فوجی حکومت
ایک دہائی ہونے کو آئی ہے جب سے فوجی حکومت نے بادل نخواستہ مارشل لاء کی صورت میں اقتدار کا مزہ نہیں چکھا۔
پاکستان کے قیام کے بعد اقتدارپر زیادہ عرصہ فوجی حکمران قابض رہے بلکہ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی جمہوری حکومتوں سے زیادہ فوج کا مارشل لاء رہا یعنی پاکستان میں جمہوریت اور مارشل لا ء دونوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔
ایک دہائی ہونے کو آئی ہے جب سے فوجی حکومت نے بادل نخواستہ مارشل لاء کی صورت میں اقتدار کا مزہ نہیں چکھا۔ یہ تو ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ فوجی حکومت کسی سے پوچھ کر نہیں آتی بلکہ جب اور جیسے چند فوجیوں کا جی چاہے یہ اقتدار میں آجاتے ہیں ۔ جب فوج اقتدار میں آتی ہے تو ظاہر کہ ملک کا آئین معطل ہو جاتا ہے جس کو ہماری عدلیہ نے ہمیشہ سہارا ہی دیا اور فوجی حکومت کو قانونی بھی قرار دیا اور پھر اسی فوجی حکمران کے بنائے گئے ضابطوں کے تحت دوبارہ سے حلف بھی اٹھا لیا جس کو مارشل لائی حلف بھی کہتے ہیں۔
ایک دہائی ہو گئی ہم مارشل لاء سے تودور ہیں لیکن اتنی مدت کے بعد اب ہمیں اس کی یاد ستانے لگی ہے اور ہم کسی نہ کسی بہانے اس کو یاد کرنے لگتے ہیں ۔ ویسے تو سیانے کہتے ہیں کہ مارشل لاء کا نام غلطی سے بھی نہیں لینا چاہیے کیونکہ یہ ذکر سن کر مارشل لاء کو بھی انگڑائی آسکتی ہے ۔
گزشتہ دو جمہوری حکومتوں نے کامیابی سے اپنی جمہوری اور آئینی مدت پوری کی ہے ان دونوں حکومتوں کے دوران وزراء اعظم کی تبدیلی بھی ہم نے دیکھی اور ان دونوں وزراء اعظم کو عدالت نے حکومت سے الگ کیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں یوسف رضا گیلانی او ر اب نواز لیگ کی حکومت میں میاں نواز شریف عدالت کے فیصلے کے بعد اقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ دونوں بار صورتحال تقریباً ایک جیسی ہی تھی،روپے پیسے کا ہی معاملہ تھا۔
اب تک ہماری جتنی بھی جمہوری حکومتیں اقتدار سے رخصت کی گئی ہیں ان پر سب سے بڑا الزام ملکی خزانے کو لوٹنے کا ہی لگا ۔ لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ اس الزام میں اب تک کسی کو سزا نہیں ہو سکی وہ تو برا ہو عالمی ادارے کا جس نے دنیا بھر کے حکمرانوں کی غیر ممالک میں جمع کی گئی دولت کا بھانڈا پھوڑ دیا جس کی زد میں ہمارے وزیر اعظم نواز شریف بھی آگئے اور اسی الزام کا سامنا کرتے کرتے سابق ہو گئے ۔
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں نے مارشل لائی حکومتوں کا سامنا کیا۔ دونوں جماعتوں کے لیڈر مارشل لاء کی ہی پیداوار تھے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں جماعتیں مارشل لاء کے غیض و غضب کا شکار ہوئیں ۔ بھٹو صاحب ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر جھول گئے جب کہ میاں نواز شریف ضیاء الحق کی سرپرستی میں حکمران بننے کے بعد ایک اور مارشل لائی حکمران پرویز مشرف کے ہاتھوں بڑی مشکلوں سے بچ بچا کر سعودی عرب جا پہنچے۔
یعنی دونوں جماعتوں کا سورج فوج کے سائے میں ہی بلند ہوا اور فوج کے سائے میں ہی غروب ہوا۔ اب ایک بار پھر ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو مارشل لاء کی یاد ستانے لگی ہے اور ہر روز کسی نہ کسی سیاستدان کی جانب سے مارشل لاء کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے ۔دراصل ہم مارشل لاؤں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ جب تک ایک مخصوص عرصے کے بعد کچھ وقت کے لیے فوج کی حکمرانی کے تابع اپنی زندگی نہ گزار لیں ہم بے مزہ سے رہتے ہیں۔ ہمارے بیشتر سیاستدان فوجی حکومتوں میں موج مستی بھی کرتے ہیں اور بعض کے اوپر تو اس بات کی چھاپ لگ چکی ہے کہ یہ مارشل لائی حکمرانوں کو سہارا دیتے ہیں۔
آنے بہانے سے ان دنوں پھر دبے لفظوں اور لہجوں میں فوج کا ذکر خیر ہو رہا ہے اور سیاستدانوں کی جانب سے ہو رہا ہے حالانکہ فوج کئی مرتبہ خود اس بات کی تردید کر چکی ہے کہ اس کا حکومت میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن فوج کی حکومت کو قانونی حکومت کا درجہ دینے والے معزز جج صاحب اس بات کا بارہا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں جمہوری نظام کو کوئی پٹری سے نہیں اتار سکتا وہ خود اور ان کے ساتھی جج صاحبان کبھی بھی مارشل لاء کی حکومت کو سند قبولیت نہیں بخشیں گے یعنی مارشل لاء کے ذریعے حکومت میں آنے والے اور اس کو قانونی درجہ دینے والے دونوں اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ جمہوری نظام میں چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے البتہ قانون کی حکمرانی کویقینی بنانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے اور ان کا ساتھ بھی دیں گے۔ اس کے باوجود مارشل لاء کی باتیں دیوانے کی بڑ ہی کہی جا سکتی ہیں یا پھر اقتدار سے جانے والوں کی خواہش ہے کہ ان کے بعد کوئی اور سیاسی حکومت نہ آئے اور مارشل لاء آجائے تا کہ وہ ایک بار پھر شہداء کی فہرست میں اپنانام درج کرا سکیں۔
میاں نواز شریف کا تازہ اورحیران کن بیان نظر سے گزرا ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ میں دم خم نہیں۔ اگلی پارلیمنٹ تگڑی آئی تو سب ٹھیک کر دیں گے ملک میں جمہوریت نہیں بد ترین آمریت ہے۔ میاں صاحب اپنی گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکمران بنے تھے ۔
پارلیمنٹ میں ان کی بات کو کوئی رد کرنے والا موجود نہیں تھا دو تہائی اکثریت کے باوجود ان کو موجودہ پارلیمان اگر بے اثر نظر آرہاہے تو اس میں کسی اور کی نہیں ان کی اپنی غلطیاں ہی ہیں جنہوں نے پارلیمان کو وہ طاقت نہیں دی جو کہ آئین اور قانون میں ہے اور اس غلطی کا خمیازہ وہ اب خود بھگت رہے ہیں اور اپنی اکثریتی حکومت کے باوجود ان کو پارلیمان بے بس نظر آرہی ہے۔ مطلق العنان حکمرانی کے شوق میں وہ اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے اور اب اگلی پارلیمنٹ کے تگڑا ہونے کی امید میں ہیں ۔ موجودہ دو تہائی اکثریت والی پارلیمان سے زیادہ اکثریت میں اگلی پارلیمنٹ کی امید رکھنا بے وقوفی ہو گی کیونکہ اب حالات کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہے ہیں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے گزرا وقت اور منہ سے نکلی بات واپس نہیں آتی ۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے اور ہم پر کیا گزرتی ہے۔