ضربِ ظرافت
’’ضرب ظرافت‘‘ میں کچھ قطعات کچھ غزلیں اور کچھ نظمیں شامل ہیں۔
''ضرب ظرافت'' امیر الاسلام ہاشمی کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ہے، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی کا کہنا ہے کہ امیرالاسلام ہاشمی کا مزاح ان کے نام اور شخصیت کی طرح معتبر ہے۔ ان کی شاعری کو یہ اعتبار ان کی فطری شگفتگی، خداداد ایجاد معنی، تہذیبی شعور اور زبان و بیان کی نزاکتوں پر ان کی نظر اور اظہار کے مختلف اسالیب پر ان کی گرفت نے عطا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''ہاشمی صاحب اعلیٰ اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور ان اقدار کی پامالی کو دیکھ کر ان کے ہاں طنز پیدا ہوتا ہے مگر ان کا یہ طنز، مزاح کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر قاری کو تبسم بھی عطا کرتا ہے اور اسے سنجیدہ فکر پر بھی اکساتا ہے۔''
''ضرب ظرافت'' میں کچھ قطعات کچھ غزلیں اور کچھ نظمیں شامل ہیں۔ وہ اپنے مجموعہ کلام کا آغاز اس شعر سے کرتے ہیں:
جگہ جگہ سے ہے مسکی ہوئی قبائے حیات
ذرا سی جان بھی ہوتی تو ہم رفو کرتے
اور اپنے کلام کا رخ دو قطعات سے واضح کرتے ہیں۔ ''تلاش سحر'' کے عنوان سے ان کا قطعہ ہے:
ذوقِ سفر کی اب بھی نہیں ہے کوئی کمی
لیکن سفر تو جب ہو کہ رستہ دکھائی دے
مغرب میں جا کے ڈھونڈ رہے ہیں سحر کو ہم
سورج جہاں پہ ڈوبے وہاں کیا دکھائی دے
دوسرا قطعہ ہے ''شاہینہ، شاہین'' کہتے ہیں:
شاہینہ سے میں نے کہا شاہین تمہارے
جب ساتھ نہیں ہوتے گزرتا ہے گماں اور
کہنے لگیں شاہیں تو ممولوں میں گھرے ہیں
وہ ساتھ کہاں رہتے ہیں' ان کا ہے جہاں اور
ایک غزل کے یہ اشعار دیکھئے:
حیا گرتی ہوئی دیوار تھی کل شب جہاں میں تھا
نظر اٹھنا بہت دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا
کسی فرہاد کو حاجت نہ تھی تیشہ اٹھانے کی
ہر اک شیریں وہاں ہموار تھی کل شب جہاں میں تھا
امیر الاسلام ہاشمی کے طنز و مزاح میں کس قدر سنجیدگی ہے اور وہ اپنے وطن کے حالات سے کس قدر دل گرفتہ ہیں اس کا اظہار ان کی دو نظمیں ہیں۔ ''ترقی معکوس'' کے عنوان سے وہ کہتے ہیں۔
جا کے اب کس سے کہیں رام کہانی اپنی
قرض کی چھاؤں میں ڈھلتی ہے جوانی اپنی
ایڈ کے بوجھ سے ٹوٹی ہے کہانی اپنی
سود کے بند نے روکی ہے روانی اپنی
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
قوم کے پاس نہیں کچھ بھی قناعت کے سوا
کیا غریبوں کو ملا صرف اذیت کے سوا
ٹیکس ہر چیز پہ ہے' حسن کی دولت کے سوا
کچھ بھی ارزاں نہیں بازار میں غیرت کے سوا
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
ڈھیر ڈالر کے بہت دور لگائے ہم نے
کچھ محلات تو لندن میں بنائے ہم نے
لوٹنے کھانے کے گر سب کو سکھائے ہم نے
کچھ بنایا ہے تو بس پیسے بنائے ہم نے
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
مسجد و منبر و محراب کی عظمت نہ رہی
ریش کی' جبہ و دستار کی وقعت نہ رہی
دین کی ' شرع کی' ایماں کی حقیقت نہ رہی
قبلہ و کعبہ کی اب ہم کو ضرورت نہ رہی
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
ہاشمی صاحب کی دوسری نظم ''منشور'' ہماری سیاست اور سیاسی رہنماؤں کے طرز عمل پر ایک طنز ضرور ہے مگر جس صورتحال کا بیان ہے وہ ہماری قومی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ایک نئے لیڈر نے آکر یوں کیا سب سے خطاب
شکریہ' در شکریہ جلسے میں آنے کا جناب
خواہشیں کیا آپ سب کی ہیں' مجھے یہ علم ہے
آنکھ میِرا کیمرا ہے' عقل میری فلم ہے
وارے نیارے جس میں ہو جائیں وہ دھندا چاہیے
جس میں پھنس جائے ہما' سب کو وہ پھندا چاہیے
چونچ میں ہر زاغ کی انگور دے سکتا ہوں میں
جس کو جیسا چاہیے منشور دے سکتا ہوں میں
آپ سب عاجز ہیں اب رِستے ہوئے ناسور سے
سب دلدر دور ہو جائیں گے اس منشور سے
ملک میں پھیلا ہوا ہے کو بہ کو اب انتشار
پارٹی در پارٹی' لیڈر قطار اندر قطار
اب تکلف برطرف' شرم و حیا بالائے طاق
سب سے پہلے عام کردیتا ہے دستور نفاق
دین کو دنیا کے پنجے سے چھڑایا جائے گا
اب اسے مسجد کے حجروں میں سجایا جائے گا
اب اچکوں کی ہر ایک ممکن مدد کی جائے گی
ڈاکوؤں کو مشورے کی فیس بھی دی جائے گی
حل کریں گے روٹی' کپڑے اور مکانوں کا سوال
ایڈ میں جنت خدا سے مانگے کا ہے سوال
مل گئی جنت تو پھر جنت کے سب توشے بھی مفت
ٹوکرے آموں کے اور انگور کے خوشے بھی مفت
آبِ کوثر بھی ملے گا' دودھ کی نہریں بھی مفت
جو ابھی سے اٹھ رہی ہیں دل میں وہ لہریں بھی مفت
متفق ہیں آپ اس منشور سے بتلائیے
داخلہ اوپن ہے' دروازہ کھلا ہے آئیے
امیرالاسلام ہاشمی کی نظمیں ''رشوت نامہ'' اور ''اقبال تیرے دیش'' بھی نظمیں نہیں نوحے ہیں۔ بقول ڈاکٹر ابواللیث صدیقی یہ ایک ایسے شاعر کا کلام ہے جسے اپنی تہذیب و معاشرت کی روایات بے حد عزیز ہیں لیکن وہ قدامت پرست یا رجعت پسند ہرگز نہیں۔ اعتدال جو حسن کلام کی شرط ہے ان کے ہاں پوری طرح محفوظ ہے۔
خود ہاشمی صاحب اپنے کلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں، سنیے!
نہ میرے شعر ہیں وزنی نہ ان میں ندرت ہے
مگر یہ سوچیے' یہ حسب حال کتنے ہیں
''ضرب ظرافت'' میں کچھ قطعات کچھ غزلیں اور کچھ نظمیں شامل ہیں۔ وہ اپنے مجموعہ کلام کا آغاز اس شعر سے کرتے ہیں:
جگہ جگہ سے ہے مسکی ہوئی قبائے حیات
ذرا سی جان بھی ہوتی تو ہم رفو کرتے
اور اپنے کلام کا رخ دو قطعات سے واضح کرتے ہیں۔ ''تلاش سحر'' کے عنوان سے ان کا قطعہ ہے:
ذوقِ سفر کی اب بھی نہیں ہے کوئی کمی
لیکن سفر تو جب ہو کہ رستہ دکھائی دے
مغرب میں جا کے ڈھونڈ رہے ہیں سحر کو ہم
سورج جہاں پہ ڈوبے وہاں کیا دکھائی دے
دوسرا قطعہ ہے ''شاہینہ، شاہین'' کہتے ہیں:
شاہینہ سے میں نے کہا شاہین تمہارے
جب ساتھ نہیں ہوتے گزرتا ہے گماں اور
کہنے لگیں شاہیں تو ممولوں میں گھرے ہیں
وہ ساتھ کہاں رہتے ہیں' ان کا ہے جہاں اور
ایک غزل کے یہ اشعار دیکھئے:
حیا گرتی ہوئی دیوار تھی کل شب جہاں میں تھا
نظر اٹھنا بہت دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا
کسی فرہاد کو حاجت نہ تھی تیشہ اٹھانے کی
ہر اک شیریں وہاں ہموار تھی کل شب جہاں میں تھا
امیر الاسلام ہاشمی کے طنز و مزاح میں کس قدر سنجیدگی ہے اور وہ اپنے وطن کے حالات سے کس قدر دل گرفتہ ہیں اس کا اظہار ان کی دو نظمیں ہیں۔ ''ترقی معکوس'' کے عنوان سے وہ کہتے ہیں۔
جا کے اب کس سے کہیں رام کہانی اپنی
قرض کی چھاؤں میں ڈھلتی ہے جوانی اپنی
ایڈ کے بوجھ سے ٹوٹی ہے کہانی اپنی
سود کے بند نے روکی ہے روانی اپنی
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
قوم کے پاس نہیں کچھ بھی قناعت کے سوا
کیا غریبوں کو ملا صرف اذیت کے سوا
ٹیکس ہر چیز پہ ہے' حسن کی دولت کے سوا
کچھ بھی ارزاں نہیں بازار میں غیرت کے سوا
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
ڈھیر ڈالر کے بہت دور لگائے ہم نے
کچھ محلات تو لندن میں بنائے ہم نے
لوٹنے کھانے کے گر سب کو سکھائے ہم نے
کچھ بنایا ہے تو بس پیسے بنائے ہم نے
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
مسجد و منبر و محراب کی عظمت نہ رہی
ریش کی' جبہ و دستار کی وقعت نہ رہی
دین کی ' شرع کی' ایماں کی حقیقت نہ رہی
قبلہ و کعبہ کی اب ہم کو ضرورت نہ رہی
گامزن راہ ترقی پہ ہیں پھر بھی ہم لوگ
ہاشمی صاحب کی دوسری نظم ''منشور'' ہماری سیاست اور سیاسی رہنماؤں کے طرز عمل پر ایک طنز ضرور ہے مگر جس صورتحال کا بیان ہے وہ ہماری قومی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ایک نئے لیڈر نے آکر یوں کیا سب سے خطاب
شکریہ' در شکریہ جلسے میں آنے کا جناب
خواہشیں کیا آپ سب کی ہیں' مجھے یہ علم ہے
آنکھ میِرا کیمرا ہے' عقل میری فلم ہے
وارے نیارے جس میں ہو جائیں وہ دھندا چاہیے
جس میں پھنس جائے ہما' سب کو وہ پھندا چاہیے
چونچ میں ہر زاغ کی انگور دے سکتا ہوں میں
جس کو جیسا چاہیے منشور دے سکتا ہوں میں
آپ سب عاجز ہیں اب رِستے ہوئے ناسور سے
سب دلدر دور ہو جائیں گے اس منشور سے
ملک میں پھیلا ہوا ہے کو بہ کو اب انتشار
پارٹی در پارٹی' لیڈر قطار اندر قطار
اب تکلف برطرف' شرم و حیا بالائے طاق
سب سے پہلے عام کردیتا ہے دستور نفاق
دین کو دنیا کے پنجے سے چھڑایا جائے گا
اب اسے مسجد کے حجروں میں سجایا جائے گا
اب اچکوں کی ہر ایک ممکن مدد کی جائے گی
ڈاکوؤں کو مشورے کی فیس بھی دی جائے گی
حل کریں گے روٹی' کپڑے اور مکانوں کا سوال
ایڈ میں جنت خدا سے مانگے کا ہے سوال
مل گئی جنت تو پھر جنت کے سب توشے بھی مفت
ٹوکرے آموں کے اور انگور کے خوشے بھی مفت
آبِ کوثر بھی ملے گا' دودھ کی نہریں بھی مفت
جو ابھی سے اٹھ رہی ہیں دل میں وہ لہریں بھی مفت
متفق ہیں آپ اس منشور سے بتلائیے
داخلہ اوپن ہے' دروازہ کھلا ہے آئیے
امیرالاسلام ہاشمی کی نظمیں ''رشوت نامہ'' اور ''اقبال تیرے دیش'' بھی نظمیں نہیں نوحے ہیں۔ بقول ڈاکٹر ابواللیث صدیقی یہ ایک ایسے شاعر کا کلام ہے جسے اپنی تہذیب و معاشرت کی روایات بے حد عزیز ہیں لیکن وہ قدامت پرست یا رجعت پسند ہرگز نہیں۔ اعتدال جو حسن کلام کی شرط ہے ان کے ہاں پوری طرح محفوظ ہے۔
خود ہاشمی صاحب اپنے کلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں، سنیے!
نہ میرے شعر ہیں وزنی نہ ان میں ندرت ہے
مگر یہ سوچیے' یہ حسب حال کتنے ہیں