آیا ہم بزدل اور ڈرپوک ہیں

جارج واشنگٹن نے ایسا ہی کیا اور نیلسن کا گھر تباہ ہو گیا بعدازاں نیلسن دیوالیہ ہو کر مر گیا


Aftab Ahmed Khanzada April 25, 2018

اس بات کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں کہ آیا ہم بزدل اور ڈرپوک ہیں یا نہیں۔ پہلے امریکا کے اعلان آزادی پر دستخط کرنے والوں کی کہانی سنتے ہیں۔ اعلان آزادی پر دستخط کرنے والے افراد میں سے پانچ افراد کو برطانیہ نے غداروں کی حیثیت سے قید کر لیا 56 افراد میں سے ایک درجن افراد کے گھر بار لوٹ لیے گئے اور جلا دیے گئے ان کے بیٹے جنگ میں مارے گئے ایک اور فرد کے دو بیٹے پکڑے گئے۔ انقلاب امریکا کے لیے بے شمار افراد نے کئی جنگوں میں حصہ لیا اور لا تعداد افراد زخمی ہوئے یا انھیں دوسری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ کس قسم کے انسان تھے؟ ان میںسے 25 وکیل یا قانون دان تھے گیارہ تاجر پیشہ تھے نو افراد یا توکسان تھے یا پھر بڑے بڑے کھیتوں اور باغات کے مالک تھے وہ خوشحال اور تعلیم یافتہ تھے لیکن پھر بھی انھوں نے اعلان آزادی پر دستخط کر دیے حالانکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر وہ پکڑے گئے تو انھیں موت تک کی سزا د ی جا سکتی ہے جب ان باہمت، باحوصلہ اور جرأت مند افراد نے اعلان آزادی پر دستخط کیے تو انھوں نے اپنی زندگیاں ، اپنی قسمت اور اپنی عزت و وقار، آزادی و خود مختاری کے لیے داؤ پر لگا دی۔

رچرڈ اسٹاکین 1776ء کے آخر میں نیو جرسی واپس لوٹ آیا تا کہ وہ دشمن کی طرف سے ہونے والے نقصان کا جائزہ لے سکے، اس نے اپنی بیوی کو تو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا، لیکن خود پکڑا گیا اس کا گھر اس کی عظیم لائبریری اس کی تحریرکر دہ کتب سب کچھ تباہ کر دیا گیا۔ جیل میں اسٹاکین کے ساتھ ایسا برا سلوک کیاگیا کہ اس کی صحت تباہ ہوگئی اور جنگ ختم ہونے سے قبل وہ مر گیا ۔

کارٹر بریکسٹن ایک دولت مند کاشتکار اور تاجر تھا ایک ایک کر کے برطانوی بحریہ نے اس کے تمام بحری جہاز پکڑ لیے اس نے امریکا کی خاطر ایک خطیر رقم بطور قرضہ دی لیکن یہ رقم اسے کبھی واپس نہ مل سکی اس کے مالی حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ اسے اپنے قرض ادا کرنے کے لیے اپنے تمام کھیت، باغات اور دیگر جائیدادیں رہن رکھوانے پڑیں۔ برطانوی پولیس تھامس میک کین کے پیچھے شکاری کتوں کی طرح لگی رہی اور تھامس اپنے اور اپنے خاندان کے بچاؤ کے لیے مسلسل ادھر ادھر چھپتا پھرا، اس نے کانٹی نینٹل کانگریس میں بلا معاوضہ کام کیا اور اپنے خاندان کو ایک خفیہ مقام پر چھپائے رکھا۔ غنڈوں یا فوجی سپاہیوں یا دونوں نے ایلری،کلیمر، ہال، ہیورڈ، میڈلٹن، ہیریسن، ہایکنسن اور لیونگسٹن کی جائیداد لوٹ لیں۔ پارک ٹاؤن کی جنگ کے موقعے پر جب تھامس نیلسن جونئیر نے دیکھا کہ بر طانوی جنرل کا رنویلس نے اس کے خاندان گھرکو اپنا فوجی ہیڈ کوارٹر بنا لیا تو نیلسن نے جنرل جارج واشنگٹن سے کہا وہ اس کے گھر پرگولہ باری کرے۔

جارج واشنگٹن نے ایسا ہی کیا اور نیلسن کا گھر تباہ ہو گیا بعدازاں نیلسن دیوالیہ ہو کر مر گیا۔ فرانسس لوئیس کا بھی گھر اور جائیدادیں تباہ ہو گئیں دشمن نے اس کی بیوی کو دو ماہ جیل میں رکھا، جنگ کے علاوہ بھی اسے اس قدر مشکلات کاسامنا کرنا پڑا کہ اس کی صحت تباہ ہوگئی اور جنگ کے دو سال بعد وہ مر گیا۔ آنسٹ جان کو اس کی قریب المرگ بیوی کے بستر سے پرے دھکیل دیاگیا ان کے تیرہ بچے اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہوگئے۔ اس کے کھیت اور مکئی بیلنے کا کارخانہ تباہ کر دیے گئے قید سے فرار ہوتے ہوئے اسے کبھی نہ معلوم ہوتا کہ اس کی اگلی رات کہاں گزرے گی، اس کی بیوی مر گئی اور جب وہ واپس آیا تو اس کے بچے جا چکے تھے۔ یہ سب داستانیں اور قربانیاں ان لوگوں سے منسوب ہیں جنہوں نے اعلان آزادی پر دستخط کرنے کا خطرہ مول لیا یہ افراد وحشی، غیر مہذب اور جنگلی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ مہذب اور نفیس لب ولہجے کے مالک تھے خوشحال اور تعلیم یافتہ تھے انھیں تحفظ حاصل تھا۔

ادھر دوسری طرف ہم ہیں جنہیں آزادی کے ستر سال بعد دوبارہ خوبصورتی کے ساتھ قیدکر دیاگیا، اس دفعہ قید کرنے والے غیر نہیں بلکہ اپنے تھے ہم سب کی زندگی دوزخ سے زیادہ بد ترین بنا دی گئی، ایک ایک روٹی کے لیے سارا سارا دن مارے مارے پھرتے ہیں پانی، بجلی، گیس کے بغیر زندگی رینگ رینگ کرگزار رہے ہیں بیماریوں، بے روزگاری، مہنگائی اور دہشت گردوں کے ہاتھوں بے موت مارے جا رہے ہیں اتنی ذلت، خواری، گالیاں تو اس پرانی قید میں سننے اور دیکھنے کو نہیں ملتی تھیں جتنی اب سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں لیکن مجال ہے کہ کہیں سے کوئی آواز سنا ئی دے دے کہیں سے اس نئی قید سے رہائی کے لیے کوئی کوشش اور جدوجہد دکھائی دے دے چپ چاپ ہر ذلت، خواری اورگالیوں کو برداشت کیے جا رہے ہیں، جب آپس میں رات کو بیٹھتے ہیں تو باتوں کے ذریعے بڑے بڑے تاج گرا دیتے ہیں۔

مضبوط سے مضبوط تخت ہلا دیتے ہیں مجرموں، آقاؤں، گناہگاروں اور بدکرداروں کو اپنے ہاتھوں سے سزا دے دیتے ہیں ہر جابر، ظالم ،کرپٹ اور بددیانت دارکا کچا چٹا کھول کر رکھ دیتے ہیں، پھر تھوڑی دیر بعد ملک سے ہر برائی، زیادتی، ظلم وستم، کرپشن، لوٹ مارکا خاتمہ کرکے آرام سے گھر کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور بستر پر پڑکر زور زور سے لمبے لمبے خراٹیں لینا شروع کردیتے ہیں اور جب دن میں غاصبوں، لٹیروں، جابروں اور آقاؤں کے خلاف عملی جدوجہدکا کوئی موقع ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس موقعے سے فرار ہونے میں ہمیشہ ہم نمبر ون آتے ہیں اور دیگرلوگ ہمیں ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ امریکا کے اعلان آزادی پر دستخط کرنے والوں کے پاس دنیا بھرکی تمام آسائشیں تھیں لیکن پھر بھی انھوں نے اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی آزادی کی خاطر اپنی ہر چیز داؤ پر لگا دی حتیٰ کہ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان تک بھی۔ لیکن ہمارے پاس توکھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور پانے کے لیے سارا جہاں ہے اس کے باوجود چپ چاپ، خاموشی کے ساتھ ہر ذلت برداشت کر رہے ہیں اور پھر چپکے سے مرجاتے ہیں، اگر ہم بزدل اور ڈرپوک نہیں ہیں تو پھرکیا ہیں۔ آپ ہی فیصلہ سنا دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں