بیٹیاں نازک تتلیاں ہیں
ان آبگینوں کی حفاظت کریں۔
''پارس بیٹی! کہاں جارہی ہو؟ '' اپنے باباجان کی آواز سن کر اس کے قدم وہیں ٹھہر گئے۔ وہ ان کے قریب چلی آئی اور جلدی سے ان کا ہاتھ تھام کر بڑے لاڈ سے بابا سے کہنے لگی:''پلیز بابا جانی! بس ایک جگنو اور پکڑنے دیں، اسے پکڑتے ہی میں فوراً واپس آجاؤں گی، لیکن ابھی مجھے جانے دیں ناں پلیز!''
''اچھا میری بٹیا رانی! جلدی واپس آجانا، زیادہ دیر نہ کرنا۔'' بابا کی اجازت ملتے ہی پارس خوشی سے سر شار ہوکر اپنی مخصوص وادی کی طرف بڑھ گئی۔ وادی میں رنگ برنگے جگنوؤوں کا کھیل ہو رہا تھا۔ ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے نے اس کے بال بکھیر دیے، جگنوؤوں کو پکڑنے کی خواہش نے پھر سے کروٹ لی تو وہ اپنے بابا جانی سے کیا گیا وعدہ بھی بھول بیٹھی۔ یہ خوش نمائی اور مصنوعی خوب صورتی ایسی ہی دلکش دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں بہت تلخ ہوتی ہے۔ آغاز میں تو سب رنگین اور سنہرے خوابوں کی تعبیر لگتا ہے پھر شام کا منظر بھیگ کر خود کو تاریکی میں سمو لیتا ہے۔
پارس بھی جگنو کو پکڑنے کی خواہش لیے دل میں اس سرسبز اور خار دار وادی کی لپیٹ میں آچکی تھی۔ اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی تو خود کو ایک انجان جگہ پر پایا اور وہ راستہ تو کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا جو اس کے گھر کی طرف جاتا تھا۔ آس پاس جنگلی درندوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔آنسوؤوں کی لڑیاں اس کے صبیح چہرے کو بھگونے لگی تھیں اور وہ سوچنے لگی تھی:''کاش! میرے بابا مجھے ڈانٹ کر روک لیتے اور پیار سے سمجھالیتے اور میں یوں گھر کی دہلیز نہ چھوڑتی۔ جگنو یہ بھی سوچ رہی تھی کہ میری اس خواہش نے مجھے نہ صرف تباہ کردیا بلکہ مجھے سب سے دور کرکے اندھیرے راستوں کے بھی سپرد کردیا ہے۔
اب اس کے زندگی میں صرف پچھتاوا ہی بچا تھا اور اب اسی کے ساتھ اسے اپنی بچی کھچی سانسیں گزارنی تھیں۔
''ماما! مجھے اس وین میں اسکول نہیں جانا۔'' زینب نے گیٹ پار کرتے ہوئے معمول کی طرح پھر سے ضدی لہجے میں کہا تھا۔
''اف بیٹا! تنگ مت کرو،خاموشی سے چلی جاؤ، تمھارے پاپا سے کہا تو ہے کہ کسی اور وین والے کا بندوبست کردیں ۔'' انھوں نے اس کے بال سنوارتے ہوئے کہا تھا تو زینب نے بے بسی سے اپنی اسکول وین کی طرف دیکھتے ہوئے بڑھ گئی جس کا ڈرائیور اس کو عجیب طریقے سے دیکھ رہا تھا۔
جانے کیوں والدین یہ سب محسوس کیوں نہیں کرتے کہ ان کی بچیاں ان کو کچھ بتانا چاہتی ہیں پھر جھجھک اور خوف کے زیر عتاب آنے کی وجہ سے اپنی کیفیت بتانے سے ڈر جاتی ہیں۔ مائیں تو بیٹیوں کے بہت قریب ہوتی ہیں ،انھیں چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیاں چھوڑ کر اپنی بیٹی کی اسکول کی ساری روداد سنیں، اگر وہ غلط راستے پر گام زن ہے یا کوئی اسے پریشان کر رہا ہے تو اس کا پیچھا کریں، تاکہ آنے والے وقت میں کسی بہت بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔
ہوس اور درندگی کے اس دور میں اپنی پری جیسی بیٹیوں کا سب زیادہ خیال رکھنا والدین کی اولین ذمے داری بن چکی ہے۔
''پاپا! جواد انکل جو آج آپ کے ساتھ آئے تھے، وہ مجھے گھورتے ہی رہے، جانے کیوں مجھے وہ بالکل اچھے نہیں لگے۔''
فاطمہ نے کھانے کی میز پر اپنے پاپا کو بتایا تو وہ ہنس پڑے اور بولے:''ارے بیٹا! جواد میرا بہت اچھا دوست ہے، وہ کاروباری سلسلے میں آتا رہے گا، لیکن تم پریشان نہ ہو اور اس سے ڈرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔'' انھوں نے ٹشو پیپرسے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔
''بس آپ ان کو ڈرائنگ روم تک محدود رکھیے گا، مجھے ان کے سامنے مت بلائیے گا ۔'' فاطمہ یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تو وہ اپنی بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولے:''یہ لڑکی بہت خود سر ہوتی جارہی ہے، اسے سمجھایا کرو۔''
لیکن اصل میں ہم سبھی کو اپنے دوست، احباب کو گھر کے اندرونی حصوں میں جانے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہیے سوائے ان لوگوں کے جن پر آپ کو مکمل بھروسا ہو، بلکہ ان کو بھی آپ خود وقت دیں اور خاص طور پر بچیوں کو ان کے ساتھ تنہا نہ رہنے دیں۔ آئے روز ایسے بہت سے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کے نتائج بھی اچھے نہیں نکل رہے۔ اس فعل میں والدین بھی قصور وار ہیں، ان کی ذرا سی کوتاہی بچیوں کے لیے زندگی بھر کا ناسور بن جاتی ہے، اس لیے اپنی نازک تتلیوں کو درندوں کی ہوس سے دور رکھیں اور آبگینوں کو کرچی کرچی ہونے سے بچالیں۔ ان کی زندگی کی خوب صورتی اور دل کشی کو پاکیزگی کے رنگ سے بھر دیجیے، وہ کسی طرح کے ناسور کا شکار نہ ہوں۔
دکھاوے اور ظاہری چمک دمک سے ان کو آگاہ کرنا والدین کی ذمے داری ہے۔ ماں، باپ کی توجہ اور دیکھ بھال سے عصمت کی چادر کو سنبھالا جاسکتا ہے۔ دراصل معاشرے میں بڑھتی ہوئی حرص و ہوس نے ہمارے ذہنوں پر غفلت کا پردہ ڈال دیا ہے، اس لیے اپنے آپ کو بدلنا ہے، اس صورت حال کا سامنا کرنے لیے خود کو تیار کرنا ہے، اپنی اچھی تربیت کا ایک پھر جائزہ لیں اور اس میں کمی بیشی پر بھرپور انداز سے سوچیں، اس کے بعد اپنے فعل میں تبدیلی لا ئیں، کیوں کہ بچے والدین کی ہر لحاظ سے نقل کرتے ہیں اور خود کو ویسا ہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے کردار کی ذرا سی تبدیلی آپ کے بچوں کی زندگی بدل دے ۔۔۔
''اچھا میری بٹیا رانی! جلدی واپس آجانا، زیادہ دیر نہ کرنا۔'' بابا کی اجازت ملتے ہی پارس خوشی سے سر شار ہوکر اپنی مخصوص وادی کی طرف بڑھ گئی۔ وادی میں رنگ برنگے جگنوؤوں کا کھیل ہو رہا تھا۔ ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے نے اس کے بال بکھیر دیے، جگنوؤوں کو پکڑنے کی خواہش نے پھر سے کروٹ لی تو وہ اپنے بابا جانی سے کیا گیا وعدہ بھی بھول بیٹھی۔ یہ خوش نمائی اور مصنوعی خوب صورتی ایسی ہی دلکش دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں بہت تلخ ہوتی ہے۔ آغاز میں تو سب رنگین اور سنہرے خوابوں کی تعبیر لگتا ہے پھر شام کا منظر بھیگ کر خود کو تاریکی میں سمو لیتا ہے۔
پارس بھی جگنو کو پکڑنے کی خواہش لیے دل میں اس سرسبز اور خار دار وادی کی لپیٹ میں آچکی تھی۔ اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی تو خود کو ایک انجان جگہ پر پایا اور وہ راستہ تو کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا جو اس کے گھر کی طرف جاتا تھا۔ آس پاس جنگلی درندوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔آنسوؤوں کی لڑیاں اس کے صبیح چہرے کو بھگونے لگی تھیں اور وہ سوچنے لگی تھی:''کاش! میرے بابا مجھے ڈانٹ کر روک لیتے اور پیار سے سمجھالیتے اور میں یوں گھر کی دہلیز نہ چھوڑتی۔ جگنو یہ بھی سوچ رہی تھی کہ میری اس خواہش نے مجھے نہ صرف تباہ کردیا بلکہ مجھے سب سے دور کرکے اندھیرے راستوں کے بھی سپرد کردیا ہے۔
اب اس کے زندگی میں صرف پچھتاوا ہی بچا تھا اور اب اسی کے ساتھ اسے اپنی بچی کھچی سانسیں گزارنی تھیں۔
''ماما! مجھے اس وین میں اسکول نہیں جانا۔'' زینب نے گیٹ پار کرتے ہوئے معمول کی طرح پھر سے ضدی لہجے میں کہا تھا۔
''اف بیٹا! تنگ مت کرو،خاموشی سے چلی جاؤ، تمھارے پاپا سے کہا تو ہے کہ کسی اور وین والے کا بندوبست کردیں ۔'' انھوں نے اس کے بال سنوارتے ہوئے کہا تھا تو زینب نے بے بسی سے اپنی اسکول وین کی طرف دیکھتے ہوئے بڑھ گئی جس کا ڈرائیور اس کو عجیب طریقے سے دیکھ رہا تھا۔
جانے کیوں والدین یہ سب محسوس کیوں نہیں کرتے کہ ان کی بچیاں ان کو کچھ بتانا چاہتی ہیں پھر جھجھک اور خوف کے زیر عتاب آنے کی وجہ سے اپنی کیفیت بتانے سے ڈر جاتی ہیں۔ مائیں تو بیٹیوں کے بہت قریب ہوتی ہیں ،انھیں چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیاں چھوڑ کر اپنی بیٹی کی اسکول کی ساری روداد سنیں، اگر وہ غلط راستے پر گام زن ہے یا کوئی اسے پریشان کر رہا ہے تو اس کا پیچھا کریں، تاکہ آنے والے وقت میں کسی بہت بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔
ہوس اور درندگی کے اس دور میں اپنی پری جیسی بیٹیوں کا سب زیادہ خیال رکھنا والدین کی اولین ذمے داری بن چکی ہے۔
''پاپا! جواد انکل جو آج آپ کے ساتھ آئے تھے، وہ مجھے گھورتے ہی رہے، جانے کیوں مجھے وہ بالکل اچھے نہیں لگے۔''
فاطمہ نے کھانے کی میز پر اپنے پاپا کو بتایا تو وہ ہنس پڑے اور بولے:''ارے بیٹا! جواد میرا بہت اچھا دوست ہے، وہ کاروباری سلسلے میں آتا رہے گا، لیکن تم پریشان نہ ہو اور اس سے ڈرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔'' انھوں نے ٹشو پیپرسے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔
''بس آپ ان کو ڈرائنگ روم تک محدود رکھیے گا، مجھے ان کے سامنے مت بلائیے گا ۔'' فاطمہ یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تو وہ اپنی بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولے:''یہ لڑکی بہت خود سر ہوتی جارہی ہے، اسے سمجھایا کرو۔''
لیکن اصل میں ہم سبھی کو اپنے دوست، احباب کو گھر کے اندرونی حصوں میں جانے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہیے سوائے ان لوگوں کے جن پر آپ کو مکمل بھروسا ہو، بلکہ ان کو بھی آپ خود وقت دیں اور خاص طور پر بچیوں کو ان کے ساتھ تنہا نہ رہنے دیں۔ آئے روز ایسے بہت سے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کے نتائج بھی اچھے نہیں نکل رہے۔ اس فعل میں والدین بھی قصور وار ہیں، ان کی ذرا سی کوتاہی بچیوں کے لیے زندگی بھر کا ناسور بن جاتی ہے، اس لیے اپنی نازک تتلیوں کو درندوں کی ہوس سے دور رکھیں اور آبگینوں کو کرچی کرچی ہونے سے بچالیں۔ ان کی زندگی کی خوب صورتی اور دل کشی کو پاکیزگی کے رنگ سے بھر دیجیے، وہ کسی طرح کے ناسور کا شکار نہ ہوں۔
دکھاوے اور ظاہری چمک دمک سے ان کو آگاہ کرنا والدین کی ذمے داری ہے۔ ماں، باپ کی توجہ اور دیکھ بھال سے عصمت کی چادر کو سنبھالا جاسکتا ہے۔ دراصل معاشرے میں بڑھتی ہوئی حرص و ہوس نے ہمارے ذہنوں پر غفلت کا پردہ ڈال دیا ہے، اس لیے اپنے آپ کو بدلنا ہے، اس صورت حال کا سامنا کرنے لیے خود کو تیار کرنا ہے، اپنی اچھی تربیت کا ایک پھر جائزہ لیں اور اس میں کمی بیشی پر بھرپور انداز سے سوچیں، اس کے بعد اپنے فعل میں تبدیلی لا ئیں، کیوں کہ بچے والدین کی ہر لحاظ سے نقل کرتے ہیں اور خود کو ویسا ہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے کردار کی ذرا سی تبدیلی آپ کے بچوں کی زندگی بدل دے ۔۔۔