرح مسلط کردیا گیا ہے کہ عوام عموماً اس دیوار کو کراس کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر عوام کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی جاتی ہے جس کے تحت 5 سے زیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا جرم قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی کو طاقت سے روکا جاسکتا ہے۔ طاقت میں لاٹھی سے لے کر گولی تک شامل ہوتی ہیں۔
ہمارا عیار سیاست کار طبقہ جب عوام کے ووٹ لینے جاتا ہے تو پچاسوں جھوٹے وعدوں کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ''عوام قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں'' اگرچہ سیاست کار اس قسم کی باتیں اور وعدے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کرتے ہیں لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عوام واقعی قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اور جب وہ اپنی قوت کے اظہار پر اتر آتے ہیں تو قانون انصاف اور ریاستی مشینری سب منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ عوام قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں، اس حقیقت کو دنیا نے 1977ء میں اس وقت دیکھا جب بھٹو حکومت کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
یہاں اس حقیقت کی وضاحت ضروری ہے کہ بھٹو کے خلاف 9 ستاروں کی جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری تحریک کے ساتھ ساتھ امریکا کی وہ گھناؤنی سازش بھی شامل تھی جس کا مقصد بھٹو کو ایٹمی مسئلے پر امریکا کے حکم کی خلاف ورزی کی سزا دینا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو وارننگ دی تھی کہ وہ ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہوجائے۔ اور بھٹو نے امریکا کے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ایٹمی ہتھیار تیار کرنا یا اس کا ذخیرہ کرنا بلاشبہ ایک سنگین جرم ہے لیکن کوئی سنگین جرم امتیازی نہیں ہوتا امریکا کی شرمناک امتیازی پالیسی کا یہ عالم تھا اور ہے کہ امریکا کو بھارت کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے اور ذخیرہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے پر اعتراض تھا بھٹو نے جب امریکی حکم ماننے سے انکار کیا تو اسے نشان عبرت بنادیا گیا۔
اگرچہ 9 ستاروں کی تحریک غیر عاقلانہ اور غیر منطقی تھی لیکن چونکہ عوام کو سڑکوں پر لایا گیا تھا، سو عوام واقعی قوت کا سرچشمہ بن گئے، ہم نے اپنی آنکھوں سے شہر کے مختلف علاقوں میں عوامی قوت کا مظاہرہ دیکھا۔ فوج کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے طلب کرلیا گیا تھا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ فوج کی گاڑیاں بپھرے ہوئے عوام کے ہجوموں کے آگے آگے چل رہی تھیں اور عوام نعرے لگاتے ہوئے ہجوم در ہجوم چل رہے تھے۔ بلاشبہ یہ ''عوام قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں'' کا ایک عملی اور شاندار مظاہرہ تھا لیکن اس مظاہرے کی پیشانی پر امریکا کی مرضی اور سازش کا ایسا داغ لگا کہ آج تک اس داغ کو دھویا نہ جاسکا۔ امریکا کی امتیازی پالیسی آج بھی جاری ہے، ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور اسرائیل ان پابندیوں سے آزاد ہے۔
کالم کا آغاز ہم نے شیر خوار بچوں کے دودھ نہ ملنے پر احتجاج سے کیا تھا، شیر خوار بچے جب انھیں بھوک لگتی ہے اور دودھ نہیں ملتا تو احتجاجاً رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، اس ملک کے 20 کروڑ اور دنیا کے 7 ارب انسان دن رات محنت کرکے دو وقت کی روٹی حاصل نہیں کرسکتے تو وہ سیاستدان کہاں ہیں جو بھٹو کے خلاف چند سیٹوں پر دھاندلی کے الزام میں لاکھوں سادہ لوح عوام کو سڑکوں پر لے آئے تھے، آج بھوک سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے اور بھوکے سونے والے انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف عوام کو کیوں متحرک نہیں کر رہے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ جب تک بچہ روتا نہیں ماں دودھ نہیں پلاتی، بچے کا رونا دراصل بھوک کے خلاف معصومانہ احتجاج ہوتا ہے، بچہ نہ دودھ سے واقف ہوتا ہے نہ دودھ کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے، وہ صرف بھوک سے واقف ہوتا ہے، جب اسے بھوک کا احساس ہوتا ہے تو وہ رونے لگتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں ہر سال لاکھوں بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں جن کے اعداد و شمار مغربی دنیا کی متعلقہ سروے ٹیمیں بڑی محنت سے جمع کرتی ہیں اور میڈیا کے حوالے کرتی ہیں۔
میڈیا میں شایع ہونے والی یہ خبریں حکمران طبقات تک بھی یقیناً پہنچتی ہوں گی لیکن نہ بچوں کی بھوک کا سدباب کیا جاتا ہے نہ معصوم بچوں کو زبردستی کی موت مرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ماں کی چھاتی نیم فاقہ کشی کی وجہ سے خشک ہوجاتی ہیں اور خشک دودھ غریب عوام کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے، حالانکہ خشک دودھ سے مارکیٹیں بھری رہتی ہیں۔
ہم نے بھوکے بچوں کے رونے کو بھوک کے خلاف ان کا احتجاج بتایا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عقل شعور سے ناواقف شیر خوار بچے بھوک کے خلاف رو کر احتجاج کرتے ہیں تو عقل و شعور سے جانکاری رکھنے والے عاقل و بالغ انسان بھوک کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر کیوں برداشت کر لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کی طرح لاکھوں بڑے بھی ہر سال بھوک سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ دنیا کی منڈیاں، اشیا فروخت سے بھری رہتی ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں دودھ ہو یا روٹی ان کو خریدنا پڑتا ہے اور غریب بنیادی ضرورت کی ان اشیا کو خریدنے سے بھی معذور ہوتا ہے۔
بھوک کا مسئلہ کسی خاص ملک یا علاقے تک محدود نہیں ہے یہ وبا ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے خاص طور پر پسماندہ ملکوں کے عوام بھوک، بے کاری، بیماری جیسی لعنتوں میں صدیوں سے مبتلا ہیں، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دن رات محنت کرنے والے عوام بھوک، افلاس، بیماری، بے روزگاری جیسی لعنتوں میں مبتلا ہیں اور دو فیصد طبقہ زندگی کی ہر ضرورت سے فیضیاب ہورہا ہے۔ ہم نے بھوک کے خلاف رو کر احتجاج کرنے والے شیر خوار بچوں کا ذکر کیا ہے تو لازماً ہمارے ذہن میں یہ سوال آنا فطری ہے کہ بھوک کے مارے جوان اور بالغ انسان بھوک افلاس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے؟
بلاشبہ بھوکے عوام میں احتجاج کا شعور بھی ہوتا ہے اور وہ بھوک سمیت ہر ظلم کے خلاف احتجاج کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن وہ اس لیے احتجاج نہیں کرتے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کو بھی یہ احساس تھا کہ بھوک سے تنگ آئے ہوئے عوام سڑکوں پر آسکتے ہیں، سو انھوں نے غریب اور بے بس عوام کے سامنے قانون انصاف اور ریاستی مشینری کی شکل میں وہ دیوار کھڑی کردی جسے کراس کرنے کا مطلب جان سے کھیلنا ہوتا ہے۔
یہ خوف غریب عوام کے سروں پر اس طرح مسلط کردیا گیا ہے کہ عوام عموماً اس دیوار کو کراس کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر عوام کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی جاتی ہے جس کے تحت 5 سے زیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا جرم قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی کو طاقت سے روکا جاسکتا ہے۔ طاقت میں لاٹھی سے لے کر گولی تک شامل ہوتی ہیں۔
ہمارا عیار سیاست کار طبقہ جب عوام کے ووٹ لینے جاتا ہے تو پچاسوں جھوٹے وعدوں کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ''عوام قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں'' اگرچہ سیاست کار اس قسم کی باتیں اور وعدے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کرتے ہیں لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عوام واقعی قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اور جب وہ اپنی قوت کے اظہار پر اتر آتے ہیں تو قانون انصاف اور ریاستی مشینری سب منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ عوام قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں، اس حقیقت کو دنیا نے 1977ء میں اس وقت دیکھا جب بھٹو حکومت کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
یہاں اس حقیقت کی وضاحت ضروری ہے کہ بھٹو کے خلاف 9 ستاروں کی جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری تحریک کے ساتھ ساتھ امریکا کی وہ گھناؤنی سازش بھی شامل تھی جس کا مقصد بھٹو کو ایٹمی مسئلے پر امریکا کے حکم کی خلاف ورزی کی سزا دینا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو وارننگ دی تھی کہ وہ ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہوجائے۔ اور بھٹو نے امریکا کے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ایٹمی ہتھیار تیار کرنا یا اس کا ذخیرہ کرنا بلاشبہ ایک سنگین جرم ہے لیکن کوئی سنگین جرم امتیازی نہیں ہوتا امریکا کی شرمناک امتیازی پالیسی کا یہ عالم تھا اور ہے کہ امریکا کو بھارت کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے اور ذخیرہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے پر اعتراض تھا بھٹو نے جب امریکی حکم ماننے سے انکار کیا تو اسے نشان عبرت بنادیا گیا۔
اگرچہ 9 ستاروں کی تحریک غیر عاقلانہ اور غیر منطقی تھی لیکن چونکہ عوام کو سڑکوں پر لایا گیا تھا، سو عوام واقعی قوت کا سرچشمہ بن گئے، ہم نے اپنی آنکھوں سے شہر کے مختلف علاقوں میں عوامی قوت کا مظاہرہ دیکھا۔ فوج کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے طلب کرلیا گیا تھا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ فوج کی گاڑیاں بپھرے ہوئے عوام کے ہجوموں کے آگے آگے چل رہی تھیں اور عوام نعرے لگاتے ہوئے ہجوم در ہجوم چل رہے تھے۔ بلاشبہ یہ ''عوام قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں'' کا ایک عملی اور شاندار مظاہرہ تھا لیکن اس مظاہرے کی پیشانی پر امریکا کی مرضی اور سازش کا ایسا داغ لگا کہ آج تک اس داغ کو دھویا نہ جاسکا۔ امریکا کی امتیازی پالیسی آج بھی جاری ہے، ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور اسرائیل ان پابندیوں سے آزاد ہے۔
کالم کا آغاز ہم نے شیر خوار بچوں کے دودھ نہ ملنے پر احتجاج سے کیا تھا، شیر خوار بچے جب انھیں بھوک لگتی ہے اور دودھ نہیں ملتا تو احتجاجاً رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، اس ملک کے 20 کروڑ اور دنیا کے 7 ارب انسان دن رات محنت کرکے دو وقت کی روٹی حاصل نہیں کرسکتے تو وہ سیاستدان کہاں ہیں جو بھٹو کے خلاف چند سیٹوں پر دھاندلی کے الزام میں لاکھوں سادہ لوح عوام کو سڑکوں پر لے آئے تھے، آج بھوک سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے اور بھوکے سونے والے انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف عوام کو کیوں متحرک نہیں کر رہے ہیں؟