عام انتخابات اور لوڈ شیڈنگ

اب کچھ ذکر ہوجائے طویل لوڈشیڈنگ کا جس نے عوام کی زندگی پھر سے اجیرن کردی ہے۔


Zamrad Naqvi April 14, 2013

KARACHI: آج کل انتخابی امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل 62-63 موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ایک طبقہ اس پر شدید تنقید کررہا ہے تو دوسرا اس کی حمایت میں شامل ہے۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بعض علمائے کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہؐ کے سوا کوئی صادق امین نہیں۔ عام انسان اس معیار پر پورا نہیں اترسکتا۔ یہ اصطلاحات صرف اور صرف رسول کریمؐ کی ذات اقدس پر صادق آتی ہیں۔

ایک عالم دین جو اسلامی نظریاتی کونسل سے تعلق رکھتے ہیں نے کہا ہے کہ اللہ نے ہمیں ظاہر کا مکلف بنایا ہے اور تجسس اور ٹوہ لینے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص بری شہرت کا حامل ہو اسے انتخابی عمل سے خارج کر دینا چاہیے تاہم کوئی شخص امانت و دیانت کے اس پیمانے کو نہیں چھوسکتا جو رسول اکرمؐ نے قائم فرمایا تھا۔بہرحال یہ باتیں آئین کے آرٹیکلز باسٹھ اور ترسیٹھ کے حوالے سے ہورہی ہیں۔

ان آرٹیکلز کی آئین میں شمولیت جنرل ضیاء الحق کا کارنامہ ہے۔ جن کا مقصد یہ تھا کہ اس طریقے سے اپنے اقتدار کو طوالت اور اپنے حریفوں کو انتخابی پروسیس سے نکال باہر کیا جائے حالانکہ انھوں نے ایک منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ 90 دن کے وعدے پر اقتدار پر قبضہ کرنے والے نے گیارہ سال تک پاکستان اور اس کے عوام کو یرغمال بنایا۔ ان حقائق کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کی نئی نسل جن کی عمر تیس سال تک ہے ان کے بارے میں بالکل لاعلم ہے۔

حیرت تو پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں ایم کیوایم اور اے این پی پر ہے جنھوں نے بہت سی ترامیم کرکے 1973ء کے آئین کی بحالی کا دعویٰ کیا۔ ان کی نظروں سے یہ آرٹیکلز کیسے اوجھل رہے۔ بے شک انھوں نے ترامیم تو بہت سی کیں لیکن آمر کی اس خاص نشانی کو انھوں نے سینے سے لگائے رکھا۔ اس حوالے سے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ نادیدہ بادشاہ گر قوتوں نے ہی انھیں ان آرٹیکلز کو چھونے سے بھی باز رکھا ہوگا۔

اب کچھ ذکر ہوجائے طویل لوڈشیڈنگ کا جس نے عوام کی زندگی پھر سے اجیرن کردی ہے۔ اس حوالے سے پانی و بجلی کے وفاقی سیکریٹری نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ جادو سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگلے 3 سالوں تک بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کوئی کمی ممکن نہیں۔ 20 ارب سے چند دن کے لیے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کی پیداوار کے لیے غازی بروتھا کے بعد کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ نیوکلیئر پلانٹ مزید نہیں لگائے گئے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کوئلے پر چل رہے ہیں۔ ہم ابھی تک فرنس آئل اورڈیزل سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔ تھرکول کے پلانٹ تین سال بعد آئیں گے۔ پن بجلی بھی پانچ سال سے پہلے نہیں آسکتی۔ شوگر ملز سے بجلی کی پیداوار میں کوئی رکاوٹ نہیں یہ منصوبے بھی دو سالوں میں بھی مکمل نہیں ہوسکتے۔

نواز شریف صاحب نے کچھ دن پیشتر لاہور میںخطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اگلے پانچ سالوں میں بھی ممکن نہیں ۔ نواز شریف صاحب کو توقع ہے کہ آئندہ انتخابات ان کی پارٹی جیتے گی اور عوام کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ صنعتیں بند ہونے اور اپنی پوری استعداد سے نہ چلنے سے بے روزگاری غربت مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بہرحال نواز شریف صاحب نے یہ بیان دے کر سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی برسراقتدار آجاتی ہے تو لوڈشیڈنگ ختم نہ ہونے پر نواز شریف صاحب عوام کو یہ بتلاسکیں گے کہ میں نے تو انتخابات سے پہلے ہی قوم کو آگاہ کردیا تھا کہ لوڈشیڈنگ اگلے پانچ سالوں میںبھی ختم نہیں ہوگی۔

بے نظیر دور میں 93ء سے 96ء کے درمیان پاور پراجیکٹ شروع کیے گئے تاکہ مستقبل کی انرجی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ اس منصوبے پر اپوزیشن کی طرف سے بہت تنقید کی گئی۔ طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے۔ اگر بینظر دور میں یہ پراجیکٹ شروع نہ کیے جاتے تو بجلی کا بحران آج ہمیں پتھر کے دور میں لے جاتا۔ 1996ء کے بعد جو حکومت آئی اس نے غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کو جن پاور پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھیں، انھیں پاکستان میں اپنے منصوبوں پر کام کرنے سے روک دیا جو نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ بینظیر دور کے بعد آنے والی حکومتوں نے کیوں اس پر توجہ نہیں دی اور مستقبل کے لیے پاکستان کی توانائی کی ضرورتوں کو کیوں پیش نظر نہیں رکھا۔

ذرا غور فرمائیں ایک نہ دو پورے بارہ سال، اس سارے عرصے میں ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی گئی جب کہ آبادی میں اضافہ کے ساتھ طلب میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا گیا۔ یہ مجرمانہ غفلت تھی۔ لگتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا۔ کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس تمام صورت حال سے بے خبر تھی؟ اگر باخبر تھی تو اس نے کیوں نہیں مداخلت کی اور قوم کو کیوں نہیںاس سازش سے آگاہ کیا۔ ضروری ہے کہ اس تمام معاملے پر ایک طاقتور عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور قوم کو تمام حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے جس کی وجہ سے اب تک ملک کو ہزاروں ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مشرف دور میں لوڈشیڈنگ ایک حد میں تھی اور مشرف کے اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد لوڈشیڈنگ میں شدت آنا شروع ہوگئی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک سزا ہے جو پاکستانی قوم پچھلے پانچ سالوں سے بھگت رہی ہے۔ تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ پوری قوم ہی آزمائش میں مبتلا ہوجائے۔ دہشت گردوں کی دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ نے پاکستان کو مکمل تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر جب ہمارا خطہ ایک نئی شکل اختیار کررہا ہے۔ دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کے ذریعے پاکستان کو بے دست و پا کرنا سامراج اور اس کے مقامی ایجنٹوں کی گہری سازش ہے۔

ہر پاکستانی کو اس صورتحال پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہیے کہ کہاں 96ء میں بے نظیر بھٹو 24000 میگاواٹ بجلی کے منصوبے بنارہی تھیں جس کو ناکام بنا دیا گیا۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ عوام کے سامنے ان چہروں کو بے نقاب کیا جائے جنھوں نے پاکستانی عوام کو لوڈشیڈنگ کے ذریعے بیروز گاری غربت، مہنگائی اور بھوک کے جہنم میں غرق کردیا۔ 16 سال بعد پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہی ساڑھے چار ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہوا جو کہ ماضی کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے طلب سے کم ہے۔

٭...2016ء اور 2017ء میں لوڈشیڈنگ پر قابو پالیا جائے گا۔

سیل نمبر:0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں