ہمارے بیمار کا حال اچھا ہے

آج ہم نے اخبار میں اس تقریب کا احوال پڑھا اور ان کی تصویر دیکھی۔

rmvsyndlcate@gmail.com

دکھ بیماری آدمی کی جان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ان سے تو مفر نہیں ہے۔ لیکن اگر آدمی بیمار پڑ کرصحت یاب ہوجائے تو اس میں اپنا ایک لطف ہے۔ کم از کم شہنشاہ بہادر شاہ ظفر اور سلیم اختر کے صحت یاب ہو جانے کے واقعہ سے ہم نے یہی جانا ہے۔ یار کہیں گے کہ سلیم اختر کی صحت یابی بجا مگر بیچ میں بہادر شاہ ظفر کہاں سے آ گئے۔ ہم ویسے تو اس کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے۔

یاد کی کوئی منطق تو نہیں ہوتی۔ خوشی اور غم دونوں ایسی تقریبیں ہیں کہ اس مبارک موقعہ پر کچھ بھی یاد آ سکتا ہے۔ ہاں لیجیے وجہ کچھ کچھ یاد آئی۔ کہیں ہم نے پڑھا تھا کہ بہادر شاہ ظفر ایک مرتبہ بیماری کاٹ کر صحت یاب ہوئے تو جس دن انھوں نے غسل صحت کیا اس دن دلی میں بسنت منائی جا رہی تھی۔ اس دن کی نسبت سے ایک خلقت کو تو یوں بھی بسنتی بانا پہننا تھا مگر کتنے دلی والے تھے کہ یوں بسنت پر بسنتی بننے کا انھیں شوق نہیں تھا مگر انھوں نے یہ سوچ کر بسنتی پوشاک زیب تن کر لی کہ ایک پنتھ دو کاج۔ چلو ایک بسنتی پوشاک پہن کر دونوں خوشیوں میں شریک ہو جائیں گے۔ سو اس روز ساری دلی بسنتی رنگ میں رنگی گئی۔

اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ جب سلیم اختر نے غسل صحت کیا تو وہ بھی بسنت رت ہی کی گھڑیاں تھیں اور پھر اس خوشی میں الحمرا آرٹ کونسل نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب بھی منعقد کر ڈالی۔ بجا کیا۔ دلی والوں نے اگر بہادر شاہ ظفر کی صحت یابی کی خوشی میں بسنتی پوشاک پہنی تو انھوں نے بھی بجا کیا۔ بہادر شاہ ظفر کے حصے میں مغل بادشاہی میں سے کتنی بادشاہی آئی تھی۔ مگر جتنی بھی بچ کھچ کر ان کے حصے میں آئی ہو وہ بادشاہی تو تھی اور پھر وہ اپنی رعایا میں مقبول بھی بہت تھے۔ ادھر سلیم اختر کے حصے میں اردو تنقید کی جتنی بھی بادشاہی آئی ہے وہ بہت ہے۔ اس زور پر وہ مقبول بھی بہت ہیں اور ان کی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، ہمارے زمانے کی بیسٹ سیلر ہے۔ کبھی آپ نے کسی نقاد کو بیسٹ سیلر ہوتے سنا ہے۔

آج ہم نے اخبار میں اس تقریب کا احوال پڑھا اور ان کی تصویر دیکھی۔ خدا نظر بد سے بچائے کتنے ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ رپورٹر نے شرکائے محفل کے نام گناتے گناتے ہمارا نام بھی گنایا۔ اس پر ہم خوش بھی ہوئے اور تلمائے بھی بہت۔ ارے ہم تو اس تقریب میں اس وقت پہنچے جب ساری تقریب گزر چکی تھی۔ بس دُم باقی رہ گئی تھی۔ یعنی داد دینے والے داد کے ڈونگرے برسا کر اور بقدر لب و دنداں منہ میٹھا کر کے نو دو گیارہ ہو گئے تھے۔ مگر برات کا دولہا ابھی تک موجود تھا اور کچھ بچے کھچے ساتھی براتی۔ مقدور بھر داد کے پھول ہم نے بھی دولہا پر نچھاور کیے۔

ہم کیوں دیر سے پہنچے، یہ مت پوچھیے

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

عطاء الحق قاسمی نے تقریب کا وقت ہمیں کچھ یہ قیاس کر کے بتایا تھا کہ اس خوشی میں اسے اتنا ہی شریک ہونا چاہیے جتنی کا وہ متحمل ہو سکتا ہے۔ بجا کیا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر پورا جشن دیکھ لیتے۔


اس تقریب کی صدارت ظفر اقبال نے کی تھی۔ اس سے تقریب کی رونق دوبالا ہو گئی، حق یہ ہے کہ اس تقریب کی صدارت انھیں ہی زیب دیتی تھی۔ صدر محفل اور جان محفل دونوں ہی اپنے اپنے فن میں یکتا ہیں۔ وہ غزل کے فن میں اور یہ تنقید کے فن میں اور دونوں کا رہوار قلم ہوا سے باتیں کرتا ہے۔ ادھر ظفر اقبال نے مضامین نو کا انبار لگا رکھا ہے۔ ہنوز جاری ہیں۔ غزل پہ غزل لکھے جا رہے ہیں اور رجز بھی پڑھتے جا رہے ہیں۔ مگر کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہا۔ کسی میں لکھنے کا اتنا بوتا ہو تو مقابل میں آئے۔ ادھر سلیم اختر بھی کم نہیں ہیں۔ مہا بھارت میں ایک ایسی ماں کا ذکر آتا ہے جس نے سو بیٹے جنے تھے۔ سلیم اختر بھی اب تک نوے کتابیں باندھ چکے ہیں۔

دس اور لکھ لیں تو مہا بھارت کے کورو برادراں کی ماں سے ٹکر لیں گے۔ ویسے تو جمیل جالبی بھی اس شان سے اردو ادب کی تاریخ لکھ رہے ہیں کہ کتنی جلدیں لکھ ڈالی ہیں۔ مگر ادھر زبان کی داستان دراز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ اردو زبان کی تاریخ لکھ رہے ہو یا داستان صاحب قرآن لکھ رہے ہو۔ لیکن لکھنے میں اتنا غرق ہیں کہ سر اٹھانے کی مہلت نہیں۔ ویسے بھی کام کرنے والے خود نہیں بولتے۔ ان کا کام بولتا ہے۔ بہرحال جالبی کا کام اپنی جگہ۔ مگر نوے کے ہندسے سے وہ بہت دور ہیں۔ ادھر سلیم اختر سو کے ہندسے کے آس پاس پہنچ چکے ہیں۔ اگر ننانو ے کے پھیر سے بچ نکلے تو سینچری بنائیں گے۔ اردو تنقید کی فیلڈ میں یہ پہلی سینچری ہو گی۔ بس اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ اردو میں قلم کا کیسا کیسا دھنی پڑا ہے۔ پھر بھی اغیار کہتے ہیں کہ اردو ادب جمود کا شکار ہے۔ کچھ لکھا ہی نہیں جا رہا۔

سلیم اختر کی جیت یہ ہے کہ وہ تنقیدی اصطلاحوں کے پتھر نہیں ڈھوتے اور باریک نہیں پیستے، لمبا نہیں کھینچتے۔ سمیٹنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، اردو ادب کی تاریخ اس طرح لکھی ہے کہ کوزے میں دریا کو بند کر دیا ہے۔ پڑھنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم نے گھڑیوں میں اردو ادب کی پوری تاریخ کو گھول کے پی لیا ہے۔ آپ نے شاید ہی تنقید کی کسی ایسی کتاب کا نام سنا ہو جو بیسٹ سیلر بن گئی ہو۔ انھوں نے تنقید کو سچ مچ پانی کر دیا ہے اور ادب کی یہ تاریخ بیسٹ سیلروں سے بڑھ کر بیسٹ سیلر بن گئی۔

انور سدید نے جواب آں غزل کے طور پر اپنے رنگ سے اردو ادب کی مختصر تاریخ لکھی۔ مگر اس ہلکی پھلکی کتاب سے وزن میں زیادہ اور مقبولیت میں کم نکلی۔ خیر انور سدید نے ہمت نہیں ہاری۔ پھر سالانہ ادبی جائزے میں ان کا مقابلہ ہوتا رہا۔ سال کی ادبی تحریروں کا ایک جائزہ اردو کے ایک مقبول اخبار میں سلیم اختر کا، دوسرے اخبار میں انور سدید کا۔ جو لکھنے والا سلیم اختر کے جائزے میں جگہ نہ پا سکا وہ انور سدید کے جائزے میں مقام حاصل کر کے سرخرو ہوا۔

انور سدید ڈاکٹر وزیر آغا کے ادبی خاندان کے نامور فرزند، ڈاکٹر سلیم اختر احمد ندیم قاسمی کے ادبی خاندان کے چشم و چراغ مگر ادھر ڈاکٹر وزیر آغا کے انتقال کے بعد اور ادھر قاسمی صاحب کی وفات کے بعد دونوں ادبی گروپ تتر بتر ہو گئے۔ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر بھی ٹھنڈے پڑ گئے۔ ان کے سالانہ ادبی جائزے بھی قصۂ ماضی بن گئے۔ مگر چراغ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹمٹما رہے ہیں۔

سلیم اختر کا آخری قابل ذکر کارنامہ ان کی آپ بیتی ہے۔ اس سے عجب انکشاف ہوا کہ سلیم اختر نے تو دوسرا دلیپ کمار بننے کا خواب دیکھا تھا۔ مگر قسمت نے انھیں ادب کی طرف دھکیل دیا۔ بننا پڑا نقاد۔ اپنے زمانہ جوانی کی کیسی کیسی داستان سنائی ہے۔ لیکن ان کے ملتان کے ساتھی اصغر ندیم سید اور مسعود اشعر دونوں کو ان کا گواہ بننے میں تامل ہے۔ ویسے اس سے ہٹ کر یہاں اس تقریب میں ان کی پچھلی محبت عود کر آئی اور جی بھر کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔

آخر میں معاملہ کی بات۔ آرٹ کونسل کی طرف سے سلیم اختر کو صحت یابی کی خوشی میں ایک لاکھ روپے کی تھیلی پیش کی گئی۔
Load Next Story