دیہی سندھ کے 670 ارب روپے کی شفافیت
اسکولوں کی حالت انتہائی ابتر ہے، اکثر جگہوں پر فرنیچر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ٹاٹ تک میسر نہیں ہے.
حقیقت حال کا صحیح صحیح انکشاف کرنا بھی ایک کارنامہ ہے۔ فاروق ستار صاحب متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ہیں اور گزشتہ 5 سال سے سابقہ حکومت کے اہم وزیر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی پارٹی سابقہ حکمرانوں کی اتحادی تھی اس لیے وہ گھر کے بھیدی کے مصداق معاملے کی سچائی کو گہرائی سے جانتے ہیں۔ نیز ان کی بیدار مغز پارٹی کی پاکستان بھر میں بالعموم اور صوبہ سندھ میں بالخصوص ہر جگہ شاخیں موجود ہیں، جہاں سے ان کو حقائق کا ڈیٹا پہنچتا رہتا ہے۔
اس لیے انھوں نے دیہی سندھ کے مخصوص فنڈ کے ناقص اور غیر شفاف استعمال کا جو ذکر کیا ہے اس پر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر وہ کرپشن میں ملوث ہوتے تو کبھی ایسے انکشافات کا ذکر لبوں پر لانے کی جرأت بھی نہ کرتے۔ خوشی کا مقام ہے کہ وہ لوٹ مار اور کرپشن کے ماحول سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنے میں کامیاب ٹھہرے، اس طرح نہ صرف اپنی بلکہ اپنی سیاسی پارٹی کی عزت کی لاج بھی رکھ لی اور اپنی شہرت کو داغدار ہونے سے بھی بچا لیا۔
موصوف فرماتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں صوبہ سندھ کی تعمیر و ترقی کے ذریعے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کل 700 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جو سب خرچ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 30 ارب روپے یعنی 4.25% کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر اور میر پور خاص جیسے شہروں کے لیے اور باقی 670 ارب روپے یعنی 95.75% صوبہ سندھ کے دیہاتی علاقوں کے لیے منظور ہوئے تھے۔ یہ رقم قومی خزانے میں کہیں آسانی سے جمع نہ ہوئی تھی بلکہ یہ غیر ملکی قرضوں، مقامی قرضوں اور متوسط طبقے سے ٹیکسوں کے ذریعے بڑی مشکل سے حاصل کی گئی تھی۔
شہروں کے لیے مختص فنڈز سے تو کشادہ شاہراہیں، پل، فلائی اوور اور انڈر پاسز، پیڈسٹرین برج، باغیچے، پینے کے پانی کی لائنیں بچھانے، سیوریج کی نکاسی کے لیے پرانے نالوں کی صفائی اور نئے نالوں کی تعمیر کی گئی۔ نیز سرکاری ڈسپنسریوں، اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے میں اور نئے اسپتالوں کی تعمیر، اسکولوں اور کالجوں میں تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے خرچ ہوئی۔ یہ سب منصوبے جو مکمل ہوئے ہر انسان کو نہ صرف دن کی روشنی میں بلکہ رات کے اندھیرے میں بھی نظر آتے ہیں۔ ان ترقیاتی کاموں سے شہری عوام کو جو سہولتیں حاصل ہوئی ہیں ان سے وہ اپنی زندگیوں میں راحت اور آسانیاں محسوس کر رہے ہیں۔
اس لیے 30 ارب روپے کی رقم کے استعمال پر مطمئن ہیں وہ مزید فرماتے ہیں کہ 670 ارب روپے جو سندھ کے دیہی علاقوں پر خرچ ہوئے وہ زمین پر نظر نہیں آتے وہ کہاں گئے، کہاں استعمال ہوئے، اس کا حساب دیا جائے۔ گزشتہ 5 سالہ دور میں سندھ کے چیف منسٹر اور ان کے ساتھ دیہاتی علاقوں کے وزرا اور ممبران اسمبلی بھی تھے جن کی سفارشات پر ترقیاتی منصوبے بنائے گئے اور ان سب کی نگرانی میں یہ 670 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ اگر یہ اسکیمیں زمین پر وجود نہیں رکھتیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اتنی بڑی خطیر رقم کاغذی منصوبوں پر ہوا میں اڑا دی گئی ہے۔ یا ان منصوبوں کی تھوڑی تھوڑی نشانیاں رکھ دی گئی ہیں، باقی رقم کرپشن یا خورد برد کی نذر ہو گئی ہے۔
دیہی سندھ کی صورت حال کی صحیح عکاسی معروف صحافی نازک جتوئی نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں شایع کی ہے: '' پیروں، فقیروں اور اولیائے اﷲ کی سرزمین سندھ کی حالت زار اگر کسی نے بچشم خود ملاحظہ کرنی ہو تو اندرون سندھ کسی جانب بھی نکل جائے۔ روتا ہوا بلکتا ہوا ہی واپس آئے گا۔ اگر 670 ارب روپے کا ایک چوتھائی بھی ایمانداری سے خرچ ہوتا تو اﷲ گواہ ہے کہ سندھ کی حالت بدل جاتی۔''
اسکولوں کی حالت انتہائی ابتر ہے، اکثر جگہوں پر فرنیچر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ٹاٹ تک میسر نہیں ہے، بچوں کے لیے پینے کا پانی تک نہیں ملتا، اسکولوں سے اساتذہ غائب رہتے ہیں، اس طرح دیہی علاقوں یا قصبوں میں تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس سے بارش کے دنوں میں ٹرانسپورٹ کی آمد و رفت شدید متاثر ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی نہروں کے پل گر جاتے ہیں تو کئی سال تک بنتے نہیں۔
کھالوں کی بھل صفائی نہ ہونے اور کچے کھالوں کی وجہ سے تقریباً ایک تہائی پانی ضایع ہو جاتا ہے اور ٹیل تک پہنچتے پہنچتے نہر خشک ہو جاتی ہے اور آخری سرے کے آبادگاروں اور زمینداروں کی فصلیں سوکھ جاتی ہیں، وہ بیچارے احتجاج، ہڑتالیں کرتے ہیں اور دھرنے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ خواتین کئی میل دور سے پانی لاتی ہیں، تھر کے علاقوں میں انسان اور جانور اکھٹے جوہڑوں اور تالابوں سے گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور پھر طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، دوائیں دستیاب نہیں ہوتیں اور ایکسرے مشینیں اکثر خراب پڑی ہیں۔ امن و امان کی صورتحال بھی نازک ہے، ہر جگہ ڈاکو راج ہے۔
پولیس بڑے زمینداروں اور وڈیروں کے اشاروں پر عمل کر کے ڈاکوئوں کی سر پرستی کرتی ہے۔ غریب آدمی کی عزت اور جان محفوظ نہیں ہے۔ کاروباری ہندوئوں کے گھر اور دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں ۔ 670 ارب روپے جیسے خطیر اور میگا فنڈ کے صحیح استعمال سے تو دیہی سندھ میں تعمیر و ترقی کا انقلاب برپا ہو جاتا لیکن اس کا عشر عشیر بھی کہیں نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے بڑا تشویش ناک مسئلہ ہے، اسے پوری اہمیت ملنا چاہیے۔ صوبہ سندھ کے سابق چیف منسٹر، ان کے دیہی علاقوں کے وزرا اور ممبران اسمبلی آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کریں۔ جن ترقیاتی کاموں یا منصوبوں پر اتنی بڑی رقم خرچ ہو گئی ہے اس کا قوم کا حساب دیں۔
انھیں چاہیے کہ صوبے کی نگراں حکومت سے درخواست کریں کہ پنجاب کے سابقہ چیف منسٹر شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے ان منصوبوں کی شفافیت چیک کرائیں، اگر وہ یہ بھی نہیں چاہتے تو کم از کم سرمایہ ملت جناب رانا بھگوان داس کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کریں جس کے ممبران ایسے منصف مزاج اور غیر جانبدار ہوں مثلاً پیپلز پارٹی سے حبیب الدین جنیدی، تاج حیدر، مسلم لیگ سے غوث علی شاہ، خواجہ سعد رفیق، تحریک انصاف سے مخدوم جاوید ہاشی، جماعت اسلامی سے نعمت اﷲ خان، متحدہ قومی موومنٹ سے فاروق ستار اور صحافی نازک جتوئی وغیرہ، اس کمیشن کو جلد سے جلد اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا جائے تا کہ ان الزامات کی تصدیق یا تردید ہو سکے۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ثابت ہو جائے گا۔
اس لیے انھوں نے دیہی سندھ کے مخصوص فنڈ کے ناقص اور غیر شفاف استعمال کا جو ذکر کیا ہے اس پر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر وہ کرپشن میں ملوث ہوتے تو کبھی ایسے انکشافات کا ذکر لبوں پر لانے کی جرأت بھی نہ کرتے۔ خوشی کا مقام ہے کہ وہ لوٹ مار اور کرپشن کے ماحول سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنے میں کامیاب ٹھہرے، اس طرح نہ صرف اپنی بلکہ اپنی سیاسی پارٹی کی عزت کی لاج بھی رکھ لی اور اپنی شہرت کو داغدار ہونے سے بھی بچا لیا۔
موصوف فرماتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں صوبہ سندھ کی تعمیر و ترقی کے ذریعے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کل 700 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جو سب خرچ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 30 ارب روپے یعنی 4.25% کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر اور میر پور خاص جیسے شہروں کے لیے اور باقی 670 ارب روپے یعنی 95.75% صوبہ سندھ کے دیہاتی علاقوں کے لیے منظور ہوئے تھے۔ یہ رقم قومی خزانے میں کہیں آسانی سے جمع نہ ہوئی تھی بلکہ یہ غیر ملکی قرضوں، مقامی قرضوں اور متوسط طبقے سے ٹیکسوں کے ذریعے بڑی مشکل سے حاصل کی گئی تھی۔
شہروں کے لیے مختص فنڈز سے تو کشادہ شاہراہیں، پل، فلائی اوور اور انڈر پاسز، پیڈسٹرین برج، باغیچے، پینے کے پانی کی لائنیں بچھانے، سیوریج کی نکاسی کے لیے پرانے نالوں کی صفائی اور نئے نالوں کی تعمیر کی گئی۔ نیز سرکاری ڈسپنسریوں، اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے میں اور نئے اسپتالوں کی تعمیر، اسکولوں اور کالجوں میں تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے خرچ ہوئی۔ یہ سب منصوبے جو مکمل ہوئے ہر انسان کو نہ صرف دن کی روشنی میں بلکہ رات کے اندھیرے میں بھی نظر آتے ہیں۔ ان ترقیاتی کاموں سے شہری عوام کو جو سہولتیں حاصل ہوئی ہیں ان سے وہ اپنی زندگیوں میں راحت اور آسانیاں محسوس کر رہے ہیں۔
اس لیے 30 ارب روپے کی رقم کے استعمال پر مطمئن ہیں وہ مزید فرماتے ہیں کہ 670 ارب روپے جو سندھ کے دیہی علاقوں پر خرچ ہوئے وہ زمین پر نظر نہیں آتے وہ کہاں گئے، کہاں استعمال ہوئے، اس کا حساب دیا جائے۔ گزشتہ 5 سالہ دور میں سندھ کے چیف منسٹر اور ان کے ساتھ دیہاتی علاقوں کے وزرا اور ممبران اسمبلی بھی تھے جن کی سفارشات پر ترقیاتی منصوبے بنائے گئے اور ان سب کی نگرانی میں یہ 670 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ اگر یہ اسکیمیں زمین پر وجود نہیں رکھتیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اتنی بڑی خطیر رقم کاغذی منصوبوں پر ہوا میں اڑا دی گئی ہے۔ یا ان منصوبوں کی تھوڑی تھوڑی نشانیاں رکھ دی گئی ہیں، باقی رقم کرپشن یا خورد برد کی نذر ہو گئی ہے۔
دیہی سندھ کی صورت حال کی صحیح عکاسی معروف صحافی نازک جتوئی نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں شایع کی ہے: '' پیروں، فقیروں اور اولیائے اﷲ کی سرزمین سندھ کی حالت زار اگر کسی نے بچشم خود ملاحظہ کرنی ہو تو اندرون سندھ کسی جانب بھی نکل جائے۔ روتا ہوا بلکتا ہوا ہی واپس آئے گا۔ اگر 670 ارب روپے کا ایک چوتھائی بھی ایمانداری سے خرچ ہوتا تو اﷲ گواہ ہے کہ سندھ کی حالت بدل جاتی۔''
اسکولوں کی حالت انتہائی ابتر ہے، اکثر جگہوں پر فرنیچر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ٹاٹ تک میسر نہیں ہے، بچوں کے لیے پینے کا پانی تک نہیں ملتا، اسکولوں سے اساتذہ غائب رہتے ہیں، اس طرح دیہی علاقوں یا قصبوں میں تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس سے بارش کے دنوں میں ٹرانسپورٹ کی آمد و رفت شدید متاثر ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی نہروں کے پل گر جاتے ہیں تو کئی سال تک بنتے نہیں۔
کھالوں کی بھل صفائی نہ ہونے اور کچے کھالوں کی وجہ سے تقریباً ایک تہائی پانی ضایع ہو جاتا ہے اور ٹیل تک پہنچتے پہنچتے نہر خشک ہو جاتی ہے اور آخری سرے کے آبادگاروں اور زمینداروں کی فصلیں سوکھ جاتی ہیں، وہ بیچارے احتجاج، ہڑتالیں کرتے ہیں اور دھرنے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ خواتین کئی میل دور سے پانی لاتی ہیں، تھر کے علاقوں میں انسان اور جانور اکھٹے جوہڑوں اور تالابوں سے گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور پھر طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، دوائیں دستیاب نہیں ہوتیں اور ایکسرے مشینیں اکثر خراب پڑی ہیں۔ امن و امان کی صورتحال بھی نازک ہے، ہر جگہ ڈاکو راج ہے۔
پولیس بڑے زمینداروں اور وڈیروں کے اشاروں پر عمل کر کے ڈاکوئوں کی سر پرستی کرتی ہے۔ غریب آدمی کی عزت اور جان محفوظ نہیں ہے۔ کاروباری ہندوئوں کے گھر اور دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں ۔ 670 ارب روپے جیسے خطیر اور میگا فنڈ کے صحیح استعمال سے تو دیہی سندھ میں تعمیر و ترقی کا انقلاب برپا ہو جاتا لیکن اس کا عشر عشیر بھی کہیں نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے بڑا تشویش ناک مسئلہ ہے، اسے پوری اہمیت ملنا چاہیے۔ صوبہ سندھ کے سابق چیف منسٹر، ان کے دیہی علاقوں کے وزرا اور ممبران اسمبلی آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کریں۔ جن ترقیاتی کاموں یا منصوبوں پر اتنی بڑی رقم خرچ ہو گئی ہے اس کا قوم کا حساب دیں۔
انھیں چاہیے کہ صوبے کی نگراں حکومت سے درخواست کریں کہ پنجاب کے سابقہ چیف منسٹر شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے ان منصوبوں کی شفافیت چیک کرائیں، اگر وہ یہ بھی نہیں چاہتے تو کم از کم سرمایہ ملت جناب رانا بھگوان داس کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کریں جس کے ممبران ایسے منصف مزاج اور غیر جانبدار ہوں مثلاً پیپلز پارٹی سے حبیب الدین جنیدی، تاج حیدر، مسلم لیگ سے غوث علی شاہ، خواجہ سعد رفیق، تحریک انصاف سے مخدوم جاوید ہاشی، جماعت اسلامی سے نعمت اﷲ خان، متحدہ قومی موومنٹ سے فاروق ستار اور صحافی نازک جتوئی وغیرہ، اس کمیشن کو جلد سے جلد اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا جائے تا کہ ان الزامات کی تصدیق یا تردید ہو سکے۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ثابت ہو جائے گا۔