بیگم حضرت محل کی یاد میں
بیگم حضرت محل کا یہ قول برصغیر کے لوگوں کے لیے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
1857 وہ برس تھا کہ جب تجارت کے بہانے ہندوستان پر قابض ہونے والی سامراجی ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے سو برس ہو رہے تھے ۔ ہندوستان کے آزادی پسند مقدور بھر آزادی کے لیے عملی جدوجہد میں مصروف تھے ۔ البتہ یہ حریت پسند اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے ۔ البتہ 1857 میں میرٹھ کی فوجی چھاؤنی سے جنم لینے والی آزادی کی تحریک نے قلیل عرصے میں ہی ہندوستان بھرکو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔
چنانچہ اس برس ہونے والی لڑائی کو ہندوستان کے لوگوں نے جنگ آزادی و ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکار نے '' غدر'' کا نام دیا تھا ۔ اس جنگ آزادی میں برسر پیکار اگرچہ لاتعداد نام تاریخ میں ہمیں نظر آتے ہیں، البتہ ایک نام ایسا بھی ہے جس کا تذکرہ بہت کم ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے اور وہ نام ہے بیگم حضرت محل ۔ ان کی شخصیت کے بارے میں بے حد اختلاف پایاجاتا ہے یہاں تک کہ ان کے نام تک میں بھی اختلاف رائے ہے۔
ایک انگریز مورخ ان کا نام افتخار النسا جب کہ دیگر مورخین نے ان کا نام محمدی خانم تحریرکیا ہے، چلیے ہم ان کا نام محمدی خانم ہی تسلیم کرلیتے ہیں ۔ تو محمدی خانم نے 1820 کو اودھ کے مقام فیض آباد میں جنم لیا، محمدی خانم کی تعلیم و تربیت ایک رقاصہ کے انداز میں ہوئی ۔
ان والدین کا خیال تھا کہ محمدی خانم جب عہد شباب میں داخل ہوگی تو اسے نواب واجد علی شاہ کے سپرد کر دیا جائے گا تاکہ محمدی خانم کو نواب واجد علی شاہ کے دربار میں خصوصی رقاصہ کا مقام حاصل ہوجائے۔
محمدی خانم کے والدین اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور ان کی بیٹی محمدی خانم نے اول نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رقاصہ خاص کا درجہ حاصل کیا پھر نواب واجد علی شاہ کے دل میں اپنا مقام بنالیا۔ چنانچہ جلدی ہی محمدی خانم کی شادی نواب واجد علی شاہ سے کر دی گئی۔ چنانچہ نواب واجد علی شاہ نے محمدی خانم کو اپنی زوجیت میں لینے کے بعد ان کو بیگم حضرت محل کا لقب عطا کیا، البتہ جب بیگم حضرت محل کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی اور ان کے بیٹے کا نام برجیس قدر رکھا گیا تو نواب واجد علی شاہ و بیگم حضرت محل کے درمیان مزید قربت بڑھ گئی ۔
جب 1856میں نواب واجد علی شاہ کو انگریز سرکار مخالف سرگرمیوں کے باعث جلاوطن کردیاگیا، تو تمام حکومتی امور بیگم حضرت محل نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے یوں بھی نواب واجد علی شاہ انھیں ملکہ کا درجہ دے چکے تھے ۔ ریاستی امور اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد بیگم حضرت محل کی ایک نئی شخصیت سامنے آئی وہ بہترین منتظم ثابت ہوئیں اور ریاستی امور احسن طریقے سے ادا کرنے لگیں۔ اب وہ بڑی سرگرمیوں سے اس مقصد کے لیے کوشاں ہوگئیں کہ انگریز سرکار کو ہندوستان سے نکال باہر کرنا ہے۔ چنانچہ ان ہی حالات میں جنگ آزادی کا آغاز ہوگیا یہ ذکر ہے 1857 کا۔
اس موقعے پر بیگم حضرت محل کے سپہ سالاری کے جوہر بھی کھل کر سامنے آگئے۔ بیگم حضرت محل نے آزادی پسندوں سے رابطے کیے اور انھیں خوب منظم کیا اور نامور حریت رہنما نانا صاحب کو بھی اپنے ساتھ شریک جد وجہد کرلیا۔ انھوں نے اپنے بیٹے برجیس قدرکو اپنا ولی عہد نامزد کیا ، البتہ جب انگریز نے لکھنو پر قبضہ کرلیا تو انھیں تمام قسم کی عنایات عطا کرنے کی پیشکش کی گئی مگر حضرت محل نے تمام عنایات کو ٹھکرا دیا اور انگریز کے خلاف جنگ کرنے کو ترجیح دی، بیگم حضرت محل نے بہترین جنگی حکمت عملی اپنائی چونکہ وہ انگریز سرکار کی چالاکیوں اور دغا بازیوں کا خوب ادراک کر چکی تھیں۔
وہ جنگی حکمت عملی اس طرح سے چلاتیں کہ ان کی فوج کے تمام مرد و زن ان کی کمان میں خوب دادِ شجاعت دے رہے تھے، انھوں نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی ایک بہترین فوج تیار کی اور مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی جدید خطوط پر سپہ گری کی تربیت دی جب کہ جاسوسی کے شعبے میں بھی مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو دشمنوں کی صفوں میں داخل کردیا چنانچہ ان کے مقرر کردہ جاسوس بروقت انگریز سرکار کے جنگی فیصلوں سے بیگم حضرت محل کو مطلع کردیتے، بیگم حضرت محل کے جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ وہ جنگ کے دوران اپنے سپاہیوں کی صفوں میں گھس جاتیں اور ان کے حوصلے بڑھاتیں جب کہ وہ جنگی اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کی قائل تھیں ۔
یہی سبب تھا جب ان کے سپاہیوں نے کچھ انگریز فوجیوں کو گرفتار کرلیا تو سردار دلپت سنگھ بیگم حضرت محل کے پاس آیا اور یہ تجویز دی کہ انگریز فوجیوں کو میرے حوالے کردیا جائے تاکہ میں ایک ایک انگریز فوجیوں کے اعضا کاٹ کر انگریز سرکار کے پاس بھیج سکوں، سردار دلپت سنگھ کی بات بیگم حضرت محل کو سخت ناگوار گزری اور انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں سردار دلپت سنگھ کی تجویز مسترد کردی اور جواب دیا کہ ہم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ تو خود کریںگے اور نہ ہی کسی کو ایسا سلوک کرنے کی اجازت دیںگے۔ قیدیوں پر ظلم کرنے کی ہماری روایت نہیں ہے۔ ہمارے پاس جتنے بھی فرنگی فوج کے قیدی ہیں ہم ان پر اور ان کی خواتین پر کبھی ظلم و زیادتی نہیں کریںگے۔ سردار دلپت سنگھ کو دیا گیا بیگم حضرت کا جواب اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ بیگم حضرت محل قیدیوں سے بھی حسن سلوک کی قائل تھیں اور انصاف پسندی پر ان کا پختہ یقین تھا۔
بیگم حضرت محل کا یہ قول برصغیر کے لوگوں کے لیے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ یہ ہند کی پاک وصاف سرزمین ہے یہاں جب بھی کوئی جنگ بھڑکی ہے ہمیشہ ظلم کرنے والے ظالم کی شکست ہوئی ہے۔ یہ میرا پختہ یقین ہے کہ بے کسوں، مظلوموں کا خون بہانے والا یہاں کبھی اپنے گندے خوابوں کے محل کھڑے نہیں کرسکا ۔ آنے والا وقت میرے یقین کی تائید کرے گا ۔
بہرکیف 1857 کی جنگ آزادی کا یہ انجام ہوا کہ دہلی میں بہادر شاہ ظفر جب نظر بند کردیا گیا تو جنگ آزادی کا جذبہ بھی کمزور پڑنے لگا ۔ ایسے میں انگریز فوجی آفیسر ہینری ہیو لاک و جیمر آوٹ رام کی قیادت میں انگریزی فوج لکھنو پر پوری قوت سے حملہ آور ہوئی، بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالے لگوا دیے اور انگریزی فوج کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تو اپنے فوجیوں کے حوصلے بلند کرتے ہوئے کہا اب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اگرچہ بیگم حضرت محل کی مدد کے لیے عام عوام بھی بیگم حضرت محل کی حفاظت کو آگئے اور فوجیوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑائی میں شریک ہوگئے۔ البتہ بالآخر انگریز لکھنو پر قابض ہوگئے۔
اس شکست کے بعد بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ حاصل کی گو کہ شروع میں وہاں کے حکمران رانا جنگ بہادر نے پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ نیپال میں ہی سات اپریل 1879 کو بیگم حضرت محل کی وفات ہوئی اور انھیں کٹھمنڈو کی جامع مسجد کے قریبی قبرستان میں گمنام میت کے طور پردفن کردیاگیا۔ 15 اگست 1962 کو وہاں کی صوبائی حکومت نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وکٹوریہ پارک میں ان کی یاد میں سنگ مرمر کا مقبرہ کرواکر اسے بیگم حضرت محل کا نام دے دیا ۔ اپریل 2018 میں بیگم حضرت محل کی 139 ویں برسی منائی گئی ۔ ہم اتنا ضرور عرض کریںگے کہ جن مجاہدین نے ہندوستان کی آزادی کی لڑائی لڑی وہ سب ہمارے ہیروز ہیں گو کہ ان کا کس مذہب سے تعلق تھا وہ مسلم تھے، ہندو تھے یا سنگھ اس سے قطع نظر ہم ان کا احترام کرتے ہیں ۔