چیف جسٹس زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے بالاکوٹ پہنچ گئے

اپنے خرچے پر زلزلہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے، چیف جسٹس کے ریمارکس


ویب ڈیسک April 25, 2018
اپنے خرچے پر زلزلہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے، چیف جسٹس کے ریمارکس۔ فوٹو:فائل

KARACHI: سپریم کورٹ میں زلزلہ متاثرین فنڈز کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت روک کر زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے لیے بالاکوٹ پہنچ گیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے زلزلہ متاثرین فنڈز کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں یہ بتائیں زلزلہ متاثرہ شہر بالا کوٹ کا کیا بنا، کیا غیر ملکی امداد قومی خزانے میں ڈال دی گئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈز میں جو رقم مختص ہوتی ہے وہ وزارت خزانہ جاری کرتی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زلزلے کے وقت مخیر حضرات نے فنڈز دیے اور غیر ملکی امداد بھی آئی، ان تمام فنڈز کا کیا بنا، یہ بھی بتائیں کہ مجموعی طور پر متاثرین کے لیے کتنی امداد آئی۔ وزارت خزانہ حکام نے کہا کہ بیرون ملک سے 2.89 ارب ڈالرکی امداد آئی جب کہ اندرون ملک سے آنے والی امداد ہمارے پاس نہیں۔

'' چیف جسٹس نے بذریعہ سڑک بالاکوٹ پہنچے ''


دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے بالاکوٹ کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں جانے کا فیصلہ کیا اور درخواست گزاروں کو بھی ساتھ چلنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے پرائیویٹ ہیلی کاپٹر سے متعلق معلومات لیتے ہوئے کہا کہ ہیلی کاپٹر کرایہ پر لینے کا کیاریٹ ہے، اپنے خرچے پر زلزلہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے، چیف جسٹس نے بذریعہ سڑک بالاکوٹ جانے کا کہہ کر عدالتی کارروائی ختم کردی اور بینچ کے ہمراہ بالا کوٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔

'' 12 سال سے اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال چلارہے ہیں ''


بالاکوٹ پہنچنے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار بالاکوٹ کے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال میں گئے جہاں لوگوں نے چیف جسٹس کے حق میں نعرہ بازی کی جب کہ مقامی آبادی نے ہاتھ اٹھاکر چیف جسٹس کے لیے دعائیں کی۔ اسپتال کے دورہ کے دوران انتظامیہ نے ایرا اور حکومت کے خلاف شکایات کرتے ہوئے کہا کہ 12 سال سے اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال چلارہے ہیں جب کہ وفاقی، صوبائی حکومت سمیت ایرا اور پیرا نے کوئی تعاون نہیں کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں