افسرِ شاہی کا ’’پروٹوکول‘‘ اور عوام

کیا کسی غریب ملک کے عوام کے لیے یہ لوگ بوجھ نہیں؟

ali.dhillon@ymail.com

ISLAMABAD:
بالآخر پروٹوکول کا توڑ سپریم کورٹ نے ہی ڈھونڈا، پورا ملک شور مچاتا رہا کہ جو سیاستدان پوری دنیا میں بغیر پروٹوکول کے گھومتے ہیں، وہ پاکستانی ائیر پورٹ پر نمودار ہوتے ہی پروٹوکول مانگتے ہیں، ہماری اشرافیہ کی فطرتاََ یہ عادت ہی بن گئی ہے۔میرے ایک دوست جب سے ایک صوبائی حکومت کے وزیر بنے ہیں تب سے اُن کا ٹو ر ٹپا اورشب شبا دیکھنے کے لائق ہے۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ہم دوست شاید انھیں ''رشک'' کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے ، لیکن عوامی خدمت کے بجائے افسری کا لبادہ اوڑے موصوف کو کیا معلوم کہ بقول چچا غالب اب ہم کس نظر سے دیکھتے ہیں!

بس کہ مائل ہے وہ رشک ماہتاب آئینے پر

ہے نفس تار شعاع آفتاب آئینے پر

اسی افسری اور شاہی طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار جن معاملات پر روزانہ کی بنیاد پر ایکشن لے رہے ہیں ، ان معاملات پر اگر روزانہ کالم بھی لکھا جائے تو پھر بھی ہم انصاف نہیں کر سکیں گے۔ جعلی ادویات کا معاملہ ہو، ہیومن ٹریفکنگ کا معاملہ ہو، میڈیکل کالجز کی فیسوں اور معیار کا مسئلہ ہو، پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ہو، اسپتالوں میں صحت کی سہولیات کا مسئلہ ہو، ڈاکٹروں کی کمی کے حوالے سے مسئلہ ہو،اتائی ڈاکٹروں کا مسئلہ ہو، پروٹوکول کا مسئلہ ہو، سفارش پر تعیناتیوں کا مسئلہ ہو یا سرکار کے ''بڑے'' کرپشن میں ملوث ہوں، تمام مسائل ہی توجہ طلب ہیں، جو اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ بیان نہیں کیے جاسکتے۔

اب جب کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت متعدد سیاستدانوں اور حکام کی فالتو سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔اور اتنی ہی سیکیورٹی دی ہے جتنی انھیں ضرورت ہے ، یوں ایک نئی طرز سیاست شروع ہو گئی ہے۔ ہر طرف ایسا لگ رہا ہے جیسے ان سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے گرد لپٹے حصار کو اتار دیا گیا ہو۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے مطابق سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ایک گاڑی، 15اہلکار، سابق وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ایک ایک گاڑی اور دس دس اہلکارتعینات ہوں گے۔ وزرائے اعلیٰ کی سیکیورٹی کا تعین چیف سیکیورٹی آفیسرز کریںگے۔

سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی رہائش گاہ جاتی امرا سے ایلیٹ فورس کے 142 اور پنجاب کانسٹیبلری کے 210اہلکاروں کو واپس بلا لیا گیاہے۔ کیپٹن (ر) صفدر اورمیاں عباس شریف کی فیملی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کی بھی واپسی ہوچکی ہے۔ درجہ بدرجہ سب حکام کی سیکیورٹی کا تعین کردیا گیا ہے جس میں پولیس، عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر حکام شامل ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے سیاسی، مذہبی قائدین اور سابق پولیس افسران سے بھی سیکیورٹی اہلکارواپس لے لیے گئے ہیں۔ سیاسی قائدین، رہنماؤں اور دیگر انتظامی حکام کے لیے سیکیورٹی بلاشبہ ضروری ہے لیکن سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول درست نہیں۔ دراصل یہ وی آئی پی کلچر ہے اور ایسا وی آئی پی کلچر کے ان سیاستدانوں کے رشتے دار بھی پروٹوکول کے بغیر سفر کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔

کون نہیں جانتا کہ اس پر عوام کے ٹیکسوں سے کشید کیا گیا بھاری سرمایہ صرف ہوتا ہے۔ چالیس چالیس گاڑیوں کے قافلے کیا سیکیورٹی کے لیے ہوتے ہیں یا اپنے شاہانہ رویے کی تسکین کے لیے؟ اس پرمستزاد کہ جہاں وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے وہاں گھنٹوں سڑک بند کرکے عوام کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیامہذب دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یورپ کے ممالک اورمتحدہ عرب امارات کے حکمران کو لوگوں نے اکثر اپنے بیچ پایا اور ان کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ یہاں ایک سابق حکومتی اہلکارکے تائے چاچوں تک کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اور اس کی رہائش اور فارم ہاؤس پر سیکڑوں اہلکارتعینات رہتے ہیں اور پھر کیمپ آفسز کے ہزار خرچے ایک طرف اور سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول ایک طرف ہوتا ہے۔


اب اگر اس سیکیورٹی کا تخمینہ ہی لگایا جائے تو صرف پنجاب میں ان وی آئی پی شخصیات سے سیکیورٹی واپس لینے سے خزانے کو 2سے 3ارب روپے کی سالانہ کی بچت ہوگی۔کیوں کہ پنجاب میں وی آئی پی سیکیورٹی پر معمور ایلیٹ اور کانسٹیبل کی تعداد 16ہزار ہے( ان میں 9ہزار اہلکار مستقل جب کہ 7ہزار ہولڈ پر رہتے ہیں) ان میں سے 4610 پولیس اہلکار واپس بلالیے گئے ہیں، اگر انھی اہلکاروں کا ماہانہ خرچہ دیکھا جائے تو 12کروڑ ماہانہ ، یعنی ڈیڑھ ارب سالانہ ہے۔ ابھی اس میں گاڑیوں اور پٹرول کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔اور قارئین یہ سن کر بھی حیران ہوں گے کہ پنجاب بھر میں چھوٹی بڑی سرکاری (سیاستدان و بیوروکریٹ) وی آئی پی شخصیات کی تعداد 4ہزار سے زیادہ ہے، اور ان میں سوفیصد شخصیات ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور ہوں گی۔

یہی حال دوسرے صوبوں کا بھی ہے، اس فہرست میں سندھ دوسرے ، بلوچستان تیسرے اور کے پی کے چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ لیکن پنجاب میں شاہا نہ طرز حکومت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ صرف شہباز شریف کے پروٹوکول اور سیکیورٹی پر سات سو لگژری گاڑیاں اور اڑھائی ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ وزیراعلیٰ کے اس پروٹوکول کے لیے 125 گاڑیوں کے دستے پر سالانہ ایک ارب 19 کروڑ کے اخراجات آتے ہیں۔ اب موصوف 10سال سے پنجاب پر حکومت کر رہے ہیں اور جاتی امراء ، کیمپ آفسز، پروٹوکول دیگر اضلاع کے آفسز کے اخراجات شامل کیے جائیں تو بات 50ارب روپے سے بھی آگے نکل جاتی ہے؟ اب یہ دلائل ہم اپنے کالموں میں کئی بار دے چکے ہیں کہ شاہانہ اخراجات کم کیے جائیں لیکن فرانسیسی کہاوت ہے کہ ''جہاں طاقت کا راج ہو وہاں دلیل کی کوئی جگہ نہیں ہوتی''۔

الغر ض اس ملک میں اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر چیف سیکریٹری تک، پولیس انسپکٹر سے لے کر آئی جی تک، صوبائی وزیر مشیر سے لے کر صدر مملکت تک عوام کے مقدر کے ان ستاروں کو غیر معمولی حفاظتی اقدامات کی رعایت (بالکل غلط طور پر) اس وقت ملی تھی جب ملک میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے۔

اب جب کہ نسبتاََ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے تو سیکیورٹی کے نام پر سرکاری تام جھام کا بوجھ عوام برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔اگر آج بھی دہشت گرد پہلے جتنے طاقتور ہیں تو پھر حفاظتی حصار میں رہنے والے حکمرانو ں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ وہ ہم سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اگر دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں تو اتنے حفاظتی اقدامات سوائے پروٹوکول کے اور شان و شوکت بڑھانے کے کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا اس بندوبست کے خلاف عوام کا غم و غصہ بالکل بجا اور بر محل ہے، بلکہ مجھے تو لگتا ہے ضرورت سے کچھ کم ہے۔ ہمارے خون پسینے کے کمائی سے تنخواہ لینے والے ملازم ان مچھندروں کی جاہ پسندی کی خواہش کی تسکین کرتے رہیں، یہ گوارا نہیں کیا جا سکتا، ہرگز گوارا نہیں کیا جا سکتا۔

کیا کسی غریب ملک کے عوام کے لیے یہ لوگ بوجھ نہیں؟ میرے خیال میں تمام سیاستدان صاحب ِ حیثیت ہیں اور اپنی سیکیورٹی خود رکھ سکتے ہیں۔ہم جتنا ان کو سرپر چڑھائیں گے یہ اتنا ہی ہمارے سر چڑھ کر ناچیں گے۔ متمول، مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں سیاستدان کوئی زیادہ باعزت مخلوق نہیں کیونکہ عوام ان کو لیڈر کم اپنا ''چاکر'' زیادہ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''سیاستدان ہونے میں دشواری یہ ہے کہ آپ فیصلہ ہی نہیں کرپاتے کہ لوگ آپ کی پیروی کر رہے ہیں یا پیچھا کر رہے ہیں ''یعنی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ لوگ ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں یا ''چور'' سمجھ کر ان کا پیچھا یا تعاقب کرتے ہیں ۔مغربی ممالک اپنے سیاستدانوں کے بارے میں مزید کہتے ہیں کہ ''اگر سیاستدانوں کے پاس ڈراؤنے خوابوں کے بجائے ویژن ہوتا تو یہ دنیا بہت پر مسرت ہوتی''پاکستانی سیاستدان کا تو حال ہی کوئی نہیں۔ تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی ان پڑوں کے ساتھ مل کر ان پڑھ ہی بن جاتے ہیں جن کے اپنے ویژن بھی روایتی سیاست میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

بہرکیف آج مریم نواز صاحبہ اپنے والد محترم سے سیکیورٹی واپس لیے جانے کو انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہیں، کیوں کہ اب سابق وزیراعظم نواز شریف کے پروٹوکول میں 2 گاڑیاں شامل ہوں گی، نوازشریف کے ساتھ ایک جیمر اور 34 پولیس اہلکار سیکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات ہوں گے۔لیکن محترمہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب سے پاناما کیس چل رہا ہے اور آپ کا خاندان پیشیاں بھگت رہا ہے اور سرکاری خزانے اور پروٹوکول سے ساری پیشیاں ہو رہی ہیں۔

نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی پر 2523 اہلکار و افسرا تعینات رہے، جس میں رینجرز، پولیس، اسپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو، ایف سی، ٹریفک پولیس و دیگر اداروں کے ملازمین شامل تھے۔ جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے رہے اور معزز چیف جسٹس کے بقول اگر یہی پیسہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہوتا تو کیوں نہ پاکستان میں عام شہری سکھ کی زندگی بسر کرتا۔ لہٰذااس شاہی پروٹوکول و سیکیورٹی کے نام پر ہونے والے پیسے کے ضیاع کو ختم کرنے کے حوالے سے چیف جسٹس حقیقت میں مبارکباد کے مستحق ہیں ، کیوں کہ جو لوگ یہ سالہاسال سے ختم نہیں کر سکے وہ غلط کام دنوں میں ختم ہوتا نظر آرہا ہے!!!
Load Next Story