معیاری اشیا خوردنی نایاب
کھانے کا آئل، گھی، مصالحہ جات، بچوں کی خوراک خصوصاً دودھ و دیگر اشیائے خوردنی کمپنیوں میں تیار ہوتی ہیں۔
معیاری اشیائے خور و نوش کی ضرورت موجودہ مفاد پرست اور ناجائز منافع خوروں کی وجہ سے بڑھ چکی ہے اور معیاری اشیائے خور ونوش تقریباً نایاب ہی ہوچکی ہیں اور یہ صورتحال پورے ملک ہی کو درپیش ہے۔
اشیائے خوردنی کے غیر معیاری اور مضر صحت ہونے کے ہولناک انکشافات پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قیام کے بعد سب سے زیادہ پہلے لاہور میں منظر عام پر آئے جب وہاں ایک خاتون افسر عائشہ ممتازکو پنجاب فوڈ اتھارٹی کی سربراہی دی گئی تھی ۔ اشیائے خورونوش خاص کر گھروں میں کھانے پینے میں استعمال ہونے والی اشیا کی اہمیت اور ضرورت زیادہ تر خواتین ہی مردوں سے بہتر سمجھتی ہیں جو گھروں میں کھانے بناتی یا اپنی نگرانی میں بنواتی ہیں کیونکہ مردوں کو صرف کھانے یا کھانوں میں عیب نکالنے ہی سے دلچسپی ہوتی ہے۔
گھی، تیل، مصالحہ جات ، دالیں، آٹا، چاول، چینی و دیگر گھریلو اشیا کا ہماری صحت اور زندگی میں اہم کردار ہے جس سے ہماری آمدنی ہی نہیں بلکہ صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور موجودہ دور میں بے شمار بیماریوں کا تعلق ہماری غیر معیاری اور مضر صحت خوراک سے ہے۔ گھروں میں خواتین خاص طور پر اور مرد حضرات کوشش تو کرتے ہیں کہ ان کے گھروں میں معیاری اشیائے خوردنی آئیں جس کی وجہ سے وہ اپنا اطمینان کرکے ہی یہ چیزیں خریدتے ہیں۔
غریب گھرانوں میں پیک مصالحوں کا اتنا استعمال نہیں ہے جتنا متوسط اور پوش گھرانوں میں ہے جہاں وہ لوگ اپنی اطمینان کی کمپنی کے تیار کردہ مصالحے، گھی، آئل، چاول، آٹا اور نمک تک خریدتے ہیں۔ ایک عرصے سے لوگ کھانوں کے ذائقے بڑھانے کے لیے ایک مہنگا چینی نمک اجینو موتو خاص طور پر استعمال کرتے تھے جس کو غیر معیاری قرار پاکر سپریم کورٹ نے اب اس پر پابندی عاید کی ہے۔
اشیائے خوردنی بلکہ دیگر اشیا کے معیار پر نظر رکھنے کے لیے وفاقی حکومت کا ادارہ کوالٹی کنٹرول موجود ہے جب کہ چند سال قبل تک چھوٹے بڑے شہروں کے بلدیاتی اداروں کے پاس یہ ذمے داری ہوتی تھی۔ بڑے بلدیاتی اداروں میں ڈائریکٹر فوڈ اور چھوٹے بلدیاتی اداروں میں فوڈ انسپکٹر ہوتے تھے جو اپنی اس ذمے داری کو عوام کی صحت سے زیادہ اپنی کمائی کا ذریعہ قرار دیتے تھے اور جن اداروں اور دکانوں سے انھیں ماہانہ رشوت نہیں ملتی تھی وہیں سے وہ اشیائے خوردنی کے سیمپل حاصل کرکے سیل کرتے تھے اور سرکاری لیبارٹری میں چیک ہونے بھیج دیتے تھے۔ راقم جب خود بلدیہ شکارپور میں کونسلر تھا تو فوڈ انسپکٹر کے ذریعے چھاپے لگوائے جاتے تھے، اس وقت روہڑی میں سرکاری لیبارٹری ہوتی تھی جہاں اشیا غیر معیاری ثابت ہونے پر مذکورہ دکانداروں کے چالان ہوتے تھے تو عدالتوں سے ان پر جرمانے ہوجاتے تھے۔
جن لوگوں کو اپنی سیمپل غیر معیاری ہونے کا پتا تھا وہ فوڈ انسپکٹر سے بناکر رکھتے تھے یا لیبارٹری والوں کو رشوت دے کر سیمپل پاس کرالیتے اور ملاوٹ جاری رکھتے تھے۔ گھروں میں تیار ہونے والی اشیا پر تو خواتین کی نظر ہوتی ہے مگر ریسٹورنٹس کے کھانوں، چائے کے ہوٹلوں، بیکری مصنوعات بنانے، دودھ فروخت کرنے اور آج کل کے منرل واٹر بنانے والوں پر کسی کی نظر نہیں کہ وہاں کیا پک رہا ہے کیا بن اورکیا فروخت ہورہا ہے۔
کھانے کا آئل، گھی، مصالحہ جات، بچوں کی خوراک خصوصاً دودھ و دیگر اشیائے خوردنی کمپنیوں میں تیار ہوتی ہیں اور پیک کرکے مارکیٹ بھیج دی جاتی ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے ایکشن پر منظر عام پر آیا ہے کہ ہر سفید لیکوڈ دودھ اور کھانے کی چیزیں خوراک نہیں ہیں اورکمپنیوں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ واضح کریں کہ اس میں کیا اور کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے۔جو کام وفاقی و صوبائی حکومتوں اور ان کے متعلقہ اداروں اور بلدیاتی اداروں کے کرنے کے ہیں وہ اب عدالتوں کو کرنا پڑ رہے ہیں اور متعلقہ اداروں نے عوام کو ان کی صحت کے دشمنوں اور ناجائز منافع کمانے کے لیے حلال حرام جائز ناجائز سب کچھ کر گزرنے والوں کے حوالے کر رکھا ہے جو عوام کو نقصان دہ اور مضر صحت اشیا کھلانے اور پلانے سے بھی گریز نہیں کررہے۔ ہر بڑے شہر میں سرکاری طور پر عوام کو پینے کا جو مضر صحت پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔
اس کی حقیقت کا علم بھی اب عوام کو سپریم کورٹ کی جانب سے جواب طلبی اور سندھ واٹر کمیشن بننے کے بعد ہو رہا ہے ، جب سرکاری محکمے اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں تو نجی اداروں سے کیا بعید جن کا ایمان صرف اپنی تجوریاں بھرنا رہ گیا ہے کیونکہ انھیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ پنجاب بھر میں فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں میں بڑے ہوٹلوں، مٹھائی و بیکرز، اشیائے خوردنی بنانے والے اداروں پر چھاپے لگے۔ ہزاروں من مضر صحت دودھ ضایع کیا گیا۔
حرام گوشت فروخت کرنے والے پکڑ میں آئے تو پتا چلا کہ کھانے پینے کی اشیا تیار کرنے والی مشہور کمپنیاں کیا گل کھلاتی رہیں اور عوام ان کی اشیا اپنے اندھے اعتماد کے ساتھ استعمال کرتے رہے اور اپنی صحت کا نقصان کرتے رہے ہیں۔ ملاوٹ ہمارے مذہب میں گناہ ہے اور اب ایسا مذموم کاروبار کرنے والے گناہ تو کما ہی رہے ہیں بلکہ جرم کرکے عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ جنھیں کوئی پکڑنے والا نہیں۔
پنجاب کے بعد اب سندھ حکومت کو سندھ فوڈ اتھارٹی بنانے کا ہوش آیا تو صرف کراچی کے لیے باقی سندھ میں اتھارٹی کچھ نہیں کرے گی کیونکہ الیکشن سر پر ہیں اور پیپلزپارٹی اپنا ووٹ برقرار رکھنے کے لیے اندرون سندھ مضر صحت اشیا کے خلاف کارروائی نہیں چاہتی وہاں جو چاہے ہوتا رہے مگر سندھ فوڈ اتھارٹی کا دائرۂ کار سیاسی مفاد کے لیے صرف کراچی تک محدود رکھا گیا ہے اور باقی صوبوں سے تو یہ بھی نہ ہوسکا کہ وہ بھی اپنے صوبوں میں کوئی فوڈ اتھارٹی ہی بنا دیتے۔