مجبوری میں لکھا گیا کالم

میں ان چند خوش قسمت لکھاریوں میں سے ہوں جنہوں نے سندھیوں اور غیر سندھیوں کا تھوڑا بہت اعتماد کمایا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ سبب کیا ہے البتہ پچھلے چند برس میں ایک تبدیلی تو ضرور آئی ہے۔اب لوگ اپنے الفاظ واپس لینے لگے ہیں اور معذرت بھی کرنے لگے ہیں۔ درگذر کرنے والوں کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔جیسے سندھ یونیورسٹی کی برفت انتظامیہ نے سائن بورڈز کے بارے میں ایک نوٹیفکیشن نکالا ، اردو میڈیا نے اس کا مطلب کچھ اور نکالا اور پھر برفت انتظامیہ نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اردو میڈیا پر ٹھنڈی بالٹی ڈال دی۔جیسے محتاط انور مقصود کا قلم پھسل کر نسل پرستانہ جوہڑ میں جا گرا۔ توجہ دلانے پر اس نے لاکھوں ٹوٹے دلوں سے معذرت کر لی۔

مگر ایسا ہوتا ہی کیوں ہے کہ کوئی ایک نوٹیفکیشن جاری ہونے پر لگے کہ دوسرے کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا اور کسی ایک جملے پر یوں محسوس ہو گویا پوری نسل اور قوم پر ہی خطِ تنسیخ پھیر دیا گیا۔اس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو باہر سے تو جانتے ہیں مگر اندر سے جاننے میں نہ کوئی دلچسپی ہے ، نہ وقت دینے کو تیار ہیں۔ذرا سا ناخن لگ جائے تو تعلق کا پینٹ اکھڑنے لگتا ہے۔

اگرچہ مجھے کسی بھی مضمون میں اپنی ذات کو بیچ میں لانے کا عمل گھٹیا پن لگتا ہے مگر پچھلے دو ہفتے کے دوران سوشل میڈیا پر جو لفظیاتی مجرہ ہوا ہے، اسے دیکھ کر میں اپنے تجربات بتانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔

میں ان چند خوش قسمت لکھاریوں میں سے ہوں جنہوں نے سندھیوں اور غیر سندھیوں کا تھوڑا بہت اعتماد کمایا ہے۔میرے لیے یہ تولنا بہت مشکل ہے کہ کون مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہے اور میں خود کو کس کے زیادہ قریب پاتا ہوں۔اسی لیے میں سندھ کو اپنے گھر کا ڈرائنگ روم تصور کر کے بے دھڑک اچھی بری باتیں کرتا ہوں مگر لوگ غصے میں نہیں آتے بلکہ مثبت انداز میں دھواں دھار بحث کرتے ہیں۔ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں، فقرے بھی کستے ہیں، ایک دوسرے سے سیکھتے بھی ہیں اور پھر اگلی ملاقات کے وعدے پر رخصت ہو جاتے ہیں۔

مگر یہ لگڑری سندھیوں اور غیر سندھیوں کی اکثریت کو حاصل نہیں۔وہ ایک دوسرے کے قریب قریب تو ضرور رہتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ وقت گذارنے کا ضروری لازمی وقت نہیں۔ لہذا ایک دوسرے کے بارے میں ان کا امیج وہی پرانا سٹیریو ٹائپ ہے۔جو انھوں نے کسی اور سے سن رکھا ہے اور کسی اور نے کسی اور سے سن رکھا ہے۔

میں جب حیدرآباد ، تھر ، سکھر یا لاڑکانہ ، شکار پور جاتا ہوں تو ہر ایک کو بتاتا ہوں کہ میں تم لوگوں سے ملنے آیا ہوں۔ہر دروازہ ، ہر بازو کھلتا چلا جاتا ہے۔لیکن جب یہی دیدہ و دل راہ ِ فراش کرنے والے سندھی کراچی آتے ہیں تو مجھے کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔وہ اپنے سارے کام کاج نمٹا کے خاموشی سے چلے جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ احسان کرتے ہیں کہ جاتے وقت کال کر لیتے ہیں کہ ہم یہاں آئے ، ایک ہفتہ رہے اب جا رہے ہیں آپ کو ڈسٹرب نہیں کیا۔سوچا کہ آپ مصروف آدمی ہیں۔

جب کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میری مصروفیت کو اپنا دفاعی ہتھیار بنانے والے یہ لوگ اپنے تمام ہم نسل و ہم زبان دوستوں سے مل ملا کر واپس جا رہے ہیں۔یہاں پر آ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ شائد یہ سندھی مجھے اپنے جیسا سمجھنے سے لاشعوری طور پر جھجھک رہے ہیں۔مجھے یوں لگتا ہے کہ جسے میں دوطرفہ تعلق سمجھ رہا ہوں شائد وہ یکطرفہ ہی ہے ۔یا شائد سپرہائی وے پر قائم ٹول پلازہ میں کوئی گڑ بڑ ہے کہ جس کے آرپار ہوتے ہی رویے بھی بدل جاتے ہیں۔

جہاں تک ارود بولنے والوں کی نفسیات کا معاملہ ہے تو جو اردو کمیونٹی کراچی اور حیدرآباد سے باہر کے علاقوں میں آباد ہے اس کا نسلی و لسانی ربط و ضبط سندھیوں کے ساتھ زیادہ مضبوط ہے۔وہ گھر میں اردو مگر باہر سندھی بولتے ہیں۔ستر برس میں رہن سہن اور کسی حد تک ریتی رواج پر بھی ایک دوسرے کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔مگر کراچی کا اردو داں مڈل کلاسیا اسی الگ تھلگ سٹیریو ٹائپ پروفائلنگ میں مبتلا ہے جس طرح سندھی مڈل کلاس یا اشرافیہ ایک علیحدہ سماجی کلب کے طور پر رہنے کی عادی ہے۔


سندھی بولنے والے تو پھر بھی کسی نہ کسی ضرورت یا مجبوری یا شوق میں ٹول پلازہ کے آر پار آنے جانے اور رہنے کے عادی ہیں مگر کراچی کی اردو مڈل کلاس اور اشرافیہ نے شادی بیاہ ، مرگ یا عید کے بکرے خریدنے کی ضرورت کے علاوہ شائد ہی اس لیے ٹول پلازہ عبور کیا ہو کہ چلو دیکھتے ہیں اس پار کیسے لوگ ہیں ، کیسے رہتے ہیں ، کن باتوں پر خوش اور اداس ہوتے ہیں ، ان کے خوا ب اور تعبیریں کیا ہیں۔ سندھ ایک ہی ملک ہے یا اس ملک میں چار پانچ چھوٹے ملک اپنے اپنے رنگوں کے ساتھ ایک دوسرے سے بڑی سی اکائی میں جڑے ہوئے ہیں۔

اردو مڈل کلاس اور اشرافیہ جتنا لاہور ، اسلام آباد ، کاغان اور نیویارک کے بارے میں جانتی ہے اس سے بہت کم تھر ، کوٹ ڈیجی اور بھٹ شاہ کے بارے میں جانتی ہے۔

اور پھر جب یہی سندھی اور اردو لوگ اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آتے ہیں تو اپنے اپنے سٹیریو چشمے اتارنا نہیں بھولتے۔یوں نہ جاننے کی خواہش سیاسی کش مکش کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ہر ہر لکھے اور بولے لفظ کو پہلے سے بنی ہوئی نفسیات کے ترازو میں تول کے دیکھا جاتا ہے اور یوں کاروبارِ غلط فہمی رواں رہتا ہے۔

سندھیوں نے تو ضرورت کی مجبوری میں اردو اور انگریزی سیکھ لی مگر سندھیوں کو سمجھنے کے لیے اردو دانوں نے سندھی سیکھنے کی کتنی شعوری کوشش کی ؟ ہو سکتا ہے آپ کو سندھی اردو مشاعروں میں جا کر کوئی خوشی ہوتی ہو مگر مجھے دکھ ہوتا ہے۔یہ لسانی ہم آہنگی کا ثبوت نہیں لسانی کم مائیگی کا ثبوت ہیں۔

سندھی زبان مجھے بھی نہیں آتی مگر میں سندھی مافی الضمیر سمجھ کر اور سرائیکی بول کے کام چلا لیتا ہوں کیونکہ سندھیوں کی اکثریت دو لسانی ہے۔

مگر صرف اردو بول کر سندھ کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے سندھی ضرورت کی مجبوری میں ضرورت کی اردو بول کر زبان میں پوشیدہ ان لطیف جذبوں کو پوری طرح سمجھنے اور چسکے لینے سے قاصر ہیں جو صرف ایک زبان کو پوری طرح جاننے اور برتنے سے ہی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔

اسی طرح صرف تہنجو نالو چھا آہے سیکھ لینا سندھی نہیں۔جس اسکول میں بچے انگریزی اور اردو سیکھتے ہیں۔ اسی اسکول میں سندھی کا بھی قاعدہ پڑھایا جاتا ہے۔کبھی خیال آیا اپنے بچے سے یہ پوچھنے کا کہ بیٹا انگلش میں طوطے کو پیرٹ کہتے ہیں مگر سندھی میں کیا کہتے ہیں ؟ جس دن یہ خیال آ گیا اس دن کے بعد کسی کو کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

پنجاب میں کوئی اردو دان کسی پنجابی سے یا پنجابی کسی اردو داں لکھاری سے معافی نہیں مانگتا۔کیونکہ دونوں کو دونوں زبانیں آتی ہیں۔زبان ہی وہ سڑک ہے جو دل کو دل سے ملا سکتی ہے۔باقی سب تھیوریاں ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
Load Next Story