ٹوٹی کہاں کمند
ایک جُملہ میں جواب یہ ہے کہ اس بار جماعت ِاسلامی اور ن لیگ میں انتخابی اتحاد غیر منطقی تھا
جماعت ِاسلامی اور ن لیگـ میں انتخابی مذاکرات منطقی انجام کو پہنچ چُکے ہیں، اور جماعت ِا سلامی نے اپنے 'گروپ لیڈروں' کو انتخابی میدان میں اُترنے کا سگنل د ے دیا ہے۔ یہ' گروپ لیڈر ' کی اصطلاح ، جماعت ِ اسلامی میں کچھ عرصہ پہلے اُن مقامی راہنماوں کے لیے وضع کی گئی تھی ، جنھیں جماعت ِ اسلامی کی طرف سے بطورِ اُمیدوار خاص طور پر تیار کیا جا رہا تھا۔ 'جماعت ِ اسلامی ،دوراہے پر ' کے زیرِعنوان انھی کالموں میں عرض کیا گیا تھا کہ انتخابی سیاست جماعت ِ اسلامی کو ن لیگ کی طرف دھکیلتی ہے ، تو اصولی سیاست اُس کو تحریک انصاف کی طرف کھینچتی ہے۔
یہ گزارش بھی کی گئی تھی کہ جماعت ِ اسلامی کے ن لیگ سے مذاکرات اپنی جگہ ، ، لیکن اس بار یہ انتخابی اتحاد غیرموثر ہوگا ، کیونکہ جماعت ِ اسلامی کا ووٹ بینک ن لیگ کے برخلاف تحریکِ انصاف سے قُربت محسوس کر رہا ہے ،اور اندازہ یہی ہے کہ اس بار یہ ووٹ بینک ن لیگ کی صندونچیوں سے برآمد نہیں ہوگا۔یہ بات جماعت ِ اسلامی اور ن لیگ دونوں جان چُکی تھیں ۔ جماعت ِاسلامی میں اندرونی طورپر ، سید منور حسن سمیت اکثریت کی راے یہی تھی کہ ن لیگ کو باردگر آزمانا مناسب نہیں ۔ پھر بھی یہ سعی ِ لا حاصل کی گئی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت ِا سلامی میں بعض' ارباب حل وعقد' کو یہ گوارا نہیں تھا ۔
یہ اطلاعات منظر ِعام پر آ چُکی ہیں کہ جماعت ِ اسلامی اور ن لیگ میں مذاکرات کا حالیہ دور، ن لیگ کی خواہش پر شروع ہوا تھا۔غالباً یہ اُس سراسیمگی کا نتیجہ تھا ، جو 23 مارچ کو لاہور میں تحریکِ انصاف کے دوسرے کامیاب جلسہ کے باعث ن لیگ پر طاری ہو چُکی تھی ۔ دوران ِ مذاکرات میں ،لاہور کے مرکز ِ نگاہ ہونے کااندازہ یوں ہوتاہے کہ مذاکراتی کمیٹی کے سب ارکان یہاں سے اُمیدوار ہیں ؛ حمزہ شہبازشریف ، خواجہ سعد رفیق ، سردار ایازصادق ، امیرالعظیم اور میاں مقصود احمد وغیرہ ۔
لیکن امر ِمتنازعہ یہ تھا کہ ن لیگ ، کیا لاہور میں جماعت ِاسلامی کو 2 قومی اور4 صوبائی سیٹیں دینے پر آمادہ ہوگی یا نہیں ۔ اگرچہ یہ سیٹیں ، اُن سیٹوں سے بھی کم ہیں ، جو جماعت ِاسلامی نے 2002 ء میں یہاں سے جیتی تھیں ۔ گویا ، جماعت ِ اسلامی کی پُوری کوشش تھی یہ مذاکرات بہرقیمت کامیاب ہوں ۔ لیکن، بیل پھر بھی منڈے نہیں چڑھی ۔سوال یہ ہے کیوں ؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں ۔
ایک جُملہ میں جواب یہ ہے کہ اس بار جماعت ِاسلامی اور ن لیگ میں انتخابی اتحاد غیر منطقی تھا ۔جماعت ِاسلامی 5سال تک اپنے ووٹ بینک کو ازبر کراتی رہی کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ برابر بُرائیاں ہیں۔ یہ اموختہ بھی دُہرایا جاتا رہا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ، دونوں برسرِ اقتدار ہیں،بلکہ پنجاب حکومت کے تناظر میںحکومت میں ن لیگ کا تناسب 60 فی صد ہے۔ من وعن یہی بات اگر کوئی دوسری پارٹی کر رہی تھی ، تویہ تحریک ِانصاف تھی ۔تحریک ِانصاف اور جماعت ِاسلامی میں قدرِمشترک یہ بھی تھی کہ دونوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلہ کے تحت2008 ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ آل پارٹیز کانفرنس کی طرف سے یہ اعلان میاں نوازشریف نے کیا تھا۔
طُرفہ تماشا یہ ہوا کہ اس اعلان پر جماعت ِاسلامی اور تحریک ِ انصاف تو بائیکاٹ کرتی رہ گئیں،لیکن خود ن لیگ، آصف علی زرداری کے ہمراہ الیکشن لڑنے چلی گئی ۔ یہ بائیکاٹ کا پچھتاوا تھا ، یا یہ احساس کہ اُن کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ، بہرحال جماعت ِاسلامی اور تحریک ِانصاف کے کارکنوں میں ایک گونا قُربت پیدا ہوگئی ۔دونوں پارٹیوں میں یہ تاثر عام تھا کہ اس بار جماعت ِاسلامی اور تحریک ِ انصاف مشترکہ طورپر میدان میں اُتریں گی،اور تبدیلی کے نعرے کی بنیاد پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے خلاف 'انقلاب' برپا کریں گی۔
اکتوبر2011 ء کے بعد، جماعت ِ اسلامی اور تحریک ِانصاف میں انتخابات کے تناظر میں باہمی رابطے شروع ہوگئے تو 'انقلاب' کی یہ تمنائیں مزید توانا ہوگئیں ۔اس دوران میں ، اگر سید منورحسن دوبار عمران خان کی طرف گئے ہیں، تو ایک بار عمران خان بھی منصورہ میں حاضری دے چُکے ہیں۔ لیاقت بلوچ اور جاوید ہاشمی میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں ۔ گویا یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ '' آملیں گے سینہ چاکان ِ چمن سے سینہ چاک '' کے مصداق جماعت ِاسلامی اور تحریک ِ انصاف میں آخر ِکار معاملات طے پاجائیں گے۔
لیکن اس مرحلہ پر جماعت ِاسلامی اور تحریک ِانصاف نے ایک بنیادی غلطی کی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح پیپلزپارٹی اور ق لیگ نے ایک بار جب اصولی طور پر یہ طے کر لیا کہ آیندہ الیکشن وہ مشترکہ طورپر لڑیں گی ،تو پھر اُنہوں نے مذاکرات میں کوئی مسئلہ رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ جماعت ِ اسلامی اور تحریک ِانصاف کو بھی پہلے قیادت کی سطح پر یہ طے کرنا چاہیے تھا کہ آیندہ الیکشن وہ مشترکہ طورپر لڑ رہی ہیں ، یا نہیں ۔ ایک بار جب اصولی طورپر یہ طے ہو جاتا ، تو پھر سیٹ تو سیٹ مذاکرات کا مرحلہ مُشکل نہیں تھا۔ آسان حل تو یہ تھا کہ جن سیٹوں پر اتفاق ِراے ہو جاتا ، اُن پر مشترکہ اُمیدوار نامزد ہوتا، اور جن سیٹوں پر اتفاق ِراے نہ ہوتا ، اُن کو اوپن کر دیا جاتا ۔ اگر پیپلزپارٹی اور ق لیگ ، چوہدری پرویزالٰہی اور مخدوم شہاب الدین کی سیٹیں اوپن رکھ سکتی ہیں ، تو جماعت ِاسلامی اور تحریک ِانصاف بھی لیاقت بلوچ اور فریدپراچہ کی سیٹیں اوپن رکھ سکتی تھیں۔
لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ جماعت ِاسلامی یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکی کہ اُس نے الیکشن لڑنا کس کے خلاف ہے۔ جماعت ِ اسلامی ایک طرف یہ کہتی تھی کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوںبرسر ِاقتدار ہیں اور ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ، لیکن دوسری طرف پیپلزپارٹی کے خلاف ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرنا چا ہ رہی تھی ۔ تحریک ِانصاف کو اس پر بجاطورپر اعتراض تھا ۔ عمران خان کا نقطہ ء نظر یہ تھا کہ' پنجاب میں ن لیگ 5 سال تک بلاشرکت ِغیرے حکومت کرتی رہی ہے ،اسلیے اگر پیپلزپارٹی سے اتحاد نہیں ہو سکتا تو ن لیگ سے بھی نہیں ہو سکتا۔' عمران خان کا یہ اعتراض منطقی تھا اور جماعت ِاسلامی کے پاس اُس کا جواب نہیں تھا، اور نہ ہوسکتا تھا۔
حقیقتاً یہ جماعت ِاسلامی کی گومگو حکمت ِعملی کا منطقی نتیجہ تھا کہ تحریک ِانصاف سے اُس کے انتخابی اتحاد کا معاملہ مئوخرہوتا رہا ، تاآنکہ رابطہ بالکل منقطع ہو گیا ۔اس مرحلہ پر ن لیگ کی طرف سے ازسر ِ نو رابطہ ہوا تو جماعت ِ اسلامی نے غالباً اس کو غنیمت سمجھا ۔ لیکن مشترکہ کمیٹی کی ابتدائی میٹنگوں میں ہی جماعت ِاسلامی کے ارکان پر واضح ہوگیا کہ تحریک ِ انصاف کی طرح ن لیگ بھی اونچی اُڑ رہی ہے ۔ پھر وہی ہوا، جس کی اِن سطور میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ن لیگ نے جماعت ِاسلامی کے اُن امیدواروں کو بھی مشترکہ اُمیدوار نامزد کرنے سے انکار کردیا ، جو 2002 ء میں اور اُس سے پہلے جیت چکے ہیں ۔
اطلاعات یہ ہیں کہ یہ آخری فیصلہ فیصلہ نوازشریف نے خود فرمایا ، اور رکن ِ مصالحتی کمیٹی خواجہ سعد رفیق نے اس کو باضابطہ طور پرجماعت ِاسلامی تک پہنچا دیا۔ اس میںکلام نہیں کہ انتخابات سے صرف چند ہفتے پہلے یہ جماعت ِاسلامی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے ۔ جماعت ِاسلامی یہ توقع نہیں کررہی تھی ۔ ن لیگ کے لیے جماعت ِاسلامی نے تحریک ِ انصاف کو ناراض کرلیا تھا،لیکن ن لیگ نے اس کا صلہ یہ دیا کہ جماعت ِاسلامی اِدھر کی رہی ، نہ اُدھر کی ۔ عام انتخابات سر پرہیں۔ انتخابات میں جماعت ِ اسلامی کے اُمیدوار اس تیر ِنیم کش کی طرح ہیں، جن کا بظاہر کوئی ہدف نہیں۔
صرف یہ ہے کہ ن لیگ ، جو پہلے ہی بڑے شہروں میں تحریک ِانصاف کے ہاتھوں پریشاںہے ،اب جماعت ِاسلامی بھی اُس کے لیے مسئلہ ہوگی ۔ لیکن خود جماعت ِاسلامی کو اس کا کیا فائدہ ہوگا، یہ معمہ نہیں ۔ اب سید منورحسن کہتے ہیں کہ 'حالیہ مذاکرات ن لیگ کی خواہش پر شروع کیے گئے، لیکن پھر ن لیگ خود ہی پیچھے ہٹ گئی۔ ہم کیاکریں ۔ن لیگ نے اب بھی وہی کیا ، جو اے پی ڈی ایم میں کیا تھا۔' سید صاحب کی خدمت میں بصدادب عرض ہے کہ قائدین کو اس طرح یہ اظہار ِتاسف کرنا روا نہیں ہوتا۔قائدین کا کام تدبیر کرنا اور راستہ نکالنا ہوتا ہے ، یہ فرمانا نہیں کہ ہم کیا کریں ، ہم لُٹ گئے ۔
اس امر میں شُبہ نہیں کہ اگر تحریک ِ انصاف اور جماعت ِانصاف کا اتحاد قائم ہوجاتا ، تو عام انتخابات میں پیپلزپارٹی ، ق لیگ اتحاد ، اور ن لیگ کے مقابلہ میں ، یہ نظریاتی اتحاد بڑا موثر ہو سکتا تھا۔ یہ اتحاد نہیں ہوا تو اس کا نقصان یقینی طورپر تحریک ِانصاف اور جماعت ِاسلامی دونوں کا ہو گا۔ جماعت ِ اسلامی کو نسبتاً بہت زیادہ کہ جماعت ِاسلامی کو اس اتحاد کی زیادہ ضرورت تھی ۔ حقیقتاً ، یہ الیکشن جماعت ِاسلامی کے لیے بڑی سخت آزمائش لے کر آ رہا ہے۔