انتخابی اتحاد کے بغیر الیکشن لڑنے سے چھوٹی جماعتوں کا صفایا ہوسکتا ہے

متعددچھوٹی جماعتیں،جوزیادہ ترانفرادی شخصیات کے گردگھومتی تھیں،اس لیے زندہ رہیں کیونکہ بڑی جماعتیں انھی گودلےلیتی تھیں


مظہر عباس April 15, 2013
متعددچھوٹی جماعتیں ،جوزیادہ ترانفرادی شخصیات کے گردگھومتی تھیں ،اس لیے زندہ رہیں کیونکہ بڑی جماعتیں انھی گودلے لیتی تھیں. فوٹو: فائل

مسلم لیگ ن ،ق اور تحریک انصاف کی طرف سے کسی انتخابی اتحاداوربڑی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بغیرانتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کے نتیجے میں ان چھوٹی جماعتوں کا مکمل صفایاہوسکتاہے جوبڑی جماعتوں پربھاری انحصارکرتی تھیں۔

ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ،اتحادوں (زیادہ ترپیپلزپارٹی مخالف) کی تشکیل اورتوڑپھوڑمیں اہم کردار ادا کرتی تھی،نے پیش رفتوں پرپہلی مرتبہ صرف نظررکھی ہوئی ہے مگرکسی بڑے انتخابی اتحادمیں کوئی کردارادانہیں کیاجس کے باعث چھوٹی جماعتیں مشکل صورتحال سے دوچارہوگئی ہیں۔ یہ غالباًاصغرخان کیس کانتیجہ ہوسکتاہے ،جس میں 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی پراس وقت کے آرمی اورآئی ایس آئی چیفس کیخلاف مقدمہ درج کرنے کامطالبہ کیاگیا۔ اس نے آئی ایس آئی کا میڈیا سیل بندکرنے اورسیاست میں ایجنسیوں کی مداخلت کا بھی مطالبہ کیا۔

متعددچھوٹی جماعتیں ،جوزیادہ ترانفرادی شخصیات کے گردگھومتی تھیں ،اس لیے زندہ رہیں کیونکہ بڑی جماعتیں انھی گودلے لیتی تھیں۔ ذوالفقارعلی بھٹوانھیں تانگہ پارٹیاں کہتے تھے۔ مسلم لیگ ہم خیال اورمسلم لیگ ضیاء الحق کوپہنچنے والاحالیہ دھچکاکئی جماعتوں کی آنکھیں کھول سکتاہے۔ انھوں نے نوازشریف کواس وقت چھوڑاجب 12اکتوبر1999ء کے بعدان کی حمایت درکارتھی تاہم نوازشریف نے بھی انھیں اس وقت دفنادیاجب وہ کہیں اورنہیں جاسکتے تھے۔وہ اس قدرمایوس ہوچکے ہیں کہ ان میں سے ایک لیڈرکشمالہ طارق سیاست سے توبہ تائب ہوکرقانون کی پریکٹس چھوڑنے پرغورکررہی ہیں۔ پروفیسرساجدمیراورصاحبزادہ فضل کریم (جنھوں نے بیماری کے باعث پارٹی اپنے بیٹے کے حوالے کردی ہے)جیسے رہنما،جوماضی میں مسلم لیگ ن کی حمایت کی بدولت پارلیمینٹ میں پہنچے ،ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔

اسی طرح نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کابیٹابھی شدیدمشکل میں ہے اوریکے بعددیگرے جماعتیں بدل رہاہے۔ مسلم لیگ ن،جس کی پنجاب میں واضح برتری کہی جاتی ہے، نے بالاخرتن تنہاپروازکافیصلہ کیاہے ،اس سے تحریک انصاف کے ساتھ اس کے سخت مقابلے کی پیش گوئیوں اورچندنشستوںپر ق لیگ اورپیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدواروں کواپ سیٹ کرنے کیلیے ان کے اعتمادکی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس نے مسلم لیگ ہم خیال پراپنے دروازے بندکرنے کے بعدجماعت اسلامی کوبھی مایوس کیاہے ۔جس کے بعدجماعت کواپنی سیاست پرغورکرنے کی ضرورت ہے کہ ن لیگ اورتحریک انصاف نے اس کے ساتھ بڑی سیٹ ایڈجسٹمینٹ کیوں نہیں کی حالانکہ دیگرصوبوں میں انھوں نے ہاتھ ملائے ہیں۔

امیرجماعت اسلامی کے بیانات میں کھلاتضادسامنے آیاہے ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ بڑی جماعتیں غیرملکی دباؤکے باعث ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ سے اجتناب کررہی ہیں ۔دوسری طرف خوداعتراف کیاہے کہ انھوں نے 6سیٹوں پرن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ کی ہے۔انھوںنے حیران کن طورپرفوزیہ صدیقی کوکاغذات نامزدگی واپس لینے اوران کی حمایت سے حیران کن طورپرانکارکیاہے۔ تحریک انصاف ،ن لیگ اورجے یوآئی ف کے ساتھ کسی بڑی ایڈجسٹمینٹ کیلیے اتحادنہ ہوناجماعت کی موجودہ قیادت کی ناکامی ہے۔ادھرنوازشریف،جو پنجاب میں کلین سویپ کیلیے پراعتمادہیں،اب دیگرصوبوںپرقدم جما رہے ہیں۔انھوں نے حال ہی میں اپنے چھوٹے بھائی شہبازشریف کوبلوچستان بھیجاجنھوں نے بی این پی مینگل کے سربراہ سے ملاقات کی ۔انتخابات میں ن لیگ اوربی این ایم کی کامیابی کی صورت میں شریف ،مینگل کووزیراعلیٰ بنائیں گے۔

انھوں نے محموداچکزئی کے ساتھ بھی ملاقات کی تاکہ ن لیگ کی طرف سے نگراں وزیراعظم کیلیے ان کانام واپس لیے جانے کے بعدپیداہونے والے اختلافات ختم کیے جاسکیں۔ شریف برادران10جماعتی اتحادکی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کابھی بے چینی سے انتظارکررہے ہیں اوراپنی پارٹی کے صوبائی صدرکوٹاسک سونپ رکھاہے ۔غوث علی شاہ نے انھیں ''مثبت اشارے ''دیے ہیں۔ کے پی کے میں ن لیگ کے جماعت اورجے یوآئی ف سے سیٹ ایڈجسٹمینٹ پراختلافات کے باعث تحریک انصاف کوفائدہ ہوسکتا ہے۔ تاہم کے پی کے اورفاٹامیں جس تیزی سے سیاست رخ موڑرہی ہے ،مذکورہ تینوں جماعتیں عمران خان کوہرانے کیلیے اتحادکرسکتی ہیں۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران صرف پنجاب اورکے پی کے پرتوجہ جبکہ سندھ اوربلوچستان میں مخالفین کوکھلاموقع فراہم کررہے ہیں۔خان جانتاہے کہ وہ پنجاب میں بڑی فتح کی صورت میں ہی وہ اسلام آبادمیں حکومت بناسکتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی مفاہمتی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اورچاروں صوبوں میں اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ وہ سندھ میںاپنے دیرینہ حریف ارباب غلام رحیم سے گفت وشنید کررہی ہے جو پیپلزپارٹی دورحکومت میں مارے جانے یاجیل جانے کے خوف سے پاکستان واپس نہیں آئے۔

اس صورتحال میںشیخ رشید خوش قسمت ہیں کہ انھیں عمران خان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے جوپے درپے شکستوں کے بعدپارلیمینٹ میںپہنچنے کی ان کی آخری کوشش ثابت ہوسکتی ہے۔ن لیگ ،تحریک انصاف اورپی پی پی/ق لیگ کی پولرائزیشن کے باعث پنجاب میں آزادامیدواروں کاجیتناناممکن دکھاتی دیتاہے تاہم بلوچستان اورسندھ میں صورتحال اس کے برعکس ہوسکتی ہے۔ یہ چھوٹی اورمذہبی جماعتوں کیلیے اپنی طاقت اورووٹ زیادہ یاکم ہونے کا لٹمس ٹیسٹ بھی ہوسکتاہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |