امریکی قاتل یا معصوم پاکستانی اہم کون
جو لوگ سفارتی استثناء کی بات کرتے ہیں تو وہ جواب دیں کیا قاتل کو استثناء حاصل ہوتا ہے؟
ایک اور امریکی سفارتکار نے ایک معصوم پاکستانی شہری کو طاقت کے نشے میں کچل دیا۔ اب سفارتی استثناء کی آڑ میں امریکی ڈیفنس اتاشی کرنل جوزف کو با عزت واپس کرنے کی جس طرح کوششیں ہو رہی ہیں، اس پر اعلیٰ عدلیہ کو بھی برہمی کا اظہار کرنا پڑا، اگر سفارتی استثناء کی آڑ میں فیس سیونگ (Face Saving) نہ مل سکے تو دیت کے شرعی قانون کی زبردستی غریب خاندان پر ہو رہی ہے۔ یہ سانحہ الیکشن سے پہلے پاکستانی سیاسی ضمیرکا امتحان ہے کہ یہ سیاستدان عوام کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں یا ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کی طرح ملکی اور اسلامی قوانین کا ایک مرتبہ پھر مذاق بناتے ہیں۔ عوام ان خاموش سیاستدانوں کو بھی دیکھ لیں جن کی نظر میں پاکستانیوں کے خون کی کوئی حیثیت نہیں مگر امریکی کو بچانے کے لیے ساری مشینری حرکت میں آ جاتی ہے، اس موقعے پر سیاسی قیادت کی خاموشی شرمناک ہے، صرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ میں تحریک التواء جمع کرا کے قومی فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
جو لوگ سفارتی استثناء کی بات کرتے ہیں تو وہ جواب دیں کیا قاتل کو استثناء حاصل ہوتا ہے؟ قاتل کو سفارتی استثناء حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی انھیں (DUI) یعنی نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنے کا استثناء حاصل ہوتا ہے۔ پانچ سال قبل فروری 2013ء میں بھی کرنل جوزف کی طرح من وعن ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا۔ جب امریکی سفارتخانے کی ایک گاڑی نے اسلام آباد میں ٹریفک سگنل توڑ کر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) کے ایک ملاز م کو کچل دیا تھا جس کی وجہ سے وہ موت کی آغوش میں چلاگیا تھا، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی کیونکہ قاتل امریکی تھا۔ اب ایک اور امریکی نے ایک اور پاکستانی کو شہید کر دیا ہے۔
یہ غیرذمے دارانہ عمل آخر پاکستان میں ہی کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے حکومتی آلہ کار مفاد پرست اور غیرت سے عاری ہیں۔ امریکی مجرم کی رہائی اور داد رسی کے لیے ہر قانونی یا غیر قانونی نجات کا راستہ (Loophole) اختیار کیا جاتا ہے، اخباری اطلاع کے مطابق قائم مقام نائب امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز کو حکام نے امریکی درخواست مسترد کرنے سے آگاہ کر دیا ہے، مگر اپنے معصوم ہم وطنوں کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔
عافیہ کو بھی مکمل استثناء حاصل تھا، وہ صرف اور صرف پاکستانی شہری ہے۔ افغانستان سے امریکا منتقل کر کے عافیہ پر مقدمہ چل ہی نہیں سکتا تھا۔ آج پھر پاکستانیوں کی عزت اور جان کے تحفظ کا سوال ہے۔ عوام عافیہ کی وطن واپسی چاہتے ہیں، اگر کرنل جوزف کو استثناء دیا جاتا ہے تو مجھے بتائیں عافیہ کا مقدمہ امریکا میں کیوں چلا؟ وہ امریکی شہری نہیں اور اس کا پورا حق تھا اسے پاکستان بھیجا جائے۔ اسی ویانا کنونشن کے تحت جس کے تحت کسی سفارت کار کو استثناء دیا جاتا ہے، اگرکسی پاکستانی سفارت کار نے کسی امریکی کو اس طرح کچلا ہوتا تو کیا امریکی قوم سراپا احتجاج نہ ہوتی؟ کیا کوئی پاکستانی سفارتکار امریکا میں ٹریفک سگنل توڑنے کا تصور بھی کر سکتا ہے؟
یہ کیسا انصاف ہے کہ امریکی قتل کریں، غارتگری کریں اور آزاد گھومیں مگر دختر پاکستان کوگولی ماریں اور الٹا اس کو ہی قید کر دیں؟ ہمارے ملک میں قانون اس قدر کمزور کیوں ہے کہ پاکستانیوں کو گولی مارنے اور گاڑی سے کچلنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی تھی؟ کرنل جوزف کو محفوظ راستہ فراہم کر کے امریکیوں کو پاکستانیوں کو قتل کرنے کا لائسنس (Licence to Kill) نہ دیا جائے، اگرکرنل جوزف کو واپس کرنا مجبوری ہے تو سودا کرنے والے سودا تو باعزت کریں۔ قوم کی بیٹی معصوم عافیہ 15 سال سے امریکی جیل میں ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے The Contrctor کتاب لکھ کر اس وقت کی قومی قیادت اور پاکستانی عوام کی توہین کی ہے، اب یہ تاریخ نہیں دہرانی چاہیے۔
کرنل جوزف کو عافیہ کے بغیر واپس کرنا ایک گھناؤنا جرم اور ملک و قوم کی عزت اور غیرت کی پامالی ہوگی۔ امریکی قاتل کرنل جوزف کی گرفتاری اور معصوم عافیہ کی رہائی قومی قیادت کے ضمیرکا مقدمہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک اور ریمنڈ ڈیوس کی تاریخ دہرانے کی تیاری جاری ہے۔ ایک پاکستانی شہری کا خون ناحق بہایا گیا ہے، یہ قومی قیادت کے ضمیرکا مقدمہ ہے۔ کیا امریکی قاتل کرنل جوزف، ریمنڈ ڈیوس کی طرح معصوم عافیہ کی رہائی کے بغیر ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ میں یہ سوال ہماری سیاسی، دینی، عسکری، صحافتی، سماجی، عدالتی اور پوری سول سوسائٹی کے سامنے رکھتی ہوں، کوئی تو مجھے جواب دے۔ پاکستانیوں کو قتل کرنے پر امریکی آزاد ہو جاتے ہیں اور قوم کی معصوم بیٹی امریکی جیل میں سڑتی رہتی ہے۔
شکوہ نہیں کافر سے کہ ٹھہرے وہ کافر
تم لوگ تو اپنے تھے مسلمان تھے آخر
کچھ کرنے سے،کچھ کہنے سے کیونکر رہے قاصر
جو لوگ سفارتی استثناء کی بات کرتے ہیں تو وہ جواب دیں کیا قاتل کو استثناء حاصل ہوتا ہے؟ قاتل کو سفارتی استثناء حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی انھیں (DUI) یعنی نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنے کا استثناء حاصل ہوتا ہے۔ پانچ سال قبل فروری 2013ء میں بھی کرنل جوزف کی طرح من وعن ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا۔ جب امریکی سفارتخانے کی ایک گاڑی نے اسلام آباد میں ٹریفک سگنل توڑ کر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) کے ایک ملاز م کو کچل دیا تھا جس کی وجہ سے وہ موت کی آغوش میں چلاگیا تھا، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی کیونکہ قاتل امریکی تھا۔ اب ایک اور امریکی نے ایک اور پاکستانی کو شہید کر دیا ہے۔
یہ غیرذمے دارانہ عمل آخر پاکستان میں ہی کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے حکومتی آلہ کار مفاد پرست اور غیرت سے عاری ہیں۔ امریکی مجرم کی رہائی اور داد رسی کے لیے ہر قانونی یا غیر قانونی نجات کا راستہ (Loophole) اختیار کیا جاتا ہے، اخباری اطلاع کے مطابق قائم مقام نائب امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز کو حکام نے امریکی درخواست مسترد کرنے سے آگاہ کر دیا ہے، مگر اپنے معصوم ہم وطنوں کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔
عافیہ کو بھی مکمل استثناء حاصل تھا، وہ صرف اور صرف پاکستانی شہری ہے۔ افغانستان سے امریکا منتقل کر کے عافیہ پر مقدمہ چل ہی نہیں سکتا تھا۔ آج پھر پاکستانیوں کی عزت اور جان کے تحفظ کا سوال ہے۔ عوام عافیہ کی وطن واپسی چاہتے ہیں، اگر کرنل جوزف کو استثناء دیا جاتا ہے تو مجھے بتائیں عافیہ کا مقدمہ امریکا میں کیوں چلا؟ وہ امریکی شہری نہیں اور اس کا پورا حق تھا اسے پاکستان بھیجا جائے۔ اسی ویانا کنونشن کے تحت جس کے تحت کسی سفارت کار کو استثناء دیا جاتا ہے، اگرکسی پاکستانی سفارت کار نے کسی امریکی کو اس طرح کچلا ہوتا تو کیا امریکی قوم سراپا احتجاج نہ ہوتی؟ کیا کوئی پاکستانی سفارتکار امریکا میں ٹریفک سگنل توڑنے کا تصور بھی کر سکتا ہے؟
یہ کیسا انصاف ہے کہ امریکی قتل کریں، غارتگری کریں اور آزاد گھومیں مگر دختر پاکستان کوگولی ماریں اور الٹا اس کو ہی قید کر دیں؟ ہمارے ملک میں قانون اس قدر کمزور کیوں ہے کہ پاکستانیوں کو گولی مارنے اور گاڑی سے کچلنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی تھی؟ کرنل جوزف کو محفوظ راستہ فراہم کر کے امریکیوں کو پاکستانیوں کو قتل کرنے کا لائسنس (Licence to Kill) نہ دیا جائے، اگرکرنل جوزف کو واپس کرنا مجبوری ہے تو سودا کرنے والے سودا تو باعزت کریں۔ قوم کی بیٹی معصوم عافیہ 15 سال سے امریکی جیل میں ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے The Contrctor کتاب لکھ کر اس وقت کی قومی قیادت اور پاکستانی عوام کی توہین کی ہے، اب یہ تاریخ نہیں دہرانی چاہیے۔
کرنل جوزف کو عافیہ کے بغیر واپس کرنا ایک گھناؤنا جرم اور ملک و قوم کی عزت اور غیرت کی پامالی ہوگی۔ امریکی قاتل کرنل جوزف کی گرفتاری اور معصوم عافیہ کی رہائی قومی قیادت کے ضمیرکا مقدمہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک اور ریمنڈ ڈیوس کی تاریخ دہرانے کی تیاری جاری ہے۔ ایک پاکستانی شہری کا خون ناحق بہایا گیا ہے، یہ قومی قیادت کے ضمیرکا مقدمہ ہے۔ کیا امریکی قاتل کرنل جوزف، ریمنڈ ڈیوس کی طرح معصوم عافیہ کی رہائی کے بغیر ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ میں یہ سوال ہماری سیاسی، دینی، عسکری، صحافتی، سماجی، عدالتی اور پوری سول سوسائٹی کے سامنے رکھتی ہوں، کوئی تو مجھے جواب دے۔ پاکستانیوں کو قتل کرنے پر امریکی آزاد ہو جاتے ہیں اور قوم کی معصوم بیٹی امریکی جیل میں سڑتی رہتی ہے۔
شکوہ نہیں کافر سے کہ ٹھہرے وہ کافر
تم لوگ تو اپنے تھے مسلمان تھے آخر
کچھ کرنے سے،کچھ کہنے سے کیونکر رہے قاصر