ایڈوانی گھٹی
گھٹی کہنے کا اپنا مزہ ہے، جیسے سندھ کے لفظ ’’پڑ‘‘ کا ترجمہ ’’علم‘‘ تو ضرور ہے، مگر تشنہ ہے۔
حیدرآباد سندھ ایک خوبصورت شہر تھا، مفادات کے کھیل سے پہلے، اس کھیل سے سب سے زیادہ نقصان حیدرآباد اور لاڑکانہ کو پہنچا، دونوں تہذیبی شہر تھے، ہم آہنگی، رواداری، خلوص اور محبت کا پرتو، یہ سب اب کب ہوسکے گا بہت مشکل ہے۔ اب ہر جگہ حرص و ہوس کے سیمنٹ کے جنگل ٹھہرے ہیں جہاں ہوائیں سسکیاں لے رہی ہیں۔
سندھی زبان کے بے شمار خوبصورت صوتی الفاظ میں سے ایک لفظ ''گھٹی'' (Ghitti) ہے یہ سندھ کے شہروں میں ہر جگہ پائی جاتی ہے اور قصبات اور گوٹھ (Goth) یعنی گاؤں میں بھی ہے۔
گھٹی (Street) کو کہتے ہیں اردو میں بھی ایک میٹھا سا لفظ ''گلی'' ہے، تو گھٹی اورگلی دونوں استعمال ہوتے ہیں اب مگر گھٹی کہنے کا اپنا مزہ ہے، جیسے سندھ کے لفظ ''پڑ'' کا ترجمہ ''علم'' تو ضرور ہے، مگر تشنہ ہے۔ ''فقیر جو پڑ'' ایک مکمل لفظ ہے اور اس کا اردو ترجمہ صرف ''جو'' کو ''کا'' میں تبدیل کرکے ''فقیر کا پڑ'' تو کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں مگر ''پڑ'' ، ''پڑ'' ہی رہا۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ ریڈیو کی ملازمت کے دوران ایک بار شور ہوا کہ علامہ اقبال کے کلام کا سندھی ترجمہ کرکے گایا جائے اور نشر کیا جائے ،تو اس وقت کے اسٹاف آرٹسٹوں میں معروف سندھی شاعر مظفر حسین جوش بھی تھے میں بھی اسٹاف آرٹسٹ ایسوسی ایٹ پروڈیوسر تھا۔ تو مظفر حسین جوش نے جو ترجمہ کیا جو ریکارڈ کیا گیا، آج بھی نشر ہوتا ہے وہ تھا۔
خودی جو سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی آ تیغ فشاں لا الہ الا اللہ
فارسی یا اردو کے ''کا'' اور ''ہے'' کو ''جو'' اور ''آ'' میں تبدیل کردیا، اب کوئی پوچھے عقلمندوں سے کہ بقیہ کلام فارسی سندھ کے گوٹھوں، پڑوں میں کون سمجھانے جائے گا۔ آخر فارسی کلام کیوں ضروری تھا ؟ یہ ہے '' فقیر جو پڑ'' اور فقیر کا پڑ! یہ تو ایک ''قصہ معترضہ'' درمیان میں آگیا بات ''گھٹی'' کی ہو رہی تھی۔ میں نے سندھ کے بیشتر شہر دیکھے ہیں دوران ملازمت فنکشنز کی کوریج کے لیے سرکاری طور پر جانا ہوتا تھا، ریڈیو کراچی کا دائرہ ٹھٹھہ سے پہلے تک تھا، بقیہ پورے سندھ پر ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا راج تھا اور میں آؤٹ ڈور کوریج کا شہزادہ جو اپنے گھر پر کم ہی رہتا تھا، ریسٹ ہاؤسز انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور پی آئی ڈی کے ڈائریکٹرز کے دفاتر اور ہوٹلوں میں زندگی کا خاصہ عرصہ گزرا ۔ یوں گھٹیاں یا گلیاں اردو میں اور ''گھٹیون'' سندھی میں بہت دیکھیں۔
میرا شہر حیدرآباد تھا آج بھی ہے، بہتر مستقبل کے لیے بھی میں یہاں رہا اور وہ خود چل کر میرے پاس آگیا ، زمین سے وفاداری میرے خمیر میں ہے، والد اور دوسرے بزرگ یہاں ہی آسودہ خاک ہیں، توقع کرتا ہوں کہ میں مٹ کر بھی اس کا ہی حصہ رہوں گا۔ جانتا صرف خدا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی گھٹی کی، حیدرآباد میں بہت ساری گلیوں یا گھٹیوں میں سے ایک '' ایڈوانی'' گھٹی ہے۔ یہ گلی آج کل میڈیسن کی بہت بڑی مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ چاڑھی سندھی کا ایک اور لفظ ہے جس کا ترجمہ ہے چڑھائی۔ یہ بھی حیدرآباد اور سکھر میں زیادہ ہیں سکھر میں نیم کی چاڑھی یا لوکس پارک کی چاڑھی مشہور ہے۔
حیدرآباد میں پکا قلعہ چاڑھی، کچا قلعہ چاڑھی، ہوم اسٹیڈ ہال چاڑھی، بھائی خان چاڑھی، کوہ نور یا سابقہ نام کہکشاں چاڑھی، ملک چاڑھی، چھوٹکی گھٹی چاڑھی، سرفراز چاڑھی، جیل چاڑھی، ایسے ہی دوسری سمت سے یعنی گورنمنٹ کالج سے پیرآباد چاڑھی، فردوس کالونی سے مارکیٹ چاڑھی اور پنجرہ پول سے مہتاب سینما چاڑھی، تین نمبر تالاب سے دو نمبر اور پھر قلعہ چاڑھی وغیرہ مشہور ہیں۔ ایئرپورٹ چاڑھی لطیف آباد میں ہے اسے امانی شاہ چاڑھی بھی کہتے ہیں۔ حیدرآباد شہر ایک بہت بڑے ٹیلے پر قائم ہے۔ فقیر کا پڑ چاڑھی کا ذکر نہ رہ جائے جو گوشت اور سبزیوں اور مچھلی کے کاروبار سے مشہور ہے۔
ایڈوانی گھٹی، چھوٹکی گھٹی چاڑھی پر آپ براہ راست یا بلدیہ چاڑھی سے اوپر پہنچیں گے تو بائیں ہاتھ پر گلی ہے اور میڈیسن کی ہول سیل مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ کرائے اور دکانوں مکانوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ یہ گلی یا گھٹی بھارت کے مسلمان دشمن لیڈر اور بابری مسجد کے انہدام کے ذمے داران لیڈروں میں سے ایک ایل کے ایڈوانی کے یقینا ان کے برعکس نیک سیرت اور انسان دوست بزرگوں کے نام پر ایڈوانی گھٹی ہے اور اچھا ہے کہ یہاں گلی محلوں کے نام تبدیل کرکے ہندو باغ سے مسلم باغ نہیں کیے گئے یہ تنگ نظری اور ناانصافی ہے جہاں بھی کیا گیا ہے۔
یہی ایڈوانی گھٹی حیدرآباد سندھ میں پیدا ہونے والے مسلم دشمن لیڈر اس گھٹی اور اس شہر کے بارے میں فرماتے ہیں سندھ بھارت کا حصہ نہیں ہے یہ بہت دکھ کی بات ہے۔ انڈیا فاؤنڈیشن کی ایک تقریب میں جس میں بھارت نواز بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد بھی موجود تھیں ایل کے ایڈوانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی صوبہ سندھ جہاں میں پیدا ہوا آزاد بھارت کا حصہ نہیں ہے جس پر مجھے دکھ ہے ایل کے ایڈوانی کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ میں سے کتنے لوگوں کو اس احساس کا پتا ہے جب انڈیا آزاد نہیں ہوا تھا برطانوی حکومت کے ماتحت تھا ایسے ہی ایک حصے میں پیدا ہوا تھا جب انڈیا آزاد ہوگیا اور ہماری آزادی کے ساتھ اس کے دو حصے بھی الگ ہوگئے اور وہ سندھ جہاں میں پیدا ہوا تھا بھارت کا حصہ نہیں ہے اور ہمارے ساتھ نہیں ہے۔
میں اور میرے ساتھی اس حصے میں رہتے تھے وہ اب دکھ محسوس کرتے ہیں جب بنگلہ دیشی وزیر اعظم ہمارے یہاں آئیں تو میں نے اپنی اس ذہنی اذیت کا ذکر کرنے کا سوچا ۔ ایڈوانی صاحب ویسے تو آپ کو اس پاکستانی حکومت کی سپورٹ حاصل ہے جو کبھی کشمیریوں کا واضح ذکر نہیں کرتی اور ذہنی طور پر جاتی امرا میں رہتی ہے۔ چار کشمیر کا نام نہیں لیا جو پاکستان کا حصہ ہے۔ جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن پر تو آپ نے ناجائز قبضہ پہلے ہی کر لیا تھا اور کسی نے آواز تک نہیں اٹھائی۔
اگر یہ حصہ خدانخواستہ سات قرن درمیان آپ کے پاس ہوتا تو گائے کے بدلے آپ یہاں بھی مسلمانوں کو شہید کر رہے ہوتے۔ یہاں کے لوگوں کی بھی عزتیں محفوظ نہ ہوتیں ۔ آپ کو علاقے کا افسوس ہے ہم حکومت پر دکھی ہیں۔ قائد اعظم کے بعد ہمیں سچی پاکستانی حکومت نہیں ملی اور اب تک نہیں ہے آگے اللہ جانے جمہوری فروخت ہوتی رہی اور اس کا ذمے دار وہ ہے جس کا موٹو ہے ''تجارت، مال'' اور کچھ نہیں، سرحدوں کا کیا حال ہے روز بھارتی شہید کر رہے ہیں پاکستانیوں کو یا کشمیریوں کو اور یہ مجھے اقتدار سے کیوں نکالا کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر کی دولت جمع کرکے بھی پیٹ نہ بھرا ۔
پاکستان میں بھی وہ لوگ رہتے ہیں جو وہاں کے علاقوں میں پیدا ہوئے جہاں ایڈوانی اب ہیں ۔ میں دھولپور میں پیدا ہوا تو میں چاہتا ہوں دھولپور پاکستان میں ہو وہاں میرے نام کا ایک محل ''نور منزل'' موجود ہے میرے بزرگوں کا ،وہ پاکستان میں شامل ہوجائے مجھے بہت دکھ ہے کہ اجمیر میرا ننھیال بھارت میں کیوں رہ گیا۔ وہ پاکستان میں ہوتا۔ آپ ایک غاصب ملک کے باشندے ہیں جس نے لوگوں کے علاقے اور آزادی سلب کر رکھی ہے۔ جس نے پورے علاقے میں دہشت گردی مچا رکھی ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، میانمار سب جگہ نفرت کے بیج بو رکھے ہیں بھارت اور افغانستان کے ضمیر فروش مل کر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
مگر آپ بھول جاتے ہیں کہ قیام پاکستان ایک معجزہ اور قدرت کا فیصلہ ہے، مشرقی پاکستان نہیں رہ سکتا تھا وہاں کے لیڈر شروع سے یہی سوچ رہے تھے جو انھوں نے کیا اور تقسیم پاکستان کے ظلم اور خون خرابے کو مات کردیا، مسلمان ہو کر مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اور کر رہے ہیں۔ پاکستان مستحکم اور مضبوط ہو رہا ہے۔ پاکستان دشمن لوگوں کی حکومت ختم ہونے والی ہے اور سماج پر پاکستانی سوچ اور عمل کا راج ہوگا بہت جلد۔ آپ بے فکر رہیں ایڈوانی صاحب، اس گلی کا نام یہی رہے گا۔ جب کبھی آپ کو ظلم اور ناانصافی سے فرصت ملے آئیے گا۔ ہم مسلمان ہیں آپ کو ایڈوانی گھٹی میں خوش آمدید کہیں گے انشا اللہ!
سندھی زبان کے بے شمار خوبصورت صوتی الفاظ میں سے ایک لفظ ''گھٹی'' (Ghitti) ہے یہ سندھ کے شہروں میں ہر جگہ پائی جاتی ہے اور قصبات اور گوٹھ (Goth) یعنی گاؤں میں بھی ہے۔
گھٹی (Street) کو کہتے ہیں اردو میں بھی ایک میٹھا سا لفظ ''گلی'' ہے، تو گھٹی اورگلی دونوں استعمال ہوتے ہیں اب مگر گھٹی کہنے کا اپنا مزہ ہے، جیسے سندھ کے لفظ ''پڑ'' کا ترجمہ ''علم'' تو ضرور ہے، مگر تشنہ ہے۔ ''فقیر جو پڑ'' ایک مکمل لفظ ہے اور اس کا اردو ترجمہ صرف ''جو'' کو ''کا'' میں تبدیل کرکے ''فقیر کا پڑ'' تو کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں مگر ''پڑ'' ، ''پڑ'' ہی رہا۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ ریڈیو کی ملازمت کے دوران ایک بار شور ہوا کہ علامہ اقبال کے کلام کا سندھی ترجمہ کرکے گایا جائے اور نشر کیا جائے ،تو اس وقت کے اسٹاف آرٹسٹوں میں معروف سندھی شاعر مظفر حسین جوش بھی تھے میں بھی اسٹاف آرٹسٹ ایسوسی ایٹ پروڈیوسر تھا۔ تو مظفر حسین جوش نے جو ترجمہ کیا جو ریکارڈ کیا گیا، آج بھی نشر ہوتا ہے وہ تھا۔
خودی جو سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی آ تیغ فشاں لا الہ الا اللہ
فارسی یا اردو کے ''کا'' اور ''ہے'' کو ''جو'' اور ''آ'' میں تبدیل کردیا، اب کوئی پوچھے عقلمندوں سے کہ بقیہ کلام فارسی سندھ کے گوٹھوں، پڑوں میں کون سمجھانے جائے گا۔ آخر فارسی کلام کیوں ضروری تھا ؟ یہ ہے '' فقیر جو پڑ'' اور فقیر کا پڑ! یہ تو ایک ''قصہ معترضہ'' درمیان میں آگیا بات ''گھٹی'' کی ہو رہی تھی۔ میں نے سندھ کے بیشتر شہر دیکھے ہیں دوران ملازمت فنکشنز کی کوریج کے لیے سرکاری طور پر جانا ہوتا تھا، ریڈیو کراچی کا دائرہ ٹھٹھہ سے پہلے تک تھا، بقیہ پورے سندھ پر ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا راج تھا اور میں آؤٹ ڈور کوریج کا شہزادہ جو اپنے گھر پر کم ہی رہتا تھا، ریسٹ ہاؤسز انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور پی آئی ڈی کے ڈائریکٹرز کے دفاتر اور ہوٹلوں میں زندگی کا خاصہ عرصہ گزرا ۔ یوں گھٹیاں یا گلیاں اردو میں اور ''گھٹیون'' سندھی میں بہت دیکھیں۔
میرا شہر حیدرآباد تھا آج بھی ہے، بہتر مستقبل کے لیے بھی میں یہاں رہا اور وہ خود چل کر میرے پاس آگیا ، زمین سے وفاداری میرے خمیر میں ہے، والد اور دوسرے بزرگ یہاں ہی آسودہ خاک ہیں، توقع کرتا ہوں کہ میں مٹ کر بھی اس کا ہی حصہ رہوں گا۔ جانتا صرف خدا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی گھٹی کی، حیدرآباد میں بہت ساری گلیوں یا گھٹیوں میں سے ایک '' ایڈوانی'' گھٹی ہے۔ یہ گلی آج کل میڈیسن کی بہت بڑی مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ چاڑھی سندھی کا ایک اور لفظ ہے جس کا ترجمہ ہے چڑھائی۔ یہ بھی حیدرآباد اور سکھر میں زیادہ ہیں سکھر میں نیم کی چاڑھی یا لوکس پارک کی چاڑھی مشہور ہے۔
حیدرآباد میں پکا قلعہ چاڑھی، کچا قلعہ چاڑھی، ہوم اسٹیڈ ہال چاڑھی، بھائی خان چاڑھی، کوہ نور یا سابقہ نام کہکشاں چاڑھی، ملک چاڑھی، چھوٹکی گھٹی چاڑھی، سرفراز چاڑھی، جیل چاڑھی، ایسے ہی دوسری سمت سے یعنی گورنمنٹ کالج سے پیرآباد چاڑھی، فردوس کالونی سے مارکیٹ چاڑھی اور پنجرہ پول سے مہتاب سینما چاڑھی، تین نمبر تالاب سے دو نمبر اور پھر قلعہ چاڑھی وغیرہ مشہور ہیں۔ ایئرپورٹ چاڑھی لطیف آباد میں ہے اسے امانی شاہ چاڑھی بھی کہتے ہیں۔ حیدرآباد شہر ایک بہت بڑے ٹیلے پر قائم ہے۔ فقیر کا پڑ چاڑھی کا ذکر نہ رہ جائے جو گوشت اور سبزیوں اور مچھلی کے کاروبار سے مشہور ہے۔
ایڈوانی گھٹی، چھوٹکی گھٹی چاڑھی پر آپ براہ راست یا بلدیہ چاڑھی سے اوپر پہنچیں گے تو بائیں ہاتھ پر گلی ہے اور میڈیسن کی ہول سیل مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ کرائے اور دکانوں مکانوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ یہ گلی یا گھٹی بھارت کے مسلمان دشمن لیڈر اور بابری مسجد کے انہدام کے ذمے داران لیڈروں میں سے ایک ایل کے ایڈوانی کے یقینا ان کے برعکس نیک سیرت اور انسان دوست بزرگوں کے نام پر ایڈوانی گھٹی ہے اور اچھا ہے کہ یہاں گلی محلوں کے نام تبدیل کرکے ہندو باغ سے مسلم باغ نہیں کیے گئے یہ تنگ نظری اور ناانصافی ہے جہاں بھی کیا گیا ہے۔
یہی ایڈوانی گھٹی حیدرآباد سندھ میں پیدا ہونے والے مسلم دشمن لیڈر اس گھٹی اور اس شہر کے بارے میں فرماتے ہیں سندھ بھارت کا حصہ نہیں ہے یہ بہت دکھ کی بات ہے۔ انڈیا فاؤنڈیشن کی ایک تقریب میں جس میں بھارت نواز بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد بھی موجود تھیں ایل کے ایڈوانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی صوبہ سندھ جہاں میں پیدا ہوا آزاد بھارت کا حصہ نہیں ہے جس پر مجھے دکھ ہے ایل کے ایڈوانی کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ میں سے کتنے لوگوں کو اس احساس کا پتا ہے جب انڈیا آزاد نہیں ہوا تھا برطانوی حکومت کے ماتحت تھا ایسے ہی ایک حصے میں پیدا ہوا تھا جب انڈیا آزاد ہوگیا اور ہماری آزادی کے ساتھ اس کے دو حصے بھی الگ ہوگئے اور وہ سندھ جہاں میں پیدا ہوا تھا بھارت کا حصہ نہیں ہے اور ہمارے ساتھ نہیں ہے۔
میں اور میرے ساتھی اس حصے میں رہتے تھے وہ اب دکھ محسوس کرتے ہیں جب بنگلہ دیشی وزیر اعظم ہمارے یہاں آئیں تو میں نے اپنی اس ذہنی اذیت کا ذکر کرنے کا سوچا ۔ ایڈوانی صاحب ویسے تو آپ کو اس پاکستانی حکومت کی سپورٹ حاصل ہے جو کبھی کشمیریوں کا واضح ذکر نہیں کرتی اور ذہنی طور پر جاتی امرا میں رہتی ہے۔ چار کشمیر کا نام نہیں لیا جو پاکستان کا حصہ ہے۔ جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن پر تو آپ نے ناجائز قبضہ پہلے ہی کر لیا تھا اور کسی نے آواز تک نہیں اٹھائی۔
اگر یہ حصہ خدانخواستہ سات قرن درمیان آپ کے پاس ہوتا تو گائے کے بدلے آپ یہاں بھی مسلمانوں کو شہید کر رہے ہوتے۔ یہاں کے لوگوں کی بھی عزتیں محفوظ نہ ہوتیں ۔ آپ کو علاقے کا افسوس ہے ہم حکومت پر دکھی ہیں۔ قائد اعظم کے بعد ہمیں سچی پاکستانی حکومت نہیں ملی اور اب تک نہیں ہے آگے اللہ جانے جمہوری فروخت ہوتی رہی اور اس کا ذمے دار وہ ہے جس کا موٹو ہے ''تجارت، مال'' اور کچھ نہیں، سرحدوں کا کیا حال ہے روز بھارتی شہید کر رہے ہیں پاکستانیوں کو یا کشمیریوں کو اور یہ مجھے اقتدار سے کیوں نکالا کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر کی دولت جمع کرکے بھی پیٹ نہ بھرا ۔
پاکستان میں بھی وہ لوگ رہتے ہیں جو وہاں کے علاقوں میں پیدا ہوئے جہاں ایڈوانی اب ہیں ۔ میں دھولپور میں پیدا ہوا تو میں چاہتا ہوں دھولپور پاکستان میں ہو وہاں میرے نام کا ایک محل ''نور منزل'' موجود ہے میرے بزرگوں کا ،وہ پاکستان میں شامل ہوجائے مجھے بہت دکھ ہے کہ اجمیر میرا ننھیال بھارت میں کیوں رہ گیا۔ وہ پاکستان میں ہوتا۔ آپ ایک غاصب ملک کے باشندے ہیں جس نے لوگوں کے علاقے اور آزادی سلب کر رکھی ہے۔ جس نے پورے علاقے میں دہشت گردی مچا رکھی ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، میانمار سب جگہ نفرت کے بیج بو رکھے ہیں بھارت اور افغانستان کے ضمیر فروش مل کر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
مگر آپ بھول جاتے ہیں کہ قیام پاکستان ایک معجزہ اور قدرت کا فیصلہ ہے، مشرقی پاکستان نہیں رہ سکتا تھا وہاں کے لیڈر شروع سے یہی سوچ رہے تھے جو انھوں نے کیا اور تقسیم پاکستان کے ظلم اور خون خرابے کو مات کردیا، مسلمان ہو کر مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اور کر رہے ہیں۔ پاکستان مستحکم اور مضبوط ہو رہا ہے۔ پاکستان دشمن لوگوں کی حکومت ختم ہونے والی ہے اور سماج پر پاکستانی سوچ اور عمل کا راج ہوگا بہت جلد۔ آپ بے فکر رہیں ایڈوانی صاحب، اس گلی کا نام یہی رہے گا۔ جب کبھی آپ کو ظلم اور ناانصافی سے فرصت ملے آئیے گا۔ ہم مسلمان ہیں آپ کو ایڈوانی گھٹی میں خوش آمدید کہیں گے انشا اللہ!