چاند کے پار چلو
اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چار مہینوں میں انڈیا سفر کرنے والوں کی تعداد پچیس فیصد گر گئی ہے
PESHAWAR:
کئی ایسے پاکستانی جو امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسی جگہوں پر رہتے ہیں اور ہر سال دو سال میں اپنے رشتے داروں سے ملنے پاکستان ضرور جایا کرتے تھے، آج پاکستان سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ رجحان مستقل بڑھ رہا ہے، کیونکہ پاکستانیوں کو لگتا ہے کہ پاکستان اب سفر کرنے کے لیے خطرناک ہے اور جو کچھ پچھلے برسوں میں ہوا ہے اس کے بعد ایسا سوچنا کچھ غلط بھی نہیں۔
ساحل سعید نامی بچہ 2010ء میں جب اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان چھٹیوں پر آیا ہوا تھا اور واپسی کے لیے ایئرپورٹ جانے کی تیاری کر رہا تھا تو اس کو اغوا کر لیا گیا اور تاوان کے طور پر ایک لاکھ پائونڈ مانگے گئے، باہر سے آنے والوں کے لیے پاکستان میں اکثر یہ سوچ رکھی جاتی ہے کہ وہ شخص انگلینڈ، امریکا میں یقیناً کروڑ پتی ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی بیرون ملک بہت محنت کر کے اپنا گزر کرتے ہیں اور لاکھ پائونڈ جیسی بڑی رقم کسی کے پاس کیش نہیں ہوتی لیکن اغوا کرنے والے یہ بات نہیں سمجھتے۔
اﷲ اﷲ کر کے ساحل صحیح سلامت اپنے گھر والوں کے پاس آ گیا لیکن انٹرنیشنل میڈیا اس بات کو ہفتوں اچھالتا رہا، جن خبروں سے ملک کے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے دل میں اپنے ہی ملک کے لیے ڈر بڑھ گیا، اس کے علاوہ کئی اور سانحے جیسے انگلینڈ سے پاکستان آنے والے ملک محمد اقبال کو 2011ء میں تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا اور پندرہ ہزار پائونڈ کی ادائیگی کے بعد انھیں رہا کیا گیا تھا، ملک محمد اقبال نے رہا ہونے کے بعد اغوا کنندگان کی پہچان کر لی تھی اور واپس انگلینڈ چلے گئے تھے، لیکن جب وہ اگلے سال یعنی 2012ء میں اس معاملے کی کورٹ کیس میں سنوائی کے لیے آئے تو انھیں راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا، ایک دو نہیں درجنوں ایسے واقعات ہر سال سامنے آتے ہیں جس کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دل میں پاکستان سفر کرنے سے ڈر بڑھ جاتا ہے۔
فون چھیننے سے کار چھیننے کے واقعات تک اور اغوا سے قتل تک ہر خبر امریکا، انگلینڈ میں رہنے والوں کو پاکستان سے اور دور کردیتی ہے اور احساس دلاتی ہے کہ سفر کرنے کے لیے پاکستان سب سے خطرناک جگہ ہے، ہمیں اپنی خود کی چیزوں پر تنقید کرنے کا زیادہ شوق ہے، ہمارے سسٹم، سیاستدان، کرکٹ کی ٹیم سب دوسروں سے کسی نہ کسی طرح کمتر یا خراب ہیں، اس طرح ہمارے حالات بھی جس کی وجہ سے کوئی پاکستان نہیں آنا چاہتا... یہ سچ ہے کہ خاصے لوگوں نے پاکستان آنا کم کر دیا ہے لیکن انھیں یہ جان کر شاید حیرت ہو گی کہ پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں نہیں آتا جہاں سفر کرنے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
''دی اٹلانٹک'' نامی ایک امریکن میگزین نے یہ بتایا ہے کہ سفر کرنے کے لیے پاکستان دنیا کی سب سے خطرناک جگہ نہیں ہے اور نہ ہی وہاں جانے والے لوگوں کی تعداد میں کمی ہوئی... اگر دوسرے ملکوں سے مقابلہ کیا جائے ''دی اٹلانٹک'' کے مطابق اس وقت سب سے برے حالات انڈیا اور برازیل کے ہیں، جہاں لوگ سفر کرنے سے ڈرتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چار مہینوں میں انڈیا سفر کرنے والوں کی تعداد پچیس فیصد گر گئی ہے، اس کی ایک اہم وجہ پچھلے دنوں دہلی میں بس میں ایک ریپ کا حادثہ بتایا جاتا ہے، پچھلے چند مہینوں میں انڈیا سفر کرنے والی 35 فیصد خواتین میں کمی آئی ہے، ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ڈیٹا 16 مارچ 2013ء کو ایک سوئس خاتون کے اغوا اور ریپ کے سانحے سے پہلے کا ہے...! سوئس خاتون اپنے شوہر کے ساتھ دنیا بھر کا چکر سائیکل پر لگا رہی تھی جب انھیں مدھیہ پردیش میں آٹھ آدمیوں نے اغوا کر لیا اور تشدد کا نشانہ بنایا... اس سانحے کے بعد انڈیا کے ٹورزم کو اور دھکا لگے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صرف مدھیہ پردیش میں ہی دن میں نو ریپ ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر رپورٹ نہیں ہوتے اور نہ پولیس انھیں صحیح طور پر ہینڈل کرتی ہے۔ برازیل کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں ہیں۔ 2009ء سے لے کر اب تک برازیل میں غیر ملکیوں کے ریپ میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دی اٹلانٹک ہی نہیں بلکہ کینیڈین ڈپارٹمنٹ آف فارن افیئرز کا بھی یہی خیال ہے، ان کے حساب سے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سفر کے لیے انڈیا اور برازیل سب سے خطرناک ممالک ہیں، پاکستان نہیں۔
انڈیا اور برازیل ہی کیوں؟ پاکستان سے پہلے ایک لمبی فہرست ہے ان ملکوں کی جہاں سفر کرنا خطرناک سمجھا جاتا ہے جیسے نارتھ کوریا، سیریا (شام)، افغانستان، عراق، ایران، نائیجیریا، سوڈان، سینٹرل افریقہ، صومالیہ وغیرہ جہاں رپورٹس کے مطابق ہر طرح کے سفر سے اجتناب برتنا چاہیے۔ لیبیا اور کچھ دوسرے ملکوں کے لیے رپورٹ کہتی ہے کہ صرف اس وقت سفر کریں جب بہت ضروری ہو لیکن پاکستان کے بیشتر شہر اس لسٹ کے حساب سے بڑی حد تک محفوظ ہیں... ہاں ایسی جگہیں ہیں جیسے کشمیر ریجن یا پھر خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے سوات، پشاور اور خیبر پاس اور قبائلی علاقے جہاں کے سفر کو خاص طور پر سے غیر ملکیوں کے لیے خطرناک مانا جاتا ہے... اگر رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان خطرناک ملکوں کی فہرست میں بہت نیچے ہے۔
رپورٹس میں کئی ایسے ملک بھی ہیں جہاں سفر کرنا محفوظ ہے لیکن پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں رات کو اکیلے نہیں گھومنا چاہیے، جیسے میکسیکو کے بیشتر علاقے... لسٹ کے مطابق امریکا، یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ملائیشیا ان علاقوں میں ہیں جو بالکل محفوظ ہیں لیکن دوسرے ملکوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے پا کستان بھی محفوظ ملکوں کی فہرست میں بہت دور نہیں۔ ہم پاکستانیوں کو چاہیے کہ خود کو برا بھلا کہنے سے پہلے دوسروں پر بھی نظر ڈالیں، اپنے گریبان میں منہ ڈالیں، ہم اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں ... ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ ہم کتنے برے ہیں؟
بچپن میں ایک گانا سنا تھا ''چلو دلدار چلو، چاند کے پار چلو'' ... سن کر لگا شاعر بڑے مشکل سفر پر جانے کو کہہ رہا ہے ... بیرون ملک رہنے والے پاکستانی آج پاکستان سفر کرنے کو کچھ ایسا ہی مشکل سمجھتے ہیں لیکن حالات سے زیادہ ہماری سوچ غلط ہے۔ سانحے ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی بدنامی زیادہ، پچھلے کچھ مہینوں میں ہی دیکھ لیں تو پاکستان سفر کرنا کئی ملکوں سے زیادہ محفوظ ہے اور جہاں تک آپ کے ساتھ کچھ ہونے کا سوال ہے تو قسمت کے آگے کیا امریکا کیا پاکستان کچھ نہیں چلتا، اس لیے پاکستان ضرور سفر کریں اور ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ یہ سفر ''چاند کے پار'' والے سفر سے بہت زیادہ آسان ہو گا۔