تحریک انصاف آئندہ مخلوط حکومت کی مرکزی شراکت دار ہو گی
پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے 23 سے زائد اراکین اسمبلی تحریک انصاف سے رابطے میں ہیں
میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ میں دم خم نہیں ہے شاید وہ صحیح کہہ رہے ہیں کیونکہ جس پارلیمنٹ میں میاں نوازشریف بطور وزیراعظم موجود نہ ہوں وہ بھی بھلا کوئی پارلیمنٹ ہے ویسے میاں صاحب کو یاد رہے کہ اسی پارلیمنٹ نے پانامہ کیس سے جان چھڑوانے میں اور عدلیہ کے خلاف جارحانہ سیاست میں ان کا ساتھ نہیں دیا ہے۔
میاں نواز شریف کو2014 ء کی یہی پارلیمنٹ اس وقت بہت مضبوط معلوم ہوئی تھی جب پارلیمنٹ نے میاں نواز شریف کو استعفیٰ دینے سے روک لیا تھا ورنہ میاں صاحب تو استعفیٰ جیب میں لیے گھوم رہے تھے کہ نجانے کب ،کہاں اور کسے یہ پیش کرنا پڑ جائے۔ نواز شریف اور ان کے ہمنواؤں کی سیاسی رخصتی نوشتہ دیوار ہے جسے سب جان چکے ہیں لیکن میاں صاحب آج بھی بضد ہیں کہ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ ملکی صورتحال کو اس قدر کشیدہ اور متصادم بنانے میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی غیر آئینی سانحہ رونما ہو جائے۔ مسلم لیگ(ن) کے اندرونی معاملات بھی نواز شریف کی گرفت سے نکلتے جا رہے ہیں۔
ڈوبتے جہاز میں کوئی سوار رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس وقت میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی ''کور ٹیم'' ہی میدان میں نکلی ہوئی ہے ورنہ دیگر اہم ترین لیگی رہنما تو کب کے خود کو''محدود'' کر چکے ہیں۔ حاضری لگانے کے چکر میں ایک آدھ بیان دے دینا یا ٹاک شو میں آجا نا ، یہی پالیسی لیگی رہنماوں نے اپنا رکھی ہے۔ پاکستان میں سیاست ہمیشہ طاقت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید وہ آخری سیاستدان تھے جنہوں نے عوامی طاقت کے بل بوتے پر سیاست کی اس کے بعد تو سیاستدانوں نے جج، جرنل اور جرنلسٹ کی لابنگ اور کرپشن کی کمائی کے زور پر سیاست کی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو عشق ہوا تو میاں صاحب کے ساتھ ہوا جنہوں نے ہر مرتبہ بے وفائی کی۔ پاکستانی تاریخ میں مسلم لیگ(ن) کو دو مرتبہ بھاری مینڈیٹ دلایا گیا اور ہر بار میاں صاحب نے اس مینڈیٹ کے نشے میں کسی '' چیف ''کے ساتھ محاذ آرائی کی۔ انہی وجوہات کی بناء پر کہا جا رہا ہے کہ اب کسی سیاسی جماعت کو دو تہائی اکثریت ملنے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں بھی معلق پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت وجود میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ آئندہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ابھی ابہام موجود ہے۔ طاقتور اور با خبر حلقے تو انتخابات کے بروقت انعقاد کے سوال پر معنی خیز مسکراہٹ سے بنا کچھ کہے بہت کچھ بتا رہے ہیں۔ میاں صاحب اور مریم نواز کا جارحانہ انداز مزید سخت ہوتا جا رہا ہے جو جمہوریت کی بقاء کیلئے خطرناک ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت سنبھالنے کے بعد میاں شہباز شریف انتھک محنت کر رہے ہیں کہ کسی طور مسلم لیگ(ن) کو یکجا رکھ سکیں اور الیکٹ ایبلز کو جانے سے روک سکیں لیکن فی الوقت وہ کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بنک میاں نواز شریف کے ساتھ منسلک رہا ہے اور آج بھی ہے اس میں کمی تو آرہی ہے لیکن ووٹ بنک کی ملکیت تبدیل نہیں ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جاری چہ میگوئیوں کے مطابق شریف خاندان کے اندر اقتدار کی لڑائی آج بھی جاری ہے خواہ وہ حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان ہو یا پھر حمزہ شہباز اور مریم نواز کے مابین۔گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران مریم نواز بہت تیزی سے سیاسی افق پر نمودار ہوئی ہیں لیکن پارٹی کے اندر ان کے انداز سیاست سے اختلاف، اداروں کی ناپسندیدگی، سیاسی کم عمری اور ناتجربہ کاری جیسے اعتراضات نے انہیں میاں نواز شریف کا متبادل قائد نہیں بننے دیا ہے۔
چوہدری نثارتو بادشاہ آدمی ہیں اس لیئے اعلانیہ مریم نواز کی قیادت ماننے سے انکاری ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) کے انتہائی اہم رہنماوں کی اکثریت بھی یہی سوچ رکھتی ہے۔ سیاسی طوفان آتا دیکھ کر موسمی پرندے مسلم لیگ(ن) کی شاخوں سے اڑان بھر رہے ہیں جس کو بھی اگلی منزل کی یقین دہانی مل جاتی ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستان میں سیاست اور سیاستدان''تاثر'' کی بنیاد پر مستقبل کی راہوں کا تعین کرتے ہیں اس وقت عمومی فضا بن چکی ہے کہ مقتدر اداروں سے لڑائی کے بعد ن لیگ کا دوبارہ اقتدار میں آنا ممکن نہیں رہا ہے اور آئندہ مخلوط حکومت میں تحریک انصاف لیڈ کر رہی ہو گی۔ اس حوالے سے یہ بات بھی بہت دعوے سے کہی جا رہی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں تو وزیر اعلی تحریک انصاف سے ہوگا اور سندھ و بلوچستان میں پیپلز پارٹی سے لیکن آئندہ حکومت کا وزیر اعظم شاید قوم کیلئے''سرپرائز'' ہوگا۔
پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے 23 سے زائد اراکین اسمبلی تحریک انصاف سے رابطے میں ہیں اور ان کے حلقوں کی حتمی ایڈجسٹمنٹ ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے سیالکوٹ کے معروف اور بڑے سسیاسی خاندان''وریو فیملی'' کا تذکرہ بہت ہو رہا ہے کہ وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ گو کہ چند روز قبل وریو خاندان کے بڑوں نے میاں شہباز شریف سے ملاقات کی ہے لیکن آیا میاں شہباز شریف انہیں روکنے میں کامیاب ہو پائے ہیں یا نہیں اس کا جواب چند روز میں مل جائے گا۔ وریو خاندان کی سیالکوٹ کی سیاست میں ہمیشہ بہت اہمیت رہی ہے اور بلا شبہ ان کا ذاتی ووٹ بنک بھی موجود ہے۔
زیر گردش اطلاعات کے مطابق وریو فیملی اگر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتی ہے تو پھر انہیں قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے پارٹی ٹکٹ دیا جا سکتا ہے۔ موجودہ ایم این اے ارمغان سبحانی این اے76 سے جبکہ خوش اختر سبحانی این اے 73 سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ اس وقت این اے76 سے تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے کی امیدوار سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہیں لیکن ارمغان سبحانی کے آنے کی صورت میں پارٹی قیادت لازمی طور پر اس حلقہ سے ٹکٹ کیلئے ارمغان کوترجیح دے گی۔
ڈاکٹر فردوس اعوان نے کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے اور ان کے بارے میں پی ٹی آئی میں ازراہ طنز کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے ''جبری'' شمولیت اختیار کی تھی کیونکہ سیالکوٹ میں موجود تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما ان کے ساتھ زیادہ مطمئن نہیں ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ سابقہ الیکشن میں حصہ لینے والے میاں عابد اور طاہر ہندلی بھی شاید اس مرتبہ فردوس اعوان کے ساتھ الیکشن کیلئے تیار نہیں ہیں۔ این اے76 میں تحریک انصاف کے ایک اور سینئر رہنما سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین بھی موجود ہیں جو پانچ مرتبہ رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ وریو خاندان کو دوسری قومی اسمبلی کی نشست کیلئے تحریک انصاف کے پاس این اے73 اور این اے72 کی آپشن موجود ہے۔ این اے75 سے عثمان ڈار جبکہ این اے 74 سے گھمن برادران کی ٹکٹ کنفرم ہے لہذا ان دنوں حلقوں کے حوالے سے کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 8برس کے بعد گزشتہ روز اندرون شہر کامختصر دورہ کیا ہے۔سکیورٹی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر کپتان کا دورہ مختصر تو کردیا گیا لیکن مجموعی طور پر عوامی ردعمل تحریک انصاف کیلئے حوصلہ افزاء ہے۔ 29 اپریل کو مینار پاکستان پر جلسہ کیلئے تحریک انصاف کی غیر معمولی تیاریاں جاری ہیں۔ صدر سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان اپنی ٹیم کے ساتھ انتظامی و سیاسی تیاریوں میں دن رات مگن ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ 29 اپریل کا جلسہ 11 اکتوبر2011 ء کے ریکارڈ کو توڑ دے گا۔
میاں نواز شریف کو2014 ء کی یہی پارلیمنٹ اس وقت بہت مضبوط معلوم ہوئی تھی جب پارلیمنٹ نے میاں نواز شریف کو استعفیٰ دینے سے روک لیا تھا ورنہ میاں صاحب تو استعفیٰ جیب میں لیے گھوم رہے تھے کہ نجانے کب ،کہاں اور کسے یہ پیش کرنا پڑ جائے۔ نواز شریف اور ان کے ہمنواؤں کی سیاسی رخصتی نوشتہ دیوار ہے جسے سب جان چکے ہیں لیکن میاں صاحب آج بھی بضد ہیں کہ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ ملکی صورتحال کو اس قدر کشیدہ اور متصادم بنانے میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی غیر آئینی سانحہ رونما ہو جائے۔ مسلم لیگ(ن) کے اندرونی معاملات بھی نواز شریف کی گرفت سے نکلتے جا رہے ہیں۔
ڈوبتے جہاز میں کوئی سوار رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس وقت میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی ''کور ٹیم'' ہی میدان میں نکلی ہوئی ہے ورنہ دیگر اہم ترین لیگی رہنما تو کب کے خود کو''محدود'' کر چکے ہیں۔ حاضری لگانے کے چکر میں ایک آدھ بیان دے دینا یا ٹاک شو میں آجا نا ، یہی پالیسی لیگی رہنماوں نے اپنا رکھی ہے۔ پاکستان میں سیاست ہمیشہ طاقت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید وہ آخری سیاستدان تھے جنہوں نے عوامی طاقت کے بل بوتے پر سیاست کی اس کے بعد تو سیاستدانوں نے جج، جرنل اور جرنلسٹ کی لابنگ اور کرپشن کی کمائی کے زور پر سیاست کی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو عشق ہوا تو میاں صاحب کے ساتھ ہوا جنہوں نے ہر مرتبہ بے وفائی کی۔ پاکستانی تاریخ میں مسلم لیگ(ن) کو دو مرتبہ بھاری مینڈیٹ دلایا گیا اور ہر بار میاں صاحب نے اس مینڈیٹ کے نشے میں کسی '' چیف ''کے ساتھ محاذ آرائی کی۔ انہی وجوہات کی بناء پر کہا جا رہا ہے کہ اب کسی سیاسی جماعت کو دو تہائی اکثریت ملنے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں بھی معلق پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت وجود میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ آئندہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ابھی ابہام موجود ہے۔ طاقتور اور با خبر حلقے تو انتخابات کے بروقت انعقاد کے سوال پر معنی خیز مسکراہٹ سے بنا کچھ کہے بہت کچھ بتا رہے ہیں۔ میاں صاحب اور مریم نواز کا جارحانہ انداز مزید سخت ہوتا جا رہا ہے جو جمہوریت کی بقاء کیلئے خطرناک ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت سنبھالنے کے بعد میاں شہباز شریف انتھک محنت کر رہے ہیں کہ کسی طور مسلم لیگ(ن) کو یکجا رکھ سکیں اور الیکٹ ایبلز کو جانے سے روک سکیں لیکن فی الوقت وہ کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بنک میاں نواز شریف کے ساتھ منسلک رہا ہے اور آج بھی ہے اس میں کمی تو آرہی ہے لیکن ووٹ بنک کی ملکیت تبدیل نہیں ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جاری چہ میگوئیوں کے مطابق شریف خاندان کے اندر اقتدار کی لڑائی آج بھی جاری ہے خواہ وہ حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان ہو یا پھر حمزہ شہباز اور مریم نواز کے مابین۔گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران مریم نواز بہت تیزی سے سیاسی افق پر نمودار ہوئی ہیں لیکن پارٹی کے اندر ان کے انداز سیاست سے اختلاف، اداروں کی ناپسندیدگی، سیاسی کم عمری اور ناتجربہ کاری جیسے اعتراضات نے انہیں میاں نواز شریف کا متبادل قائد نہیں بننے دیا ہے۔
چوہدری نثارتو بادشاہ آدمی ہیں اس لیئے اعلانیہ مریم نواز کی قیادت ماننے سے انکاری ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) کے انتہائی اہم رہنماوں کی اکثریت بھی یہی سوچ رکھتی ہے۔ سیاسی طوفان آتا دیکھ کر موسمی پرندے مسلم لیگ(ن) کی شاخوں سے اڑان بھر رہے ہیں جس کو بھی اگلی منزل کی یقین دہانی مل جاتی ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستان میں سیاست اور سیاستدان''تاثر'' کی بنیاد پر مستقبل کی راہوں کا تعین کرتے ہیں اس وقت عمومی فضا بن چکی ہے کہ مقتدر اداروں سے لڑائی کے بعد ن لیگ کا دوبارہ اقتدار میں آنا ممکن نہیں رہا ہے اور آئندہ مخلوط حکومت میں تحریک انصاف لیڈ کر رہی ہو گی۔ اس حوالے سے یہ بات بھی بہت دعوے سے کہی جا رہی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں تو وزیر اعلی تحریک انصاف سے ہوگا اور سندھ و بلوچستان میں پیپلز پارٹی سے لیکن آئندہ حکومت کا وزیر اعظم شاید قوم کیلئے''سرپرائز'' ہوگا۔
پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے 23 سے زائد اراکین اسمبلی تحریک انصاف سے رابطے میں ہیں اور ان کے حلقوں کی حتمی ایڈجسٹمنٹ ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے سیالکوٹ کے معروف اور بڑے سسیاسی خاندان''وریو فیملی'' کا تذکرہ بہت ہو رہا ہے کہ وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ گو کہ چند روز قبل وریو خاندان کے بڑوں نے میاں شہباز شریف سے ملاقات کی ہے لیکن آیا میاں شہباز شریف انہیں روکنے میں کامیاب ہو پائے ہیں یا نہیں اس کا جواب چند روز میں مل جائے گا۔ وریو خاندان کی سیالکوٹ کی سیاست میں ہمیشہ بہت اہمیت رہی ہے اور بلا شبہ ان کا ذاتی ووٹ بنک بھی موجود ہے۔
زیر گردش اطلاعات کے مطابق وریو فیملی اگر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتی ہے تو پھر انہیں قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے پارٹی ٹکٹ دیا جا سکتا ہے۔ موجودہ ایم این اے ارمغان سبحانی این اے76 سے جبکہ خوش اختر سبحانی این اے 73 سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ اس وقت این اے76 سے تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے کی امیدوار سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہیں لیکن ارمغان سبحانی کے آنے کی صورت میں پارٹی قیادت لازمی طور پر اس حلقہ سے ٹکٹ کیلئے ارمغان کوترجیح دے گی۔
ڈاکٹر فردوس اعوان نے کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے اور ان کے بارے میں پی ٹی آئی میں ازراہ طنز کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے ''جبری'' شمولیت اختیار کی تھی کیونکہ سیالکوٹ میں موجود تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما ان کے ساتھ زیادہ مطمئن نہیں ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ سابقہ الیکشن میں حصہ لینے والے میاں عابد اور طاہر ہندلی بھی شاید اس مرتبہ فردوس اعوان کے ساتھ الیکشن کیلئے تیار نہیں ہیں۔ این اے76 میں تحریک انصاف کے ایک اور سینئر رہنما سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین بھی موجود ہیں جو پانچ مرتبہ رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ وریو خاندان کو دوسری قومی اسمبلی کی نشست کیلئے تحریک انصاف کے پاس این اے73 اور این اے72 کی آپشن موجود ہے۔ این اے75 سے عثمان ڈار جبکہ این اے 74 سے گھمن برادران کی ٹکٹ کنفرم ہے لہذا ان دنوں حلقوں کے حوالے سے کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 8برس کے بعد گزشتہ روز اندرون شہر کامختصر دورہ کیا ہے۔سکیورٹی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر کپتان کا دورہ مختصر تو کردیا گیا لیکن مجموعی طور پر عوامی ردعمل تحریک انصاف کیلئے حوصلہ افزاء ہے۔ 29 اپریل کو مینار پاکستان پر جلسہ کیلئے تحریک انصاف کی غیر معمولی تیاریاں جاری ہیں۔ صدر سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان اپنی ٹیم کے ساتھ انتظامی و سیاسی تیاریوں میں دن رات مگن ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ 29 اپریل کا جلسہ 11 اکتوبر2011 ء کے ریکارڈ کو توڑ دے گا۔