انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک
سب سے پہلے ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بھوک، بیماری، کا تعلق اس سرمایہ دارانہ نظام سے ہے جو بھارت پر بھی مسلط ہے۔
بھارت کے نئے صدارتی انتخابات میں پرنب مکھرجی صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ پرنب مکھرجی کا شمار ایسے سیاسی اوتاروں میں ہوتا ہے جن سے ملنے کے لیے اقتدار کی مختلف راہ داریوں سے گزرنا اور مہینوں انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ان کے مڈل کلاسی دوست ان سے آسانی کے ساتھ مل سکتے تھے۔ بھارت کی پارلیمانی جمہوریت میں صدر کا عہدہ ایک اعزازی اور دستوری عہدہ سمجھا جاتا ہے اور صدر سیاسی امور سے بالاتر رہتا ہے۔ اس اعزازی صدر اور برطانوی ملکہ کے اختیارات میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ اس کی سرگرمیاں بھی قومی دنوں کی تقاریر اور غیر ملکی سفراء کے اسناد سفارت کی وصولی تک محدود ہوتی ہیں جب کہ پاکستان جیسے پارلیمانی جمہوریت کے حامل ملک میں صدر عموماً وزیراعظم سے زیادہ بااختیار ہوتا ہے اور پاکستان میں سیاسی بحرانوں کی ایک وجہ اختیارات کی یہ غیر جمہوری تقسیم رہی ہے، جس کا مشاہدہ ماضی سے حال تک کیا جاسکتا ہے۔
بھارت کے نئے صدر پرنب مکھرجی نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک ایسا بیان دیا ہے جس نے ہماری توجہ بھارت کے اس نئے صدر کی طرف مبذول کردی ہے۔ پرنب مکھرجی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ''انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک غربت ہے۔'' پرناب مکھرجی کو بھارت کے وزیر خزانہ ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ اس لیے یہ بیان زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ غربت انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک و تذلیل ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پرناب جی کو غربت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے یا کتابوں اور میڈیا کے ذریعے ہی مکھرجی غربت سے روشناس ہوئے ہیں۔
ہر دو صورتوں میں مکھرجی کا بیان بہت معنی خیز اور قابل توجہ ہے۔ بھارت کا شمار تیسری دنیا کے پس ماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں کی آبادی کا 40 فیصد حصّہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، جہاں ہر سال لاکھوں انسان غربت کے عفریت کا شکار ہوجاتے ہیں، جہاں کروڑوں کنیائیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جسم فروشی کرتی ہیں۔ حال ہی کی ایک خبر کے مطابق بھارت کے ایک غریب شہری نے صرف ساٹھ روپے میں اپنا بچّہ فروخت کردیا۔ پاکستان میں بھی غریب لوگ خودکشیاں کررہے ہیں، اپنے بچّے بیچ رہے ہیں۔
پرناب مکھرجی حکمران جماعت کا طویل عرصے سے حصّہ رہے اور وزارت خزانہ سے تعلق کی وجہ سے بھارت کے معاشی مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سمجھ سکتے ہیں۔ ان حوالوں سے بہ حیثیت صدر پرناب مکھرجی کا مذکورہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے، لیکن ہمارے ذہن میں ایک سوال یہ ابھر رہا ہے کہ کیا یہ بیان بھارت کے سیاست دانوں کا ایک روایتی پرفریب بیان ہے یا پرناب مکھرجی سنجیدگی اور ایمان داری سے انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک و تذلیل بھوک کو سمجھتے ہیں۔ ہم اسے سیاسی بیان مانیں یا ایمان دارانہ بیان، اس حوالے سے ہمارے ذہن میں کئی سوالات کلبلا رہے ہیں جو ہم پرناب جی کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بھوک، بیماری، بے کاری وغیرہ کا تعلق اس سرمایہ دارانہ نظام سے ہے جو بھارت پر بھی مسلط ہے اور ان بیماریوں کا مکمل علاج اس نظام کے خاتمے تک ممکن نہیں لیکن پس ماندہ ملکوں میں بھوک، بیماری، بے کاری وغیرہ کے کچھ اور بھی اسباب ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت جیسے انتہائی پس ماندہ ملک میں اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصّہ دفاع پر کیوں خرچ کیا جارہا ہے اور لاکھوں افراد پر مشتمل دنیا کی دوسری بڑی فوج کی ضرورت کیوں ہے؟ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام میں قوم و ملک کی تفریق اور تصور کے ساتھ جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کو ایک ایسی تقدیس کا درجہ دیا گیا ہے۔
جس کے خلاف زبان کھولنا غداری کے مترادف ہے اور ان ہی جغرافیائی لکیروں کے تحفظ کے لیے بھاری فوجوں کی ضرورت پیدا کی گئی لیکن اس کے علاوہ وہ علاقائی مسائل ہیں جو حکمرانوں کے پیدا کردہ ہیں جن سے عوام، قوم و ملک کے مفادات کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے ہی مسائل میں سے پاکستان سے جڑے کشمیر، سیاچن، سرکریک وغیرہ جیسے مسائل ہیں اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں جو بھارت کی بھاری بھرکم فوجی دفاع کے بجٹ کا جواز بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے متنازع مسائل میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے اور یہ مسئلہ انتہائی آسان ہونے کے باوجود اِتنا مشکل بنادیا گیا ہے کہ 65 سال سے اس مسئلے پر مذاکرات کے باوجود یہ مسئلہ اسی جگہ کھڑا ہے جہاں روزِ اوّل تھا۔
ہم مسئلہ کشمیر کو نہ اس کے مذہبی پہلو کے حوالے سے دیکھتے ہیں نہ کشمیر کے دو حصّوں پر دونوں ملکوں کے قبضے کے حوالے سے، ہم اسے نئے بھارتی صدر کے فلسفیانہ بیان کے حوالے سے ہی دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے عوام میں بھوک، بیماری، بے کاری کا ایک بڑا سبب کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکمرانوں کی (جن میں پرناب مکھرجی بھی شامل ہیں) جارحانہ اور غیر جمہوری پالیسیاں ہیں جو برصغیر کے ان دونوں ملکوں کے عوام کو 65 برسوں سے بھوک کی تضحیک میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ اگر ان مسائل کے حوالے سے پاکستان کی حکومتوں پر ذمے داری عاید ہوتی ہے تو ہم بلاتوقف ان کے خلاف قلم کا ڈنڈا اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
لیکن باوجود دانشورانہ ایمان داری کے بھارت کا حکمران ٹولہ ہی ہمارے سامنے مجرم کی طرح کھڑا نظر آتا ہے تو پھر ہم پرناب مکھرجی جیسے حق گو رہنما سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ برصغیر کے دو ارب کے لگ بھگ انسانوں کی سب سے بڑی تضحیک کا ذمے دار کون ہے؟ بھارت کا حکمران طبقہ امریکا کے سُروں میں سُر ملا کر دہشت گردی کے خلاف جو راگ ملہارگاتا رہتا ہے، کیا وہ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اس خطے میں دہشت گردی کے فروغ کا ایک بڑا سبب 'مسئلہ کشمیر' ہے؟ چین سے سرحدی تنازع بھی اس خطے میں بھاری بھرکم فوجی اخراجات کا ایک سبب ہے۔
اس حوالے سے کسی بحث میں پڑے بغیر سرحدی تنازع میں کون حق پر ہے کون غلط ہے، ہم بھارتی حکمرانوں کو خود ان کی کشمیر پالیسی کے حوالے سے مشورہ دیں گے کہ وہ اسی پالیسی کے تناظر میں چین سے اپنا سرحدی تنازع طے کرنے کے لیے پہل کرے۔ اگر پاکستان اور چین سے بھارت اپنے تنازعات طے کرلیتا ہے تو دفاع پر خرچ کیا جانے والا کھربوں کا سرمایہ اس خطے کے عوام کی بھوک کو ختم کرنے کے کام آئے گا جسے پرناب جی بجا طور پر انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک کہہ رہے ہیں۔
اس مرحلے سے گزرنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ ایک منصفانہ اقتصادی نظام تشکیل دینے کا مرحلہ آتا ہے۔ بھارت کے مستقبل کا تعین کرنے والی پہلی قیادت پنڈت جواہر لعل نہرو نے برملا یہ کہا تھا کہ بھارت کا اقتصادی نظام سوشلزم ہوگا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سوشلسٹ بلاک کی تحلیل کے بعد بھارت کی یہ اخلاقی اور نظریاتی ذمے داری ہے کہ وہ ایک نئے اقتصادی نظام کی تشکیل میں پہل کرے۔ یہ دیکھے کہ سوشلسٹ اقتصادی نظام میں کیا خامیاں تھیں اور انھیں کس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے سات ارب انسان انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک ''بھوک'' کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔