ناٹ فار سیل
امید کی جانی چاہیے کہ تعلیم کے لیے مختص زمین کو کسی بھی بہانے سے چھینا نہیں جا سکے گا۔
پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس ہمارے زمانے میں بن تو چکا تھا لیکن ابھی بہت سے شعبے یا تو بنے ہی نہیں تھے یا وہاں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ اتفاق سے ہمارا شعبہ یعنی شعبہ اردو جو اوریئنٹل کالج کا حصہ تھا نہ صرف اس وقت اولڈ کیمپس میں تھا بلکہ آج بھی وہیں کا وہیں ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں اچھرہ موڑ اور وحدت کالونی کے بعد زرعی علاقہ شروع ہو جاتا تھا اور نیو کیمپس گویا ماڈل ٹاؤن کی طرح پرانے شہر سے الگ ایک علاقہ تھا' دونوں کا درمیانی فاصلہ سات یا آٹھ کلومیٹر ہو گا لیکن اس وقت یہ بہت زیادہ لگتا تھا کہ متعلقہ بس اسٹاپ تک پہنچنے اور وہاں سے کئی اسٹاپس پر رک کر منزل مقصود تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا تھا۔
رکشوں، اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں کا رواج بہت کم تھا سو متبادل سواریاں سائیکل کے علاوہ ٹانگہ یا ٹانگیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت تک (یعنی 1965-66 میں) ابھی اس کی بہت سی کم عمارتیں مکمل ہوئی تھیں اور طلبہ کی تعداد بھی آج کے مقابلے میں کم از کم دس گنا کم تھی۔ اسٹوڈنٹ ٹیچر سینٹر کنٹین سے ملحقہ ایک عمارت میں واقع تھا جہاں میرا پنجاب یونیورسٹی لٹریری سوسائٹی کے چیئرمین کی سیٹ کے لیے انٹرویو اور انتخاب ہوا تھا اور اسی دن وہیں میری آغا افضال حسین مرحوم اور اطہر شاہ خاں جیدی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ آغا صاحب اس سینٹر کے انچارج اور اطہر شاہ خاں شعبہ صحافت کا طالب علم تھا لیکن نیو کیمپس کی فضا سے اصل ملاقات اور دوستی اگلے برس شروع ہوئی جب مجھے بطور چیف ایڈیٹر یونیورسٹی میگزین ''محور'' مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ وہیں ایک علیحدہ اور باقاعدہ دفتر بھی دیا گیا۔
طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے اس زمانے میں یہ دونوں عہدے VIP اسٹیٹس کے حامل ہو گئے تھے سو ہم بھی اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق وہاں کی نمایاں شخصیت بن گئے۔اور یوں تقریباً تمام شعبوں کے طلبہ و طالبات سے ملنا جلنا ہوگیا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت لڑکوں کے دو اور لڑکیوں کا صرف ایک ہاسٹل ہی کام کر رہا تھا اور خال خال عمارتوں کی وجہ سے یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یونیورسٹی کے لیے مختص زمین کتنی اور کہاں تک ہے۔
شعبہ تعلیم' لاہور شہر اور پنجاب یونیورسٹی سے شعر و ادب کے حوالے سے مستقل تعلق کی وجہ سے میں اس خوبصورت جامعہ کی تعمیر و ترقی اور فروغ کا ایک چشم دید گواہ رہا ہوں، اب یہ اپنے پھیلاؤ کی وجہ سے اپنی جگہ پر ایک چھوٹا سا شہر بن چکی ہے کہ یہاں تیس ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم اور غالباً چار ہزار سے زیادہ ہاسٹلز کے مقیم ہیں۔ اساتذہ کا رہائشی علاقہ اس کے علاوہ ہے ۔
اس پس منظر میں جب چند برس قبل یہ ا طلاع ملی کہ کچھ بااثر اور کاروباری لوگ اس کی بے آباد مگر بے حد قیمتی زمین کو زور و زر سے ہتھیانے کے چکر میں ہیں تو تشویش اور دکھ نے ایک ساتھ آن گھیرا کہ ایک طرف یہ اندیشہ تھا کہ کہیں یہ لوگ اس مذموم کوشش میں کامیاب نہ ہو جائیں اور دوسری طرف یہ افسوس کہ کس طرح چند زر دار لوگوں نے تعلیم کے مختص زمین کو بھی جنس بازار بنا دیا ہے۔ سو ہم نے بھی بہت سے دیگر اہل دل اور علم دوست احباب کی طرح ہر فورم پر اس کے خلاف آواز بلند کی اور وقتی طور پر یہ خطرہ ٹل گیا پھر معلوم ہوا کہ شہر کے پھیلاؤ اور نئی آبادیوں کے دباؤ کی وجہ سے یونیورسٹی کے اردگرد کی سڑکیں کم پڑ گئی ہیں اور اب اس مسئلے سے نمٹنے اور نئی سڑکیں تعمیر کرنے کی وجہ سے یونیورسٹی کی کچھ زمین بھی بیچ میں آ گئی ہے ۔
اب یہ ایک بہت مشکل اور متنازعہ قسم کی صورت حال تھی جسے میاں شہباز شریف کے شوق تعمیر اور ہٹ دھرمی نے مزید پیچیدہ بنا دیا تھا کہ موصوف اپنی مرضی کا کام کرنے کے لیے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کا ہنر جانتے ہیں سو وہی ہوا جس کا ڈر تھا مگر تھوڑی سی تسلی بھی تھی کہ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق علم اور تعلیم کی اس خوبی سے بھی تھا کہ کسی بڑے اور بہتر مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات جذبات کے ساتھ سمجھوتہ بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔
مگر اب جو خبریں مزید 80 کنال زمین کو کسی نام نہاد گرڈ اسٹیشن کی تعمیر کے لیے ہتھیانے کے ضمن میں گردش کر رہی ہیں وہ اس اعتبار سے بے حد تکلیف دہ ہیں کہ یہ عمل نہ صرف انتہائی افسوسناک اور تعلیم دشمن ہے بلکہ اس مذموم فعل اور مقصد کے حصول کے لیے وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے دیگر معزز اساتذہ کو بذریعہ سنڈیکیٹ اس سازش کا حصہ اور ایک کردار بننے پر بھی آمادہ اور مجبور کیا جا رہا ہے۔ سابق وائس چانسلر برادرم مجاہد کامران کی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک گزشتہ اڑھائی برس سے کسی مستقل اور باقاعدہ طریقے سے منتخب وائس چانسلر کا تقرر نہیں کیا گیا اور اس پوسٹ پر عارضی ایڈہاک اور کنٹریکٹ بنیادوں پر تقرریاں کی گئی ہیں۔چند ماہ قبل بہت عمدہ انسان اور لائق استاد ڈاکٹر ظفر معین نے اچانک اپنی وائس چانسلری سے استعفیٰ دے دیا تو ان کی جگہ ڈاکٹر ذکریا ذاکر کو وی سی بنا دیا گیا۔
اب معلوم ہوا کہ ان کے استعفیٰ کی اصل وجہ یہی زمین کا معاملہ تھا کہ انھوں نے اکیڈمیک اسٹاف کونسل کے چودہ اور سنڈیکٹ کے چار اساتذہ ممبران کی رائے کا ساتھ دیتے ہوئے اس ناجائز حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا۔ نئے وائس چانسلر نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے یہ معاملہ سنڈیکیٹ کے سپرد کر دیا جس کے گیارہ میں سے سات ممبر سرکاری تھے، سو ہوا یہ کہ چاروں اساتذہ کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے فیصلہ متعلقہ 80کنال زمین کو فروخت کرنے کے حق میں ہوگیا۔
بات سپریم کورٹ تک پہنچی تو چیف جسٹس نے آئین' انصاف اور متعلقہ قوانین کی رو سے اس سارے عمل میں کارفرما غیرقانونی عوامل اور عناصر کا سختی سے محاسبہ کیا اور یوں ایک سینئر اور معتبر استاد کو نہ صرف عدالت سے معافی مانگنا پڑی بلکہ ان کی وائس چانسلری بھی ختم ہو گئی جو یقیناً ایک افسوسناک بات ہے کہ کس طرح طاقت کا بے دریغ اور منہ زور استعمال کئی اچھے مگر کمزور اور صلح کل افراد کو خواہ مخواہ کے مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے البتہ ان کی اس ''قربانی'' کا اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ اب یہ معاملہ عوام اور اہل فکر و نظر سب کے علم میں آ گیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ تعلیم کے لیے مختص زمین کو کسی بھی بہانے سے چھینا نہیں جا سکے گا اور یہ زمین یونیورسٹی کی ہے اور اس کے پاس رہے گی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں اچھرہ موڑ اور وحدت کالونی کے بعد زرعی علاقہ شروع ہو جاتا تھا اور نیو کیمپس گویا ماڈل ٹاؤن کی طرح پرانے شہر سے الگ ایک علاقہ تھا' دونوں کا درمیانی فاصلہ سات یا آٹھ کلومیٹر ہو گا لیکن اس وقت یہ بہت زیادہ لگتا تھا کہ متعلقہ بس اسٹاپ تک پہنچنے اور وہاں سے کئی اسٹاپس پر رک کر منزل مقصود تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا تھا۔
رکشوں، اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں کا رواج بہت کم تھا سو متبادل سواریاں سائیکل کے علاوہ ٹانگہ یا ٹانگیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت تک (یعنی 1965-66 میں) ابھی اس کی بہت سی کم عمارتیں مکمل ہوئی تھیں اور طلبہ کی تعداد بھی آج کے مقابلے میں کم از کم دس گنا کم تھی۔ اسٹوڈنٹ ٹیچر سینٹر کنٹین سے ملحقہ ایک عمارت میں واقع تھا جہاں میرا پنجاب یونیورسٹی لٹریری سوسائٹی کے چیئرمین کی سیٹ کے لیے انٹرویو اور انتخاب ہوا تھا اور اسی دن وہیں میری آغا افضال حسین مرحوم اور اطہر شاہ خاں جیدی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ آغا صاحب اس سینٹر کے انچارج اور اطہر شاہ خاں شعبہ صحافت کا طالب علم تھا لیکن نیو کیمپس کی فضا سے اصل ملاقات اور دوستی اگلے برس شروع ہوئی جب مجھے بطور چیف ایڈیٹر یونیورسٹی میگزین ''محور'' مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ وہیں ایک علیحدہ اور باقاعدہ دفتر بھی دیا گیا۔
طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے اس زمانے میں یہ دونوں عہدے VIP اسٹیٹس کے حامل ہو گئے تھے سو ہم بھی اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق وہاں کی نمایاں شخصیت بن گئے۔اور یوں تقریباً تمام شعبوں کے طلبہ و طالبات سے ملنا جلنا ہوگیا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت لڑکوں کے دو اور لڑکیوں کا صرف ایک ہاسٹل ہی کام کر رہا تھا اور خال خال عمارتوں کی وجہ سے یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یونیورسٹی کے لیے مختص زمین کتنی اور کہاں تک ہے۔
شعبہ تعلیم' لاہور شہر اور پنجاب یونیورسٹی سے شعر و ادب کے حوالے سے مستقل تعلق کی وجہ سے میں اس خوبصورت جامعہ کی تعمیر و ترقی اور فروغ کا ایک چشم دید گواہ رہا ہوں، اب یہ اپنے پھیلاؤ کی وجہ سے اپنی جگہ پر ایک چھوٹا سا شہر بن چکی ہے کہ یہاں تیس ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم اور غالباً چار ہزار سے زیادہ ہاسٹلز کے مقیم ہیں۔ اساتذہ کا رہائشی علاقہ اس کے علاوہ ہے ۔
اس پس منظر میں جب چند برس قبل یہ ا طلاع ملی کہ کچھ بااثر اور کاروباری لوگ اس کی بے آباد مگر بے حد قیمتی زمین کو زور و زر سے ہتھیانے کے چکر میں ہیں تو تشویش اور دکھ نے ایک ساتھ آن گھیرا کہ ایک طرف یہ اندیشہ تھا کہ کہیں یہ لوگ اس مذموم کوشش میں کامیاب نہ ہو جائیں اور دوسری طرف یہ افسوس کہ کس طرح چند زر دار لوگوں نے تعلیم کے مختص زمین کو بھی جنس بازار بنا دیا ہے۔ سو ہم نے بھی بہت سے دیگر اہل دل اور علم دوست احباب کی طرح ہر فورم پر اس کے خلاف آواز بلند کی اور وقتی طور پر یہ خطرہ ٹل گیا پھر معلوم ہوا کہ شہر کے پھیلاؤ اور نئی آبادیوں کے دباؤ کی وجہ سے یونیورسٹی کے اردگرد کی سڑکیں کم پڑ گئی ہیں اور اب اس مسئلے سے نمٹنے اور نئی سڑکیں تعمیر کرنے کی وجہ سے یونیورسٹی کی کچھ زمین بھی بیچ میں آ گئی ہے ۔
اب یہ ایک بہت مشکل اور متنازعہ قسم کی صورت حال تھی جسے میاں شہباز شریف کے شوق تعمیر اور ہٹ دھرمی نے مزید پیچیدہ بنا دیا تھا کہ موصوف اپنی مرضی کا کام کرنے کے لیے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کا ہنر جانتے ہیں سو وہی ہوا جس کا ڈر تھا مگر تھوڑی سی تسلی بھی تھی کہ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق علم اور تعلیم کی اس خوبی سے بھی تھا کہ کسی بڑے اور بہتر مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات جذبات کے ساتھ سمجھوتہ بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔
مگر اب جو خبریں مزید 80 کنال زمین کو کسی نام نہاد گرڈ اسٹیشن کی تعمیر کے لیے ہتھیانے کے ضمن میں گردش کر رہی ہیں وہ اس اعتبار سے بے حد تکلیف دہ ہیں کہ یہ عمل نہ صرف انتہائی افسوسناک اور تعلیم دشمن ہے بلکہ اس مذموم فعل اور مقصد کے حصول کے لیے وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے دیگر معزز اساتذہ کو بذریعہ سنڈیکیٹ اس سازش کا حصہ اور ایک کردار بننے پر بھی آمادہ اور مجبور کیا جا رہا ہے۔ سابق وائس چانسلر برادرم مجاہد کامران کی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک گزشتہ اڑھائی برس سے کسی مستقل اور باقاعدہ طریقے سے منتخب وائس چانسلر کا تقرر نہیں کیا گیا اور اس پوسٹ پر عارضی ایڈہاک اور کنٹریکٹ بنیادوں پر تقرریاں کی گئی ہیں۔چند ماہ قبل بہت عمدہ انسان اور لائق استاد ڈاکٹر ظفر معین نے اچانک اپنی وائس چانسلری سے استعفیٰ دے دیا تو ان کی جگہ ڈاکٹر ذکریا ذاکر کو وی سی بنا دیا گیا۔
اب معلوم ہوا کہ ان کے استعفیٰ کی اصل وجہ یہی زمین کا معاملہ تھا کہ انھوں نے اکیڈمیک اسٹاف کونسل کے چودہ اور سنڈیکٹ کے چار اساتذہ ممبران کی رائے کا ساتھ دیتے ہوئے اس ناجائز حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا۔ نئے وائس چانسلر نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے یہ معاملہ سنڈیکیٹ کے سپرد کر دیا جس کے گیارہ میں سے سات ممبر سرکاری تھے، سو ہوا یہ کہ چاروں اساتذہ کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے فیصلہ متعلقہ 80کنال زمین کو فروخت کرنے کے حق میں ہوگیا۔
بات سپریم کورٹ تک پہنچی تو چیف جسٹس نے آئین' انصاف اور متعلقہ قوانین کی رو سے اس سارے عمل میں کارفرما غیرقانونی عوامل اور عناصر کا سختی سے محاسبہ کیا اور یوں ایک سینئر اور معتبر استاد کو نہ صرف عدالت سے معافی مانگنا پڑی بلکہ ان کی وائس چانسلری بھی ختم ہو گئی جو یقیناً ایک افسوسناک بات ہے کہ کس طرح طاقت کا بے دریغ اور منہ زور استعمال کئی اچھے مگر کمزور اور صلح کل افراد کو خواہ مخواہ کے مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے البتہ ان کی اس ''قربانی'' کا اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ اب یہ معاملہ عوام اور اہل فکر و نظر سب کے علم میں آ گیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ تعلیم کے لیے مختص زمین کو کسی بھی بہانے سے چھینا نہیں جا سکے گا اور یہ زمین یونیورسٹی کی ہے اور اس کے پاس رہے گی۔