احمد رشدی کی یاد میں
احمد رشدی جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ایک پیدائشی گلوکار تھے۔
NEW DELHI, INDIA:
پاکستان کے منفرد اور انتہائی مقبول گلوکار احمد رشدی ماہ اپریل میں اس جہان فانی میں تشریف لائے۔ ان کا یوم پیدائش 24 اپریل ہے۔ انھوں نے 1934 میں حیدرآباد دکن کے ایک معزز گھرانے میں آنکھ کھولی۔
کم عمری میں ہی وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اورکراچی میں آباد ہوگئے ۔ اس وقت ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ موسیقی کی دنیا میں کبھی وہ ماہتاب وآفتاب بن کر اتنا چمکیں گے کہ ان کا نام بچے بچے کی زبان پر ہوگا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان کی قسمت ایک پتے کی طرح ہوتی ہے جو ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ پلٹ جاتا ہے۔
احمد رشدی جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ایک پیدائشی گلوکار تھے۔گانے کی تربیت انھوں نے کسی سے باقاعدہ حاصل نہیں کی تھی بلکہ یہ صلاحیت ایک عطیہ خداوندی تھی ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور ریڈیو پاکستان کراچی نے انھیں اس خداداد صلاحیت کے جوہر دکھانے کا سنہری موقع فراہم کردیا۔ احمد رشدی کی رام کہانی خود ان کی زبانی ہم نے اس وقت سنی جب وہ، ریڈیو پاکستان سے بھارتی سامعین کے لیے نشر ہونے والے روزانہ ہندی پروگرام کے لیے اپنا انٹرویو ریکارڈ کرانے کے سلسلے میں ہمارے پاس تشریف لائے تھے۔ ان دنوں ہم ہندی سروس کے پروگرام منیجر ہوا کرتے تھے۔
ہندی سروس کے بھارتی سامعین کو ہم اس سے قبل پاکستان کے کئی اور نامور گلوکاروں اور گلوکاراؤں کے انٹرویوز سنوا چکے تھے اور ان کا بے حد اصرار تھا کہ ہم ان کی ملاقات احمد رشدی سے بھی کروائیں۔ لیکن چونکہ احمد رشدی پاکستان کی فلم انڈسٹری سے مسلسل وابستگی کی وجہ سے فلم نگری لاہور میں مقیم تھے اس لیے وہ ہمیں دستیاب نہ ہوسکے تھے، لیکن جب وہ لاہور کو خیرباد کہہ کر ہمیشہ کے لیے کراچی آگئے تو بڑی خوشی سے انٹرویو ریکارڈ کرانے کے لیے ہمارے پاس آگئے۔
اس تفصیلی انٹرویو کے دوران انھوں نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا اور اپنی زندگی کے بہت سے دلچسپ واقعات بھی مزے لے لے کر سنائے۔ ان میں بعض باتیں اب ہمارے ذہن کی سلیٹ سے مٹ چکی ہیں۔ کئی نشستوں کے بعد ریکارڈ کیا گیا ،احمد رشدی کا یہ انٹرویو سامعین کو اس قدر پسند آیا کہ ہمیں اسے وقفے وقفے سے کئی بار نشر کرنا پڑا۔ بعض سامعین نے تو انھیں جوش محبت میں محمد رفیع ثانی کا خطاب بھی دے ڈالا۔ احمد رشدی جتنے گائیکی کے دھنی تھے اتنے ہی باتوں کے بھی دھنی تھے۔ ان کی باتوں میں بھی وہی مٹھاس اور چاشنی تھی جو ان کی گلوکاری میں تھی۔ ان کے مزاج مین بلا کا انکسار تھا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اتنے بڑے اور مانے ہوئے فنکار ہیں۔ ان کی باتوں میں ایک خوشبو سی رچی بسی تھی جو بیان سے باہر ہے۔
جوہر قابل تو بہت سے لوگوں میں ہوتا ہے لیکن اسے دریافت کرکے بروئے کار لانا بھی جوہر شناس کا ہی کام ہوتا ہے۔ احمد رشدی کی یہ خوش بختی تھی کہ انھیں ریڈیو پاکستان کراچی میں مہدی ظہیر جیسا جوہر شناس میسر آگیا جن کے لکھے اور کمپوز کیے ہوئے گانے ''بندر روڈ سے کیماڑی، چلی رے میری گاڑی، بابو ہو جانا فٹ پاتھ۔۔۔'' (1954) کے بچوں کے پروگرام میں نشر ہوتے ہی احمد رشدی کی شہرت اور مقبولیت کو گویا پر لگ گئے۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے قومی ترانے میں بھی اپنی آواز ملا چکے تھے۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری میں قدم رکھتے ہی انھوں نے اپنی منفرد آواز اور انداز کا جادو جگا دیا، واقعی:
آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز
انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی پلے بیک گلوکاری کا سکہ جمادیا اور سلیم رضا اور میر حسین جیسے سینئر گلوکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ''کوکو رینا'' والے ان کے فلمی نغمے نے پورے ملک میں دھوم مچا دی۔ 1961 سے 1976 تک احمد رشدی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری پر راج کیا اور وہ اس پر چھائے رہے۔ ریڈیو پاکستان کے ہر اسٹیشن سے بس انھی کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ''اک اڑن کھٹولا آئے گا'' والے ان کے مشہور گانے نے سارے ریکارڈ توڑ دیے ۔ جو بھی اس گانے کو سنتا جھوم اٹھتا اور لہک لہک کر ناچنے لگتا۔ لیکن انھی احمد رشدی نے جب ایک افسردہ گانا ''جب رات ڈھلے'' گایا تو سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ سب حیران تھے کہ شوخ اور چنچل گانے گانے والا گلوکار احمد رشدی ایسا پرسوز نغمہ بھی گا سکتا ہے۔ احمد رشدی کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک ورسٹائل گلوکار تھے۔
دو عشروں پر محیط مختصر عرصے میں احمد رشدی نے تقریباً1000 نغمے گائے جن میں سے زیادہ تر گانے انھوں نے وحید مراد کے لیے گائے جن کی تعداد 140 کے لگ بھگ ہے۔ فلم ''ہیرا اور پتھر'' سے لے کر آخری پروڈکشن ہیرو تک ان کی وابستگی کا یہ سلسلہ 1985 تک جاری رہا۔ رشدی کے 80 سے زائد گانے فلم اسٹار ندیم پر فلمائے گئے۔ فلم ''دو بدن'' اور ''مسٹر بدھو'' میں ندیم نے رشدی کے ساتھ مل کر بھی گانے گائے۔ پرانے فلمی اداکاروں میں رشدی کے گائے ہوئے نغمے سنتوش کمار، لالہ سدھیر اور علاؤ الدین پر بھی فلمائے گئے۔
انھوں نے سنتوش، درپن اور منصور برادران پر فلمائے گئے گانے بھی خوب گائے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ابھرتے ہوئے اداکاروں غلام محی الدین، راحت کاظمی اور عثمان پیرزادہ کے لیے بھی بڑی اچھی پلے بیک Singing کی۔ احمد رشدی کو گلوکاری میں تاثرات کے اظہار پر عبور حاصل تھا۔ اس وصف میں ان کا موازنہ محمد رفیع سے کیا جاسکتا ہے۔ فلم ''جب جب پھول کھلے'' میں ان کا گایا ہوا گانا ''بڑھاپے میں دل نہ لگانا'' کبھی نہ بھلایا جاسکے گا۔ یہ گانا وحید مراد اور ندیم پر فلمایا گیا جس میں وحید مراد نے نوجوان کا اور ندیم نے بوڑھے کا کردار ادا کیا تھا۔ احمد رشدی کا کمال یہ تھا کہ اس گانے میں اس نے نوجوان اور بوڑھے کے تاثرات کا عکس اپنی آواز کے ذریعے بڑے کمال کے ساتھ پیش کیا تھا۔
اداکار وحید مراد پر فلمائے گئے گانوں کے حوالے سے احمد رشدی کو وہی مقام حاصل تھا جو گلوکار محمد رفیع کو فلم اسٹار شمی کپور کے پلے بیک سنگر کے طور پر حاصل تھا۔ پاکستان کے مشہور فلمی ہیرو شاہد حسین کا 70 کی دہائی میں پاکستان کی فلمی دنیا میں بڑا بول بالا تھا اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے پلے بیک سنگر کی حیثیت سے احمد رشدی کو ہی دیتے ہیں۔ رشدی نے فلم ''دیکھا جائے گا'' (1976) میں دما دم مست قلندر کا انگلش Version گا کر اپنی صلاحیت کا لوہا منوالیا جس کے بول تھے This is the song of wonder ۔ ان کا تلفظ اور لہجہ بالکل پرفیکٹ تھا۔
احمد رشدی نے میڈم نور جہاں، مہ ناز، ناہید اختر، ناہید نیازی اور نیرہ نور جیسی معروف اور مقبول گلوکاراؤں کے ساتھ مل کر بھی بڑے پیارے دو گانے گائے جو بے حد پسند کیے گئے، لیکن سب سے زیادہ ساتھ انھوں نے گلوکارہ مالا کا دیا۔ اس کے بعد گلوکارہ رونا لیلیٰ کا نمبر آتا ہے۔
70 کی دہائی میں پی ٹی وی کے عروج کے ساتھ احمد رشدی نے بھی ٹی وی کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹی اسکرین پر بھی چھا گئے۔ ٹی وی شو ''بزم رشدی'' بے حد مقبول ہوا جس سے بعد میں گلوکار عالم گیر اور دیگر گلوکاروں نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ احمد رشدی جیسے عظیم فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔