جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
کم سن آیاؤں کے ساتھ کیا جانے والا ناروا سلوک۔
''ماسی اپنی چھوٹی بیٹی کو ہمارے گھر کام کے لیے چھوڑ گئی ہے، اس کے ہاتھ بھی برتن دھونے کے سنک تک نہیں پہنچتے، لکڑی کی چوکی پر کھڑی ہوکر برتن دھوتی ہے، لیکن برتن مجھے صاف چاہییں، برتن صاف نہ ہوں تو میں اس کے ہاتھوں پر چمچہ مارتی ہوں۔'' ننھے ہاتھوں پر چمچے کی ضرب سے ہونے والی تکلیف کی شدت کے احساس سے میرا دل کانپ اٹھا۔ میں نے ان خاتون کو سمجھانا چاہا مگر ان کا جواب تھا:''اسی طرح تو کام سیکھے گی۔''
دوسرا منظر کراچی کے ایک پوش علاقے کا ہے۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب مرد حضرات مساجد اور خواتین گھروں میں عبادت میں مصروف، اچانک بجلی چلی گئی۔ ماحول پر اندھیرے کے ساتھ خاموشی کا راج ہوگیا۔ اکثریت عبادات میں مشغول تھی۔ ایسے میں ایک بچی کے رونے کی آواز آنے لگی اور پھر آواز میں شدت آنے لگی۔ زور سے رونے کی آواز نے عبادت میں مصروف افراد کی سماعتوں کو جھنجھوڑ دیا۔
ایک خاتونِ خانہ نے بالکنی میں جاکر آواز کی سمت دیکھا تو سامنے کی عمارت کی بالکنی میں ایک چھوٹی بچی بلک بلک کر رو رہی تھی۔ رونے کا سبب دریافت کرنے پر پتا چلا کہ تمام اہل خانہ خریداری کرنے گئے ہیں اور اس کم سن ملازمہ کو گھر میں چھوڑ گئے تھے۔ داخلی دروازہ مقفل تھا۔ خاتون نے بچی کو حوصلہ دیتے ہوئے اہل خانہ کا موبائل نمبر دریافت کیا جس سے وہ لاعلم تھی۔ وہ بچی شاید بھوکی بھی ہوگی اور اندھیرے کی وجہ سے ڈر اور خوف سے رورہی تھی۔
تیسرا منظر حیدرآباد اور کراچی کے درمیان سپر ہائی وے پر واقع ہوٹل کا ہے۔ ہم کھانے کا آرڈر دے چکے تھے اور تخت پر بیٹھے ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے تھے۔ اسی دوران چند گاڑیاں آکر رکیں۔ ان میں موجود افراد ہمارے پیچھے بچھے دو تختوں پر بیٹھ گئے۔ بچے سامنے جھولا جھولنے لگے۔ دو چھوٹی بچیاں جنھوں نے سر پر دوپٹے اوڑھ رکھے تھے، بچوں کو گود میں اٹھائے کبھی بچوں کو جھولا جھلاتیں، کبھی خواتین کے ہمراہ بچوں کو گود میں لیے غسل خانے کی طرف جاتیں۔
اسی اثنا میں ہمارا کھانا آچکا تھا۔ کھانے کے تھال میں ایک سبزی کے سالن کی پلیٹ بھی نظر آئی۔ میں نے بھائی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ہم نے تو سبزی کا آرڈر نہیں دیا تھا۔ یہ غلطی سے آگئی ہے، واپس کردو۔ یہ سن کر بھائی گیا اور واپس آکر بتایاکہ یہاں کھانے کے ساتھ یہ سبزی کی پلیٹ تحفتاً دی جاتی ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ ہم کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ہمارے پیچھے تخت پر بیٹھے افراد کا بھی کھانا آگیا۔
خواتین جھولوں پر بیٹھے بچوں کو آواز دینے لگیں۔ ان دو لڑکیوں کو بچوں کو لانے کا کہا گیا۔ بچھے جھولے سے اترنے کو تیار نہیں تھے تو خواتین بچوں کو ان کے من پسند کھانوں کا بتاکر بلانے لگیں۔ بہ مشکل تمام بچے جھولوں سے اتر کر اپنی ماؤں کے پاس گئے۔ اب بھی ایک دو بچے جھولا جھولنے کے لیے بہ ضد تھے اور وہ دو کم سن آیائیں ان بچوں کو جھولا جھلانے پر مجبور تھیں۔ وہ بار بار مڑ کر اپنے مالکان کی طرف دیکھتیں کہ شاید وہ ان کو بلالیں تو ان بچیوں کو بھی کھانا کھانے کا موقع مل سکے۔
بھوک ان بچیوں کی آنکھوں سے عیاں تھی مگر لبوں پر حالات کی مجبوری نے خاموشی کی مہر ثبت کردی تھی۔ بالآخر کچھ ہی دیر میں ماؤں نے ان بچوں کو بھی بلالیا اور ان بچیوں کو سبزی کی وہی پلیٹ اور نان دے دیا گیا جس کو لے کر وہ ہمارے دوسری طرف بچھے تخت پر جاکر بیٹھ گئیں۔ سبزی کی پلیٹ کا سائز چھوٹا سا تھا اور ایک نان ان دو بچیوں کی بھوک مٹانے کے لیے ناکافی تھا۔ وہ دونوں جس طرح کھانا کھارہی تھیں، کوئی بھی حساس انسان ان کی بھوک کی شدت کا بہ آسانی اندازہ لگاسکتا تھا۔
کچھ ہی دیر میں وہ نان غالباً ختم ہوگیا تو چھوٹی بچی اپنے مالکان کے پاس گئی۔ دوبارہ اس کو دوسری ویسی ہی سبزی کی پلیٹ اور نان دے دیا گیا۔ وہ دونوں بچیاں دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگئیں۔ مالکان اس اثنا میں کھانا کھاچکے تھے۔ ان بچیوں کو آدھی روٹی مزید دی گئی اور جلد کھانا ختم کرنے کا حکم بھی ملا۔ وہ بچیاں تیزی سے کھانا کھانے لگیں۔ پھر خواتین ان بچیوں کو آواز دینے لگیں کہ وہ چھوٹے بچوں کو اٹھائیں۔ ان بچیوں نے جلدی جلدی کھانا منہ میں ٹھونسا اور ان کے ہمراہ چل دیں۔
یہ تینوں مناظر فرضی کہانیوں پر مبنی نہیں ہیں بلکہ حقیقی واقعات ایسی بے شمار کم سن آیائیں اور ملازمائیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جن کے ساتھ بسا اوقات ایسا نارواسلوک روا رکھا جاتا ہے کہ روح کانپ اٹھے۔ والدین کی معاشی مجبوری کی چکی میں پستی یہ معصوم بچیاں بھی ویسے ہی جذبات و احساسات رکھتی ہیں جیسی اس عمر کی دیگر بچیاں رکھتی ہیں۔ کبھی ان کی جگہ اپنے ذہن میں اپنی چھوٹی بہن یا بیٹی کو رکھ کر سوچیں تو دل لرز اٹھتا ہے۔
لیکن جب معاملہ مالکن اور ملازمہ کا آجائے تو نہ جانے کیوں دلوں پر سرد مہری اور نگاہوں میں بے حسی کے ایسے پردے پڑجاتے ہیں کہ نہ ان معصوم بچیوں کے جذبات و احساسات محسوس ہوتے ہیں نہ ان کی بھوک، پیاس یا آرام کا خیال رہتا ہے۔ اپنے سے چند برس چھوٹے بچوں یا بسا اوقات اپنے ہی ہم عمر بچوں کا خیال رکھنا، انہیں سنبھالنا، گھریلو کام کاج کرنا ان کی مرضی و منشا نہیں محض والدین کی مفلسی کے ہاتھوں مجبور اولاد کا حالات سے سمجھوتا ہے، اچھے کھانے کھانے، خوبصورت کھلونوں سے کھیلنے، صبح تیار ہوکر اسکول جانے کے لیے ان کا بھی دل مچلتا ہوگا مگر مجبوریوں نے لبوں کو خاموشی سے سی دیا۔
لہٰذا وہ نہ کوئی شکوہ کرتی ہیں اور نہ کسی سے گلہ کرتی ہیں، جن گھرانوں میں مفلسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں وہاں کے بچے یہ معصوم ارمان دل میں ہی دبالیتے ہیں۔ مگر یہ محرومیاں، آجروں کی تلخ رویے، معاشرتی نا انصافی اور ایسے کئی دوسرے عوامل بس اوقات ایسی بچیوں کی شخصیت میں عمر بڑھنے کے ساتھ باغیانہ رویے، نفسیاتی امراض، احساسِ کمتری وغیرہ کا سبب بنتے ہیں۔
عورت جو اپنی نسوانی فطرت کے سبب نرم مزاج ہوتی ہے اور ماں بننے کے بعد تو ہر بچے میں اپنے بچے کا عکس دکھائی دیتا ہے کہ ممتا کے انمول احساس کا لفظوں میں بیان ممکن ہی نہیں۔ فطرتاً اس سے ہر بچے کے ساتھ رحم دلی اور مہربانی سے پیش آنے کی توقع رکھی جاتی ہے لیکن جب وہ روایتی مالکن والا رویہ اپناتی ہے تو بسا اوقات انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ اگر چند لمحوں کو ان بچیوں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں، اپنے گھر، والدین، بہن بھائیوں سے دور، کبھی پیٹ بھر کھانا نصیب ہو اور کبھی نہیں۔
موسم کی شدت کو برداشت کرنے کے لیے نہ مناسب بستر میسر ہو، بیمار ہوجائیں تو علاج معالجے کا خیال رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔ ان حالات میں مالکن کا تلخ رویہ کیا ظلم ڈھاتا ہوگا۔ اس کیفیت کو لفظوں کا روپ دینا ممکن نہیں۔ ہمارے نبی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں اپنے غلاموں اور نوکروں کے متعلق خاص ارشاد فرمایا تھا:''اے لوگو! تم اپنے غلاموں اور نوکروں کی فلاح کے ذمے دار ہو، ان سے اچھا سلوک کرو، اگر وہ کوئی غلطی کریں تو انھیں معاف کردو۔ انھیں وہی کچھ دو جو خود کھاتے ہو اور پہننے کو وہی کچھ دو جو خود پہنتے ہو۔''
اگر ہر شخص صرف اس کی روشنی میں اپنی ذات کا محاسبہ کرے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی عملی کوشش کرے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے گی ۔ اور اگر ان بچیوں کو فارغ وقت میں خاتونِ خانہ پڑھادیا کریں تو یہ نیکی دنیا و آخرت میں فلاح کا سبب بنے گی۔
دوسرا منظر کراچی کے ایک پوش علاقے کا ہے۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب مرد حضرات مساجد اور خواتین گھروں میں عبادت میں مصروف، اچانک بجلی چلی گئی۔ ماحول پر اندھیرے کے ساتھ خاموشی کا راج ہوگیا۔ اکثریت عبادات میں مشغول تھی۔ ایسے میں ایک بچی کے رونے کی آواز آنے لگی اور پھر آواز میں شدت آنے لگی۔ زور سے رونے کی آواز نے عبادت میں مصروف افراد کی سماعتوں کو جھنجھوڑ دیا۔
ایک خاتونِ خانہ نے بالکنی میں جاکر آواز کی سمت دیکھا تو سامنے کی عمارت کی بالکنی میں ایک چھوٹی بچی بلک بلک کر رو رہی تھی۔ رونے کا سبب دریافت کرنے پر پتا چلا کہ تمام اہل خانہ خریداری کرنے گئے ہیں اور اس کم سن ملازمہ کو گھر میں چھوڑ گئے تھے۔ داخلی دروازہ مقفل تھا۔ خاتون نے بچی کو حوصلہ دیتے ہوئے اہل خانہ کا موبائل نمبر دریافت کیا جس سے وہ لاعلم تھی۔ وہ بچی شاید بھوکی بھی ہوگی اور اندھیرے کی وجہ سے ڈر اور خوف سے رورہی تھی۔
تیسرا منظر حیدرآباد اور کراچی کے درمیان سپر ہائی وے پر واقع ہوٹل کا ہے۔ ہم کھانے کا آرڈر دے چکے تھے اور تخت پر بیٹھے ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے تھے۔ اسی دوران چند گاڑیاں آکر رکیں۔ ان میں موجود افراد ہمارے پیچھے بچھے دو تختوں پر بیٹھ گئے۔ بچے سامنے جھولا جھولنے لگے۔ دو چھوٹی بچیاں جنھوں نے سر پر دوپٹے اوڑھ رکھے تھے، بچوں کو گود میں اٹھائے کبھی بچوں کو جھولا جھلاتیں، کبھی خواتین کے ہمراہ بچوں کو گود میں لیے غسل خانے کی طرف جاتیں۔
اسی اثنا میں ہمارا کھانا آچکا تھا۔ کھانے کے تھال میں ایک سبزی کے سالن کی پلیٹ بھی نظر آئی۔ میں نے بھائی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ہم نے تو سبزی کا آرڈر نہیں دیا تھا۔ یہ غلطی سے آگئی ہے، واپس کردو۔ یہ سن کر بھائی گیا اور واپس آکر بتایاکہ یہاں کھانے کے ساتھ یہ سبزی کی پلیٹ تحفتاً دی جاتی ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ ہم کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ہمارے پیچھے تخت پر بیٹھے افراد کا بھی کھانا آگیا۔
خواتین جھولوں پر بیٹھے بچوں کو آواز دینے لگیں۔ ان دو لڑکیوں کو بچوں کو لانے کا کہا گیا۔ بچھے جھولے سے اترنے کو تیار نہیں تھے تو خواتین بچوں کو ان کے من پسند کھانوں کا بتاکر بلانے لگیں۔ بہ مشکل تمام بچے جھولوں سے اتر کر اپنی ماؤں کے پاس گئے۔ اب بھی ایک دو بچے جھولا جھولنے کے لیے بہ ضد تھے اور وہ دو کم سن آیائیں ان بچوں کو جھولا جھلانے پر مجبور تھیں۔ وہ بار بار مڑ کر اپنے مالکان کی طرف دیکھتیں کہ شاید وہ ان کو بلالیں تو ان بچیوں کو بھی کھانا کھانے کا موقع مل سکے۔
بھوک ان بچیوں کی آنکھوں سے عیاں تھی مگر لبوں پر حالات کی مجبوری نے خاموشی کی مہر ثبت کردی تھی۔ بالآخر کچھ ہی دیر میں ماؤں نے ان بچوں کو بھی بلالیا اور ان بچیوں کو سبزی کی وہی پلیٹ اور نان دے دیا گیا جس کو لے کر وہ ہمارے دوسری طرف بچھے تخت پر جاکر بیٹھ گئیں۔ سبزی کی پلیٹ کا سائز چھوٹا سا تھا اور ایک نان ان دو بچیوں کی بھوک مٹانے کے لیے ناکافی تھا۔ وہ دونوں جس طرح کھانا کھارہی تھیں، کوئی بھی حساس انسان ان کی بھوک کی شدت کا بہ آسانی اندازہ لگاسکتا تھا۔
کچھ ہی دیر میں وہ نان غالباً ختم ہوگیا تو چھوٹی بچی اپنے مالکان کے پاس گئی۔ دوبارہ اس کو دوسری ویسی ہی سبزی کی پلیٹ اور نان دے دیا گیا۔ وہ دونوں بچیاں دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگئیں۔ مالکان اس اثنا میں کھانا کھاچکے تھے۔ ان بچیوں کو آدھی روٹی مزید دی گئی اور جلد کھانا ختم کرنے کا حکم بھی ملا۔ وہ بچیاں تیزی سے کھانا کھانے لگیں۔ پھر خواتین ان بچیوں کو آواز دینے لگیں کہ وہ چھوٹے بچوں کو اٹھائیں۔ ان بچیوں نے جلدی جلدی کھانا منہ میں ٹھونسا اور ان کے ہمراہ چل دیں۔
یہ تینوں مناظر فرضی کہانیوں پر مبنی نہیں ہیں بلکہ حقیقی واقعات ایسی بے شمار کم سن آیائیں اور ملازمائیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جن کے ساتھ بسا اوقات ایسا نارواسلوک روا رکھا جاتا ہے کہ روح کانپ اٹھے۔ والدین کی معاشی مجبوری کی چکی میں پستی یہ معصوم بچیاں بھی ویسے ہی جذبات و احساسات رکھتی ہیں جیسی اس عمر کی دیگر بچیاں رکھتی ہیں۔ کبھی ان کی جگہ اپنے ذہن میں اپنی چھوٹی بہن یا بیٹی کو رکھ کر سوچیں تو دل لرز اٹھتا ہے۔
لیکن جب معاملہ مالکن اور ملازمہ کا آجائے تو نہ جانے کیوں دلوں پر سرد مہری اور نگاہوں میں بے حسی کے ایسے پردے پڑجاتے ہیں کہ نہ ان معصوم بچیوں کے جذبات و احساسات محسوس ہوتے ہیں نہ ان کی بھوک، پیاس یا آرام کا خیال رہتا ہے۔ اپنے سے چند برس چھوٹے بچوں یا بسا اوقات اپنے ہی ہم عمر بچوں کا خیال رکھنا، انہیں سنبھالنا، گھریلو کام کاج کرنا ان کی مرضی و منشا نہیں محض والدین کی مفلسی کے ہاتھوں مجبور اولاد کا حالات سے سمجھوتا ہے، اچھے کھانے کھانے، خوبصورت کھلونوں سے کھیلنے، صبح تیار ہوکر اسکول جانے کے لیے ان کا بھی دل مچلتا ہوگا مگر مجبوریوں نے لبوں کو خاموشی سے سی دیا۔
لہٰذا وہ نہ کوئی شکوہ کرتی ہیں اور نہ کسی سے گلہ کرتی ہیں، جن گھرانوں میں مفلسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں وہاں کے بچے یہ معصوم ارمان دل میں ہی دبالیتے ہیں۔ مگر یہ محرومیاں، آجروں کی تلخ رویے، معاشرتی نا انصافی اور ایسے کئی دوسرے عوامل بس اوقات ایسی بچیوں کی شخصیت میں عمر بڑھنے کے ساتھ باغیانہ رویے، نفسیاتی امراض، احساسِ کمتری وغیرہ کا سبب بنتے ہیں۔
عورت جو اپنی نسوانی فطرت کے سبب نرم مزاج ہوتی ہے اور ماں بننے کے بعد تو ہر بچے میں اپنے بچے کا عکس دکھائی دیتا ہے کہ ممتا کے انمول احساس کا لفظوں میں بیان ممکن ہی نہیں۔ فطرتاً اس سے ہر بچے کے ساتھ رحم دلی اور مہربانی سے پیش آنے کی توقع رکھی جاتی ہے لیکن جب وہ روایتی مالکن والا رویہ اپناتی ہے تو بسا اوقات انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ اگر چند لمحوں کو ان بچیوں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں، اپنے گھر، والدین، بہن بھائیوں سے دور، کبھی پیٹ بھر کھانا نصیب ہو اور کبھی نہیں۔
موسم کی شدت کو برداشت کرنے کے لیے نہ مناسب بستر میسر ہو، بیمار ہوجائیں تو علاج معالجے کا خیال رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔ ان حالات میں مالکن کا تلخ رویہ کیا ظلم ڈھاتا ہوگا۔ اس کیفیت کو لفظوں کا روپ دینا ممکن نہیں۔ ہمارے نبی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں اپنے غلاموں اور نوکروں کے متعلق خاص ارشاد فرمایا تھا:''اے لوگو! تم اپنے غلاموں اور نوکروں کی فلاح کے ذمے دار ہو، ان سے اچھا سلوک کرو، اگر وہ کوئی غلطی کریں تو انھیں معاف کردو۔ انھیں وہی کچھ دو جو خود کھاتے ہو اور پہننے کو وہی کچھ دو جو خود پہنتے ہو۔''
اگر ہر شخص صرف اس کی روشنی میں اپنی ذات کا محاسبہ کرے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی عملی کوشش کرے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے گی ۔ اور اگر ان بچیوں کو فارغ وقت میں خاتونِ خانہ پڑھادیا کریں تو یہ نیکی دنیا و آخرت میں فلاح کا سبب بنے گی۔