بجٹ 2018ء کیا عوام کو ریلیف مل سکے گا

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں معقدہ ’’پری بجٹ سیمینار ‘‘ کی رپورٹ


ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں معقدہ ’’پری بجٹ سیمینار ‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

بجٹ کی آمد آمد ہے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کی یہ روایت ہے کہ ہر سال پری بجٹ سیمینار منعقد کیا جاتا ہے۔

حسب روایت اس برس بھی اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں گزشتہ دنوں ''پری بجٹ سیمینار '' کا انعقاد کیا گیا جو تین سیشنز پر مبنی تھا۔ پہلے سیشن کے مہمان خصوصی وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو سینیٹر ہارون اختر خان تھے جبکہ مہمانان گرامی میں سابق فنانس سیکرٹری ڈاکٹر وقار مسعود، سابق چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر ارشاد، اسلامک اکانومسٹ ڈاکٹر اسد زمان، صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری شیخ عامر وحید اور گولڈ میڈلسٹ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ خرم جاہ شامل تھے۔

دوسرے سیشن کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر برائے تجارت و ٹیکسٹائل پرویز ملک تھے جبکہ مہمانان گرامی میںسابق وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب، چیئرمین بورڈ آف انوسٹمنٹ نعیم زمیندار، چیف اکانومسٹ آف پاکستان ڈاکٹر محمد ندیم جاوید، سابق ایڈوائزر ورلڈ بینک ڈاکٹر عابد حسن اور ایف بی آر کے سابق ممبر شاہد حسین اسد شامل تھے۔ تیسرے سیشن کے مہمان خصوصی وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل تھے جبکہ مہمانان گرامی میں چیئرمین ٹیکسیشن کمیٹی و کونسل ممبر انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤٹنٹس آف پاکستان اشفاق تولہ، چیئرمین پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل ڈاکٹر یوسف ظفر اور ریسرچر ایس ڈی پی آئی عرفان احمد چٹھہ شامل تھے۔ واضح رہے کہ سال 2018ء کے بجٹ کے حوالے سے یہ کسی بھی میڈیا گروپ کی جانب سے پہلا سیمینار ہے جو ایکسپریس میڈیا گروپ کا اعزاز ہے۔ سیمینار میں بجٹ کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔

ہارون اختر خان
(وزیر اعظم کے مشیر برائے ریونیو)

حکومت آئندہ سال کے بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے گی۔ فائلرز کو بریکس ملیں گی تاہم نا ن فائلرز کے لئے نان فائلر رہنا مشکل ہوجائے گا۔ ٹیکس چوری کے خاتمے کے لئے قانون سازی کی گئی ہے اور ''او ای سی ڈی'' کا رکن بننے کے اثرات آئیں گے۔ نادرا اور بنکوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں ۔ ایف بی آر میں افسران کی تعیناتی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جارہی ہے جس سے ادارے کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ حکومت کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گی مگر ٹیکس چوری کو برداشت نہیں کیاجائے گا، اس سے ملک مضبوط ہوگا کیونکہ دنیاکے تمام ترقی یافتہ ممالک بھی اسی طرح ہی مضبوط ہوئے ہیں۔کسی بھی کمپنی کا ٹیکس آڈٹ تین سال میں ایک مرتبہ ہوگا جبکہ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس آڈٹ ختم کردیا گیا ہے۔

بحیثیت قوم ہم ٹیکس کی ادائیگی کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دنیابھر میں ٹیکس کا نظام نافذ کیا جاتا ہے اورکسی بھی ملک میں ٹیکسوں کا رضاکارانہ نظام موجود نہیں ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے جس شخص کو ٹیکس نوٹس ملتا ہے وہ یہ سمجھ لیتاہے کہ اس کو ادارے کی جانب سے ہراساں کیاجارہاہے، میرے نزدیک سرمایہ کار یا قابل ٹیکس آمدنی والے شخص کوٹیکس نوٹس ملنا ہراسگی کے زمرے میں نہیں آتا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایمنسٹی سکیم کے ذریعے ملک سے باہر پڑا ہوا پیسہ واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوا، یہ سکیم محض ایک ترغیب ہے۔ایمنسٹی سکیم سے معیشت بہتر ہوگی، اس کے ذریعے 5سے 10 ارب ڈالر ملک میں واپس آنے کے امکانات ہیں۔ لوگ ٹیکس سے بچنے کیلئے اور ایف بی آر، نیب و ایف آئی اے کے ڈر سے اپنا پیسہ ملک سے باہر رکھتے ہیں ۔

ایف بی آر کو سابقہ ادوار میں بہتر کیاگیاتاہم ابھی اسے مزید بہتر کرناہے۔ میرے نزدیک اگر اس ادارے کواچھی قیادت دی جائے تو یہ بہترین کام کرے گا۔ حکومت دفاعی اخراجات، ترقیاتی پروگراموں، بجلی کی پیداوار کے منصوبوں سمیت دیگر اقدامات کے لئے فنڈز میں کمی نہیں کرسکتی۔ ہمارے ہاں رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی کا رجحان کم ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے مگر وہ ظاہر کم کرتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے گزشتہ 7 برسوںسے سرمایہ کاری نہیں کر رہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے حکومت نے بہت فائدہ اٹھایاہے تاہم یہ مستقل حل نہیں ہے۔ ہمیں پیداواری شعبے کی ترقی پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ صنعتی ترقی کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔مختلف ممالک کے ساتھ آزادتجارتی معاہدوں کے پیداواری شعبے پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس سے درآمدات میں اضافہ جبکہ مقامی صنعت متاثر ہوئی ہے۔ ملک میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں، بیرون ملک سے آنے والی زیر و ریٹڈ مصنوعات سے مطابقت نہیں کر سکتیں۔ حکومت اگر کرنٹ اکاوئنٹ خسارے اور تجارتی خسارے کو کم نہ کرسکی تو جی ڈی پی کے 7 فیصد کا ہدف حاصل نہیں ہوپائے گا ۔

پرویز ملک
(وفاقی وزیر برائے تجارت و ٹیکسٹائل)

مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنا چھٹا بجٹ پیش کرے گی جو ہمارے لئے اعزاز کی بات ہیں۔ دوسری طرف ایکسپریس میڈیا گروپ نے اپنی سابقہ روایت کے مطابق اس بار بھی سب سے پہلے پری بجٹ سیمینار کا انعقاد کرکے اپنا اعزاز برقرار رکھا ہے۔ میں ان کا مشکو ر ہوں کہ انہوں نے بجٹ کے حوالے سے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اظہارخیال کا موقع دیاہے ۔موجودہ حکومت اس بار بھی عوام دوست بجٹ پیش کرے گی جس میں تمام طبقات کو ریلیف دیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوا ز شریف کے اقدامات کے باعث ملکی بر آمدات اس سال 24ارب ڈالر تک جائیں گی جو گزشتہ سال سے 4ارب ڈالر زیادہ ہوں گی۔

رواں برس بھی مارچ میں برآمدات میں اضافہ ہوا ، برآمدات کے اضافے کیلئے کرنسی کی ری ایڈ جسٹمنٹ ہوئی اور میرے نزدیک ابھی بھی پید اواری لاگت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ سی پیک منصوبوں سے گوادر پورٹ سمیت انفراسٹرکچر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری ہوئی جبکہ حکومت بجلی کے نئے منصوبے لگا کر صنعتی شعبے کو بلا تعطل بجلی فراہم کررہی ہے جس سے اس شعبے میں بہتری آئی ہے۔ ہما ری توجہ اقتصادی ترقی پر ہے اور اس حوالے سے ہم نے اپنا ٹارگٹ 6.5فیصد ٹارگٹ رکھا ہے، ہم پر امید ہیں کہ رواں سال مالی خسارہ کم ہو گا ۔آزاد تجارتی معا ہدے کو اگرباضابطہ طریقے سے ڈیزائن کیا جائے تو یہ معیشت کی بہتری کے لیے ایک بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ترکی ، چین و دیگر ممالک کے ساتھ ایف ٹی اے کے سلسلے میں با ت چیت جاری ہے جس سے فائدہ ہوسکتا ہے جبکہ ہم نے جی ایس پی ریویو میں بھی کوالیفائی کر لیا ہے۔ ملکی معیشت میں کپاس کا حصہ 62فیصد ہو تا ہے، اس حوالے سے ہم ریسرچ پر توجہ دے رہے ہیں تاکہ کپاس کی پید اوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ ٹریڈ پالیسی میں کا روباری افراد کے تمام تحفظات کو دور کیا گیا ہے، ہماری حکومت کی مدت ختم ہونے میں کم وقت باقی ہے لہٰذا اس میں بھی لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے مزید کام کریں گے۔ آزاد تجارتی معاہدوں پر مشاورت کے بعد انہیں برآمدات کے لیے سازگار بنایا جا سکتا ہے۔ ترکی، چین و دیگر ممالک کے ساتھ اس سلسلے میں بات کر رہے ہیں۔ چین کے ساتھ انڈرانوائسنگ کے خاتمہ کے لیے اقدامات ایڈوانس سطح پر ہیں۔ ایران کے ساتھ بینکاری کے شعبے میں تعلقات کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے۔ جلد پاکستانی بینک ایران میں کام کرنا شروع کر دیں گے۔

رانا محمد افضل
(وزیر مملکت برائے خزانہ)


میں ایکسپریس میڈیا گروپ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پری بجٹ سیمینار کا انعقاد کیا۔ ہم بھی ٹریڈ باڈیز اور ایسو سی ایشن کے ساتھ مل کر بجٹ پر کام کر رہے ہیں لہٰذا اس سے اچھی تجاویز سامنے آئیں گی۔ ہم نے بہت مشکل حالات میں حکومت سنبھالی۔ ہمسائیہ ملک میں 70 برس سے ایک ہی نظام چل رہا ہے جس کے باعث وہاں بہتری آئی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میںکسی ایک نظام کے جا ری نہ رہنے کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔ حکومت ایک ایسا ادارہ ہے جو پیسے اکٹھے کر کے عوام پر خرچ کر تا ہے لیکن ہم اعتما د کی کمی میں الجھے ہیں۔بعض سیکٹر ز پر زیا دہ ٹیکس لاگو ہیں جبکہ بعض سیکٹر پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایگری کلچر سیکٹر جی ڈی پی کا 19فیصد ہے لیکن ٹیکس ادائیگی میں حصہ ایک فیصد ہے ۔

ہمیں ٹیکس کے حصول کے لیے قانون نافذ کرنے کے لیے کہا جا تا ہے لیکن ٹیکس چور کی نشاندہی کرنے کی کوئی جرات نہیں کر تا ۔ حکومت اور ایف بی آر جن پر بے شمار الزمات ہیں، ٹیکس وصولی 1.9کھرب سے بڑھاتے ہوئے 4کھرب تک لے آئے یقینا سسٹم کو مزید بہتر کرنے کی ضرور ت ہے۔ معیشت پر ذمہ دارانہ سوچ کے ساتھ سیا ست ہونی چاہیے ۔ گزشتہ 10 برسوں میں پہلی مرتبہ جی ڈی پی 5فیصد سے اوپر آئی ہے۔ حکومت پر قرضے لینے کا الزام لگایا جا تا ہے۔ بجٹ میں پانچ ارب ڈالر کا خسارہ ہو تا ہے لہٰذا زندہ رہنے کیلئے گزشتہ پانچ برسوں میں 25ارب روپے کے قرضے لیے۔ ملک میں انفراسٹرکچر کی بنیاد ی کمزوریوں پر کام ہوا اور بجلی گھر لگ رہے ہیں۔ یہ خسارہ بہت زیادہ در آمدات کے باعث ہے۔

دو ماہ بعد ہماری حکومت کی مدت پوری ہونے والی ہے جس میں مزید قرضہ لینا پڑے گا تاکہ نئی آنے والی حکومت کے لیے ریزور چھوڑ کر جائیں ۔ ملک کی ٹیکس کولیکشن ہما رے دور حکومت میں ڈبل ہو گئی ہے اور قرضہ کے حصول کے استعداد کار میںبھی اضافہ ہوا ہے لیکن ملکی ترقی کے لیے قرضہ لینا ضرور ی ہے کیونکہ اگلے سال وہ منصوبہ 15فیصد مہنگا ہو جائے گا۔ ہم معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھار ہے ہیں۔ نفاذ کو بہتر بنانے کے لیے سملنگ والے بارڈرز پر باڑ لگا ئی جا رہی ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کنٹینر ز پر ٹریکرز لگا دیے گئے ہیں جبکہ ا بھی بہت کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ میں تمام ٹریڈ باڈیز کو یقین دلا تا ہوں کہ ہم ان کے مسائل سے آگاہ ہیں اور حل کے لیے کوشاں ہیں۔ ود ہولڈ نگ ٹیکس کے ماڈل میں کوئی نقص نہیں ہے۔ 4 لاکھ روپے کے ٹیکس گراف کو اوپر لیکر جا نا چاہتے ہیں۔ ہم نے زرعی شعبے میں 700ارب روپے کی فنانسنگ کی اور برآمدی سیکٹر کے لیے بھی پیکیج دیا تاکہ معیشت میں بہتری لائی جا سکے۔

نعیم زمیند ار
(چیئرمین بورڈ آف انوسٹمنٹ )

ہمیں اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جنہیں انٹر پر ینیو رشپ اور سرمایہ کاری کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کی سطح 18فیصد ہے جو بہت کم ہے جبکہ دیگر ممالک میں یہ شرح 25فیصد ہے لہٰذا ہمیںا س حوالے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں سی پیک منصوبہ ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کیلئے بھی گیم چینجر ہے۔اس منصوبہ کے نتیجے میں ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوگی، خاص طور پر سی پیک کے تحت اقتصادی زون بنیں گے جو بہت بڑا قدم ہے۔ اقتصادی زون میں بڑی تعداد میں انڈسٹریز لگیں گی لہٰذا ہمیں اس کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہما رے انٹر پرینیور ایک جد ت لائیں کیونکہ ہمیں اپنی کمپنیوں کو کامیاب بنانا ہے۔ ملک میں اس وقت موبائل فون بڑے پیمانے پر استعمال ہورہے ہیں اور یہ تمام موبائل فون دیگر ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ہمیں بھی مقامی سطح پر سمارٹ فون تیار کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں حکومت پالیسی بنا رہی ہے اورسمارٹ فون کی برآمدات کے لیے بھی کام کیا جارہاہے ۔

ڈاکٹر محمد ندیم جا وید
(چیف اکانومسٹ آف پاکستان)

ہمیں معیشت میں سٹرکچرل ایڈ جسٹمنٹ کی ضرور ت ہے۔ گزشتہ سال تک پاکستان نے 5.3فیصد تک جی ڈی پی گروتھ حاصل کی اور اس سال 5.8فیصد جی ڈی پی گروتھ متوقع ہے۔سال 2012-13ء میں ترقیاتی بجٹ 360ارب روپے تھا جو بتدریج بڑھا اور آج پاکستان کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 1001ارب روپے ہو گیا ہے۔ بجٹ میں 580ارب روپے انفر سٹرکچر کے لیے رکھے گئے اورموجودہ دور حکومت میں 10ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی گئی۔ گزشتہ دو سالوں میں کچی کنال سمیت دیگر بند پڑے منصوبوں پر کام کیا گیا۔ اس کے علا وہ نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور نیلم جہلم ہائیڈ ر و پاور پراجیکٹ سمیت دیگر منصوبوں کے لیے ترجیحی طور پر فنڈ نگ کی گئی۔ اگلے سال دیا میر بھا شا اور داسو ڈیم ترجیحی لسٹ پر ہیں ۔ ان سارے منصوبوں میں 68ارب روپے کی بچت کی گئی ۔

عمر ایو ب خان
(سابق وزیرمملکت برائے خزانہ )

عوام اور ملک کا فائدہ ترقیاتی بجٹ کا پیمانہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ دوسری چیز جس کا خیال دنیا بھر میں رکھا جاتا ہے وہ باعزت روزگار ہے۔ اس وقت ملک میں 60سے 65فیصد نوجوان ہیں جنہیں روزگار کے مواقع چاہئیں لہٰذا نوجوانوں کے لیے با عزت روزگار کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی بصورت دیگر آنے والی حکومتوں کو بہت دشواریاں پیش آئیں گی۔ انفرا سٹر کچر ضروری ہوتا ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ دیکھنا ہے کہ کس چیز کی ڈیمانڈ ہے۔ اس وقت ہمیں اکنامک ایکٹیوٹی کی ضرورت ہے جس کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ چین کے ساتھ گوادر کا ٹریڈ روٹ ہما را قد رتی ٹریڈ روٹ ہے جو تاریخی ہے اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ جنرل (ر) ایوب خان نے چین کے ساتھ ملکر اس ٹریڈ روٹ سے فائدہ اٹھانے کا ویژن بنایا، انہوں نے قراقرم ہائی وے کی تعمیر شروع کروائی جس میں ہر کلومیٹر پر پاکستانی افواج و چینی باشندوں کی اموات ہوئیں۔ یہ سی پیک ون تھا جس میں اہم چیز نئی ملازمتیں تھیں، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس ہری پور، ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا، ہیوی انڈسٹریز کمپلیکس ٹیکسلا، کامرہ F6 فیکٹری و دیگر شامل تھیں۔ یہ ہیوی انڈسٹریز تھی جن سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے مگر اس وقت ملازمتوں کے حوالے سے کام نہیں ہورہا۔ میرے نزدیک بجٹ کوئی بھی ہو ہمارا مقصد لوگوں کا طرز زندگی بہتر بنانا ہونا چاہیے۔ چین اس وقت گلوبل انجن آف گروتھ ہے، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہما ری برآمدات بہت کم ہیں،انہیں بڑھانا چاہیے۔

اس حوالے سے حکومت کو چین کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے کہ ہم انہیں دنیا تک رسائی دے رہے ہیں تو ہمیں ویلیو ایڈ ڈ چین میں شامل کریں، تب جاکر ہماری انڈسٹری کی ترقی ہوگی۔ ہمیں آنے والے 30سے 40برس کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرور ت ہے۔کمیاب زمینی دھاتوں کے حوالے سے چین ، افریقہ میں 1 کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ کا ری کر چکا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 35ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین سے صنعتی شعبے میں شراکت داری کے تحت سرمایہ کاری کیلئے بات چیت کی جائے، چین کو اس کی ضرورت بھی ہے اور اس طرح ہمارا فائدہ بھی ہوگا۔ 95فیصد کمیاب زمینی دھاتوں کی سپلائی چین کے پاس ہے جو 1200 سے 1400 ڈالر فی کلو کے حساب سے بکتی ہیں۔



ہمیں چین کی طرح بہتر منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ چین کے ساتھ مل کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے کہ آئندہ 10 برسوں میں پاکستان میں رو ز گار کے نئے مواقع کہا ں سے آئیں گے۔ ایک کنٹینر شپ جب گوادر پر لگے گا تو 60 میل لمبی ٹرین لگے گی، سوال یہ ہے کہ ہمیں اس سے کیا ملے گا؟ معیشت کی بہتری کے لیے علاقائی ہم آہنگی بہت ضروری ہے ، ہمیں بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ روپے کی قیمت 125بھی کر دی جائے تو برآمدات میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم کم ویلیوایڈڈ چیزیں بنا رہے ہیں۔

سرکلر ڈیٹ 1 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارا بجٹ بنانے کا طریقہ کارناقص ہے جس کے پرائیویٹ سیکٹر پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

ڈاکٹر وقار مسعود
( سابق سیکرٹری خزانہ)

معاشی شعبے کی مشکلات انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ ریونیو ڈویژن کی کارکردگی بہتر ہے تاہم سرکولرڈیٹ کا حل تلا ش نہیں کیا جاسکا۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کامیابی سے مکمل کیا اور تمام وعدے پورے کئے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد معاشی صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے صورتحال بہتر ، بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتما د بحال ہوا اور لوگ سرمایہ کاری کرنا شروع ہوئے تھے تاہم اب سب کو خطرہ لاحق ہے۔

حکومت نے اپنے نظم و ضبط کو خراب کر دیاہے، اخراجات پوری رفتا ر سے جاری ہیں جبکہ آمدنی نہیں ہورہی ہے۔ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس جیسے اہم ترین نان ٹیکس کی وصولی کم ہوئی ہے۔ ابھی صورتحال کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ میرے نزدیک موجودہ حکومت کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش نہیں کرنا چاہیے،اگر حکومت ڈیڑھ ماہ قبل بجٹ دے گی تو بجٹ کے لوازمات پورے نہیں کر پائے گی، اکنامک سروے، گروتھ ریٹ سمیت دس ماہ کے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہوں گے۔ موجودہ حکومت لئے آئینی طور پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ یہ بجٹ دے۔ موجودہ حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں جبکہ اگلی حکومت کی اپنی ترجیحات ہوں گی ۔

ڈاکٹر محمد ارشاد
( سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو)

ٹیکس اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے جنہیں الگ نہیں کیاجاسکتا کیونکہ جب معیشت بہترہو رہی ہوگی تو ٹیکس بہتر ہو ں گے۔ حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ اب ایسی کوئی چیز باقی نہیں ہے جس پر ٹیکس نہ لگایاگیاہو۔ حکومت کو معاشی صورتحال بہتر کرنے کے لئے بجٹ خسارے پر قابو پانا ہوگا کیونکہ یہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ ٹیکس بیس بہت کم ہے گو کہ اس کی بہتری کے لئے بہت سے اقدمات کئے گئے تاہم اس میں بہتری نہیں آسکی۔ ٹیکس اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے اپنے افسران کے لئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف مقرر کیاجاتاہے اور اسی ہدف کے حصول کی بنیاد پر اس افسر کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے لئے وہ تمام اقدامات کرتاہے۔ ہمارے ملک میں جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے وہ کسی صورت ٹیکس کے دائرہ کار میں نہیں آناچاہتے۔

حکومت سیلز ٹیکس کا ریٹ بڑھاتی ہے تو ٹیکس چوری کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ جولوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں ان کے لئے مشکلات ہیں۔ اس کے تدارک کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کا نظام بہت پیچیدہ ہے، اسے آسان اور سہل بنانا ہو گا تاکہ نچلی سطح پر ریٹیلیرز ٹیکس گوشوارے آسانی سے فائل کرسکیں۔ معاشی صورتحال بہترکرنے اور ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لئے ٹیکس کی فلاسفی کو بدلنا ہوگا اور ٹیکس کے سارے نظام پر نظرثانی کرناہوگی۔ ایف بی آر میں انٹرنل آڈٹ کے نظام کو دوبارہ لانا ہوگا۔ اگر ایف بی آر کے افسران کو ریٹائرمنٹ پر گھر یا گاڑی جیسی مراعات دی جائیں تو کرپشن پچاس فیصد تک کم ہوجائے گی۔ ہمیں پبلک فنانس اینڈ ٹیکسیشن اور کسٹمز سکول قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بھر میں اس طرح کے ادارے موجود ہیں مگر ہم اس شعبے میں بہت پیچھے ہیں۔

ڈاکٹر عابد حسن
(سابق ایڈ وائزر ورلڈ بینک )

موجودہ حکومت کی مدت دو سے تین ماہ رہ گئی ہے اور پھر عبوری حکومت آجائے گی لہٰذا حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ جو بجٹ ابھی چل رہا ہے اسے چلنے دیا جائے تاکہ آئندہ آنے والی حکومت تمام چیزوں کا گہرائی سے جائزہ لے کر بجٹ پیش کرے۔ آئندہ 3سے 6ماہ کے دوران آئی ایم ایف کا پروگرام آنے والا ہے جس کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے لہٰذا حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک آئندہ 12 برسوں میں ساری توجہ لوگوں میں ٹیکس کے حوالے سے عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنے پر ہونی چاہیے۔ ایف بی آر سٹاف مینجمنٹ ایک ہی وقت میں جج بھی ہے اور ثالث بھی۔

ایف بھی آر میں بہت قابل لوگ بھی موجود ہیں مگر وہ اس سسٹم کی وجہ سے مجبور ہیں۔ بزنس کمیونٹی کو پرانی تاریخوں والے نوٹس ملتے ہیں، جب ان سے بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ آپ کو پہلے مل چکا ہوگا۔میرے نزدیک ایف بی آر کو بذریعہ ''ای میل'' نوٹس بھیجنے کا قانون اپنانا چاہیے کیونکہ اس کا ریکارڈ نکالا جاسکتا ہے جبکہ نوٹس ایف بی آر کی فائلوں میں تو ہوتا ہے مگر بزنس مین کو نہیں ملتا۔ ٹیکس ادا کرنے کے بعد کوئی بھی شخص جہا ں بھی پیسہ خرچ کرے اسے تنگ نہیں کرنا چاہیے مگر ہمارے ہاں ٹیکس ادا کرنے کے باوجود ٹیکس فائلر کو تنگ کیا جاتا ہے جو کسی بھی طور درست نہیں۔ ہمارے ٹیکس سسٹم کا سب سے خطرناک پہلو کارپوریشن اور کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس منجمند کرنا ہے۔ جرائم پیسہ افراد کے اکاؤنٹس بند کرنے چاہئیں مگر بزنس کمیونٹی کے نہیں۔بزنس مین اربوں روپے کے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

لہٰذا ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی بزنس مین ٹیکس ادا نہیں کرتا اور اس کے خلاف عدالتی فیصلہ موجود ہے تو پھر اس کے بینک اکاؤنٹس بند کرنے چاہئیں بصورت دیگر اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اپیل کا نظام بھی عجیب ہے، وہ بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں جنہیں ٹارگٹ دیا گیا ہے اور وہ آزاد نہیں ہیںلہٰذا وہ کس طرح اس کے خلاف جاسکتے ہیں۔ٹیکس فارم بہت پیچیدہ ہے، اسے سادہ بنایا جائے۔ ٹیکس ادا کرنے کے لیے ایف بی آر کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہے لہٰذا میرے نزدیک ٹیکس کولیکشن ٹارگٹ کا نظام درست نہیں کیونکہ جب ٹارگٹ ہوتا ہے تو پھر اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایف بی آر ٹیکس فائلر ز پر ساری توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اب نان فائلرز پر فوکس کرے اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ ہر سال 20سے 30فیصد پی ایس ڈی پی ضائع ہو جا تا ہے ۔

پی ایس ڈی پی 500سے 600ارب ہونا چاہیے۔ سبسڈی کا فیصلہ صوبوں کی جانب سے کیا جا نا چاہیے ۔ ملک میں گزشتہ 25 سال سے ایمنسٹی سکیم ہے ، اب نئی سکیم کی کیوں ضرورت ہے؟ سوال یہ ہے کہ لوگ اپنا پیسہ باہر کیوں لے کر جاتے ہیں؟جدید دور میں ہمیں لوگوں کو اجازت دینی چاہیے کہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد وہ جہاں چاہیں سرمایہ کاری کریں۔میرے نزدیک ملک میں کسی نئی ایمنسٹی سکیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ٹیکس و دیگر معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاروں کو ریلیف اور اعتماد مل سکے۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا 20سے 30 فیصد ضائع ہوجاتا ہے، 500 سے 600 ارب روپے با آسانی بچائے جاسکتے ہیں۔ وفاقی پی ایس ڈی پی میں ہزاروں منصوبے ہیں جن کی تکمیل میں نصف صدی بھی لگ سکتی ہے، میرے نزدیک ترجیحی بنیادوں پر پانی پر کام کرنا چاہیے۔

نیشنل سبسڈی پروگرام کے بجائے یہ کام صوبوں کے سپرد کردیا جائے اور وہ جس مد میں چاہیں اپنے عوام کو سبسڈی فراہم کریں۔ ڈیٹ کا قانون بھی تبدیل کرنا چاہیے کیونکہ جی ڈی پی، ڈیٹ سروسز ادا نہیں کرتا بلکہ یہ ٹیکس کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہیں۔ ایکسپورٹ سیکٹر کو ریسکیو کرنا چاہیے۔ گزشتہ 25سال کے دوران بنگلہ دیش کی برآمدات میں 18 گنا ، بھارت کی20 گنا جبکہ پاکستان کی برآمدات میں صرف 4 گنا اضافہ ہوا۔ ہم نے 25 برسوں میں صرف اپنا نقصان کیا ہے لہٰذا ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہی ملکی معیشت میں بہتری آئے گی ۔

ڈاکٹر یوسف ظفر
(چیئرمین پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل)

زراعت کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل شعبہ ہے۔ فوڈ سکیورٹی ،نیشنل سکیورٹی کے ساتھ لنک ہے ۔ پاکستان میں غذائی کمی 18سے 51فیصد تک ہے جس کی بڑی وجہ رسائی کے مسائل ہیں۔ حکومت نے اس سلسلے میں زراعت پر بہت توجہ دی ہے اور کابینہ کی جانب سے نیشنل فوڈ سکیورٹی بھی منظور کر لی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں 21کروڑ آبادی کے باوجو د ہم گند م میں خو د کفیل ہیں جبکہ 60لاکھ ٹن گندم اضافی ہے۔

اسی طرح چینی 2لکھ ٹن ، آلو 3لاکھ ٹن فالتوہیں جس کی ایکسپورٹ پر حکومت سبسڈی بھی دیتی ہے تاہم ہند و ستان کے مقابلے میں پاکستان میں فرٹیلائز ر اور مشینری کی قیمت زیادہ ہے لہٰذا ہمیں ان پٹ کا سٹ کو کم کرنا ہو گا۔ اس وقت پورے ملک کے لیے 460کروڑ روپے زراعت کا ترقیاتی بجٹ ہے، سوال یہ ہے کہ اتنے کم پیسوں میں ملک کی زراعت کو کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ حکومت زرعی شعبے کی بہتری کے لیے بلاسود 30 ہزار سولر ٹیو ب ویل کی سکیم لا رہی ہے۔

بد قسمتی سے سی پیک زراعت کے معاملے پر خاموش ہے، سارای توجہ انفراسٹرکچر اور انڈسٹری پر ہے، ہما ری خواہش ہے کہ چین جانے والے کنٹینر میں ہما ری ٹراؤٹ فش ، آم اور کینو شامل ہوں۔ زراعت کو فروغ دے کر ہم ملکی معیشت کو مستحکم بنا سکتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کسانوں کو ہر ممکن سہولیات اور مراعات دی جائیں۔ ملک میں زیتون کے فروغ کے لیے بیرون ملک سے زیتون کے پو دے در آمد کرنے کے بجائے ملک کے اندر ہی زیتون کے پو دے کی پیداوار کی صلاحیت حاصل کر لی ہے ۔

ڈاکٹر اسد زمان
( وائس چانسلر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس)

ملکی معاشی شعبے میں بہتری لانے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ہمیں اپنا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرنا ہوگی۔ مختلف امدادی اداروں کی جانب سے غریب ممالک کو1.3 کھرب کی امداد دی جاتی ہے اور پھر ان سے 3.5 کھرب واپس لیے جاتے ہیں۔ ملک میں بہت سے شعبوں میں برطانوی کالونیوں والا نظام رائج ہے ۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں صرف خرابیاںہی نہیں بلکہ بہت سی اچھی چیزیںبھی موجود ہیں۔

پاکستان نے بہت سے معروف دانشور پیدا کیے جنہوں نے معاشی شعبے میں نام کمایا۔ عبدالستار ایدھی نے نجی سطح پر ایک بڑا نیٹ ورک چلایااور انہیں اس کے لئے کبھی مالی مشکلات کا سامنا نہیں رہا۔ ایدھی نے بہترین سروسز فراہم کیں اور لوگوں نے ان پر اعتماد کرکے ان سے بھرپور مالی تعاون کیا۔ ہمیں اپنے ملک میں یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاںعدم برداشت بہت زیاد ہ ہے لہٰذا ہمیں اپناانداز بیاں بدلنا ہو گا۔ حکومت عوام کو سروسز فراہم کرنا شروع کردے تو لوگ پیسہ دینا شروع کردیں گے۔

شاہد حسین اسد
(سابق ممبرایف بی آر)

ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کم ہے، معیشت ڈاکومنٹڈ نہیں ہے اور ڈائریکٹ ٹیکس کولیکشن بہت کم ہے جو جی ڈی پی کا 4 فیصد ہے۔ ایف بی آر ریفنڈ نہیں دیتا اور کولیکشن کیلئے اکاؤنٹ منجمد کرتا ہے جس سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اکاؤنٹ منجمند کرنا قانونی ہے مگر اب جس حساب سے ایسا ہورہا ہے یہ درست نہیں۔ صرف ٹیکس ڈیفالٹر کے اکاؤنٹس منجمند ہونے چاہئیں نہ کہ اسے ٹیکس ریکوری کیلئے معمول بنا لیا جائے۔ کسی بھی شخص کوپیسے دیکر واپس لینا ہر جگہ مشکل ہے، سرکار کو تو مشکل ہے ہی لیکن بزنس کے حوالے سے بھی دیکھ لیں تو کسی کے پاس ایڈوانس چلے جائیں تو اس سے واپس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔

ہم نے ود ہولڈنگ کو بہت وسیع کردیا ہے۔ ایسی 50 صورتیںہیں جہاں ود ہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت ساری ایڈجسٹ ایبل ہیں اور اگر وہ ڈیمانڈ سے زیادہ تو قابل واپسی ہے۔ ایڈوانس ٹیکسوں پر ہمارا بہت زیادہ زور ہے۔ 67 فیصد ٹیکس کولیکشن ود ہولڈنگ ٹیکس سے ہوتی ہے، 24فیصد کے قریب ایڈوانس ٹیکس،5 فیصد ریٹرنز کے ساتھ جبکہ 4فیصدکے قریب ڈیمانڈکے مقابلے میں ایڈجسٹ ہوتی ہے۔ 1995ء تک ایڈوانس ٹیکس کے کریڈٹ کی ایڈ جسٹمنٹ اگلے سال ہوتی تھی اور 6 فیصد سود ادا کرتے تھے مگر 95ء میںایف بی آر نے اسے تبدیل کرکے کرنٹ کولیکشن بنا دیا اور اب افسران اپنا ٹارگٹ پورا کرنے میں مصروف ہیں۔

اگر معیشت درست سمت میں چل رہی ہوتو ٹیکس ٹھیک آتے رہتے ہیں ورنہ نہیں، اگر معیشت ٹھیک نہیں چل رہی تو ٹیکس ہد ف بڑھانا ایف بی آر کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے جس کا منفی اثر کاروباری طبقے پر پڑتا ہے۔ میرے نزدیک معیشت کے مطابق ٹیکس کولیکشن ہونی چاہیے۔ ہمیں سابقہ سسٹم کی طر ف جا نا چاہیے کہ ایڈوانس ٹیکس اس وقت ہونا چاہیے جب ریٹرن آئے اور لائبیلٹی کی مد میں ایڈجسٹ ہوجائے۔ ایڈوانس ٹیکس کو کرنٹ کولیکشن سے ملانے سے مسائل ہیں۔ ٹیکس کے ریٹ بعض جگہ بہت زیادہ ہیں اور لوگ نان فائلر ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فائلر پر کوئی اضافی ودہولڈ نگ ٹیکس نہیں ہو نا چاہیے بلکہ صرف نان فائلر کو ہونا چاہیے۔ 80 ء کی دہائی میں 3سے 4 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکس ہوتے تھے مگر اب ہر چیز پر ود ہولڈنگ ٹیکس ہے جو کپیسٹی سے بہت زیادہ ہے۔صرف 5سے 7 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکس ہونے چاہئیں۔ ٹیکسوں کی وجہ سے ملک میں پید اواری لاگت بہت زیادہ ہے ،اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ بطورشہری میں اپنے اثاثے بتانے کا پابند ہوں، شہریوں کو ذمہ داری کے ساتھ ٹیکس ادا کرنا چاہیے ۔

عامر وحید شیخ
( صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

ایف بی آرکو صر ف ٹیکس وصولی کرنی چاہیے جبکہ عملدرآمد کسی اور ادارے کو کرنا چاہیے۔ ایف بی آر کے پاس اپنے اہداف ہوتے ہیں اور وہ ان اہداف کے حصول کے لئے تمام اقدمات کرتا ہے۔قابل آمدن افراد کی جانب سے ٹیکس نہ دینے کی وجوہات جاننی چاہئیں۔ ٹیکس نوٹسز سے لوگ خائف ہوجاتے ہیں جبکہ چھوٹا تاجر اس خوف کی وجہ سے ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتا۔ ایف بی آر کی جانب سے ایسا نظام لایاجائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس دینے کی جانب راغب ہوں۔ سیلز ٹیکس کو سنگل ڈیجٹ میں لایاجائے، انکم ٹیکس کم کیاجائے، مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جائے اور نوٹسز کا طریقہ کار تبدیل کیاجائے، نجی شعبے کو مضبوط کیاجائے اورآزادتجارتی معاہدے کرتے وقت ملکی مفاد کو مدنظر رکھاجائے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو بجٹ میں مراعات دی جائیں۔ بجٹ میں عا م لوگوں اور تاجروں کیلئے سہولیات اور مراعات دی جائیں تاکہ ان کے مسائل کا خاتمہ ہو۔بجٹ ہر صورت عوام دوست ہونا چاہیے ۔

اشفاق تولہ
(چیئرمین ٹیکسیشن کمیٹی و کونسل ممبرانسٹیٹیوٹآف چارٹر ڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان)

ملکی ٹیکسیشن پالیسی بزنس فرینڈ لی نہیں، کامیابی کیلئے اسے بزنس کے ماتحت کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کولیکشن کا ٹارگٹ اور کولیکشن کی صورتحال الارمنگ ہے۔ ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 1344ارب روپے جبکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 2017 ارب روپے حاصل ہوئے۔کل 3532 ارب روپے ٹیکس کی مد میں حاصل ہوئے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو 62 فیصد ان ڈائریکٹ جبکہ 38 فیصدڈائریکٹ ٹیکس ہے حالانکہ او آئی سی ڈی ممالک میں 70فیصد ڈائریکٹ اور 30فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس ہوتا ہے۔ترکی، سری لنکا میں یہ شرح اس سے بھی بہترہے۔ 1344 ارب روپے میں سے 918 ارب روپے ود ہولڈنگ ٹیکس سے حاصل ہو رہے ہیں۔ اگر اسی طرح معیشت چلتی رہی تو مسائل پیدا ہوں گے۔ 1990 ء سے اب تک بہت سارے ٹیکس ریفارمز ہوئے مگر ٹیکس کی صورتحال ابھی تسلی بخش نہیںکیونکہ ہماری رفتار بہت سست ہے۔

جی ڈی پی کا 19.5فیصد زراعت سے آرہا ہے ، اسی طرح مینو فیکچرنگ سے 13.5فیصد آ رہا ہے جبکہ ٹیکسیشن صرف 5.8 فیصد اور ریٹیل جی ڈی پی کا 18.5 فیصد ہے لیکن ان سارے سیکٹرز کی الگ الگ ٹیکسیشن صرف 1فیصد ہے۔ ہم نے ٹیکسیشن کو فائلر اور نان فائلر میں تقسیم کردیا، یہ اچھا اقدام ہے مگر ا س سے کوتاہیوں میں اضافہ ہوگیا۔ دنیا میں نان فائلر کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ وہاں صرف فائلر اور کریمنل کی دو کیٹگریز ہیں۔ جو ٹیکس نہیں دیتا وہ لوگوں کی حق تلفی کرتا ہے۔ میرے نزدیک نان فائلر کی کوئی کیٹگری نہیںہو نی چاہیے۔

یہ معیشت اور ٹیکس ڈھانچے کے لیے نقصاندہ ہے۔ حکومت ڈکلیریشن سکیم کے بارے میں سوچ رہی ہے، اس حوالے سے عدالت عظمیٰ نے سوموٹو بھی لیا ہے، ہم ایسی ایمنسٹی سکیم کے خلاف ہیں جسے بار بار لانا پڑے اور معیشت کو نقصان پہنچے بلکہ اگر کوئی ایمنسٹی لانی ہے تو ایک مر تبہ لائی جائے جس میں اثاثوں کا ایک خاص حصہ پاکستان منتقل کرنا لازمی قرار دیا جائے۔کراچی کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک فیز میں 12 ارب ڈالر کی ''گرے منی'' ہے۔ روزانہ لاکھوں فائلیں ٹیکس اتھارٹیز کے نوٹس میں لائے بغیر ٹرانسفر ہوتی ہیں۔ جب تک ان چیزوں کو ڈاکومنٹ نہیں کیا جائے گا کسی بھی ایمنسٹی سکیم کا فائدہ نہیں ہوگا۔ ہمارا ٹیکسیشن نظام بہت پیچیدہ ہے جبکہ ٹیکس پالیسی غیر موثر ہے۔ لوگوں کو مختلف طریقوں سے ٹیکس ادائیگی کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ لوگوں کی بڑی تعداد ٹیکس ادا کرے ۔ اس ضمن میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

خرم جاہ
(گولڈ میڈلسٹ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ)

ہر سال حکومت کی جانب سے سالانہ بجٹ سے قبل ایک ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ بجٹ کے عمل کو زیادہ بہتر بنانے کے لئے پانچ سالہ منصوبہ ہونا چاہیے تاکہ سرمایہ کا روںکو ملکی پالیسیوں کے بارے میں آگاہی ہو۔ جب تک سالانہ بجٹ میں شک و شبہ رہے گا تب تک صورتحال بہتر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔موجودہ اقتصادی پالیسیوں کے تحت ریونیو کا زیادہ تر حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے، مالی سال کے شروع میں ہی خسارہ دو ٹریلین تک پہنچ جاتاہے اورحکومت کو یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ اس خسارے سے کیسے نمٹا جائے اور اسے کیسے پورا کیاجائے۔ میرے نزدیک جب تک حکومت اس خسارے پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی تب تک آگے بڑھنا ناممکن ہے ۔ملک میں بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں تبدیلی کی اشد ضرور ت ہے۔ موجودہ اقتصادی پالیسیوں کے تحت وفاقی حکومت کے پاس صوبوں کی نسبت وسائل کی کمی ہے۔

حکومت کو معاشی صورتحال بہتر کرنے کے لئے مقامی وسائل سے استفادہ کرکے ان پر انحصار بڑھانا ہوگا۔ حکومت ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لئے پالیسیاں تو متعارف کرواتی ہے تاہم ان پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہوتا۔ معاشی استحکام کے لئے پالیسیوں میںتسلسل بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیکس کانظا م بہت پیچیدہ ہے۔ سرمایہ دار کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے قبل وہاں کا نظام دیکھتا ہے اور پھر سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتاہے۔

دنیا بھر میں ایز أف ڈوئنگ بزنس میں پاکستان درجہ بندی میں انتہائی کم ہے اور اس میں پاکستان 145ویں نمبر پر ہے۔ جب تک اس درجہ بندی کو بہتر نہیں بنایا جائے گا تب تک یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ بیرونی سرمایہ دار یہاں آئے گا۔ معیشت کے مختلف زاویے نمو پار رہے ہیں۔ صرف ایک شعبے سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے حکومت کو تمام شعبوں سے یکساں ٹیکس وصول کرناچاہیے۔ ٹیکس وصولی کا طریقہ کار اس طرح ہونا چاہیے کہ کسی ایک خاص شعبے پر اس کا اثر نہ پڑے ۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ یہ ٹیکس چوری کا سب سے بڑا روٹ ہے جس سے ملکی معیشت کو نقصا ن پہنچ رہا ہے جبکہ کاروباری طبقہ بھی اس سے متاثر ہورہا ہے۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا مسئلہ صرف عمل درآمد کا ہے لہٰذا اس میںپاکستانی تاجروں کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔ ٹیکس نظام میں انتظامی اصلاحات پر کام کرنا چاہیے۔ ملک میں 13.5فیصد مینو فیکچررز ہیں اور یہ شعبہ بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں مینوفیکچررز کی گروتھ 4.99 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح دو ہندسوں میں ہے۔ ملک میں ٹیکسوں کا نظام ٹریڈرزکے لئے زیادہ ساز گار ہے اور اس سے ٹریڈنگ کے نظام کو زیادہ فائدہ پہنچ رہاہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے کو سہولیات نہ دینے سے بیرونی دنیا میں ہماری مسابقت ختم ہوگئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس شعبے کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی صنعتوں کو بھی تحفظ دے تاکہ انڈسٹری کے معاملات کو بہتر بنایا جاسکے۔ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکسوں کا حصہ کم ترین ہے۔

اس کو بہتر کرنے اوربیرون ممالک سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک میں بینک اکاوئنٹس رکھنے والے افراد کی تعداد 3 کروڑ سے زائد ہے مگر ٹیکس فائلرز صرف 12 لاکھ تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔ ملک میں 30 لاکھ سے زائد کمرشل یونٹس ہیں مگر ان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد بہت کم ہے، اس طرف توجہ دی جائے۔ اثاثہ جات کو دستاویزی شکل دینا بہت ضروری ہوگیاہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت ایمنسٹی سکیم چل سکتی ہے مگر بیرونی ممالک سے زرمبادلہ لانے کے لئے ٹھوس اقداما ت کرنا ہوں گے کہ جتنا بھی پیسہ باہر سے پاکستان لایاجائے گااس کے لیے لازم ہو کہ یہ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے۔

ایف بی آر کوایک خودمختار ادارہ بنایاجائے اور اس میں اصلاحات لائی جائیں۔ ایف بی آر میں نئی تعیناتیوں سے قبل باقاعدہ تربیت دی جائے تاکہ فیلڈ میں کام کرنے والے افسران کو ٹیکس معاملات پر دسترس حاصل ہو۔ کارپوریٹ سیکٹرکے لئے ٹیکسوں کی شرح کم کی جائے اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیاجائے۔ حکومت سیلز ٹیکس کے نظام میں تبدیلیاں لائے ،پرتعیش اشیاء کی درآمد پر ڈیوٹی لگائی جائے تاہم ضروری اشیاء کی درآمد پر ڈیوٹیز کی شرح کم رکھی جائے۔ انکم ٹیکس کریڈٹ کو واپس نافذ کیاجائے۔ حکومت کو سیلزٹیکس ری فنڈز کا طریقہ کار نکالنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس کو آف سیٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔

عرفان احمد چٹھہ
(ریسرچر ایس ڈی پی آئی)

ایس ڈی پی آئی وزارت خزانہ کو بجٹ تجاویز بھجوا چکا ہے جبکہ اس سیمینار میں بھی بہت ساری تجاویز سامنے آئی ہیں جو بہترین ہیں۔ ہم نے زرعی شعبے کے حوالے سے تجاویز دی ہیںکہ فارم اِن پٹس کی قیمتیں مزید کم کی جائیں تاکہ کسان کی آمدن بہتر ہوسکے۔ اس کے علاوہ اجناس کی انشورنس کی تجویز بھی دی ہے کیونکہ ''اجناس قرض انشورنس'' سے وہ فوائد حاصل نہیں ہورہے جو براہ راست اجناس انشورنس سکیم دے سکتی ہے۔

چھوٹے کسان انشورنس پریمیم ادا نہیں کر سکتے لہٰذا انہیں سبسڈائزڈ انشورنس سکیم دی جائے۔ انفراسٹرکچر، بزنس و دیگر چیزیں بھی ضروری ہیں مگر بجٹ کے انسانی و معاشرتی پہلو پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ملک میں اقتصادی ترقی کے فروغ اور تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کیلئے مختلف وزارتوں اور اداروں کے مابین روابط کو فروغ دینا اہمیت کا حامل ہیںاس کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیںکیونکہ اداروں کے درمیان روابط نہ ہونے کے نقصانات ، دہشت گردی کے نقصانات سے زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں۔ ملک میں مختلف مصنوعات کی سمگلنگ سے مقامی سطح پر تیار ہونے والی پراڈکٹس کافی حد تک متاثر ہوتی ہیں اور مقامی مینوفیکچرز کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

جس کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں۔ ہمیں اس ضمن میں سمگلنگ کی روک تھام کیلئے نہ صرف مضبوط قوانین بنانے کی ضرورت ہیں بلکہ ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی بھی ضرورت ہیں تاکہ سمگلنگ میں ملوث اداروں اور افراد کے گرد گھیرا تنگ اور آئندہ اس قسم کی سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ملک میں اس وقت اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ادارے مضبوط ہوں گے اور فیصلے کرنے میں آزاد ہوں گے تو کئی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔جب تک ادارے مضبوط نہیں ہوں گے اور قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوگا تب تک سیاسی طور پر انتظامی معاملات میں مداخلت کو روکا نہیں جاسکے گا اور نہ ہی غیر قانونی کاموں کی روک تھام ہوسکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں