اس خواب کی تکمیل کی راہ پر
دنیا کے ہر بڑے ادارے کے پیچھے ایک تھنک ٹینک ہوتا ہے۔
NEW YORK:
دنیا کی کوئی تبدیلی' انقلاب' ترقی اور بہتری ایسی نہیں جس کی بنیاد میں عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے دانشوروں' عالموں' رہنمائوں اور شاعروں کے خواب موجود نہ ہوں۔ گزشتہ چھ ماہ سے العلم ٹرسٹ کے ذریعے میں ایک خواب کے تانے بانے بُن رہا ہوں۔ یوں تو یہ خواب گزشتہ پانچ صدیوں سے مسلم امہ کا ہر ذی شعور اس لمحے سے دیکھ رہا ہے جب سے ہم پر زوال اور ادبار کے بادل چھائے ہیں۔ ان پانچ صدیوں میں نہ ہمارے خواب کم ہوئے اور نہ ہمارا جوش ٹھنڈا۔ مغرب کے جدید ترین تحقیقی اداروں نے جو سروے مسلمان ملکوں میں کیے' انھیں دیکھ کر یہ حیرت ہوئی کہ مغرب کی چکا چوند ترقی کے باوجود اور جمہوریت کے دلفریب اور پر کشش ماحول کی موجودگی میں اس امت کی اکثریت آج بھی خلافت راشدہ کے دور کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہے۔
ایسی امت کو پھر کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے۔ سالوں اس پر غور کیا تو ایک بات اس محدود عقل اور تجربے کے حامل ذہن میں آئی کہ ہم تبدیلی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن گزشتہ پانچ سو سالوں میں میرے جیسے دانشوروں اور بہت اہم قابل احترام عالموں' محققوں اور رہنمائوں نے اس نظام کے خاکے پر بہت کم کام کیا ہے۔ جو تھوڑا بہت کام بھی ہوا ہے وہ ملکوں ملکوں بکھرا ہوا ہے۔ ہم نے گزشتہ پانچ سو سالوں میں جو بھی لکھا وہ اول تو ہمارے سنہری دور کا ماتم تھا یا پھر اس دور کو ویسے ہی نافذ کرنے کی خواہش کا اظہار۔ اسلامی معیشت اور سود کے خلاف کام کرتے ہوئے ہم لوگوں نے سود کی حرمت میں بار بار وہ دلیلیں نئی کتابوں میں خوبصورت مجلد ایڈیشنوں میں تحریر تو کر دیں لیکن اس بات سے بہت کم لوگ آگاہ رہے کہ اس سنہری دور میں سود تو انفرادی عمل تھا اور آج سود ایک عفریت' ایک بلا اور آکٹوپس کی صورت دنیا کا سب سے منظم ادارہ بن چکا ہے جس میں کاغذ کے نوٹوں سے لے کر بینکنگ' عالمی قرضوں سے افراط زر کے گورکھ دھندے اور معیشت کو سانپ کی طرح کنٹرول کرنے کے ہتھکنڈے تک شامل ہو گئے۔
کچھ اصلاح کرنے نکلے تو انھوں نے اسی بینکنگ نظام کی غلیظ عمارت میں ایک چھوٹی سی جگہ کو صاف کر کے اسلامی بینکنگ کی مسجد بنانے کی کوشش کی اور یہ بھول گئے کہ اس مکروہ عمارت کی چھت سے سود کی غلاظت اس مسجد میں مسلسل ٹپک کر اسے ناپاک کر رہی ہے۔ اس کا حل تو ایک تھا کہ اس پورے نظام کے مقابل ایک اتنا ہی موثر نظام مرتب کیا جاتا۔ شراب خانے کے مقابلے میں مسجد بنائی جاتی لیکن یہاں تو اس کے اندر ایک کونہ مخصوص کر دیا گیا۔ یہی حال بحیثیت امت ہمارے اس ماتم کے ساتھ ہوا جو ہم نظام تعلیم کے بارے میں کرتے ہیں۔ ہم اپنی نسل کی تباہی ان کتابوں میں تلاش کرتے ہیں جو انھیں وہ ساری اخلاقیات سکھاتی ہیں جو مغرب کے معاشرے کا خاصہ ہیں اور پھر وہ ایک دن بڑا ہو کر یہ تصور پختہ کر لیتا ہے کہ اسلام بس اسی دور کی ایک کوشش تھی جو اپنا جلوہ دکھا کر چلی گئی۔
ایسا تو سب تہذیبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے دانشوروں اور عالموں نے ان بچوں کے لیے کوئی ایسا نصاب تعلیم' ایسی کتابیں' کہانیاں' کارٹون فلمیں اور جدید دور کے مسائل کو حل کرتی تعلیمات پر مبنی اسلامی فکر پر لکھی گئی تحریریں مرتب نہ کیں۔ جلوس نکالے' نعرے لگائے' لاٹھیاں کھائیں جانیں قربان کیں جو ذرا کام کو نکلے انھوں نے اسی مغربی تعلیم میں چند اسلامی مضامین شامل کر کے سمجھا مسئلہ حل ہو گیا۔ ہمارا دامن اس معاملے میں بھی خالی رہا۔ امور مملکت میں بھی ہمیں ایک مختلف بیورو کریسی' پولیس اور الف سے لے کر یے تک تمام قوانین ایسے بنانے چاہئیں تھے جو ایک صالح معاشرے کا منظر پیش کرتے۔ ہم نے چند قوانین بنائے اور انھی ججوں اور پولیس والوں کے حوالے کر دیے جن پر خود حد قائم ہوتی تھی۔
ہم نے عورت اور خاندانی نظام کی اسلامی اقدار پر بحثیں کیں لیکن پوری مسلم امہ میں ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جو عورت کو اس گھر جس کی وہ نگہبان ہے' اسے چلانے کے لیے مخصوص علم سے مالا مال کرے جس میں بچوں کی تربیت سے لے کر ان کے نفسیاتی' جذباتی اور اخلاقی مسائل کے حل' معاشیات' بوڑھوں کی نگہداشت' تزئین و آرائش اور صحت کے اصول پڑھائے جائیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں العلم ٹرسٹ نے دو کام کیے۔ ایک تو اس سارے کام کو اکٹھا کرنا شروع کیا جو اس معاملے میں آج تک ہوا۔ دوسرا ان اداروں کا ایک خاکہ مرتب کرنے کی کوشش جن سے تبدیلی کا آغازہو سکتا ہے۔ تیسرا کام جو ذرا عوامی سطح کا تھا وہ کاغذ کے نوٹوں کے مقابلے میں سونے اور چاندی کے درہم و دینار کی بابت پیشقدمی کی۔ عمر ابراہیم وڈیلوکی' رمضان کے بعد دوبارہ آمد پر ایک بہت بڑی کمپنی کا خاکہ ذہن میں ہے جو قائم کی جائے گی۔
اس دوران ایک بات شدت سے محسوس کی گئی کہ اگر ان سب تبدیلی کے خاکوں کو عملی شکل نہ دی گئی تو یہ پھر کتابوں کی زینت بن کر الماریوں میں دیمک کی نظر ہو جائیں گے۔ ہمارا یہ خواب کوئی نیا نہیں۔ دنیا میں ہر تبدیلی کے پیچھے ایسے ہی خواب تھے جن کو لوگوں نے آہستہ آہستہ پورا کیا۔ اس وقت دنیا میں آپ کو سو سے زیادہ ایسے شہر ملیں گے جو ان تبدیلی کے مراکز کے گرد ترتیب پائے گئے۔ آکسفورڈ 1096ء میں چند کمروں میں مشتمل عمارت میں قائم ہوئی' 1167ء میں ہنری دوئم نے بیرون ملک پڑھنے پر پابندی لگائی اور 1209ء میں یہ ایک عظیم یونیورسٹی بن چکی تھی جس کے گرد ایک شہر آباد تھا۔
ایسی ہی تاریخ کیمبرج کی ہے۔ دسویں صدی عیسوی میں جب یورپ مسلمانوں کے علم سے متاثر ہوا تو انھوں نے پیرس' نیپلز' نیبورن' بولگنا اور ٹولیڈو میں طالب علموں کو عربی پڑھانی شروع کی تاکہ وہ ہمارے علم تک رسائی حاصل کر سکیں اور پھر یہاں تک کہ ہر علاقائی زبان میں ان علوم کو ترجمہ کیا۔ اس طرح امریکا اور یورپ میں مسیا چوسٹ' جورجیا' ٹیکساس' کیلی فورنیا' نوسیروڈو' ییل' ورجینیا' سالمنیکا اور کئی یونیورسٹیوں کے گرد شہر آباد ہیں جنھیں یونیورسٹی ٹائون کہتے ہیں۔ اکیلے بوسٹن شہر میں دو لاکھ پچاس ہزار طالب علم موجود ہوتے ہیں۔ ان شہروں کی فضا ان علوم سے بہرہ مند ہوتی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہزاروں گھروں پر مشتمل پوش سوسائٹیاں وغیرہ کنکریٹ کی عمارتیں اور کول تارکی سڑکیں بنائیں لیکن وہ کسی ایسے مرکز کے گرد نہیں گھومتی تھیں جہاں سے علم کی روشنی پھوٹے۔ ہمارا ایک خواب ہے ایک ایسا شہر آباد کرنے کا جس کا آغاز اسی طرح دارلترجمہ سے ہو جیسے مسلمانوں نے بغداد میں اور یورپ نے اپنے متعدد شہروں سے کیا' جس میں ایک جامع تعلیمی نظام پر مرتب پرائمری سے لے کر یونیورسٹی اور تحقیقی اداروں تک سب تعلیمی ادارے موجود ہوں۔ جس کے ارد گرد لوگ اپنے ذوق اور شوق کے حوالے سے گھر بنائیں۔ جس کی کمیونٹی ایک ایسا بینکنگ سسٹم بنائے جو چھوٹا ہو لیکن سود سے پاک ہو۔
یہ بہت بڑا خواب ہے۔ اس العلم ٹرسٹ کا خواب جو آج بھی ایک کمرے کی عمارت میں قائم ہے اور جس نے آج تک کسی سے مالی اعانت کی اپیل نہیں کی لیکن دنیا کا کوئی یونیورسٹی ٹائون بھی ایسا نہیں جو چند کمروں کی عمارت سے نہ شروع ہوا ہو۔ یہ خواب ممکنات میں ہے۔ چند ہزار گھرانوں اور کئی سو اداروں پر مشتمل ایک شہر جو ہماری پہچان بنے' جیسے بغداد اور قرطبہ اور الازہر تھے۔ اگر معمولی سرمایہ کاری سے بحریہ ٹائون شروع ہو سکتا ہے۔ ڈیفنس بن سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں۔ اس سارے خواب کے تفصیلی خاکے کو مرتب کرنے کے لیے اب العلم ٹرسٹ کو وسعت دینے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں ان ہمہ وقت ماہرین کی ضرورت ہے جو ہمارے لیے ایک تفصیلی معاشی' سماجی اور تعلیمی اداروں کے قابل عمل خاکے مرتب کریں۔
دنیا کے ہر بڑے ادارے کے پیچھے ایک تھنک ٹینک ہوتا ہے۔ یہ اس شہر کا تھنک ٹینک ہو گا' ایک ایسا مثالی شہر جس کی نقل کرنے میں لوگ فخر محسوس کریں۔ اب مجھے اور میری ٹیم کو صاحبان ثروت کی اعانت کی ضرورت ہے۔ موجودہ تحریکی شکل سے پہلے العلم ٹرسٹ چونکہ گزشتہ بیس سال سے صرف رفاہی کام کر رہا تھا جس میں سیالکوٹ میں ایک کالج اور اسپتال شامل ہے اس لیے اس کا بنیادی اکاونٹ بھی وہیں پر ہے۔ جلد لاہور میں بھی اکاونٹ کھل جائے گا۔ اگر آپ اس خواب میں ہمارے ساتھ شریک ہونا چاہیے ہیں تو اس اکائونٹ میں تعاون کر سکتے ہیں۔ ''العلم ٹرسٹ' اکائونٹ نمبر3737-1' یونائیٹڈ بینک اگوکی سیالکوٹ: یاد رہے کہ زکوٰۃ اور صدقات ارسال نہ کیجیے۔ دیگر صورت میں تعاون کے لیے MIFE@ALILMTRUST.COM.PK پر رابطہ کرلیں۔
دنیا کی کوئی تبدیلی' انقلاب' ترقی اور بہتری ایسی نہیں جس کی بنیاد میں عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے دانشوروں' عالموں' رہنمائوں اور شاعروں کے خواب موجود نہ ہوں۔ گزشتہ چھ ماہ سے العلم ٹرسٹ کے ذریعے میں ایک خواب کے تانے بانے بُن رہا ہوں۔ یوں تو یہ خواب گزشتہ پانچ صدیوں سے مسلم امہ کا ہر ذی شعور اس لمحے سے دیکھ رہا ہے جب سے ہم پر زوال اور ادبار کے بادل چھائے ہیں۔ ان پانچ صدیوں میں نہ ہمارے خواب کم ہوئے اور نہ ہمارا جوش ٹھنڈا۔ مغرب کے جدید ترین تحقیقی اداروں نے جو سروے مسلمان ملکوں میں کیے' انھیں دیکھ کر یہ حیرت ہوئی کہ مغرب کی چکا چوند ترقی کے باوجود اور جمہوریت کے دلفریب اور پر کشش ماحول کی موجودگی میں اس امت کی اکثریت آج بھی خلافت راشدہ کے دور کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہے۔
ایسی امت کو پھر کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے۔ سالوں اس پر غور کیا تو ایک بات اس محدود عقل اور تجربے کے حامل ذہن میں آئی کہ ہم تبدیلی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن گزشتہ پانچ سو سالوں میں میرے جیسے دانشوروں اور بہت اہم قابل احترام عالموں' محققوں اور رہنمائوں نے اس نظام کے خاکے پر بہت کم کام کیا ہے۔ جو تھوڑا بہت کام بھی ہوا ہے وہ ملکوں ملکوں بکھرا ہوا ہے۔ ہم نے گزشتہ پانچ سو سالوں میں جو بھی لکھا وہ اول تو ہمارے سنہری دور کا ماتم تھا یا پھر اس دور کو ویسے ہی نافذ کرنے کی خواہش کا اظہار۔ اسلامی معیشت اور سود کے خلاف کام کرتے ہوئے ہم لوگوں نے سود کی حرمت میں بار بار وہ دلیلیں نئی کتابوں میں خوبصورت مجلد ایڈیشنوں میں تحریر تو کر دیں لیکن اس بات سے بہت کم لوگ آگاہ رہے کہ اس سنہری دور میں سود تو انفرادی عمل تھا اور آج سود ایک عفریت' ایک بلا اور آکٹوپس کی صورت دنیا کا سب سے منظم ادارہ بن چکا ہے جس میں کاغذ کے نوٹوں سے لے کر بینکنگ' عالمی قرضوں سے افراط زر کے گورکھ دھندے اور معیشت کو سانپ کی طرح کنٹرول کرنے کے ہتھکنڈے تک شامل ہو گئے۔
کچھ اصلاح کرنے نکلے تو انھوں نے اسی بینکنگ نظام کی غلیظ عمارت میں ایک چھوٹی سی جگہ کو صاف کر کے اسلامی بینکنگ کی مسجد بنانے کی کوشش کی اور یہ بھول گئے کہ اس مکروہ عمارت کی چھت سے سود کی غلاظت اس مسجد میں مسلسل ٹپک کر اسے ناپاک کر رہی ہے۔ اس کا حل تو ایک تھا کہ اس پورے نظام کے مقابل ایک اتنا ہی موثر نظام مرتب کیا جاتا۔ شراب خانے کے مقابلے میں مسجد بنائی جاتی لیکن یہاں تو اس کے اندر ایک کونہ مخصوص کر دیا گیا۔ یہی حال بحیثیت امت ہمارے اس ماتم کے ساتھ ہوا جو ہم نظام تعلیم کے بارے میں کرتے ہیں۔ ہم اپنی نسل کی تباہی ان کتابوں میں تلاش کرتے ہیں جو انھیں وہ ساری اخلاقیات سکھاتی ہیں جو مغرب کے معاشرے کا خاصہ ہیں اور پھر وہ ایک دن بڑا ہو کر یہ تصور پختہ کر لیتا ہے کہ اسلام بس اسی دور کی ایک کوشش تھی جو اپنا جلوہ دکھا کر چلی گئی۔
ایسا تو سب تہذیبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے دانشوروں اور عالموں نے ان بچوں کے لیے کوئی ایسا نصاب تعلیم' ایسی کتابیں' کہانیاں' کارٹون فلمیں اور جدید دور کے مسائل کو حل کرتی تعلیمات پر مبنی اسلامی فکر پر لکھی گئی تحریریں مرتب نہ کیں۔ جلوس نکالے' نعرے لگائے' لاٹھیاں کھائیں جانیں قربان کیں جو ذرا کام کو نکلے انھوں نے اسی مغربی تعلیم میں چند اسلامی مضامین شامل کر کے سمجھا مسئلہ حل ہو گیا۔ ہمارا دامن اس معاملے میں بھی خالی رہا۔ امور مملکت میں بھی ہمیں ایک مختلف بیورو کریسی' پولیس اور الف سے لے کر یے تک تمام قوانین ایسے بنانے چاہئیں تھے جو ایک صالح معاشرے کا منظر پیش کرتے۔ ہم نے چند قوانین بنائے اور انھی ججوں اور پولیس والوں کے حوالے کر دیے جن پر خود حد قائم ہوتی تھی۔
ہم نے عورت اور خاندانی نظام کی اسلامی اقدار پر بحثیں کیں لیکن پوری مسلم امہ میں ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جو عورت کو اس گھر جس کی وہ نگہبان ہے' اسے چلانے کے لیے مخصوص علم سے مالا مال کرے جس میں بچوں کی تربیت سے لے کر ان کے نفسیاتی' جذباتی اور اخلاقی مسائل کے حل' معاشیات' بوڑھوں کی نگہداشت' تزئین و آرائش اور صحت کے اصول پڑھائے جائیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں العلم ٹرسٹ نے دو کام کیے۔ ایک تو اس سارے کام کو اکٹھا کرنا شروع کیا جو اس معاملے میں آج تک ہوا۔ دوسرا ان اداروں کا ایک خاکہ مرتب کرنے کی کوشش جن سے تبدیلی کا آغازہو سکتا ہے۔ تیسرا کام جو ذرا عوامی سطح کا تھا وہ کاغذ کے نوٹوں کے مقابلے میں سونے اور چاندی کے درہم و دینار کی بابت پیشقدمی کی۔ عمر ابراہیم وڈیلوکی' رمضان کے بعد دوبارہ آمد پر ایک بہت بڑی کمپنی کا خاکہ ذہن میں ہے جو قائم کی جائے گی۔
اس دوران ایک بات شدت سے محسوس کی گئی کہ اگر ان سب تبدیلی کے خاکوں کو عملی شکل نہ دی گئی تو یہ پھر کتابوں کی زینت بن کر الماریوں میں دیمک کی نظر ہو جائیں گے۔ ہمارا یہ خواب کوئی نیا نہیں۔ دنیا میں ہر تبدیلی کے پیچھے ایسے ہی خواب تھے جن کو لوگوں نے آہستہ آہستہ پورا کیا۔ اس وقت دنیا میں آپ کو سو سے زیادہ ایسے شہر ملیں گے جو ان تبدیلی کے مراکز کے گرد ترتیب پائے گئے۔ آکسفورڈ 1096ء میں چند کمروں میں مشتمل عمارت میں قائم ہوئی' 1167ء میں ہنری دوئم نے بیرون ملک پڑھنے پر پابندی لگائی اور 1209ء میں یہ ایک عظیم یونیورسٹی بن چکی تھی جس کے گرد ایک شہر آباد تھا۔
ایسی ہی تاریخ کیمبرج کی ہے۔ دسویں صدی عیسوی میں جب یورپ مسلمانوں کے علم سے متاثر ہوا تو انھوں نے پیرس' نیپلز' نیبورن' بولگنا اور ٹولیڈو میں طالب علموں کو عربی پڑھانی شروع کی تاکہ وہ ہمارے علم تک رسائی حاصل کر سکیں اور پھر یہاں تک کہ ہر علاقائی زبان میں ان علوم کو ترجمہ کیا۔ اس طرح امریکا اور یورپ میں مسیا چوسٹ' جورجیا' ٹیکساس' کیلی فورنیا' نوسیروڈو' ییل' ورجینیا' سالمنیکا اور کئی یونیورسٹیوں کے گرد شہر آباد ہیں جنھیں یونیورسٹی ٹائون کہتے ہیں۔ اکیلے بوسٹن شہر میں دو لاکھ پچاس ہزار طالب علم موجود ہوتے ہیں۔ ان شہروں کی فضا ان علوم سے بہرہ مند ہوتی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہزاروں گھروں پر مشتمل پوش سوسائٹیاں وغیرہ کنکریٹ کی عمارتیں اور کول تارکی سڑکیں بنائیں لیکن وہ کسی ایسے مرکز کے گرد نہیں گھومتی تھیں جہاں سے علم کی روشنی پھوٹے۔ ہمارا ایک خواب ہے ایک ایسا شہر آباد کرنے کا جس کا آغاز اسی طرح دارلترجمہ سے ہو جیسے مسلمانوں نے بغداد میں اور یورپ نے اپنے متعدد شہروں سے کیا' جس میں ایک جامع تعلیمی نظام پر مرتب پرائمری سے لے کر یونیورسٹی اور تحقیقی اداروں تک سب تعلیمی ادارے موجود ہوں۔ جس کے ارد گرد لوگ اپنے ذوق اور شوق کے حوالے سے گھر بنائیں۔ جس کی کمیونٹی ایک ایسا بینکنگ سسٹم بنائے جو چھوٹا ہو لیکن سود سے پاک ہو۔
یہ بہت بڑا خواب ہے۔ اس العلم ٹرسٹ کا خواب جو آج بھی ایک کمرے کی عمارت میں قائم ہے اور جس نے آج تک کسی سے مالی اعانت کی اپیل نہیں کی لیکن دنیا کا کوئی یونیورسٹی ٹائون بھی ایسا نہیں جو چند کمروں کی عمارت سے نہ شروع ہوا ہو۔ یہ خواب ممکنات میں ہے۔ چند ہزار گھرانوں اور کئی سو اداروں پر مشتمل ایک شہر جو ہماری پہچان بنے' جیسے بغداد اور قرطبہ اور الازہر تھے۔ اگر معمولی سرمایہ کاری سے بحریہ ٹائون شروع ہو سکتا ہے۔ ڈیفنس بن سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں۔ اس سارے خواب کے تفصیلی خاکے کو مرتب کرنے کے لیے اب العلم ٹرسٹ کو وسعت دینے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں ان ہمہ وقت ماہرین کی ضرورت ہے جو ہمارے لیے ایک تفصیلی معاشی' سماجی اور تعلیمی اداروں کے قابل عمل خاکے مرتب کریں۔
دنیا کے ہر بڑے ادارے کے پیچھے ایک تھنک ٹینک ہوتا ہے۔ یہ اس شہر کا تھنک ٹینک ہو گا' ایک ایسا مثالی شہر جس کی نقل کرنے میں لوگ فخر محسوس کریں۔ اب مجھے اور میری ٹیم کو صاحبان ثروت کی اعانت کی ضرورت ہے۔ موجودہ تحریکی شکل سے پہلے العلم ٹرسٹ چونکہ گزشتہ بیس سال سے صرف رفاہی کام کر رہا تھا جس میں سیالکوٹ میں ایک کالج اور اسپتال شامل ہے اس لیے اس کا بنیادی اکاونٹ بھی وہیں پر ہے۔ جلد لاہور میں بھی اکاونٹ کھل جائے گا۔ اگر آپ اس خواب میں ہمارے ساتھ شریک ہونا چاہیے ہیں تو اس اکائونٹ میں تعاون کر سکتے ہیں۔ ''العلم ٹرسٹ' اکائونٹ نمبر3737-1' یونائیٹڈ بینک اگوکی سیالکوٹ: یاد رہے کہ زکوٰۃ اور صدقات ارسال نہ کیجیے۔ دیگر صورت میں تعاون کے لیے MIFE@ALILMTRUST.COM.PK پر رابطہ کرلیں۔